دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

واقعہ کربلا میں شام کے کردار و تاریخ پر ایک نظر

(سید حیدر عباس زیدی)

شام کی وجہ تسمیہ:
شام کو دو جہت سے شام کہا جاتا ہے ، پہلی یہ کہ شام کے معنی شمال یعنی اتّر کے ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ شام قبلہ کے اتّر میں واقع ہے اسی لئے اس کو شام کہا جاتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے یمن کے معنی داہنے کے ہیں اور یمن کو یمن اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ خانہ کعبہ کے داہنی جانب واقع ہے ۔
شام کو شام کہنے کی دوسری جہت یہ ہے کہ اس سر زمین پر سام ابن نوح کی حکومت تھی اس لئے اس سرزمین کو سام کہا گیا اور عربی میں تبدیل ہونے کی وجہ سے شام کہا جانے لگا۔(١)

شام؛ تاریخ کی روشنی میں :
زمانہ قدیم میں شام ایک وسیع علاقہ تھا جو سوریہ، لبنان ، فلسطین اور اردن کے کچھ علاقوں پرمشتمل تھا ، پہلی عالمی جنگ کے بعد انگریزوںاورفرانسیسیوںکی”پھوٹ ڈالوحکومت کرو” کی سیاست کے نتیجے میں یہ ملک آج اس محدود علاقہ میں سمٹ کر رہ گیا ہے ۔
ترسٹھویں عیسوی میں شہنشاہ روم نے شام پر حملہ کر کے اس کواپنے اختیار میں لے لیا تھا جو کہ ٣٩٥ ء میں روم کی تقسیم (مشرقی اور مغربی روم)کے بعد یہ علاقہ مشرقی روم کے سپرد ہوگیا لیکن دھیرے دھیرے مشرقی روم کا جلوہ شام پر کم ہونے لگا اور آخر کار ساتویں صدی عیسوی میں شام پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا ۔(٢)

شام اسلام کے بعد:
عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ شام میں اسلام فتح دمشق کے بعد پھیلا پیغمبر اسلام ۖاپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ اس سرزمین کی طرف روانہ ہوئے لیکن ابھی منزل مقصود تک نہ پہونچے تھے کہ حضرت ابوطالب کے ساتھ کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ سفر کو درمیان میں ہی ملتوی کرکے واپس آنا پڑا اوران واقعات میں سے ایک وہ خبر تھی جو بحیرہ کے عیسائی راہب نے رسول اکرم ۖ کی پیغمبری کے سلسلے میں ابوطالب کو دی تھی اور ان کو یہ سفر جاری رکھنے سے منع کیا تھا تاکہ کہیں یہودی پیغمبر ۖ کو کوئی نقصان نہ پہونچائیں۔(٣)
رسول اسلام ۖ نے ٢٥سال کی عمر میں شام کی طرف دوسرا سفر کیا اس سفر میں جناب خدیجہ کے قافلۂ تجارت کے سردار بن کر گئے تھے اور اس سفر سے جناب خدیجہ کو بہت زیادہ فائدہ ہوا تھا۔(٤)
جزیرةالعرب میں اسلام کی بنیادیں مضبوط ہوتے ہی چودہویں ہجری میں شام پر بھی مسلمانوں کا مکمل قبضہ ہوگیا ملک شام ٤٠ہجری سے ١٣٢ہجری تک بنی امیہ کا دار الحکومت رہا ، بنی عباس کے ذریعہ بنی امیہ کے سقوط کے بعد شام کا اعتبار کم ہوتا گیا اور بغداد کو مسلمانوں کا دار الحکومت قرار دے دیا گیا۔(٥)
شام ایک ایسی سر زمین ہے جس کے دامن میں اسلام کے لئے کا فی مقدار میں مثبت اور منفی واقعات پوشیدہ ہیں البتہ منفی واقعات کی تعداد زیادہ ہے اس لئے کہ شام میں اکثر واقعات اسلام کے خلاف رونما ہوئے، شام ایک ایسی سرزمین ہے جس میں اسلام کے سخت ترین دشمن نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا جیسے امیہ ، ابو سفیان اورمعاویہ وغیرہ….۔
ان کے دل میں اسلام سے دشمنی اور کینہ کی آگ مکہ سے شروع ہوئی تھی بعثت سے پہلے مکہ میں بنی ہاشم کی حکومت تھی، بنی ہاشم کا دبدبہ تھا اورامیہ کے زمانے میں خود ہاشم رئیس مکہ ہوا کرتے تھے ۔ہاشم کی اس ریاست کی وجہ سے امیہ کے دل میں حسد کی آگ روز بروز بڑھتی گئی اور وہ ہاشم کو بدنام کرنے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنانے لگا مگر اس کی ہر کوشش ناکام رہی اور جناب ہاشم کی عزت اور وقارمیں اضافہ ہوتا رہا ،آخر کار امیہ نے ہاشم کو مجبور کیا کہ عرب کے علماء کے پاس چلیں اور ان سے فیصلہ کرائیں عرب کے علماء جس کی تعریف و تمجید کریں گے وہ قبیلۂ قریش کی ریاست و حاکمیت کا حقدار ہوگا اور جس کی تعریف و تمجید نہ کریں گے وہ مکہ سے باہر چلا جائے گا یعنی مکہ کو ہمیشہ کے لئے ترک کردے گا اور ہر سال حج کے موقع پر ١٠٠ کالی آنکھوں والے اونٹوں کی قربانی کرے گا ،الغرض یہ دونوں افراد کاہنوں کے پاس گئے، کاہنوں نے جیسے ہی ہاشم کو آتے ہوئے دیکھا اپنی جگہوں سے کھڑے ہوگئے اور ہاشم کی مدح و ثنا کرنے لگے ۔ابھی رقابت کا یہ کھیل شروع بھی نہ ہوا تھا کہ ہاشم کی فتح کا اعلان ہوگیا ۔
مجبو رہوکرامیہ کو مکہ چھوڑنا پڑا اور وہ شام کی طرف چلا گیا،یہ پہلا ایسا واقعہ مکہ میں رونما ہوا جس نے امیہ کی ہاشم سے کھلی دشمنی کااعلان کردیا اور یہاں سے بنی امیہ کی بنی ہاشم سے اس دشمنی کا دور شروع ہوا جو اسلام کے ظہور کے ١٣٠سال بعد تک چلتا رہا اور اس دشمنی نے ایسے ایسے واقعا ت و حادثات پیداکئے جس نے تاریخ کے صفحات کو سیاہ کردیا۔

