دانشکدہقرآن و سنتمقالات

عملی زندگی میں تصور خدا اور اس کے اثرات

تصورخداوہ بنیادی عنصرہے جس پرہر چیز کا دار و مدار ہے۔ پورااسلامی ڈھانچہ اسی پرٹکا ہو ا ہے۔ اعتقادات ہوں یاعملیات سب کی بنیادخداوند کا تصور ہے۔اخلاقی احکام ،تمدنی قوانین ان سب کی قدر وقیمت اوراہمیت تصورخداپرہے۔اگر درمیان سے تصورخداہٹ جائے تونہ رسول کی رسالت رہے گی نہ قوانین شریعت کانفاذ،نہ معادکا تصورہوگا،نہ جزا وسزا کی فکر،نہ اخلاقیات کی عظمت ہوگی اورنہ ان کاتقدس باقی رہے گا،نہ مدنی قوانین کاپاس ولحاظ اورنہ ہی حقوق وواجبات کی معنویت اورپھرپورا اسلامی نظام بے معنی ہوکررہ جائے گا۔
اسلامی نظام کادارومدارتصورخداوایمان بالله پرہے ۔اسلامی نظام میں ایمان بالله کی اہمیت اور اسکابنیادی عنصرہونا،محض اس حدتک نہیں کہ خداوند موجودہے۔ ورنہ دنیاکی تمام انسان کسی نہ کسی انداز میں وجود خدا کا اقرارکرتے ہیں۔بلکہ وجودخداکا اقرار اسکی تمام صفات ثبوتیہ وسلبیہ کے ساتھ ہونا چاہیے جس کی بنیادپرانسان صحیح معنوں میں ایک واقعی خدا پرست بن سکے۔
قرآ ن کریم وہ واحد کتاب ہے جس نے خدا کا تصورصحیح اورحقیقی معنوں میں پیش کیاہے، جودنیاکی کسی اورکتاب یاکسی اورمذہب میں ہمیں نہیں ملتا ۔ یہ صحیح ہے کہ دوسری قومیں اور دوسرے مذاہب میں بھی خدا کا تصورپایاجاتاہے مگرہرجگہ یاغلط ہے اور یا نامکمل ہے۔ کہیں خدانام ہے اولیت وواجبیت کا تو کہیں اس سے مبداٴاولیٰ مرادہے ،کہیں قوت و طاقت کاہم معنی ہے توکہیں طلب حاجات واجابت دعوات کامرکز، کہیں صرف محبت کامرجع کل توکہیں وہ خوف و ہیبت کی کوئی چیزپھر،کہیں قابل تجزیہ وتقسیم توکہیں تشبیہ سے آلودہ، کہیں وہ آسمانوں پرمتمکن ہے اورکہیں انسانی بھیس میں زمین پراترکرکشتی بھی لڑلیتاہے ۔ان تمام ناقص یاغلط تصورات کی تکمیل یا تصحیح جس کتاب نے کی ہے وہ قرآن کریم ہے۔
قرآن کریم نے ہمیں بتایا،خداوہی ہو سکتا ہے جوبے نیازوصمداورقیوم ہو،ہمیشہ سے ہواور ہمیشہ رہے ،قادرمطلق اورحاکم علی الاطلاق ہو،زمین و آسمان پراسی کی حکمرانی ہواسی کےلئے زمین وآسمان کی سلطنت ہو،اسکا علم ہرچیزکواپنے احاطہ میں لئے ہو اورہرشے کے ظاہروباطن جانتاہو۔کوئی پتہ بھی اسکے علم میں آئے بغیرحرکت نہ کرسکے، چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی اس کے علم سے خارج نہ ہو۔جس کی رحمت کے سب پروردہ ہوں۔بغیراس کی رحمت کے کوئی ایک سانس بھی نہ لے سکے ، جس کی طاقت ہر چیز پر غالب اورجس کی حکمت عالیہ میں نقص کاذرہ برابر بھی شائبہ نہ ہو،جس کی عدالت ذرہ ذرہ کا حساب رکھے اورظلم کاگمان تک نہ ہونے پائے ۔ جو لوگوں کو پیداکرنے کے بعدان کی زندگی کے سروسامان اور رزق کا خود ذمہ دار ہو اور ان کے لئے تمام اسباب مہیاکردے،جونفع وضرر، ساری قوتوں کاخودمالک ہو۔اس کے بغیرنہ کوئی کسی کوفائدہ پہنچا سکے اورنہ نقصان، اورکوئی دوسرابھی اسکے نفع ونقصان کونہ بدل سکے ،اسکی بخشش وعطاکے سب محتاج ہوں وہ کسی کامحتاج نہ ہو،اسکی طرف تمام مخلوقات کی بازگشت ہواوروہی حساب لینے والااور اسی کوجزاوسزاکااختیار کل ہواورپھرخداوند کے یہ تمام اوصاف ناقابل تجزیہ ہوں،نہ قابل تقسیم کہ اس بات کاامکان پیدا ہو سکے کہ ایک وقت میں کئی خدا مل کرکارگاہ ہستی پر براجمان ہوں۔اسی طرح تمام صفات نہ زمانی اور وقتی ہوںاورنہ قابل انتقال کہ آج کسی خدا میں ہوں اورکل دوسرے میں۔
