امام حسن علیہ السلامدانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

امام حسن مجتبیٰ (ع) کی سوانح عمری

(مؤلف: شیخ ناصر مکارم شیرازی)

بچپن کا زمانہ
علی (ع) اور فاطمہ (ع) کے پہلے بیٹے 15 رمضان المبارک سن 3ھ ق کو شہر مدینہ میں پیدا ہوئے (1)۔ پیغمبر (ص) اکرم تہنیت کیلئے جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لائے اور خدا کی طرف سے اس بچہ کا نام ” حسن” رکھا(2)
امام حسن مجتبیٰ (ع)سات سال تک پیغمبر(ص) اسلام کے ساتھ رہے(3)۔
رسول اکرم (ص) اپنے نواسوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ کبھی کا ندھے پر سوار کرتے اور فرماتے:
” خدایا میں اس کو دوست رکھتا ہوں تو بھی اس کو دوست رکھ” (4)
اور پھر فرماتے:
” جس نے حسن(ع) و حسین(ع) کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا۔ اور جو ان سے دشمنی کرتا ہے وہ میرا دشمن ہے”۔ (5)
امام حسن (ع) کی عظمت اور بزرگی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کم سنی کے باوجود پیغمبر (ص) نے بہت سے عہدناموں میں آپ کو گواہ بنایا تھا۔ واقدی نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے قبیلہ ” ثقیف” کے ساتھ ذمّہ والا معاہدہ کیا، خالد بن سعید نے عہد نامہ لکھا اور امام حسن و امام حسین علیہما السلام اس کے گواہ قرار پائے (6)

والد گرامی کے ساتھ
رسول (ص) اکرم کی رحلت کے تھوڑے ہی دنوں بعد آپ کے سرسے چاہنے والی ماں کا سایہ بھی اٹھ گیا۔ اس بناپر اب تسلی و تشفی کا صرف ایک سہارا علی (ع) کی مہر و محبت سے مملو آغوش تھا۔ امام حسن مجتبیٰ (ع)نے اپنے باپ کی زندگی میں ان کا ساتھ دیا اور ان سے ہم آہنگ رہے ۔ ظالموں پر تنقید اور مظلوموں کی حمایت فرماتے رہے اور ہمیشہ سیاسی مسائل کو سلجھانے میں مصروف رہے۔
جس وقت حضرت عثمان نے پیغمبر(ص) کے عظیم الشان صحابی جناب ابوذر کو شہر بدر کر کے رَبَذہ بھیجنے کا حکم دیا تھا، اس وقت یہ بھی حکم دیا تھا کہ کوئی بھی ان کو رخصت کرنے نہ جائے ، اس کے برخلاف حضرت علی (ع) نے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام اور کچھ دوسرے افراد کے ساتھ اس مرد آزاد کو بڑی شان سے رخصت کیا اور ان کو صبر و ثبات قدم کی وصیت فرمائی ۔ (7)
36ھ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مدینہ سے بصرہ روانہ ہوئے تا کہ جنگ جمل کی آگ جس کو عائشہ و طلحہ و زبیر نے بھڑکایا تھا ، بجھادیں۔
بصرہ کے مقام ذی قار میں داخل ہونے سے پہلے حضرت علی (ع) کے حکم سے عمار یاسر کے ہمراہ کوفہ تشریف لے گئے تا کہ لوگوں کو جمع کریں ۔ آپ کی کوششوں اور تقریروں کے نتیجہ میں تقریباً بارہ ہزار افراد امام کی مدد کے لئے آگئے ،(8) آپ نے جنگ کے زمانہ میں بہت زیادہ تعاون اور فداکاری کا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ اما م (ع) کے لشکر کو فتح نصیب ہوئی۔ (9)
جنگ صفین میں بھی آپ نے اپنے پدربزرگوار کے ساتھ ثبات قدم کا مظاہرہ فرمایا۔ اس جنگ میں معاویہ نے عبداللہ ابن عمر کو امام حسن مجتبیٰ (ع) کے پاس بھیجا اور کہلوایا کہ آپ اپنے باپ کی حمایت سے دست بردار ہوجائیں تومیں خلافت آپ کے لئے چھوڑ دونگا۔ اس لئے کہ قریش ماضی میں اپنے آباء و اجداد کے قتل پر آپ کے والد سے ناراض ہیں لیکن آپ کو وہ لوگ قبول کرلیں گے۔
لیکن امام حسن (ع) نے جواب میں فرمایا: ” نہیں ، خدا کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا”۔ پھر اس کے بعد ان سے خطاب کرکے فرمایا: گویا میں تمہارے مقتولین کو آج یا کل میدان جنگ میں دیکھوں گا، شیطان نے تم کو دھوکہ دیا ہے اور تمہارے کام کو اس نے اس طرح زینت دی ہے کہ تم نے خود کو سنوارا اور معطّر کیا ہے تا کہ شام کی عورتیں تمہیں دیکھیں اور تم پر فریفتہ ہوجائیں لیکن جلد ہی خدا تجھے موت دے گا۔ (10)
امام حسنؑ۔اس جنگ میں آخر تک اپنے پدربزرگوار کے ساتھ رہے اور جب بھی موقع ملا دشمن پر حملہ کرتے اور نہایت بہادری کے ساتھ موت کے منہ میں کود پڑتے تھے۔
آپ (ع) نے ایسی شجاعت کا مظاہرہ فرمایا کہ جب حضرت علی (ع) نے اپنے بیٹے کی جان، خطرہ میں دیکھی تو مضطرب ہوئے اور نہایت درد کے ساتھ آواز دی کہ ” اس نوجوان کو روکو تا کہ ( اسکی موت ) مجھے شکستہ حال نہ بنادے۔ میں ان دونوں۔ حسن و حسین علیہما السلام۔کی موت سے ڈرتا ہوں کہ ان کی موت سے نسل رسول (ص) خدا منقطع نہ ہوجائے”(11)
واقعہ حکمیت میں ابوموسی کے ذریعہ حضرت علی (ع) کے برطرف کردیئےجانے کی دردناک خبر عراق کے لوگوں کے درمیان پھیل جانے کے بعد فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ حضرت علی (ع) نے دیکھا کہ ایسے افسوسناک موقع پر چاہیے کہ ان کے خاندان کا کوئی ایک شخص تقریر کرے اور ان کو گمراہی سے بچا کر سکون اور ہدایت کی طرف رہنمائی کرے لہٰذا اپنے بیٹے امام حسن(ع) سے فرمایا: میرے لال اٹھو اور ابوموسی و عمروعاص کے بارے میں کچھ کہو۔ امام حسن مجتبیٰ (ع) نے ایک پرزور تقریر میں وضاحت کی کہ :
” ان گوں کو اس لئے منتخب کیا گیا تھا تا کہ کتاب خدا کو اپنی دلی خواہش پر مقدم رکھیں لیکن انہوں نے ہوس کی بناپر قرآن کے خلاف فیصلہ کیا اور ایسے لوگ حَكَم بنائے جانے کے قابل نہیں بلکہ ایسے افراد محکوم ( اور مذمت کے قابل) ہیں۔ (12)
شہادت سے پہلے حضرت علی (ع) نے پیغمبر(ص) کے فرمان کی بناء پر حضرت حسن (ع) کو اپنا جانشین معین فرمایا اور اس امر پر امام حسین (ع) اور اپنے تمام بیٹوں اور بزرگ شیعوں کو گواہ قرار دیا۔ (13)