شام، معصومین کی نگاہ میں :
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :”شام کتنی بہترین زمین ہے لیکن وہاں کے لوگ کتنے پست ہیں”!۔(٦)
امام حسن عسکری علیہ السلام کی تفسیر میں منقول ہے کہ جب معاویہ کی بغاوت کی خبر مولائے کائنات حضرت علی کو ہوئی اور لوگوں نے یہ خبر دی کہ معاویہ کے ساتھ ایک لاکھ لوگ ہیں تو امام نے پوچھا کہ کس قبیلہ کے لوگ ہیں ؟ لوگوں نے کہا:اہل شام ہیں ؛ امام نے فرمایا: یہ نہ کہو کہ اہل شام ہیں بلکہ یہ کہو کہ اہل شوم ہیں (یعنی برے لوگ ہیں )۔ (٧)
یہ روایت امام صادق سے بھی منقول ہے کہ جب امیر المومنین کو خبر ملی کہ معاویہ نے ایک لاکھ لوگوں کے ساتھ خروج کیا ہے اور جنگ کے لئے آمادہ ہے تو امام نے فرمایا: یہ کس جگہ کے لوگ ہیں ؟ لوگوں نے کہا : اہل شام ہیں ؛آپ نے فرمایا: یہ نہ کہو اہل شام ہیں بلکہ یہ کہوکہ اہل شوم ہیں یہ ایسے شہر کی اولاد ہیں جس پر دائود نبی نے لعنت کی تھی ۔(٨)
ایک دوسری روایت میں امام باقرسے منقول ہے کہ ہمارا قائم اس وقت تک خروج نہیں کرے گا جب تک شام میں ایسا فتنہ و فساد رونما نہ ہوجائے جس سے لوگوں کے نجات کی راہ مسدود ہوجائے گی۔ (٩)
وہ دشمنی جو امیہ کے دل میں حسد کی آگ سے پیدا ہوئی تھی اس کی جڑیں روز بروز مضبوط ہوتی گئیں اور امیہ کے شام کو آباد کرنے کے بعد وہاں بنی امیہ کی گرفت مضبوط ہوتی گئی اور یہی وجہ ہوئی کہ بنی امیہ نے شام میں اپنی حکومت قائم کرلی۔
بنی امیہ کی جہالت اور ان کی بنی ہاشم سے دشمنی کی وجہ سے تاریخ میں ایسے واقعات و حادثات رونما ہوئے کہ جن کی وجہ سے آج بھی اوراق تاریخ تیر و تار ہیں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے جنگ ہو یا امام حسن مجتبی علیہ السلام کے جنازے پر تیر بارانی، کربلا کا دلخراش منظر ہو یا اسیری اہلبیت کا سنگین عمل ، رسول اسلام کے خلیفہ ، چچا زاد بھائی اورداماد حضرت علی پر سبّ و شتم ہو یا مدینہ کا وہ واقعہ ٔ حرہ جس کی وجہ سے مدینة الرسول تاراج ہوگیا ۔یہ سارے واقعات بنی امیہ کی کینہ توزیوں اور حسد کا نتیجہ ہیں یزید نے اس وقت خود اپنی مجلس میں امام حسین کے کٹے ہوئے سر کے شکستہ لبوں سے گستاخی کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اے کاش! میرے وہ اجداد جو جنگ بدر میں مارے گئے قبیلہ خزرج کی بے چارگی و مجبوری کو دیکھنے اور خوشی سے نغمہ و سرور کاعمل انجام دیتے میرے ہاتھوں کو چوم لیتے ، بنی ہاشم نے تو سلطنت کے حصول کیلئے ایک ڈھونگ رچا تھا جس میں وہ کامیاب ہوئے اس لئے کہ نہ کوئی وحی نازل ہوئی اور نہ ہی کوئی فرشتہ آسمان سے اترا ، اگر میں نے محمدۖ کے کاموںکا بدلہ ان کے اہل بیت سے نہ لیا تو میں اپنے باپ کی اولاد نہیں۔(١٠)