خداکایہ کامل اورصحیح ،عقلی اورفطری تصورپیش کرنے کے بعدقرآن کریم ایک منفرد انداز میں انتہائی زوربیانی کے ساتھ یہ ثابت کررہاہے کہ کائنات کی جتنی اشیاء ،طاقتیں اورقوتیں ہیں ان میں سے کسی ایک پرخداکایہ مفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ کیونکہ موجودات عالم تمام کے تمام محتاج ہیں اس لئے کہ سب مخلوق ،فانی ،اورمسخر ہیں نفع بخش اور مضرہوناتودرکنارخوداپنی ذات سے ضررکودفع کرنے اور جلب منفعت پرقادرنہیں ہیں کسی کوخلق کرنے کی کیا بات خوداپنی خلقت میں خالق کل کے محتاج ہیں اور خلقت کے بعدبقاء میں بھی بے نیاز نہیں بلکہ ہر لحظہ اورہرپل خالق مطلق کی عنایتوں کے محتاج اور اسی کے رحم وکرم پرنگاہ احتیاج جمائے رہتے ہیں اور اگر سر چشمہ کل سے ایک (مائکروسکنڈ) micro second) ) کےلئے بھی رابطہ ٹوٹ جائے تو فنا اور ختم ہو جائیں۔
قرآن کریم اس نفی کے بعدالوہیت کوصرف ایک ذات کے لئے ثابت کرتاہے اوروہ الله سبحانہ کی ذات اقدس ہے لاالہ الاالله۔الله کے علاوہ کوئی دوسرا خدانہیں ہے اوراسی کے بعدقرآن تمام انسانوں سے الله سبحانہ پرایمان لانے کامطالبہ کرتا ہے اوراسی کے آگے سرتسلیم خم کرنے ،اسی کی تعظیم کرنے اوراسی سے محبت اوراسی پرتوکل کرنے کاحکم دیتاہے ،اسی کو اٹھتے بیٹھتے کروٹیں بدلتے ،یادرکھنے کاتقاضہ کرتاہے تاکہ یہ ذہن نشین رہے کہ ایک دن اس کی بارگاہ میں حاضری دینی ہے جہاں ایک ایک ذرے کا حساب دیناہے ۔

الوہیت کے اثرات
قرآن کی روشنی میں الله سبحانہ تعالیٰ کے خدا ہونے کااقرارنفسیاتی اورفطری طورپرانسان کی پوری زندگی میں اثرانداز ہوتاہے ۔اس کی نظر و فکر بدل جاتی ہے ہرہرقدم پررفتار و کردار میں تغیر رونما ہوتا ہے اس کی نگاہ معرفت اتنی وسیع ہوجاتی ہے جس کا اندازہ بغیرلاالہ الاالله کوبیان کئے ممکن ہی نہیں ،اب وہ دنیاکی ہرشےٴ کو اپنے ہی جیساپاتاہے کیونکہ جواس کا خالق ہے وہی دنیاکی تمام اشیاء کا پیداکرنے والا ہے اورجس کی وہ عبادت کرتاہے ساراجہان اسی کی عبادت کرتاہے ۔
ساتوں آسمان وزمین اورجوکچھ اس میں ہے سب خداہی کی تسبیح کرتے ہیں (الاسراء/۴۴)
اورجب سب اسی کی مخلوق ہیں اوراسی کی طرف دست نیازپھیلائے ہوئے ہیں تواب ایک مومن عزت نفس کی بنیادپرغیرالله کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتاکیونکہ ساراجہان اسی کی طرح خدائے واحدکی مخلوق ہے ۔
جن کوتم پکارتے ہو وہ تمہارے ہی طرح الله کے بندے ہیں(اعراف/۱۹۴)
مومن کسی اورسے مددکاطالب نہیں ہوتاکیونکہ غیرخداکسی کی نصرت نہیں کرسکتے۔جولوگ الله کے علاوہ کسی کوپکارتے ہیں وہ کسی دوسرے بندے کی مددنہیں کرسکتے اورنہ اپنی مددکرسکتے ہیں (اعراف/۷ ۱۹)
تمام قوتیں الله کے لئے ہیں(بقرہ /۱۶۵)