اخلاقی خصوصیات
امام حسن (ع) ہر جہت سے حسن تھے آپ کے وجود مقدس میں انسانیت کی اعلی ترین نشانیاں جلوہ گر تھیں۔ جلال الدین سیوطی اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ” حسن(ع) بن علی (ع) اخلاقی امتیازات اور بے پناہ انسانی فضائل کے حامل تھے ایک بزرگ ، باوقار ، بردبار، متین، سخی، نیز لوگوں کی محبتوں کا مرکز تھے۔ (14)
ان کے درخشاں اور غیر معمولی فضائل میں سے ایک شمہ برابر یہاں پیش کئے جار ہے ہیں:

پرہیزگاری:
آپ خدا کی طرف سے مخصوص توجہ کے حامل تھے اور اس توجہ کے آثار کبھی وضو کے وقت آپ کے چہرہ پر لوگ دیکھتے تھے جب آپ وضو کرتے تو اس وقت آپ کا رنگ متغیر ہوجاتا اور آپ کانپنے لگتے تھے۔ جب لوگ سبب پوچھتے تو فرماتے تھے کہ جو شخص خدا کے سامنے کھڑا ہو اس کے لئے اس کے علاوہ اور کچھ مناسب نہیں ہے۔ (15)
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: امام حسن(ع) اپنے زمانہ کے عابدترین اور زاہدترین شخص تھے۔ جب موت اور قیامت کو یاد فرماتے تو روتے ہوئے بے قابو ہوجاتے تھے۔ (16)
امام حسن(ع) ، اپنی زندگی میں 25 بار پیادہ اور کبھی پابرہنہ زیارت خانہ خدا کوتشریف لے گئے تا کہ خدا کی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ ادب و خشوع پیش کرسکیں اور زیادہ سے زیادہ اجر ملے۔(17)

سخاوت:
امام(ع) کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار تمام اموال اور اپنی تمام پونجی خدا کے راستہ میں دیدی اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ آدھا راہ خدا میں دیدیا اور آدھا اپنے پاس رکھا۔ (18)
ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دیدے۔ امام حسن اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔(19)
ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو آپ(ع) نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کردیا۔ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خدا نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر اس کے بعد آپ(ع) نے آیت پڑھی۔ و اذاحُیّیتم بتحیّة: فحَیّوا باحسن منہا (20) ” جب تم کو کوئی ہدیہ دے تو اس سے بہتر اس کا جواب دو۔”(21)