شام کے حاکموں کا اجمالی تعارف:
ملک شام تقریباً چالیس سال تک معاویہ کی حکومت میں رہا اور ان چایس برسوں میں شام او ر اس کے اطراف میں رہنے والوں کے درمیان ایسی تبلیغ کی گئی تھی جس کی وجہ سے اہلبیت کی دشمنی ان کی عادتوں میں شامل ہوگئی تھی جس وقت سے شام کے لوگوں نے اسلام کو قبول کیا تھا اسی وقت سے انھوںنے اسلام کو قبول کیا تھا اوراسی وقت سے وہ معاویہ او ر اس کے بیٹے یزید جیسے فاسق کی حکومت کے اسیر ہوگئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ شامیوں کے پاس جو اسلام تھا اور جس اسلام کے احکام کی وہ اتباع کرتے تھے وہ حقیقتاًبنی امیہ کا اسلام تھا جس کو معاویہ کے کارندوں نے شام کے گوشہ وکنار میں جا کر عوام الناس کے ذہن نشین کرادیا تھا اسی لئے معاویہ نے جنگ صفین کے لئے خلیفة المسلمین کے مقابلہ میں ایک لاکھ شامیوں کی فوج تیار کرلی تھی، اس نے شام کے لوگوں پر نفاق کا ایسا جال بچھا دیا تھا کہ اہل شام حضرت علی کو واجب القتل سمجھتے تھے اور مدتوں امیر المومنین اور ان کے فرزندوں پر لعن و طعن کرتے رہے ۔
یزید ابن معاویہ ابن ابوسفیان اموی سلسلہ کا دوسرا حاکم تھایا ان لفظوں میں کہا جائے تو بہتر ہوگاکہ سفیانی سلسلہ کا دوسرا خلیفہ تھا(اس لئے کہ امویوں کا سلسلہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے سفیانی اور مروانی ) یہ ١٥ رجب ٦٠ ھ (١١)کو تخت حکومت پر قابض ہوا، وہ ایک موٹا آدمی تھا جس کے پورے بدن پر بال بھرے ہوئے تھے (١٢) اس کی ماں کا نام میسون تھا جو بجدل کلبی کی بیٹی تھی (١٣) یہ بادیہ نشین یعنی بدو تھی اور جس کا سلسلہ رومیوں تک پہونچتا تھا ۔
یزید چونکہ اپنی ماں کے زیر تربیت رہا اسی لئے اس کی عادتیں بدئوںاور خانہ بدوشوں جیسی تھیں صحراء و بیابان میں رہنا جانورو ں خصوصاً بندروں اور کتوں سے کھیلنا اس کی فطرت میں اتنا رچ بس گیا تھا کہ تخت حکومت پر بیٹھنے کے باوجود اس کی ان عادتوں میں کوئی بدلائو نہ آیا بلکہ روز بروز اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا ، اس نے ابوالیقین جیسے ایک بدشکل بندر کواپنا مصاحب بنا رکھا تھا اور اس سے کافی زیادہ قربت بھی رکھتا تھا ، اس کو رنگ برنگ کے کپڑے پہناکر اپنے پہلو میں بیٹھا تھا اور اپنی جھوٹی شراب کو اسے پلاتا تھا کبھی گھوڑوں کی دوڑ میں اسے ایک موٹے گدھے پر بیٹھا کراس کو کھیل میں شریک کرتا تھا یزید کے درباری شاعر یزید کی خوشنودی کے لئے اس بندر کی شان میں قصیدے پڑھاکرتے تھے ۔(١٤)
یزید شراب و شباب کی مستی میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ بہت کم اسے ہوش میں پایا جاتا تھا ، اس کی شراب نوشی اور عیاشی کی وجہ سے لوگوں پر بھی اس کے برے اثرات نے اپنا اثردکھا نا شروع کردیا تھا یہاں تک کہ اہل مدینہ بھی اسکی عادت کی پیروی کرنے لگے تھے اور مدینة الرسول میں بھی شراب خواری اور زنا عام ہونے لگے تھے ۔(١٥)
یزیدکے اوپر اخلاقی برائیوں کے علاوہ عیسائیت کا بھی شدید اثر تھا اور ان دو برے اورمخرب عامل کی وجہ سے یزید ایک بدترین انسان اور دشمن اسلام کی شکل اختیار کر چکا تھا کیونکہ یزید کی ماں میسون ایک عیسائی قبیلہ ”بنی کلب”سے تھی اور یہ قبیلہ جلدی مسلمان ہوا تھا لہذا وہاں کے رسم و رواج پوری طرح سے عیسائی رسم و رواج کے مطابق تھے اور یزید کی پرورش بھی جوانی تک اسی قبیلہ کے افراد کے درمیان ہوئی اس بنیاد پر وہ عیسائی رسم و رواج کو اپناتا گیا اور اسلامی تبلیغات کی ہوا تک بھی اسے چھو کر نہیں گزری ۔
دوسری طرف دربار یزید میں عیسائیوں کا کافی عمل دخل تھا اسی لئے اس کا دربار اسلام دشمن عیسائیوں کی ایک محفوظ پناہ گاہ بن چکا تھا ۔
یزید کے دربار میں ایک سرژیوس نامی عیسائی وزیر کے عہدے پر فائز تھا اور یزید کا مشاور خاص تھا ، وہ معاویہ کے زمانے سے ہی اسلامی بیت المال کا منشی بنایا گیا تھا اور یزید نے اس کی ترقی کرکے اسے وزیر بنا کر پوری امت مسلمہ کا منشی بنا دیا تھا۔
اسی طرح سے اس کے دربار میںایک عیسائی شاعر کا بھی وجود مذکور ہے جس کا نام اخطل تھا ،لکھا ہے کہ یزید نے اسے ایک دن اپنے دربار میں حکم دیا تھا کہ اپنے ہنر کو کام میں لاتے ہوئے انصار کی شان میں گستاخانہ کلام کہے ۔
یزید نے اپنے بیٹوں کی تربیت کے لئے بھی عیسائی استاد معین کئے تھے ، اس کی یہ ساری حرکتیں اسے مسیحیت محرفہ کا پیرو اور اسلام کا دشمن قرار دیتی ہیں ۔(١٧)

