مقالات

صحابی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) یاسر بن عامر عنسی

یاسر بن عامر عنسی، پیغمبر اسلام(ص) کے صحابی، سمیہ کے شوہر اور عمار کے والد، سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں سے اور اسلام کے سب سے پہلے شہید، مشرکین کے ظلم اور شکنجوں کی وجہ سے شہید ہوئے۔

نسب
یاسر کا تعلق یمن اور طائف "مذجح” کے قبیلے "عنس” سے تھا۔ متراجم افراد نے اس کا نسب تقریباً بیسویں نسل تک ذکر کیا ہے۔[1]

یاسر بن عامر

قبرستان ابو طالب یاسر و سمیہ اولین شہدائے اسلام کا مدفن

معلومات شخصیت
مکمل نام یاسر بن عامر عنسی
دینی مشخصات

مکہ میں سکونت

یاسر جوانی کے زمانے تک یمن میں زندگی کرتے تھے. آپ کے تین بھائی تھے کہ جن میں سے ایک گم ہو گیا۔ آپ اپنے دو بھائیوں "مالک” اور "حارث” کے ہمراہ اپنے گمشدہ بھائی کو تلاش کرنے کے لئے مکہ آئے، اور تلاش شروع کی، جب ناامید ہو گئے تو مالک اور حارث یمن واپس لوٹ گئے، لیکن یاسر مکہ میں رہ گئے اور وہیں پر ساکن ہونے کا ارادہ کیا۔ [2] اس وقت مکہ میں قبیلائی حکومت تھی اور ناواقف و بیگانہ افراد کو اس صورت میں پناہ ملتی تھی کہ وہ کسی قبیلے سے تعلق جوڑ لیتے اور اس قبیلے کے تحت زندگی گزارتے۔ [3]

سمیہ سے شادی
یاسر نے "ابوحذیفہ” جن کا تعلق بڑے قبیلے، "قبیلہ بنی مخزوم” سے تھا ان سے پیمان باندھ لیا۔ اس نے اپنی کنیز سے یاسر کی شادی کر دی، پھر ان کے ہاں عمار کی ولادت ہوئی تو ابوحذیفہ نے سمیہ کو آزاد کر دیا۔ یاسر اور عمار ابوحذیفہ کی وفات سے پہلے ہمیشہ اس کے پاس ہی ہوتے تھے۔

عمار، یاسر اور سمیہ کا پہلا فرزند تھے جو مکہ میں پیدا ہوئے اور چونکہ ان کی والدہ ابو حذیفہ کی کنیز تھیں، اس لئے اس وقت کے قانون کے مطابق عمار بھی ان کاغلام تھے، لیکن ابوحذیفہ نے بعد میں، عمار کو آزاد کر دیا۔ اسی لئے عمار کو ابوحذیفہ کا آزاد کردہ غلام کہا جاتا ہے۔ یاسر اور سمیہ کا ایک اور فرزند جس کا نام عبداللہ تھا اور وہ اپنے والدین کے ہمراہ مسلمان ہوا۔ [4] یاسر کا عمار اور عبداللہ سے بڑا ایک بیٹا تھا جس کا نام حریث تھا جسے زمانہ جاہلیت میں بنی دیل نے قتل کیا تھا۔[5]

اسلام لانا
آل یاسر پہلے مسلمانوں میں سے تھے۔ نقل ہوا ہے کہ یاسر کا خاندان بعثت کے پانچویں سال، ارقم بن ابی ارقم کے گھر پر، حضور(ص) کے پاس آئے اور مسلمان ہوئے۔ وہ تیس سے کچھ زیادہ لوگ تھے جو مسلمان ہوئے اور اسلام میں داخل ہوئے۔ [6] سید محسن امین کہتے ہیں: "زیادہ احتمال یہ ہے کہ عمار کی دعوت سے ان کے والدین مسلمان ہوئے” [7] بعض روایات کے مطابق، جن افراد نے اپنے مذہب اسلام کو ظاہر کیا، وہ سات لوگ تھے کہ ان میں سے عمار چھٹے اور ان کی والدہ ساتویں تھیں۔[8]