بردباری;
ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اور معاویہ کے اکسانے پر اس نے امام (ع) کو برا بھلا کہا امام (ع) نے سکوت اختیار کیا ، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا:
” اے ضعیف انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تو اشتباہ میں پڑگیا ہے۔ اگر تم مجھ سے میری رضامندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری راہنمائی کروں گا۔ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو میں اس قرض کو ادا کروں گا۔ اگر تم بھوکے ہو تومیں تم کو سیر کردونگا … اور اگر ، میرے پاس آؤگے تو زیادہ آرام محسوس کروگے۔
وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کی: ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں۔خدا بہتر جانتا ہے کہ و ہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں”۔(22)
مروان بن حکم۔ جو آپ کا سخت دشمن تھا۔ آپ (ع) کی رحلت کے بعد اس نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی امام حسینؑ نے پوچھا۔ میرے بھائی کی حیات میں تم سے جو ہوسکتا تھا وہ تم نے کیا لیکن اب تم ان کی تشییع جنازہ میں شریک اور رورہے ہو؟ مروان نے جواب دیا” میں نے جو کچھ کیا اس شخص کے ساتھ کیا جس کی بردباری پہاڑ ( کوہ مدینہ کی طرف اشارہ) سے زیادہ تھی۔ (23)

خلافت
21/ رمضان المبارک 40 ھ ق کی شام کوحضرت علی (ع) کی شہادت ہوگئی۔اس کے بعدلوگ شہر کی جامع مسجد میں جمع ہوئے حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع) منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے پدربزرگوار کی شہادت کے اعلان اور ان کے تھوڑے سے فضائل بیان کرنے کے بعد اپنا تعارف کرایا۔ پھر بیٹھ گئے اور عبداللہ بن عباس کھڑے ہوئے اور کہا لوگو یہ امام حسن (ع) تمہارے پیغمبر (ص) کے فرزند حضرت علی (ع) کے جانشین اور تمہارے امام (ع) ہیں ان کی بیعت کرو۔
لوگ چھوٹے چھوٹے دستوں میں آپ کے پاس آتے اور بیعت کرتے رہے۔ (24) نہایت ہی غیر اطمینان نیز مضطرب و پیچیدہ صورت حال میں کہ جو آپ کو اپنے پدربزرگوار کی زندگی کے آخری مراحل میں در پیش تھی آپ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی۔ آپ نے حکومت کو ایسے لوگوں کے درمیان شروع کیا جو مبارزہ اور جہاد کی حکمت عملی اور اس کے اعلی مقاصد پر چنداں ایمان نہیں رکھتے تھے چونکہ ایک طرف آپ (ع) پیغمبر (ص) و علی (ع) کی طرف سے اس عہدہ کے لئے منصوب تھے اور دوسری طرف لوگوں کی بیعت اور ان کی آمادگی نے بظاہر ان پر حجت تمام کردی تھی اس لئے آپ نے زمام حکومت کو ہاتھوں میں لیا اور تمام گورنروں کو ضروری احکام صادر فرمائے اور معاویہ کے فتنہ کو سلادینے کی غرض سے لشکر اور سپاہ کو جمع کرنا شروع کیا، معاویہ کے جاسوسوں میں سے دو افراد کی شناخت اور گرفتاری کے بعد قتل کرادیا۔ آپ(ع) نے ایک خط بھی معاویہ کو لکھا کہ تم جاسوس بھیجتے ہو؟ گویا تم جنگ کرنا چاہتے ہو جنگ بہت نزدیک ہے منتظر رہو انشاء اللہ۔ (25)

