اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

علم اور عالم کی اہمیت

(ریاض حسین جعفری)

یوں تو علم و عالم کی اہمیت ہر دین و مذہب کے نزدیک مسلّم ہے ،لیکن جس انداز سے دین اسلام میں بیان کی گئی ہے اس کی مثال کسی اور دین میں نہیں ملتی ۔متعدد روایات میں انسان کے لئے خیر و عافیت اور فلاح و بہبود کا دار و مدار علم قرار دیاگیا ہے، اگر انسان کے پاس علم ہے تو وہ نجات یافتہ اور فلاح پانے والاہے اور اگرکوئی علم سے تہی ہو تو اس سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔
چنانچہ حضرت رسول خد اﷺ فرماتے ہیں:
لا خیر فی العیش الا الرجلین عالم مطاع و مسطمع واع۔ (اصول کافی، ج١، باب فضیلت علم)
دو قسم کے لوگوں کے علاوہ کسی کی بھی زندگی میںفلاح و بہبود نہیں ہے: ایک عالم اور دوسرا وہ جو عالم کی باتوں کو غور سے سنتا ہے یعنی علم حاصل کرنے والا،علم ہی کی وجہ سے عالم کی عظمت ہے اورعلماء ہی کو انبیاء کرامعلیہم السلام کا وارث قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ حضرت رسول خداﷺ فرماتے ہیں کہ : ”العلماء ورثة الانبیاء”۔
حضرت امام جعفر صادقؑ، اس قول کی وضاحت فرماتے ہیں کہ خدانے علماء کو انبیاء کے مال و جائداد اور دولت و ثروت کا وارث قرار نہیں دیا ،بلکہ انکے علم کا وارث قرار دیا ہے۔ درجہ وراثت انبیاء پر وہ فائز ہو سکتا ہے جو صحیح معنی میں عالم دین ہو ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
علماء اس لئے انبیاء کے وارث نہیں کہ انبیاء نے درہم و دینار اور دنیوی سرمایہ ارث میں چھوڑا ہو اور علماء اس کے مالک بن جائیں بلکہ علماء ،علم انبیاء کے وارث ہیں ۔ آپ متوجہ رہئیے کہ علم کن سے حاصل کر رہے ہیں ۔ ایک زمانہ ایساآئے گا کہ ہم اہل بیت کے چاہنے والوں میں سے ایسے عالم عادل میدان میں آئیں گے جو گمراہ لوگوں کی تحریف کو باطل کریں گے ، اہل باطل کے بے اساس دعووں کو غلط ثابت کریں گے اور جاہلوں کی غلط تاویلوں کا جواب دیں گے ۔
اس حدیث میں امام صادقؑ نے وضاحت کی ہے کہ علم کا اصلی مخزن اہلبیت اطہارعلیہم السلام ہی ہیں اسلئے احادیث میں آیا ہے کہ در اہلبیتؑ سے ہٹ کر کسی اور سے علم دین حاصل کرنا گمراہی ہے ۔ معرفت اہلبیت کے بغیر حاصل کئے جانے والا علم نہ توکوئی فائدہ ہی پہنچا سکتا،اورنہ ہی انسان کو جہنم کی آگ سے روک سکتا ہے سفینة البحار جلد ٢ صفحہ ٤٩٦ میں یہ روایت موجود ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام اورانکے خاص صحابی حضرت کمیل کہیں سے گذر رہے تھے اتنے میں کسی کے گھر سے تلاوت قران کی ایک دلنشین آواز آئی ۔
کوئی قاری بڑی خوش الحانی سے، قرآن کی تلاوت کررہاتھا، تلاوت قرآن کی یہ آواز اتنی دلنشین تھی کہ یک دم حضرت کمیل رکے اور حضرت امیرالمومنین سے عرض کیا کہ مولاکتنے عمدہ انداز میں کلام خدا کی تلاوت کر رہا ہے ۔ یقینا ًاس قاری کا خدا کے نزدیک بہت بڑا مقام و مرتبہ ہوگا ۔ حضرت امیرالمومنین نے افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا کہ یہ تلاوت اور اس کی خوش الحانی اسے جہنم کا ایندھن بننے سے نہیں روک سکتی اور یہ جہنم میںجا ئے گا ۔
