اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

اخوت؛ دور حاضر کی ضرورت

(سید شاہد جمال رضوی )

رسول خدا ﷺ نے برسوں پہلے ریگستان عرب پر جو پھول کھلایا تھا اس کی خوشبو دور حاضر کی کتنی بڑی ضرورت بن چکی ہے ، ارباب نظر سے پوشیدہ نہیں ….ایسا نہیں ہے کہ وہ پھول مرجھا گیا ہے یا اس کی مسحور کن خوشبو نے وقت سے پہلے اپنی تاثیر کھودی ہے،نہیں بلکہ اس پھول میں اتنی ہی تازگی ، شگفتگی اور تاثیر ہے کہ اگر لوگ چاہیں تو اسے استعمال میں لا کر اپنی زندگی کو شگفتہ اور بااثر بناسکتے ہیں۔

یوں تو ہر پھول بہار زندگی کے لئے کافی ہے اور ہر پھول کا خاصہ ہے کہ وہ ذہنوں سے خزاں کا تصور ختم کرکے بہار کی نشاط انگیز آمد کا پیغام سناتاہے لیکن ایک عام پھول سے ہٹ کر وہ تر و تازہ پھول جس کی محتاج صرف موسم بہار ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت ، انسانیت کا لمحہ لمحہ اور قدم قدم ہو اور دور حاضر میں اس کی خوشبو لوگوں کی شدید ضرورت بن چکی ہو اسے ” اخوت ” کہتے ہیں۔

اس انوکھے اور خوبصورت پھول میں نہ جانے کتنا اثر ہے کہ اس نے عرب جیسے چٹیل میدان میں بھی اپنی اہمیت و عظمت کا لوہا منوا لیا۔ اس وقت ریگستان عرب کا ماحول بھی عجیب و غریب تھا ، اپنی زندگی خانہ جنگیوں پر وقف کردینے والے عرب بدوئوں کے ذہن میں اخوت و برادری نام کو نہ تھی ، جن کے دل میں اپنی بچیوں کے لئے کوئی رحم نہ ہو ، ان سے اخوت و برادری کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ تاریخ عرب گواہ ہے کہ بچیوں کی چیخ پکار ، گریہ و زاری ، ان کا پھول جیسا چہرہ اور معصوم لب و لہجہ بھی سخت دل انسانوں کو موم بنانے میں ناکام رہا، ایسے ناگفتہ بہ حالات و ماحول اور سخت دل انسانوں کو موم کی مانند نرم بنانے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی عظمت و رفعت کا احاطہ کیسے ممکن ہے …؟ جس چیز نے اس ماحول کو یکسر بدل دیا اس کی اہمیت کو لفظوں میں کہاں بیان کیاجاسکتاہے …؟ جی ہاں!رسول اکرم ﷺنے سب سے پہلے عرب بدئوں کو ان کی خانہ جنگیوں سے نجات دلاکر انہیں آپس میں بھائی بھائی بنایا ۔

آنحضرت نے اس باہمی اخوت کی تعلیم معمولی اعتبار سے نہیں دی ، کوئی یہ نہ سمجھے کہ آپ نے ایک مسلمان کو بلاکر اس کے کان میں کلمۂ اخوت پھونک دیااور وہ اعجازی اعتبار سے تمام اہل اسلام کا حامی اور بھائی بن گیا …بلکہ آپ نے قانونی انداز اور مستحکم لب و لہجہ میں تمام مسلمانوں کو ایک مقام ” مسجد نبویۖ ” میں یکجا کیا اور ایک دوسرے سے محبت و الفت اور اخوت کا سچا اقرار لیا۔
مسجد نبوی ﷺ میں اس وقت بڑا جذاب اور دلکش سماں تھا ، عید تو نہ تھی مگر مسرتوں اور خوشیوں سے بھرپور عید جیسا ماحول ضرور تھا ، تمام اہل اسلام خوش و خرم ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے ، مصافحہ اور معانقہ کا سلسلہ جاری و ساری تھا ،” انی اخیک و انت اخی” کی پر جوش آوازیں دور دور تک پھیل رہی تھیں ، مہاجرین ،انصار سے اور انصار، مہاجرین سے گلے مل رہے تھے ، ایک مسلمان دوسرے کو اپنا بھائی بنا رہاتھا ، یہاں تک کہ کوئی ایسا نہیں تھا جو اس مقدس بندھن میں قید نہ ہو ، تمام مسلمانوں میں باہمی اخوت اور برادرانہ محبت قائم ہوچکی تھی۔

یہاں بھی اس درس اخوت نے ایک نیا اور انوکھا موڑ لیا سبھی اس برادرانہ ماحول میں مسرور تھے ، صرف ذات علی ایک گوشہ میں فکر مند کھڑی تھی ، شاید بلکہ یقیناً مہاجرین و انصار میں کوئی بھی ان کے جیسا نہیں تھا جو بھائی بنتا ، رسول خدا ﷺنے انہیں اپنے لئے محفوظ رکھاتھا، وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے بانیٔ اسلام کے قریب آئے اور اپنے دلی جذبہ کا اظہار کیا ، اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے بے ساختہ حضرت علی کو اپنے گلے سے لگالیا اور نہایت مسرت آمیز لہجہ میں فرمایا:” یا علی !انت اخی فی الدنیا والآخرة ”۔

ذہنوں میں اخوت و برادری کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے یہی ایک دن کافی تھا لیکن مستقبل کے نشیب و فراز کو دیکھتے ہوئے درس اخوت کو مزید طول دیا اور مختلف مقامات پر اخوت کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور اپنے زریں اقوال کے ساتھ ساتھ قرآن مجید جیسی ابد آثار کتاب کا سہارا لیا اور کلام اللہ کے ذریعہ اخوت کے وسیع دامن کو پوری دنیا میں عام کیا۔