اسی کوحکم دینے کااختیارہے (انعام/۵۷)
وہی صاحب امرہے (الرعد/۳۱)
وہی رازق ہے (الذاریات/۵۸)
زمین وآسمان کی کنجیاں اسی کے پاس ہے (الزمر/۶۵)
موت وحیات کاتنہاوہی مالک ہے (ق/۴۳)
لوگوں کے فائدے ونقصان اسی کے دست قدرت میں ہے (الانبیاء /۶۶)
خداوندعالم کی بے پناہ نعمات کے پیش نظرایک مردمومن جہاں غیرخداکے سامنے سرتسلیم خم کرنے کو تیارنہیں ہے وہیں خدائے واحدکے سامنے سراپا خاضع وخاشع دکھائی دیتاہے اورچلتے پھرتے بھی اس کی یہ صفت نمایاں رہتی ہے ۔
رحمان کے بندے وہ ہیں جوزمین پرفروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اورجب جاہل ان کومخاطب کرتے ہیں (یعنی ان سے جاہلانہ باتیں کرتے ہیں)تووہ سلام کہہ کر(ان کونظراندازکردیتے ہیں)(الفرقان /۱۶۳)
خدائے واحدکاصحیح تصورانسان کی تمام بے جا وغلط توقعات کوختم کردیتاہے یہ اوربات ہے معرفت الہٰی سے محروم یامتعصب افراد یہ کہتے ہیں یہ چھوٹے چھوٹے خداالله کے نزدیک ہماری شفاعت کریں گے(یونس/۱۸)
اسی طرح یہودونصاریٰ کہتے ہیں ہم الله کے بیٹے اوردوست ہیں(المائدہ /۱۸)
یعنی یہودونصاریٰ یہ ظاہر کرناچاہتے ہیں کہ ہم الله کے بیٹے اوراسکے دوست ہیں تو ہمیں اختیارہے کہ ہم جوچاہیں کریں عذاب وسزاہمارے لئے نہیں ہے ۔
قرآن کریم اس غلط فکرکوسرے سے ختم کرتے ہوئے فرماتاہے کہ (تم بھی ان میں سے ایک ہو سب کواسی نے پیداکیاہے (المائدہ /۱۸)
ہمارے نزدیک دوستی وبزرگی کامعیار صرف اورصرف تقویٰ ہے (الحجرات/۱۳)
خداکانہ کوئی بیٹاہے نہ شریک(الاسراء /۱۱۱)
اورکوئی بھی بغیراسکی اجازت کے شفاعت کر ہی نہیں سکتاہے (بقرہ /۲۵۵)
خداوندعالم کی الوہیت کااقرارانسان میں حوصلہ اوراطمینان قلب پیداکردیتاہے کہ پھروہ اب کسی سے نہیں ڈرتا۔حالات سے گھبرانے کے بجائے پوری استقامت صبروتحمل وشجاعت ودلیری کے ساتھ ہرحالات کاڈٹ کرمقابلہ کرتاہے ۔اور بڑے سے بڑے چیلنج کاسامنا کرنے کے لئے ہر آن تیار رہتا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتاہے کہ ہروقت اور ہرجگہ خدا ہمارے ساتھ ہے ۔
میرے بندے جب میرے بارے میں سوال کریں(توان سے کہہ دیں)کہ میں ان سے قریب ہوں اوران کی دعاؤں کوسنتاہوں (بقرہ/۱۸۶)
جولوگ الله سبحانہ کواپناپروردگارمانتے ہیں اورپھراس پرثبات قدمی کامظاہرہ کرتے ہیں ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اورکہتے ہیں ڈرنے اور رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے (فصلت/۳۰)
#آگاہ ہوجاوٴ !ذکرخداسے دلوں کوسکون ملتا ہے (الرعد/۲۸)
جس نے طاغوت کاانکارکیااورخداپرایمان لایا اس نے ایسی مضبوط رسی پکڑلی ہے جوٹوٹنے والی نہیں ہے (بقرہ /۲۵۶)
ایمان باللهہی کی بنیادپرجناب ہود فرماتے ہیں:تم سب مل کراپنی چالیں چلواورمجھے ذرابھی مہلت نہ دومیں نے توخداوندعالم پربھروسہ کیاہے جو ہمارا اورتمہارا پروردگارہے اورکوئی جاندارایسا نہیں ہے جواس کے قبضے میں نہ ہو(ہود/۵۶)
یاخودمرسل اعظمؐ ابوبکرسے کہتے ہیں (جب وہ ایک سانپ کودیکھ کرروناشروع کردیتے ہیں ) کہ ڈرونہیں الله ہمارے ساتھ ہے (التوبہ/۴۰)
