حکایات و روایاتکتب اسلامی

حضرت بلالؓ کی استقامت

سبقت اسلام کا شرف حاصل کرنے والے خوش نصیبوں میں حضرت بلالؓ بن رباحؓ کا نام ہمیشہ روشن رہے گا،ان کا تعلق بنی جمح کے غلام زادوں کی نسل سے تھا،جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ابوجہل گرم ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر وزنی پتھر رکھ دیتا تھا، کبھی دہکتے ہوئے انگاروں پر انہیں لٹایا جاتا تھا،ان کی پیٹھ تپش کی وجہ سے جل جاتی تھی۔
ابوجہل ان سے کہتا تھا کہ محمدؐ کا دین چھوڑ دو مگر یہ ہمیشہ جواب دیتے :احد،  احد یعنی اللہ ایک ہے ،اللہ ایک ہے۔
ایک دن رسول اکرمﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا:اگر میرے پاس کچھ رقم ہوتی تو میں بلالؓ کو اس کے مالک سے خرید لیتا،حضرت ابوبکرؓ نے عباس بن عبدالمطلبؓ کو رقم دی کہ وہ حضرت بلالؓ کو ان کے لیے خرید لیں،حضرت عباسؓ،حضرت بلالؓ کی مالکن کے پاس گئے اور حضرت بلالؓ کو خریدنے کی خواہش ظاہر کی،وہ کہنے لگی،آپ اسے مت خریدیں،یہ بدمعاش غلام ہے۔
حضرت عباسؓ دوسرے دن پھر اس عورت کے پاس گئے،آخر کار عورت نے حضرت بلالؓ کو فروخت کردیا۔
حضرت عباسؓ،حضرت بلالؓ کو خرید کر حضرت ابوبکرؓ کے پاس لے گئے۔
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کو آزاد کردیا پھر رسول خداﷺ نے حضرت بلالؓ کو اپنا مؤذن مقرر کردیا۔
ایک مرتبہ چند لوگوں نے رسول خداﷺ کی خدمت میں شکایت کی کہ حضرت بلالؓ کا لہجہ درست نہیں ہے،وہ شین کو سین کہتے ہیں۔
رسول اکرمﷺ نے فرمایا:’’سِينُ بِلالٍ عِنْدَ اللَّهِ شِينٌ‘‘بلال کی زبان سے نکلی ہوئی سین اللہ کی نظر میں شین ہے۔
حضرت بلالؓ،حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام تھے مگر اس کے باوجود وہ حضرت علیؑ کا زیادہ احترام کرتے تھے۔
کسی نے حضرت بلالؓ کو طعنہ دے کر کہا:تجھے آزاد تو ابوبکرؓ نے کیا لیکن تو علیؑ کا زیادہ احترام کرتا ہے۔
حضرت بلالؓ نے کہا:میں علیؑ کا زیادہ احترام اس لیے کرتا ہوں کہ علیؑ کا مجھ پر ابوبکرؓ سے زیادہ حق ہے کیونکہ ابوبکرؓ نے مجھے غلامی سے نجات دلائی ہے ،اگر وہ مجھے غلامی سے نجات نہ دلاتے تو میں اللہ کی راہ میں صبر کرتا اور اذیت کی وجہ سے مرجاتا تو میں جنت میں چلا جاتا لیکن علیؑ نے مجھے ابدی عذاب اور دوزخ سے نجات دلائی ہے کیونکہ علیؑ کی دوستی اور محبت جنت کا پروانہ ہے اور نعمت جادوانی کا وسیلہ ہے۔
رسول خدا ﷺ کی وفات کے بعد جن لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت سے انکار کیا ان میں حضرت بلالؓ بھی شاملے تھے۔
ایک دن حضرت عمرؓ نے حضرت بلالؓ کا گریبان پکڑ کر کہا:بلال!جس نے تجھے آزاد کیا تو اس کی بیعت کرنے سے انکاری ہے؟ حضرت بلالؓ نے دھڑک کہا:اگر ابوبکرؓ نے مجھے اللہ کی خوشنودی کے لیے آزاد کیا تھا تو وہ مجھے کچھ نہیں کہیں گے اور اگر کسی اور کی خوشنودی کے لیے آزاد کیا تھا تو میں آج بھی اپنے آپ کو ان کی غلامی میں دے دیتا ہوں،وہ جو چاہیں مجھ سے سلوک کریںاور جہاں تک بیعت کا تعلق ہے تو پیغمبر خداﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں جسے اپنا جانشین مقرر کیا تھا میں اس کے علاوہ کسی اور کی بیعت نہیں کرسکتا،علیؑ کی بیعت قیامت تک ہماری گردن پر باقی ہے۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ سخت ناراض ہوئے اور حضرت بلالؓ کو سخت سست کہا اور حکم  دیا کہ تم ہمارے ساتھ یہاں نہیں رہ سکتے۔ حضرت بلالؓ یہ حکم سن کر مدینہ چھوڑ کر شام چلے گئے۔

(حوالہ جات)

(اسد الغابہ ج۱،ص۲۰۶)

(سفینۃ البحار،ج۱ص۱۰۴)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button