چنانچہ اسلام کی فراخدالی یہ ہے کہ وہ کل کے مشرکین کو بھی بھائی بنانے کے لئے تیار ہے ،بس شرط یہ ہے کہ وہ توبہ کے کشادہ دروازے سے ہوتے ہوئے اسلام کے وسیع اور خوبصورت محل میں داخل ہوجائیں ۔ رسول اکرمﷺ نے جگہ جگہ اپنے بیانات اور خدا کے ارشادات سے ذہنوں میں اس لفظ کو اس طرح جانگزیں فرمایا کہ عرب بدوئوں سے آبائی پیشہ ” جنگ و قتال ” ختم ہوگیا اور بے دردی کی جگہ ہم دردی اور بے رحمی کی جگہ باہمی اخوت نے لے لی جس کی خوشبو عرب سے ہوتے ہوئے پوری دنیا میں پھیل گئی ۔

لیکن پھر دور حاضر میں اس پھول کی خوشبو کہیں محو ہوگئی ، شیرازۂ اخوت پوری طرح بکھر گیا ، کیا یہ عظیم درس فراموش کرنے کے قابل تھا ..؟اگر نہیں اور یقینا ً ًًنہیں تو پھر لوگوں نے اسے فراموش کیوں کیا ، اتحاد و اخوت کا نعرہ فرضی کیوں ہوگیا ، اس کی وہ حیات آفرینی کہاں گئی جس سے عرب کا بدو راہ راست پر آگیاتھا مگر آج کا مسلمان اس سے بالکل بے بہرہ ہوگیاہے۔

شاید دور حاضر کا انسان اس عرب بدوئوں سے بھی گیا گزرا ہے جس نے اپنی بنجر اور بے قیمت زمین کو محبتوں سے اس قابل بنایا کہ لائق ستائش اور مثالی بن گیا جب کہ آج کے انسان نے اچھی زمین کو بھی بنجر کے مانند کردیا ہے” افسوس صد افسوس”۔
اگر آپ دور حاضر کی تاریخ مرتب کریں تو معلوم ہوگا کہ برسوں پہلے کی خانہ جنگی ایک بار پھر عود کرآئی ہے ، انسانوں کی انسانیت جس طرح وہاں مردہ تھی اسی طرح آج بھی مردہ ہے جس کی زندہ مثال گجرات اور ملی تضاد ہے۔

انسان ، انسان کے خون کا پیاسا ہے ، ہرطرف درندگی اور وحشت کا عالم ہے ، سڑکوں پر لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ، ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ حد شمار سے باہر ہوتی جارہی ہے ، خون تو اس طرح بہہ رہاہے جیسے پانی سڑکوں اور نالوں میں بہتا ہے، قتل و غارت گری، آبروریزی ، زندہ جلا دینا ، مذہبی عبادتگاہوں کو نقصان ہونچانا ، کیمپوں میں انتہائی تکلیف دہ حالات سے دوچار لوگوں پر اذیتیں ، اپنے گھروں میں چین سے بیٹھے لوگوں پر گولیوں کی بارش …یہ ہے آج کے حالات کی حقیقی تصویر ۔

ایک زمانہ تھا جب بچہ بچہ’’ہم سب مسلم بھائی بھائی کا نعرہ لگاتا اور یہ نعرہ وطن عزیز کے درو دیوار سے ٹکرا کر امن پسندی اور اخوت کا درس دیتی تھی مگر یہ آواز تفرقہ بازی اور فرقہ پرستی کے دلدل میں اس طرح دھنس کر رہ گئی کہ نعرہ بلند کرتے ہوئے بلکہ سنتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے ، اس لئے کہ موجودہ دنیاوی ڈگر اور اس عظیم نعرہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے جو کسی صورت میل نہیں کھاتا اور نہ میل کھانے کے لائق ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ پوری دنیا میں تمام لوگ یہی ڈگر اپنائے ہوئے ہیں بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو اخوت کے دلدادہ اور اخوت پسند ہیں مگر وہ بھی مجبوری کی چادر اوڑھے ہوئے سورہے ہیں :

پھول ہوں کیوں نہ سہمے سہمے سے
خار ان کے قریب رہتے ہیں

مگر آج اسلامی اخوت کا تجزیہ کیجئے تو معلوم ہوگا ہم کہاں کھڑے ہیںہے ، افسوس تو اس بات کا ہے کہ جن لوگوں کے رہبر نے یہ عظیم درس دیا انہیں کے یہاں یہ چیز ناپید ہے ۔ ہاں !یہ بے چارہ مسلمان اتحاد و اخوت کا نعرہ بلند کرتاہے مگر اس وقت جب دشمنوں پر اس کی کمزوری پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے ، ایسے میں یہ نعرہ فرضی ہوکر بے قیمت ہوجاتا ہے ، کیا انسانوں میں اتنی بھی صلاحیت نہیں کہ وہ ڈوبتی ہوئی اخوت اور مرتی ہوئی محبت کو بچا سکے …؟ کیا دنیا کو اسی ڈگر پر چھوڑ دیاجائے جس ڈگر پر چل رہی ہے…؟ نہیں اس میں جینے کے لئے اور اچھی زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ اس ڈوبتی ہوئی اخوت کو نکالا جائے اور مرتی ہوئی محبت کا احیاء کیاجائے تاکہ ہماری چند روزہ زندگی تازہ گلاب کی طرح کھل اٹھے اور ہماری حیات کو تعمیری سمت مل سکے ۔

Related Articles

Back to top button