اسیران کربلا شام میں :
اکثر مورخین نے اسیران حرم کی شام میں ورود کی تاریخ پہلی صفر بتائی ہے لیکن شہید مطہری نے اپنی کتاب حماسۂ حسینی میں ورود کی تاریخ، صفر کی دوسری تایخ بیان کی ہے ۔(١٨)
یزید حکم دیتا ہے کہ دروازہ شام کو بند کردیا جائے اور اسیران حرم کے قافلہ کو تین دن تک شام سے باہر روکا جائے اور ان تین دنوں میں شہر شام کو مزین و آراستہ کیا جائے۔(١٩)
اور ان سب کے باوجودجب اس قافلہ کو شام میں لایاجائے تو دروازۂ ساعات سے لایا جائے یہ وہ دروازہ ہے جہاں سب سے زیادہ بھیڑہوتی ہے ۔ شام میں عمومی طور پر جشن کا اعلان کیا گیا لوگ نئے نئے کپڑے پہن کر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے، عورتیں تالیاں بجارہی تھیں اوراسیران اہل حرم کا قافلہ ان لوگوں کے درمیان سے گزر رہا تھا ۔
قافلہ اس حال میں شہر شام میں داخل ہوا کہ آگے آگے نیزوں پر شہداء کے سروں کو اٹھائے ہوئے نیزہ بردارتھے اور ان سروں میں سب سے آگے جناب عباس کا سر تھا ۔ بعض روایات کے مطابق امام حسین کے سر کو سب کے بعد لایا گیا تاکہ جولوگ محب اہلبیت ہوں وہ پہچان نہ سکیں اور لوگوں کی خوشی میں خلل واقع نہ ہو نے پائے ۔
بازار شام میں اسیران حرم کے ساتھ گستاخیاں ہورہی تھیں یہاں تک کہ ایک بڑھیا نے کٹے ہوئے سر پر ایک پتھر پھینکا لوگ جو جشن و سرور میں ڈوبے ہوئے تھے انھوں نے بھی اس بڑھیا کی اتباع کرتے ہوئے سرہائے شہداء پر سنگ بارانی شروع کردی ۔(٢٠)
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ شام میں ہم سب پر سات بڑی اور دردناک مصیبتیں وارد ہوئی ہیں :
١۔یزید کے آدمی ہمیں نیزے کی انیوں اور تازیانوں سے مجبور کرکے بدمست لوگوں کے درمیان سے لے جارہے تھے ۔
٢۔ نیزوں پرسر اٹھانے والے سروں کے ساتھ کھیل رہے تھے ، جن نیزوں پر شہداء کے سر تھے انھیں ہوا میں اچھال کر گھماتے تھے کہ جس کی وجہ سے کبھی کوئی سر گر جاتا اور لوگوں اور جانوروں کی ٹھوکروں میں آجاتا تھا ۔
٣۔ شام کی عورتیں اپنی چھتوں سے پتھر اور آگ ہمارے اوپر پھینک رہی تھیں کہ اسی اثنا میںایک جلتا ہوا انگارہ میرے سر پر گرا چونکہ میرے ہاتھ پس گردن زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے میں اس جلتے ہوئے انگارے کو ہٹا نہ سکا میرا عمامہ جل گیا اور آگ میرے سر تک پہونچ گئی ۔
٤۔ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک ہمیں گلیوں اور کوچوں میں پھراتے رہے اور یہ آواز لگاتے رہے کہ ان کافروں کو مارڈالو ۔
٥۔ ہمیں ایک ساتھ ایک ہی رسی سے باندھاگیا تھا اور یہودیوں اور عیسائیوں کے گھروں کی طرف سے لے جایا جاتا تھا اور ان سے کہا جاتا تھاکہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے تمہارے باپ دادائوں کو قتل کیا تھا اپنا بدلہ اور انتقام ان سے لے لو یہ سن کر وہ سب لوگ پتھروں اورلکڑیوں سے ہمارے اوپر حملہ کردیتے تھے ۔
٦۔ اس کے علاوہ ایک ایسے بازار میں لے جاکر ہمیں کھڑا کردیا گیا جہا ں غلاموں کی خرید و فروش ہوتی تھی یہا ں تک کہ ہماری بولیاں لگنے لگیں ۔
٧۔ ہمیں ایک ایسے مکان میں ٹھہرایا گیا جہاں دن کی گرمی اور رات کی ٹھنڈک سے ایک پل بھی سکوں حاصل نہ ہوا ۔ (٢١)