یہی نہیں کہ ایک مردمومن غیرخداکی طاقت سے صرف ڈرتانہیں بلکہ اس کے مقابل اس کے ایمان میں اضافہ ہوتاہے جب لوگ کچھ ان سے کہتے ہیں کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہوگئے ہیں ان سے ڈرو(توڈرنے کے بجائے )ان کے ایمان میں اضافہ ہوتاہے اوروہ کہتے ہیں الله ہمارے لئے کافی اوربہترین سرپرست ہے (آل عمران/۱۷۳)
یاجب شمع ایمانی ساحران قوم فرعون کے دلوں میں روشن ہوجاتی ہے اواس کی حرارت ان کی زبان تک آجاتی ہے توپھروہ کہتے ہیں اے فرعون تو ہمیں اپنی سزاسےڈرامت ۔ہمیں تیری سزاکی کوئی پرواہ نہیں،ہم اپنے پروردگارکی طر ف جانے والے ہیں اورہماری بس یہ تمناہے کہ خداہمارے گناہوں کو معاف کردے اوربخش دے ( شعراء /۵۰۔۵۱)
اسی طرح ایک حقیقی وواقعی مومن نہ کسی سے عزت افزائی کاخواہشمندہوتاہے اورنہ کسی کی تذلیل کی پروا کرتا ہے کیونکہ نورایمان کی روشنی میں اب اس کے سامنے قرآنی فلسفہ عزت وذلت موجودہے کہ الله تو جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل ورسواکر دے تیری ہی قدرت میں تمام چیزہے اورتوہی ہر چیز پر قادر ہے( آل عمران /۲۰۶)
اسی طرح خداکاایک نیک بندہ ہرجگہ خدا کو حاضروناظرجانتا اور مانتاہے جس کانتیجہ اس کی روز مرہ کی زندگی میں آشکار وظاہر ہوتاہے اوروہ ہرعمل یہ سوچ کرانجام دیتاہے کہ میراپروردگارمیرے اس عمل کودیکھ رہاہے اوراس سے میراعمل پوشیدہ نہیں ہے یقیناًخداسے زمین وآسمان کی کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے( آل عمران /۵)
ہم نے انسان کوپیداکیااورہم اس کے نفس کے وسوسہ کوبھی جانتے ہیں اوراس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں(ق/۱۶)کوئی سرگوشی تین آدمیوں میں ایسی نہیں جس میں وہ چوتھانہ ہو۔ اور کوئی سرگوشی پانچ آدمیوں میں ایسی نہیں جس میں وہ چھٹانہ ہو یا اس سے زیادہ یاکم آدمیوں کاکوئی اجتماع ایسا نہیں جس میں وہ نہ ہوچاہے وہ اجتماع کہیں بھی ہو (المجادلة/۷)
جوخداکااقرارکرلیتاہے اورہمہ وقت تصورخدا اسکے دماغ میں ہوتاہے تواس میں کہیں سے کوئی انحراف ،کج رفتاری وکج فکری آہی نہیں سکتی ایساانسان عقیدہ وعمل دونوں میدان میں صراط مستقیم پرگامزن رہے گا۔اورواقعی بعنوان ایک انسان کامل بن جائے گاجومطلوب خداہے اورپھراگرتمام انسان یونہی قرآن کی روشنی میں خداکااقرارکرلیں تو ایک بہترین سماج خودبخود وجودمیں آ جائے گا،جہاں نہ ظلم ہوگانہ ستم، نہ برائیاں ہونگی نہ خرابیاں:ہرطرف صدق وصفا،عدل وانصاف اورمساوات وبرادری کاماحول ہوگا،جہاں حکومت صرف اورصرف اچھائیوں کی ہوگی، برائیاں شہربدرہونگی ۔
آج انسانی سماج میں جتنی برائیاں اورخرابیاں ہیں۔جتنی خرافات ،بدعتیں،جتنے مظالم اور ناانصافیاں ہیں سب کی واحداورایک بنیاد یہی ہے کہ یاہمارے یہاں خدا کا کوئی تصورنہیں اسکی الوہیت کااقرارنہیں یااگرہے توہم اپنی عملی زندگی میں اسکوخداتسلیم نہیں کیاہے ۔یااگرتسلیم کیاہے تواسکی صفات میں غیرخداکوشریک ماناہے ۔

Related Articles

Back to top button