حضرت محمد مصطفیٰ (ص)دانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

مقام مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

(تحریر: سید حسین موسوی)

رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب حد و حساب سے باہر ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ان کے چند فضائل کا ذکر کیا جاتا ہے:

1۔ شاہد انبیاء علیہم السلام
امام بخاری نے اپنی کتاب جامع صحیح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کی ہے، جبکہ اسی حدیث کے آخری حصہ کی وضاحت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان ہوئی ہے۔ دونوں حدیثیں پیش کی جاتی ہیں: "حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَجِيءُ نُوحٌ وَأُمَّتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ هَلْ بَلَّغْتَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ نَعَمْ أَيْ رَبِّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ لِأُمَّتِهِ:‏‏‏‏ هَلْ بَلَّغَكُمْ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ لَا مَا جَاءَنَا مِنْ نَبِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لِنُوحٍ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمَّتُهُ فَنَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ وَهُوَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ سورة البقرة آية 143 وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ”.(صحيح بخاري: حدیث نمبر:3339)
ہم سے موسٰی بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابو صالح نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) نوح علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے۔ اللہ تعالٰی دریافت فرمائے گا، کیا (میرا پیغام) تم نے پہنچا دیا تھا؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے، میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اے رب العزت! اب اللہ تعالٰی ان کی امت سے دریافت فرمائے گا، کیا (نوح علیہ السلام نے) تم تک میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ جواب دیں گے نہیں، ہمارے پاس تیرا کوئی نبی نہیں آیا۔ اس پر اللہ تعالٰی نوح علیہ السلام سے دریافت فرمائے گا، اس کے لئے آپ کی طرف سے کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے؟ وہ عرض کریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت (کے لوگ میرے گواہ ہیں)۔ آپ (ص) نے فرمایا: چنانچہ ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کا پیغام اپنی قوم تک پہنچایا تھا اور یہی مفہوم اللہ جل ذکرہ کے اس ارشاد کا ہے «وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس‏» اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا، تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ اور «وسط» کے معنی درمیانی کے ہیں۔

اس حدیث میں حضرت نوح نے جو امت کا لفظ استعمال کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو "ہم” کا لفظ فرمایا ہے، اس سے مراد کون ہیں؟ یہ اس حدیث میں موجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد ہم جیسے امتی نہیں ہیں، کیونکہ ہم نے حضرت نوح علیہ السلام کو ہی نہیں دیکھا تو ان کی تبلیغ کی شہادت کہاں سے دینگے؟ پھر اس ہم سے مراد کون ہیں، اس سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے پردہ اٹھایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:”مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ جَمِيلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ لِي إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَ جَمَعَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى الْخَلَائِقَ كَانَ نُوحٌ‏ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ أَوَّلَ مَنْ يُدْعَى بِهِ فَيُقَالُ لَهُ هَلْ بَلَّغْتَ فَيَقُولُ نَعَمْ فَيُقَالُ لَهُ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ فَيَقُولُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ص قَالَ فَيَخْرُجُ نُوحٌ‏ ع فَيَتَخَطَّى النَّاسَ حَتَّى يَجِي‏ءَ إِلَى مُحَمَّدٍ ص وَ هُوَ عَلَى كَثِيبِ الْمِسْكِ‏ وَ مَعَهُ عَلِيٌّ ع وَ هُوَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُ نُوحٌ لِمُحَمَّدٍ ص يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى سَأَلَنِي هَلْ بَلَّغْتَ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ فَقُلْتُ مُحَمَّدٌ ص فَيَقُولُ يَا جَعْفَرُ يَا حَمْزَةُ اذْهَبَا وَ اشْهَدَا لَهُ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع- فَجَعْفَرٌ وَ حَمْزَةُ هُمَا الشَّاهِدَانِ لِلْأَنْبِيَاءِ ع بِمَا بَلَّغُوا فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ- فَعَلِيٌّ ع أَيْنَ هُوَ فَقَالَ هُوَ أَعْظَمُ مَنْزِلَةً مِنْ ذَلِكَ.”(روضة الکافي: حديث:392)” یوسف بن ابی سعید کہتا ہے میں ایک دن ابی عبد اللہ علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہوگا اور اللہ تعالٰی تمام خلائق جمع کریگا۔ سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کو بلایا جائیگا۔ ان سے پوچھا جائیگا: تم نے (اللہ تعالٰی کا پیغام) پہنچا دیا تھا؟ وہ کہے گا: ہاں۔ کہا جائیگا تمہاری گواہی کون دے گا؟ وہ کہے گا محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر نوح علیہ السلام نکلے گا اور لوگوں کو ہٹاتا ہوا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچے گا اور وہ مسک کے ٹیلے پر ہونگے، انکے پاس علی علیہ السلام ہونگے اور اللہ تعالٰی کے فرمان ہے”فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا۔” جب وہ اسے قریب دیکھیں گے تو کافرین کے چہرے برے بن جائیں گے” پھر نوح علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہیں گے: اے محمد، اللہ تبارک و تعالٰی نے مجھ سے پوچھا ہے: کیا تم نے تبلیغ کی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ اللہ نے فرمایا: تیری گواہی کون دیگا؟ مین نے عرض کیا: محمد (ص)۔ پھر رسول اللہ فرمائیں گے اے جعفر! اور اے حمزہ! جاؤ اور اس کی لئے گواہی دو کہ اس نے تبلیغ کی تھی۔ امام جعفر صادق نے فرمایا: پھر جعفر اور حمزہ دونوں، انبیاء کی تبلیغ کے شاہد ہیں۔ راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا پھر علی کہاں ہونگے؟ آپ نے فرمایا: ان کا مقام اس سے بہت بلند ہے۔