حضرت کمیل نے تعجب کیا ، امیرالمومنین نے وضاحت کی کہ تمہیں عنقریب اس معمہ کا جواب مل جائے گا ۔
کچھ عرصہ کے بعد جب خوارج کے ساتھ حضرت امیر المومنین کی جنگ چھڑ ی تو کمیل حضرت امیر المومنین کے ساتھ تھے، جنگ کے خاتمہ پر حضرت امیر المومنین خوارج کے جنازوں کے درمیان سے گذر رہے تھے اور ایک ایک کر کے مرنے والوں کی شناخت کر رہے تھے، اتنے میں حضرت نے اپنی تلوار کی نوک سے ایک جنازے کی طرف اشارہ کر کے کمیل سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اے کمیل اس جنازے کو دیکھو اور پہچانو کہ کون ہے؟ حضرت کمیل نے اسے ٹٹولا، غورسے دیکھا اور کہنے لگے کہ یا مولا میں نے اسے نہیں پہچانا۔ حضرت امیر المومنین نے فرمایا: اے کمیل ذرا یاد کرو کہ تم فلاں وقت فلاں جگہ سے گذر رہے تھے تو تلاوت قرآن کی دلنشین آواز سن کر رک گئے تھے اورکہہ رہے تھے کہ خدا کے نزدیک اس قاری کاکیا مقام و مرتبہ ہوگا؟ کمیل نے کہا: جی! مولا … حضرت امیر المومنین نے فرمایا: یہ اسی شخص (قاری)کا جنازہ ہے جو جہنم میں جائے گا۔ یہ سن کر کمیل آگے بڑھے اور امیر المومنین کا ہاتھ چوما اور استغفار پڑھنے لگے۔
یہ علم ہی ہے جس کی بدولت حضرت یوسف کو خدا نے کنویں سے نکالا، انہیں غلامی سے نجات عطا کی اور انہیں حکومت عطا کی اور مصر کا سربراہ بنادیا،چنانچہ قرآنی آیات کی شکل میں حضرت یوسف کا بیان قرآن مجید میں موجود ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: (رب قد اٰتیتنی من الملک و علمتنی من تاویل الاحادیث)
علم بہت بڑا سرمایہ ہے، علم کی طاقت ہر طاقت سے بالاتر ہے۔ علم کا نہ ہونا بہت بڑا عیب اور نقص ہے۔ کسی انسان کے اندر چاہے کتنے ہی کمالات ہوں لیکن اگرعلمی کمال کا فقدان ہو تو وہ انسان،انسان کامل نہیں بلکہ انسان ناقص ہے۔
فقدان علم کا نقص تحصیل علم کے ذریعہ دور کیا جا سکتا ہے۔ رسول خدا ﷺنے فقدان علم و عالم کو اسلام کے لئے بھی بہت بڑا نقص قرار دیا ہے۔ آنحضرتۖ ارشاد فرماتے ہیں: ”اذا مات العالم ثلم فی الاسلام ثلمة لا یسدھا شیٔ” کہ جب کوئی عالم مرتا ہے تو اسلام میں ایک ایسا شگاف پڑ جاتا ہے کہ جسے کوئی بھی شےپُر نہیںکر سکتی۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ عالم دین کی وفات سے نہ صرف دین اور اسلام کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ زمین اور اہل زمین بھی نقصان کے زیر اثر قرار پاتے ہیں۔
سورۂ رعد کی ٤١ویں آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: (اولم یروا انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا)کہ ہم زمین میں نقص اور کمی لے آتے ہیں۔