معاویہ کی کارشکنی
جس بہانہ سے قریش نے حضرت علی (ع) سے روگردانی کی اور ان کی کم عمری کو بہانہ بنایا معاویہ نے بھی اسی بہانہ سے امام حسن (ع) کی بیعت سے انکار کیا۔ (26) وہ دل میں تو یہ سمجھ رہے تھے کہ امام حسن (ع) تمام لوگوں سے زیادہ مناسب ہیں لیکن ان کی ریاست طلبی نے ان کو حقیقت کی پیروی سے باز رکھا۔
معاویہ نے نہ صرف یہ کہ بیعت سے انکار کیا بلکہ وہ امام (ع) کو درمیان سے ہٹا دینے کی کوشش کرنے لگا کچھ لوگوں کو اس نے خفیہ طور پر اس بات پر معین کیا کہ امام (ع) کو قتل کردیں۔ اس بناپر امام حسن (ع) لباس کے نیچے زرہ پہنا کرتے تھے اور بغیر زرہ کے نماز کے لئے نہیں جاتے تھے، معاویہ کے ان مزدوروں میں سے ایک شخص نے ایک دن امام حسن (ع) کی طرف تیر پھینکا لیکن پہلے سے کئے گئے انتظام کی بناپر آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ (27)
معاویہ نے اتحاد کے بہانہ اور اختلاف کو روکنے کے حیلہ سے اپنے عمال کو لکھا کہ ” تم لوگ میرے پاس لشکر لے کر آو” پھر اس نے اس لشکر کو جمع کیا اور امام حسن (ع) سے جنگ لڑنے کے لئے عراق کی طرف بھیجا۔(28)
امام حسن (ع) نے بھی حجر بن عدی کندی کوحکم دیا کہ وہ حکام اور لوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کریں۔ (29)
امام حسن (ع) کے حکم کے بعد کوفہ کی گلیوں میں منادی نے ” الصّلوة الجامعة ” کی آواز بلند کی اور لوگ مسجد میں جمع ہوگئے امام حسن (ع) منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ : ” معاویہ تمہاری طرف جنگ کرنے کے لئے آرہا ہے تم بھی نُخَیلہ کے لشکر گاہ کی طرف جاؤ …” پورے مجمع پر خاموشی طاری رہی۔
حاتم طائی کے بیٹے عدی نے جب ایسے حالات دیکھے تو اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کہا سبحان اللہ یہ کیسا موت کا سناٹا ہے جس نے تمہاری جان لے لی ہے؟ تم امام (ع) اور اپنے پیغمبر (ص) کے فرزند کا جواب نہیں دیتے … خدا کے غضب سے ڈرو کیا تم کو ننگ و عار سے ڈر نہیں لگتا …؟ پھر امام حسن (ع) کی طرف متوجہ ہوا اور کہا” میں نے آپ کی باتوں کو سنا اور ان کی بجا آوری کے لئے حاضر ہوں۔ پھر اس نے مزید کہا۔ اب میں لشکرگاہ میں جارہا ہوں، جو آمادہ ہو وہ میرے ساتھ آجائے۔ قیس بن سعد، معقل بن قیس اور زیاد بن صَعصَعہ نے بھی اپنی پرزور تقریروں میں لوگوں کو جنگ کی ترغیب دلائی پھر سب لشکر گاہ میں پہنچ گئے۔(30)
امام حسن (ع) کے پیروکاروں کے علاوہ ان کے سپاہیوں کو مندرجہ ذیل چند دستوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

1۔ خوارج، جو صرف معاویہ سے دشمنی اور اس سے جنگ کرنے کی خاطر آئے تھے نہ کہ امام(ع) کی طرف داری کے لئے۔

2۔حریص اور فائدہ کی تلاش میں رہنے والے افراد جو مادی فائدہ اور جنگی مال غنیمت حاصل کرنے والے تھے۔

3۔ شک کرنے اور متزلزل ارادہ کے حامل افراد جن پر ابھی تک امام حسن (ع) کی حقانیت ثابت نہیں ہوئی تھی، ظاہر ہے کہ طبعی طور پر ایسے افراد میدان جنگ میں اپنی جاں نثاری کا ثبوت نہیں دے سکتے تھے۔

4۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے قبیلہ کے سرداروں کی پیروی میں شرکت کی تھی ان میں کوئی دینی جذبہ نہ تھا۔(31)
امام حسن (ع) نے لشکر کے ایک دستہ کو حَكَم کی سرداری میں شہر انبار بھیجا، لیکن وہ معاویہ سے جاملا اور اس کی طرف چلاگیا۔ حَكَم کی خیانت کے بعد امام (ع) مدائن کے مقام ” ساباط” تشریف لے گئے اور وہاں سے بارہ ہزار افراد کو عبیداللہ بن عباس کی سپہ سالاری میں معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کیا اور قیس بن سعد کو بھی اس کی مدد کے لئے منتخب فرمایا کہ اگر عبیداللہ بن عباس شہید ہوجائیں تو وہ سپہ سالاری سنبھال لیں۔
معاویہ ابتداء میں اس کو شش میں تھا کہ قیس کو دھوکہ دیدے۔ اس نے دس لاکھ درہم قیس کے پاس بھیجے تا کہ وہ اس سے مل جائے یا کم از کم امام حسن (ع) سے الگ ہوجائے، قیس نے اس کے پیسوں کو واپس کردیا اور جواب میں کہا: ” تم دھوکہ سے میرے دین کو میرے ہاتھوں سے نہیں چھین سکتے۔” (32)
لیکن عبیداللہ بن عباس صرف اس پیسہ کے وعدہ پر دھوکہ میں آگیا اور راتوں رات اپنے خاص افراد کے ایک گروہ کے ساتھ معاویہ سے جاملا صبح سویرے لشکر بغیر سرپرست کے رہ گیا، قیس نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور اس واقعہ کی رپورٹ امام حسن (ع) کو بھیج دی۔ (33)
قیس نے بڑی بہادری سے جنگ کی چونکہ معاویہ نے قیس کو دھوکہ دینے کے راستہ کو مسدود پایا اس لئے اس نے عراق کے سپاہیوں کے حوصلہ کوپست کردینے کے لئے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اس نے امام حسن (ع) کے لشکر میں، چاہے وہ مَسکن (34) میں رہا ہو یا مدائن میں ، چند جاسوس بھیجے تا کہ وہ جھوٹی افواہیں پھیلائیں اور سپاہیوں کو وحشت میں مبتلاکریں۔
مقام مَسکن میں یہ پروپیگنڈہ کردیا گیا کہ امام حسن (ع) نے معاویہ سے صلح کی پیشکش کی ہے اور معاویہ نے بھی قبول کرلی ہے۔ (35) اور اس کے مقابل مدائن میں بھی یہ افواہ پھیلادی کہ قیس بن سعد نے معاویہ سے سازباز کرلی اور ان سے جاملا ہے۔ (36)
ان افواہوں نے امام حسن (ع) کے سپاہیوں کے حوصلوں کو توڑ دیا اور یہ پروپیگنڈے امام (ع) کے اس لشکر کے کمزور ہونے کا سبب بنے جو لشکر ہر لحاظ سے طاقت ور اور مضبوط تھا۔
معاویہ کی سازشوں اور افواہوں سے خوارج اور وہ لوگ جو صلح کے موافق نہ تھے انہوں نے فتنہ و فساد پھیلانا شروع کردیا۔ انھیں لوگوں میں سے کچھ افراد نہایت غصّہ کے عالم میں امام (ع) کے خیمہ پر ٹوٹ پڑے اور اسباب لوٹ کرلے گئے یہاں تک کہ امام حسن (ع) کے پیر کے نیچے جو فرش بچھا ہوا تھا اس کو بھی کھینچ لے گئے۔ (37)
ان کی جہالت اور نادانی یہاں تک پہنچ گئی کہ بعض لوگ فرزند پیغمبر کو ( معاذ اللہ) کافر کہنے لگے۔ اور ” جراح بن سَنان” تو قتل کے ارادہ سے امام (ع) کی طرف لپکا اور چلّا کربولا، اے حسن (ع) تم بھی اپنے باپ کی طرح مشرک ہوگئے ( معاذاللہ) اس کے بعد اس نے حضرت کی ران پروار کیا اور آپ (ع) زخم کی تاب نہ لاکر زمین پر گرپڑے ، امام حسن (ع) کو لوگ فوراً مدائن کے گور نر ” سعدبن مسعود ثقفی” کے گھر لے گئے اور وہاں کچھ دنوں تک آپ کا علاج ہوتا رہا۔ (38)
اس دوران امام (ع) کو خبر ملی کہ قبائل کے سرداروں میں سے کچھ نے خفیہ طور پر معاویہ کو لکھا ہے کہ اگر عراق کی طرف آجاؤ توہم تم سے یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ حسن (ع) کو تمہارے حوالے کردیں۔
معاویہ نے ان کے خطوط کو امام حسن (ع) کے پاس بھیج دیا اور صلح کی خواہش ظاہر کی اور یہ عہد کیا کہ جو بھی شرائط آپ (ع) پیش کریں گے وہ مجھے قبول ہیں۔(39)
ان دردناک واقعات کے بعد امام (ع) نے سمجھ لیا کہ معاویہ اور اس کے کارندوں کی چالوں کے سامنے ہماری تمام کوششیں نقش بر آب کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ہماری فوج کے صاحب نام افراد معاویہ سے مل گئے ہیں لشکر اور جانبازوں نے اپنے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑدیا ہے ممکن ہے کہ معاویہ بہت زیادہ تباہی اورفتنے برپا کردے۔
مذکورہ بالا باتوں اور دوسری وجوہ کے پیش نظر امام حسن (ع) نے جنگ جاری رکھنے میں اپنے پیروکاروں اور اسلام کا فائدہ نہیں دیکھا۔ اگر امام (ع) اپنے قریبی افراد کے ہمراہ مقابلہ کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے اور قتل کردیئے جاتے تو نہ صرف یہ کہ معاویہ کی سلطنت کے پایوں کو متزلزل کرنے یا لوگوں کے دلوں کو جلب کرنے کے سلسلہ میں ذرّہ برابر بھی اثر نہ ہوتا، بلکہ معاویہ اسلام کو جڑ سے ختم کردینے اور سچے مسلمانوں کا شیرا زہ منتشر کردینے کے ساتھ ساتھ اپنی مخصوص فریب کارانہ روش کے ساتھ لباس عزا پہن کر انتقام خون امام حسن (ع) کے لئے نکل پڑتا اور اس طرح فرزند رسول(ص) کے خون کا داغ اپنے دامن سے دھوڈالتا خاص کر ایسی صورت میں جب صلح کی پیشکش معاویہ کی طرف سے ہوئی تھی اور وہ امام (ع) کی طرف سے ہر شرط قبول کرلینے پر تیار نظر آتا تھا۔ بنابرایں ( بس اتنا) کافی تھا کہ امام (ع) نہ قبول کرتے اور معاویہ ان کے خلاف اپنے وسیع پروپیگنڈے کے ذریعہ اپنی صلح کی پیشکش کے بعد ان کے انکار کو خلاف حق بناکر آپ (ع) کی مذمت کرتا۔ اور کیا بعید تھا۔ جیسا کہ امام (ع) نے خود پیشین گوئی کردی تھی۔ کہ ان کو اور ان کے بھائی کو گرفتار کرلیتا اور اس طریقہ سے فتح مکہ کے موقع پیغمبر(ص) کے ہاتھوں اپنی اور اپنے خاندان کی اسیری کے واقعہ کا انتقام لیتا۔ اس وجہ سے امام (ع) نے نہایت سخت حالات میں صلح کی (40) پیشکش قبول کرلی۔