2۔ انکی نورانی نظروں سے نہ دنیا پوشیدہ نہ آخرت:
قربان ان کی نورانی نظروں پر امام بخاری نے اپنی کتاب جامع میں حدیث روایت کی ہے کہ:”أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا”.(صحیح بخاری: كتاب الجنائز: 72- بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِيدِ:حدیث نمبر: 1344) "نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لئے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ "اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں” اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا (یہ فرمایا کہ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔” سلام ان کی نظر نورانی پر جو اپنے منبر سے آخرت میں موجود اپنے حوض کو دیکھ رہا ہے۔

3۔ آپکے قلب کی آنکھیں نہیں سوتیں:
امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا:”إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي۔”(صحیح بخاری: كتاب التهجد: 16- بَابُ قِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ: حدیث نمبر: 1147)”حقیقت یہ ہے کہ میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں، میرا دل نہیں سوتا۔”

4۔ آپ سامنے بھی دیکھتے تھے اور پیچھے بھی:
امام بخاری اپنی جامع صحیح میں روایت کرتے ہیں: راوی کا بیان ہے: صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَقِيَ الْمِنْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ فِي الصَّلَاةِ وَفِي الرُّكُوعِ:‏‏‏‏ "إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ وَرَائِي كَمَا أَرَاكُمْ”.(صحیح بخاری: كتاب الصلاة 40- بَابُ عِظَةِ الإِمَامِ النَّاسَ فِي إِتْمَامِ الصَّلاَةِ، وَذِكْرِ الْقِبْلَةِ: حدیث نمبر: 419) "نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک مرتبہ نماز پڑھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے، پھر نماز کے باب میں اور رکوع کے باب میں فرمایا: میں تمہیں پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا رہتا ہوں، جیسے اب سامنے سے دیکھ رہا ہوں۔”

5۔ ان سے نہ انسان کا ظاہر پوشیدہ ہے نہ باطن:
امام بخاری اپنی جامع صحیح میں روایت کرتے ہیں:أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "هَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِي هَا هُنَا، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا يَخْفَى عَلَيَّ خُشُوعُكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا رُكُوعُكُمْ إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي۔”(صحیح بخاری: كتاب الصلاة 40- بَابُ عِظَةِ الإِمَامِ النَّاسَ فِي إِتْمَامِ الصَّلاَةِ، وَذِكْرِ الْقِبْلَةِ: حدیث نمبر: 418)”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ میرا منہ (نماز میں) قبلہ کی طرف ہے (اس لئے میں تمہیں نہیں دیکھتا؟)، اللہ کی قسم! مجھ سے نہ تمہارا خشوع چھپتا ہے نہ رکوع، میں یقیناً اپنی پیٹھ کے پیچھے سے تم کو دیکھتا رہتا ہوں۔ "قربان ان کی نظروں پر جو انسان کے باطن میں موجود خشوع دیکھتا رہتا ہے۔

6۔ جبریل انکا خادم:
قربان ان کے وجود پر کہ جبریل (ع) جن کا خادم ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
إن جبرئيل إذا أتى النبي (صلى الله عليه وآله) لم يدخل عليه حتى يستأذنه، فإذا دخل عليه قعد بين يديه قعدة العبد۔”جب جبرئیل رسول اللہ کے پاس آتے تھے تو اجازت لئے بغیر (ان کی محفل میں) داخل نہیں ہوتے تھے۔ پھر جب داخل ہوتے تھے تو ان کے سامنے ایسے بیٹھتے تھے جیسے بندہ اپنے آقا کے سامنے (دو زانو ہوکر) بیٹھتا ہے۔”(کمال الدین: شیخ صدوق)

7۔ رب العالمین جنکی رضا کا طالب:
کائنات میں ہر مخلوق کی کوشش یہ ہے کہ اسکا رب اس سے راضی ہو جائے، اگر رب راضی ہو جائے تو یہی مخلوق کی معراج ہے۔ مولاء کائنات امیر المؤمنین کے لئے قرآن کہتا ہے:وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ وَاللّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ(البقرة/207)”لوگوں میں کوئی ہے جو اللہ کی رضا کے لئے اپنی جان بیچتا ہے اور اللہ بندوں پر مہربان ہے۔”لیکن مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فرمایا: وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى(الضحى/5)”جلد ہی تیرا رب تجھے اتنا دیگا کہ تو راضی ہوجائگا۔”

Related Articles

Back to top button