تفسیر برہان و تفسیر نور الثقلین میں اس آیت کے ذیل میں آیا ہے کہ زمین میں کمی اور نقص سے مراد علماء اور دانشمندوں کا فراق اور فقدان ہے، کیونکہ معاشرہ میںعلماء کے فقدان سے ہی انواع و اقسام کے نواقص وجود میں آتے ہیں اور ماحول کئی خامیوں کا شکار ہوتا ہے۔ مشہور مفسر قرآن علامہ مرحوم طبرسی اس آیۂ کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت امام جعفر صادق کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”ننقصھا بذھاب علمائھا و فقھائھا و خیارھا” علماء و فقہاء اور اہل خیر کی وفات سے ہی زمین پر نقائص وجود میں آتے ہیں، شاید اسی لئے عبد اللہ بن عمر نے حضرت علی کی شہادت پہ بلند آواز سے اس آیۂ کریمہ کی تلاوت کی۔(اولم یروا انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا)یعنی حضرت امیر المومنین کی شہادت کی وجہ سے زمین پہ ایک نقص پیدا ہوا ہے کیونکہ وہ اپنے زمانے کے عظیم ترین عالم تھے۔
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ عبد اللہ بن عمر نے حضرت امیر المومنین کو ان کی زندگی کے آخری لمحات میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”یا امیر المومنین لقد کنت الطرف الاکبر فی العلم، الیوم نقص علم الاسلام و مضی رکن الایمان” اے امیر المومنین آپ علم کا بہت بڑا حصہ تھے آج آپ کے فقدان سے اسلام کے علم میں نقص پیدا ہورہا ہے اور رکن ایمان منہدم ہورہا ہے۔ حقیقت تلاشی اور مجہول کو معلوم میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنا فطرت انسانی کا تقاضہ ہے، اس لئے ہر انسان فطری طور پر چاہتا ہے کہ درمیان سے پردہ ہٹ جائے اور وہ اشیاء کی حقیقت کو سمجھ جائے۔ یوں تو انسان کے اندر ایک شے کو جاننے اور ایک مجہول کی حقیقت کو معلوم کرنے کی تڑپ موجود ہوتی ہے، اس لئے بچہ ہوش سنبھالتے ہی چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے کیونکہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ کیا ہے؟
بچہ چیزوں کو پھینکتا ہے، دوسری چیزوں سے ٹکراتا ہے، زمین پہ دے مارتا ہے۔ کیوں؟
اس لئے کہ وہ اس کام کے نتیجہ سے بالکل بے خبر ہے، وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس عمل کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اور نتیجہ ملنے پر بڑا خوش ہوتا ہے۔
بڑا ہوکے وہ ایسا نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ بچہ تین سال کا ہوجائے تو عام طور سے مختلف چیزوں کے بارے میں سوال کرتا ہے کہ یہ کیا ہے؟وہ کیا ہے؟ اور ایسا کیوں ہے؟ وغیرہ…
بلکہ یہ اس کی فطرت میں شامل ہے۔ علم حاصل کرنے اورمجہول کو معلوم میں تبدیل کرنے کا یہ جذبہ کبھی انسان کے اندر سے ختم نہیں ہوتا ۔ انسان مرتے دم تک کچھ نہ کچھ سیکھنے کی تلاش میں رہتا ہے اسی لئے تو رسول خداۖ نے فرمایا ہے کہ ”اطلبوا العلم من المھد الی اللحد” کہ گہوارے سے لے کرقبر تک علم کی تلاش میں رہو۔
مشہور محقق ابو ریحان البیرونی کے بارے میں کہاگیا ہے کہ جب وہ شدید مریض ہوکر بستر علالت پر لیٹے تو ایک فقیہ ان کی عیادت کو گئے جب ابو ریحان بیرونی کو تھوڑا سا ہوش آیا تو دیکھا کہ سرہانے عالم فقیہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ بیرونی نے موقع کو غنیمت جان کرفقیہ سے ارث کے بارے میں سوال کرلیا، فقیہ نے تعجب سے بیرونی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ سوال کرنے کا کون سا وقت ہے؟ بیرونی نے جواب دیا: میں علم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ فقیہ نے کہا کہ اس کا ماحصل کیا ہے( یعنی تم مرنے والے ہو اس وقت علم کا کیا فائدہ کیونکہ اس علم سے کسی اور کو فائدہ نہیںہوسکتا ) بیرونی نے جواب میں کہا کہ جناب فرمایئے کہ میں یہ مسئلہ جان کر مروں تو بہتر ہے یا جانے بغیر (جاہل ہی)چل بسوں ؟