معاہدہ صلح
معاہدہ صلح امام حسن۔ کا متن، اسلام کے مقدس مقاصد اور اہداف کو بچانے میں آپ کی کوششوں کا آئینہ دار ہے۔ جب کبھی کوئی منصف مزاج اور باریک بین شخص صلح نامہ کی ایک ایک شرط کی تحقیق کرے گا تو بڑی آسانی سے فیصلہ کرسکتا ہے کہ امام حسن (ع) نے ان خاص حالات میں اپنی اور اپنے پیروکاروں اور اسلام کے مقدس مقاصد کو بچالیا۔

صلح نامہ کی بعض شرائط ملاحظہ ہوں:

1۔ حسن (ع) زمام حکومت معاویہ کے سپردکر رہے ہیں اس شرط پر کہ معاویہ قرآن وسیرت پیغمبر(ص) اور شائستہ خلفاء کی روش پر عمل کرے۔ (41)

2۔ بدعت اور علی (ع) کے لئے ناسزا کلمات ہر حال میں ممنوع قرار پائیں اور ان کی نیکی کے سوا اور کسی طرح یادنہ کیا جائے۔(42)

3۔ کوفہ کے بیت المال میں پچاس لاکھ درہم موجود ہیں، وہ امام مجتبیٰ (ع)کے زیر نظر خرچ ہوں (43) گے اور معاویہ ” داراب گرد” کی آمدنی سے ہر سال دس لاکھ درہم جنگ جمل و صفین کے ان شہداء کے پسماندگان میں تقسیم کرے گا جو حضرت علی (ع) کی طرف سے لڑتے ہوئے قتل کردیئے گئے تھے۔ (44)

4۔ معاویہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ معین نہ کرے۔(45)

5۔ ہر شخص چاہے وہ کسی بھی رنگ و نسل کا ہو اس کو مکمل تحفظ ملے اور کسی کو بھی معاویہ کے خلاف اس کے گذشتہ کاموں کو بناپر سزا نہ دی جائے۔ (46)

6۔ شیعیان علی (ع) جہاں کہیں بھی ہوں محفوظ رہیں اور کوئی ان سے معترض نہ ہو۔ (47)
امام (ع) نے اور دوسری شرطوں کے ذریعہ اپنے بھائی امام حسین (ع) اور اپنے چاہنے والوں کی جان کی حفاظت کی اور اپنے چند اصحاب کے ساتھ جن کی تعداد بہت ہی کم تھی ایک چھوٹا سا اسلامی لیکن با روح معاشرہ تشکیل دیا اور اسلام کو حتمی فنا سے بچالیا۔

معاویہ کی پیمان شکنی
معاویہ وہ نہیں تھا جو معاہدہ صلح کو دیکھ کر امام (ع) کے مطلب کو نہ سمجھ سکے۔ اسی وجہ سے صلح کی تمام شرطوں پر عمل کرنے کا عہد کرنے کے باوجود صرف جنگ بندی اور مکمل غلبہ کے بعد ان تمام شرطوں کو اس نے اپنے پیروں کے نیچے روند دیا اور مقام نُخَیلہ میں ایک تقریر میں صاف صاف کہہ دیا کہ ” میں نے تم سے اس لئے جنگ نہیں کی کہ تم نماز پڑھو، روزہ رکھو اور حج کے لئے جاؤ بلکہ میری جنگ اس لئے تھی کہ میں تم پر حکومت کروں اور اب میں حکومت کی کرسی پر پھنچ گیا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ صلح کے معاہدہ میں جن شرطوں کو میں نے ماننے کیلئے کہا تھا ان کو پاؤں کے نیچے رکھتا ہوں اور ان کو پورا نہیں کروں گا۔ (48)
لہٰذا اس نے اپنے تمام لشکر کو امیرالمؤمنین(ع) کی شان میں ناسزا کلمات کہنے پر برانگیختہ کیا۔ اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ انکی حکومت صرف امام کی اہانت اور ان سے انتقامی رویہ کے سایہ میں استوار ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ مروان نے اس کو صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ” علی کو دشنام دیئےبغیر ہماری حکومت قائم نہیں رہ سکتی ”(49)
دوسری طرف امیرالمؤمنین (ع) کے چاہنے والے جہاں کہیں بھی ملتے ان کو مختلف بہانوں سے قتل کردیتا تھا۔ اس زمانہ میں تمام لوگوں سے زیادہ کوفہ کے رہنے والے سختی اور تنگی سے دوچار تھے۔ اس لئے کہ معاویہ نے مغیرہ کے مرنے کے بعد کوفہ کی گورنری کو زیاد کے حوالہ کردیا تھا اور زیاد شیعوں کو اچھی طرح پہچانتا تھا، وہ ان کو جہاں بھی پاتا بڑی بے رحمی سے قتل کردیتاتھا۔ (50)