حوالہ جات:
١۔معجم البلدان ، ج٣ ص٢٥٤۔
٢۔گیتاشناسی کشورھا ص١٨٥۔
٣۔ کمال الدین و تمام النعمةص١٨٣۔
٤۔ فروغ ابدیت ج١ص١٥٦۔
٥۔ شام سرزمین خاطرہ ھاص١٩
٦۔ سفینة البحار ج٤ص٣٦۔
٧۔گزشتہ
٨۔ بحار الانوار ج٦٠ص ٢٠٨۔
٩۔ گزشتہ ج٥٢ص٢٩٧۔
١٠۔ تذکرة الخواص، ص٢٦١۔
١١۔ الارشاد ج٢ص٢٠٠۔
١٢۔ تاریخ الخلفاء ص٢٢٩۔
١٣۔ تتمة المنتہی ج١ص٣٦۔
١٤۔ مروج الذہب:ج٢ص ٧٢۔
١٥۔ گزشتہ ج ٢ص٧٣۔
١٦۔ تجارت الامم ج٢ ص٢١١۔
١٧۔ الامام الحسین ص٥٩۔
١٨۔ حماسہ حسینی ج١ ص١٧٧۔
١٩۔ فرسان الہیجاء ص٢٨٥۔
٢٠۔اللواعج الاشجان ص٢٢٠۔
٢١۔ تذکرة الشہداء ص٤١٢۔

Related Articles

Back to top button