یہ سن کر فقیہ نے ارث کے بارے میں کئے جانے والے سوال کا تفصیل سے جواب دیا۔ ابو ریحان بیرونی نے فقیہ کا شکریہ ادا کیا، تھوڑی دیر بعد یہ فقیہ خدا حافظی کر کے بیرونی کے گھر سے چلے گئے۔
ابھی وہ بیرونی کے کچھ زیادہ دور نہیں پہنچے تھے کہ ان کے گھر سے رونے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ فقیہ نے معلوم کیا تو جواب ملا کہ بیرونی کا انتقال ہوگیا ہے ،جتنی لذت ایک علمی مسئلہ کے حل کرنے میںہے کسی اور شے میں نہیں ۔
اپنے زمانے کے بہت بڑے مجتہد اور عالم دین علامہ سید محمد باقر اعلیٰ اللہ مقامہ کے بارے میں آیا ہے کہ جب خواتین شب زفاف ،ان کی نئی نویلی دلہن کو ان کے حجلہ میں لا ئیں تو مرحوم سید محمد باقر خواتین کے چلے جانے تک کے خیال سے محو مطالعہ ہوگئے۔ایک کتاب کو اٹھایا اور پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔ پھر مطالعہ میں اتنے غرق اور منہمک ہوگئے کہ شب زفاف کو بھول گئے،حجلہ عروسی کو فراموش کر بیٹھے اور نئی دلہن کا خیال تک نہیں آیا۔ پھر جیسے ہی متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ رات گذر چکی تھی اور صبح نمودار ہوچکی تھی۔
در حقیقت تشنگان علم و معرفت کے نزدیک دوران تحقیق و مطالعہ گذرے ہوئے وقت کا احساس تک نہیں ہوتا ہے گویا ان کی علمی تحقیق کا انہماک وقت کی کمیت کو نابود کر دیتا ہے۔
مرحوم سید مرتضیٰ مطہری نے بھی اسی طرح کا ایک واقعہ بیان کیا ہے اور وہ واقعہ دانشمند پاستور کا ہے، مجموعہ آثار شہید مطہری، ج٣، ص٤٩٤ میں تحریر ہے کہ شب زفاف کو تھوڑی سی فراغت ملی تو وہ اپنی لیبارٹری میں چلا گیا اور تحقیقی کاموں میں ایسا مشغول ہوا کہ اسے یاد ہی نہیں رہا کہ آج شب زفاف ہے اور دلہن اکیلی بیٹھی اس کا انتظار کر رہی ہے۔ پاستور جب اپنے کام سے فارغ ہوا تو دیکھا کہ شب زفاف گذر چکی ہے اور سورج طلوع ہوچکا ہے۔
ماضی قریب میں حوزۂ علمیہ قم کے بہت بڑے استاد مدرس افغانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دوران تدریس بر سر منبر انہیں ایک رقعہ ملا تو رقعہ پڑھ کر کہنے لگے کہ باوجود اس کے میری زوجہ سخت مریض اور بیمار تھی اور بستر علالت پر پڑی ہوئی تھی، میں درس پڑھانے آیا تھا۔ اب یہ رقعہ آیا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ مدرس افغانی نے فاتحہ پڑھوایا اور منبر سے اتر کر گھر کی طرف روانہ ہوئے۔
تحصیل علم کے لئے عزم بالجزم کے ساتھ بلند ہمتی کی ضرورت ہے۔
میدان علم میں صرف ایسے ہی لوگ کامیاب ہوئے ہیں جو تحصیل علم کے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کر کے آگے بڑھتے ہی چلے جائیں۔
ہمت بلند دار کہ مردان روزگار
با ہمت بلند بہ جای رسیدہ اند

Related Articles

Back to top button