مدینہ کی طرف واپسی
معاویہ ہر طرف سے طرح طرح کی کلیفیں امام کو پہنچانے لگا۔ آپ(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب پر اس کی کڑی نظر تھی ان کو بڑے سخت حالات میں رکھتا اور علی(ع) و خاندان علی (ع) کی توہین کرتا تھا۔
یہاں تک کہ کبھی تو امام حسن (ع) کے سامنے آپ کے پدر بزرگوار کی برائی کرتا اور اگر امام(ع) اس کا جواب دیتے تو آپ (ع) کو بھی ادب سکھانے کی کوشش کرتا۔ (51) کوفہ میں رہنا مشکل ہوگیا تھا اس لئے آپ نے مدینہ لوٹ جانے کا ارادہ کیا۔
لیکن مدینہ کی زندگی بھی آپ کے لئے عافیت کا سبب نہیں بنی اس لئے کہ معاویہ کے کارندوں میں سے ایک پلید ترین شخص مروان مدینہ کا حاکم تھا، مروان وہ ہے جس کے بارے میں پیغمبر(ص) نے فرمایا تھا: ” ہو الوزغ بن الوزغ، الملعون بن الملعون”(52) ” اس نے امام (ع) اور آپ کے اصحاب کا جینا مشکل کردیا تھا یہاں تک کہ امام حسن (ع) کے گھر تک جانا مشکل ہوگیا تھا، باوجودیکہ امام (ع) دس برس تک مدینہ میں رہے لیکن ان کے اصحاب ، فرزند پیغمبر کے چشمہ علم و دانش سے بہت کم فیض یاب ہوسکے۔
مروان اور اس کے علاوہ دس سال کی مدت میں جو بھی مدینہ کا حاکم بنا اس نے امام حسن (ع) اور ان کے چاہنے والوں کو تکلیف و اذیت پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کی۔