سمیہ بعثت کے زمانے میں
جہاں تک کہ عمار سنہ ٣٧ ہجری قمری جنگ صفین میں ٩٤ سال کی عمر میں شہید ہوئے، [9]تو یقیناً، ان کی ولادت بعثت سے ٤٤ سال پہلے ہوئی ہو گی اور اگر فرض کریں کہ یاسر نے ٢٠ سال میں شادی کی ہو، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یاسر اور ان کی زوجہ آغاز بعثت کے وقت ٦٠ سال کے تھے۔ جیسا کہ "ابن سعد” صحیح سند کے مطابق مجاہد سے نقل کرتا ہے: "و کانت عجوزہ کبیرہ” سمیہ شہادت کے وقت بڑھاپے کی عمر میں تھی۔ [10]

مشرکین کے شکنجے
یاسر کے خاندان کا مسلمان ہونا بنی مخزوم کو بہت مہنگا پڑھا، کیونکہ وہ بنی مخزوم کے غلام تھے اور ابوجہل جو کہ ابوحذیفہ کا بھتیجا، اور اسلام کا بہت سخت دشمن تھا، اس نے یاسر کے خاندان کو مسلمان ہونے کے جرم میں طرح طرح کی تکلیفیں دیں اور انہیں اسلام چھوڑنے پر مجبور کرتا۔ [11]

بڑھاپے میں تمام جسمی اور روحی تکلیفوں اور سختیوں کے باوجود یاسر اور سمیہ اپنے ارادے پر پکے رہے اور ایک لحظے کے لئے بھی اپنے ارادے سے پیچھے نہ ہوئے۔ مکہ کے مشرکین طرح طرح کے وسیلوں سے آپکو شکنجے دیتے، من جملہ لوہے کو آگ میں تیز گرم کر کے لگاتے، تازیانے مارتے، گندے پانی کے اندر ڈبوتے، لوہے کی سلاخیں آپکے بدن میں ڈالتے اور تپتی دھوپ پر کھڑا کرتے…، یہاں تک کہ لوہے کے حلقے آپ کے بدن میں گھس جاتے۔ [12]

اسلام کا پہلا شہید
اگرچہ یاسر بڑھاپے کی عمر میں تھے، لیکن انہوں نے یہ شکنجے برداشت کئے اور آخر کار انہی شکنجوں کی وجہ سے مقام شہادت پر فائز ہو گئے۔ [13]

حوالہ جات

  1.  ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۲۴۶.
  2. اوپر جائیں ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۲۴۶.
  3. اوپر جائیں امین، اعیان الشیعہ، ج۸، ص۲۷۲.
  4. اوپر جائیں ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۲۴۶؛ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج۶، ص۵۰۰.
  5. اوپر جائیں ابن سعد، الطبقات الکبری، ج ۴، ص۱۰۱.
  6. اوپر جائیں ابن اثیر، الکامل، ج۲، صص۸۸۴-۸۸۵.
  7. اوپر جائیں امین، اعیان الشیعہ، ج۸، ص۲۷۲.
  8. اوپر جائیں ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج۷، ص۷۱۲ و ابن اثیر، أسدالغابہ، ج۶، ص۱۵۹.
  9. اوپر جائیں ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۸۸۵.
  10. اوپر جائیں ابن سعد، طبقات الکبری، ج۸، ص۲۰۷.
  11. اوپر جائیں مقدسی، البدء و التاریخ، ج۲، ص۷۹۳
  12. اوپر جائیں امین، اعیان الشیعہ، ج۸، ص۲۷۲ ؛ پیشین و بلاذری، أنساب الاشراف، ج۱، ص۱۵۸.
  13. اوپر جائیں امین، اعیان الشیعہ، ج۸، ص۲۷۲؛ مقدسی، البدء و التاریخ، ج۲، ص۷۹۳.

مآخذ

  • ابن اثیر، الکامل، ترجمہ محمد حسین روحانی، تہران، اساطیر، ۱۳۷۰ش.
  • ابن اثیر، أسدالغابہ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹ق.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابہ، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق.
  • ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق علی‌محمد بجاوی، بیروت، دارالجیل، ۱۴۱۲ق.
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، تحقیق عطا، محمد عبد القادر،‌دار الکتب العلمیۃ، بیروت، چاپ اول، ۱۴۱۰ق.
  • ابن سعد، طبقات الکبری، بیروت، داربیروت، ۱۴۰۵ق.
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الاشراف، تحقیق سہیل ذکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۷ق.
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، ترجمہ محمدرضا شفیعی، تہران، آگه، ۱۳۷۴ش.، چاپ اول

 

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button