شہادت
معاویہ جو امام (ع) کی کمسنی کے بہانہ سے اس بات کے لئے تیار نہیں تھا کہ آپ(ع) کو خلافت دی جائے وہ اب اس فکر میں تھا کہ اپنے نالائق جوان بیٹے یزید کو ولی عہدی کے لئے نامزد کرے تا کہ اس کے بعد مسند سلطنت پر وہ متمکن ہوجائے۔
اور ظاہر ہے کہ امام حسن (ع) اس اقدام کے راستہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھے اس لئے کہ اگر معاویہ کے بعد امام حسن (ع) مجتبیٰ زندہ رہ گئے تو ممکن ہے کہ وہ لوگ جو معاویہ کے بیٹے سے خوش نہیں ہیں وہ امام حسن (ع) کے گرد جمع ہوجائیں اور اس کے بیٹے کی سلطنت کو خطرہ میں ڈالدیں لہٰذا یزید کی ولی عہدی کے مقدمات کو مضبوط بنانے کے لئے اس نے امام حسن (ع) کو راستہ سے ہٹادینے کا ارادہ کیا۔ آخر کار اس نے دسیسہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امام حسن (ع) کی بیوی ” جعدہ بنت اشعب” کے ذریعہ آپ(ع) کو زہر دید یا اور امام معصوم (ع) سینتالیس سال کی عمر میں 28/ صفر 50ھ ق کو شہید ہوگئے اور مدینہ کے قبرستان بقیع میں دفن ہوئے۔ (53)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 ارشاد مفید ص 187۔ تاریخ الخلفاء سیوطی /188۔
2 بحار جلد 43/238۔
3 دلائل الامامہ طبری /60۔
4 تاریخ الخلفاء /188 ، تذکرة الخواص /177 ” اللہم انی احبّہ فاحبّہ”۔
5 بحار جلد 43/ 264، کشف الغمہ جلد 1/550 مطبوعہ تبریز سنن ترمذی جلد 5/7 ”من احبّ الحسن و الحسین(ع) فقد احبّنی و من ابفضہا فقد ابغضنی۔”
6 طبقات کبیر جلد 1 حصہ 2/23۔
7 حیاة الامام حسن جلد 1 ص 20، مروج الذہب جلد 2/341، تاریخ یعقوبی جلد 2 ص 172۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 8/252۔ 55۔
8 کامل ابن اثیر جلد 3/227۔ 231۔
9 حیاة الامام الحسن جلد 1/396۔ 399۔
10 وقعہ صفین /297۔
11 نہج البلاغہ فیض الاسلام خطبہ 198 ص 11660 ،املکو عنّی ہذا الغلام لا یہدّنی فانّنی انفس بہذین یعنی الحسن و الحسین علی الموت لئلا ینقطع بہما نسل رسول اللہ۔
12 الامامہ و السیاسة جلد 1 ص 119، حیاة الامام الحسن جلد 1 ص 444۔
13 اصول کافی جلد 1/ ص 297۔
14 تاریخ الخلفاء /189۔
15 مناقب ابن شہر آشوب جلد 4/14 ” حقٌ علی کل من وقف بین یدی رب العرش ان یصفر لونہ و ترتعد مفاصلہ”۔
16 بحار جلد 43/331۔
17 بحار جلد 43/331، تاریخ الخلفاء /190، مناقب ابن شہر آشوب 4/14۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 16/10 ، تذکرة الخواص /178۔
18 تاریخ یعقوبی جلد 2/215، بحار جلد 43/ 332، تاریخ الخلفاء /190، مناقب جلد 4/14۔
19 کشف الغمہ مطبوعہ تبریز جلد 1/558۔
20 سورہ نساء /86۔
21 بحار جلد 43/342۔
22 بحار جلد 43 /344۔
23 تاریخ الخلفاء /191 ، شرح ابن ابی الحدید جلد 16 / 13 ، 51 واقعہ کے آخری حصہ میں تھوڑے فرق کے ساتھ۔
24 ارشاد مفید /188 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 16/30 مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت 50۔ 52۔
25 ارشاد مفید 189 ، بحارجلد 44/45 ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 16 / 31 مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت / 53 اما بعد فانک دسَّست الرجال للاحتی ال و الاغتیال و ارصدت العیون کانک تحت اللقاء و ما اشک فی ذالک فتوقعہ انشاء اللہ۔
26 امام حسین (ع) کے مقابل معاویہ کی منطق سے واقفیت کے لئے امام حسن (ع) کے نام معاویہ کا وہ خط پڑھاجائے جس کو ابن ابی الحدید نے اپنی شرح کی ج 16 / 37 پر درج کیا۔
27 بحار جلد 44/23۔
28 شرح شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 16/ 37 و 38 مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت /60۔
29 ارشاد مفید /189 ،بحار جلد 44 / 46 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید 16 / 38 مقاتل الطالبین / 61۔
30 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 16 / 37۔ 40 ،بحار جلد 44 / 50۔
31 ارشاد مفید /189 ، بحار 44/ 46۔
32 تاریخ یعقوبی ج 2 / 214۔
33 ارشاد مفید 190۔
34 مسکن منزل کے وزن پرہے۔ نہر دجیل کے کنارے پر ایک جگہ ہے جہاں قیس کی سپہ سالاری میں امام حسن (ع) کا لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔
35 تاریخ یعقوبی جلد 2 / 214۔
36 تاریخ یعقوبی ج 2 / 214۔
37 ارشاد مفید /190 ، تاریخ یعقوبی جلد 2 / 215 ، بحار جلد 44 / 47 ، شرح ابن ابی الحدید جلد 16/ 41 مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت / 63۔
38 ارشاد مفید /190 ، تاریخ یعقوبی ج 2 / 215 ، بحار جلد 44 / 47 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 16/ 41 مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت /63۔
39 ارشاد مفید /190۔ 191 ، تاریخ یعقوبی جلد 2 / 215۔
40 بحار جلد 44/ 17 ، شرح ابن ابی الحدید 16 / 41۔ 42، مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت /14۔
41 بحار جلد 44/ 65۔
42 ارشاد مفید /191 ،مقاتل الطالبین ،حیاة الامام الحسن بن علی جلد 2 / 237 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید 16 / 4۔
43 تاریخ دول الاسلام جلد 1/ 53 ،حیاة الامام الحسن بن علی ج 2 / 238، تذکرة الخواص ابن جوزی /180 ، تاریخ طبری ج 5 / 160۔
44 جوہرة الکلام ، حیاة الامام الحسن بن علی جلد 2/ 337۔
45 بحارالانوار جلد 44/65۔
46 مقاتل الطالبین / 43۔
47 ارشاد مفید حیاة الامام الحسن بن علی جلد 2/237 شرح ابن ابی الحدید 16/4۔
48 حیاة الامام الحسن بن علی جلد 2/237 مقاتل الطالبین / 43 ، ذخائر العقبی میں اتنا مزید ہے کہ معاویہ نے شروع میں ان شرائط کو مطلقاً قبول نہیں کیا اور دس آدمیوں کو منجملہ قیس بن سعد کے مستثنی کیا اور لکھا کہ ان کو جہاں بھی دیکھوں گاان کی زبان اور ہاتھ کاٹ دوں گاامام حسن(ع) نے جواب میں لکھا کہ : ایسی صورت میں، میں تم سے کبھی بھی صلح نہیں کرونگا، معاویہ نے جب یہ دیکھا تو سادہ کاغذ آپ کے پاس بھیجدیا اور لکھا کہ آپ جو چاہیں لکھدیں میں اسکو مان لونگا اور اس پر عمل کرونگا۔
49 بحار 44/ 49 ،ابن شرح نہج البلاغہ ابی الحدید ج 16/ 14۔ 15 ، 46 مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت /70 ارشاد، مفید 91۔
50 الصواعق المحرقہ / 33 ( لا یستقیم لنا الامر الا بذالک ای بسبّ علی)۔
51 حیاة الامام الحسن ابن علی جلد 2/ 356۔
52 ارشاد مفید /191 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 16/ 47۔
53 حیاة الامام الحسن بن علی جلد 1/239 ، مستدرک حاکم جلد 4/ 479۔
54 دلائل الامامہ طبری /61 ، کشف الغمہ جلد 1 ص 515 ص 516 مطبوعہ تبریز، ارشاد مفید /192 ، مرحوم مفید علیہ الرحمہ نے شہادت کے وقت آپ کی عمر 48 سال بیان کی ہے۔

Related Articles

Back to top button