دانشکدہعقائدمقالات

برھان نظم

قبلا ًیہ بات واضح ھو چکی ھے کہ خداوند عالم کا وجود واضح اور بدیھی ھے اور ھر انسان کی فطرت میں اس کے وجود پر اعتقاد کوودیعت کیا گیا ھے یعنی ھر انسان فطری طور پر دل کی گھرائیوں سے خدا کے وجود پر یقین رکھتا ھے لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ خداوند عالم کے وجود پر کوئی دلیل یا برھان موجود نہ ھوبلکہ وجود خداوندعالم پر بے شمار دلائل خدا کے معتقدین کی جانب سے پیش کئے جاتے رھے ھیں۔انھیں براھین میں ایک بھت ھی سادہ اور واضح برھان ، برھان نظم ھے ، یہ برھان دو مقدموں پر مشتمل ھے:
الف) تجربات اور شواھد کی روسے یہ بات ثابت ھے کہ اس کائنات میں منظم مجموعے پائے جاتے ھیں یعنی ایک نظم اور انسجام پوری کائنات میں موجود ھے۔
ب) ھر وہ مجموعہ جو منظم ھو اس کے لئے ایک ناظم ضروری ھے (بغیر ناظم کے کوئی بھی شےٴ منظم نھیں ھوسکتی ) ۔
نتیجہ: سابقہ دونوں مقدموں کی روشنی میں یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ وہ منظم مجموعے جو اس کائنات میں پائے جاتے ھیں ان کا ایک ناظم ھے۔
اس برھان کے معنی اور مفھوم کو سمجھنا بھت آسان ھے حتی کہ بھت سے ایسے افراد جو لکھنا پڑھنا بھی نھیں جانتے اس برھان کے معنی سے آشنا ھیں اور اس جھان کے نظم اور انسجام کودیکہ کر اس نظم کو وجود بخشنے والے خدا کی جانب متوجہ ھوجاتے ھیں لیکن اس برھان کی فنی اعتبار سے تبیین و توضیح کے لئے ضروری ھے کہ پھلے نظم کی تعریف کی جائے اور پھر دونوں مقدمات کی وضاحت کی جائے۔

تعریف نظم
کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مخالف اجزاء کا ایک مجموعے میں جمع ھو جانا، اس طریقے سے کہ ان کی باھمی ھماھنگی اور ارتباط کے ذریعے ایک معین غرض حاصل ھو جائے ،نظم کھلاتا ھے۔
مثلا: گھڑی ایک منظم چیز ھے اس لئے کہ اس میں مختلف اجزاء جو کمیت و کیفیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے متفاوت ھیں ،ایک جگہ جمع ھوتے ھیں۔
مقدمہٴ اول: یہ ایک حقیقت ھے کہ اس کائنات میں منظم مجموعے موجود ہیں یھاں تک کہ منکرین خدا بھی اس بات کو قبول کرتے ھیں کہ کائنات منظم ھے اوردرحقیقت علوم تجربی اسی نظم اور ھماھنگی تک پھنچنے کا نام ھے علوم تجربی اور سائنس کی ترقی کے ذریعہ روز بروز کائنات کے نظم کے عجیب و غریب مناظر سامنے آتے ھیں۔ آج اگر کسی بھی دانشمند(چاھے وہ موحد ھو یا ملحد) سے اس کائنات کے بارے میں سوال کیا جائے تو وہ یھی کھے گا کہ اس کائنات میں ایک تعجب آور اور حیران کن نظام کی حکمرانی ھے، خواہ وہ ھمارے وجود کے مختصر ترین ذرات ھوں یا بدن کے دوسرے مختلف اجزاء (قلب، مغز، رگوں کے سلسلے و․․․․) اور ان کی باھمی ھماھنگی اوردوسرے سے ارتباط اورخواہ آسمان کے بڑے بڑے مجموعے، کھکشایٴں اورمنظومہ شمسی وغیرہ اور جھاں تک علم انسانی کی دسترس ھے ، تمام کے تمام مجموعے ایک دقیق نظام کی پیروی کرتے ھیں۔
مقدمہٴ دوم: برھان نظم کا یہ دوسرا مقدمہ بھی واضح اور بدیھی امر ھے اور تمام افراد اس کو قبول کرتے ھیں نیز ھر روز اس سے استفادہ کرتے ھیں۔
ھم جب کسی خوبصورت عمارت کودیکھتے ھیں تو کھتے ھیں کہ یقینا اس کانقشہ کسی ماھر انجینئر نے بنایا ھے اور کسی ماھر مستری کے ھاتھوں نے دیواروں کو بلندکیا ھے۔
جب بھی نھج البلاغہ یا صحیفہٴ سجادیہ کوپڑھتے ھیں تو اس حقیقت کا اعتراف کرتے ھیں کہ ان کلمات کو وجود بخشنے والااعلیٰ درجے کی فصاحت و بلاغت ، حکمت ومعرفت اور علم ودانش کا حامل تھا۔
جب کسی گھڑی کودیکھتے ھیں کہ سھی وقت بتا رھی ھے تو ھمیں یہ یقین ھو جاتا ھے کہ اس گھڑی کو بنانے والا اس کے بارے میں خاص معلومات رکھتا تھا۔
کیا اس طرح اور اسی طرح کے بے شمار موارد میں یہ احتمال دیا جاسکتا ھے کہ یہ چیزیں اتفاقاً یا کسی حادثے کے نتیجہ میںوجود میں آئی ھوں گی یا کوئی ایسا شخص ان کو عالم وجود میں لایا ھوگا جو ان کے بارے میں کوئی اطلاع یا علم نہ رکهتا ھو۔
اگر ھم ایک صفحہ کوٹائپ رائٹر میں لگا ھوا دیکھیں جس پر دقیق علمی مطالب بغیر کسی غلطی کے ٹائپ ھوئے ھوں تو آیا ھم یہ احتمال دے سکتے ھیں کہ ایک نادان بچے نے اتفاقاً اور حادثاتی طور پر ٹائپ رائٹر کے بٹنوں کو دبادیا ھوگا جس کی بنا پر اتفاقاً یہ دقیق علمی تحریر کاغذ پر ٹائپ ھوگئی۔
پس یہ بات ثابت ھے کہ ھر نظم کسی ناظم کے ذریعہ ھی وجود میںآسکتا ھے۔

چند نکات
۱) نظم کو دیکہ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ ناظم کتنا حکیم اور قادر ھے (یعنی ناظم کی قدرت اور حکمت نظم کے تناسب سے ھوتی ھے)۔ لھٰذا مورد نظر نظم جتنا دقیق اور پیچیدہ ھوگا، ناظم کی حکمت وقدرت کو اتنا ھی زیادہ ثابت کرے گا۔

۲) برھان نظم میں یہ روری نھیں ھے کہ تمام کائنات میں نظم ثابت کیا جائے بلکہ اتنا ھی کافی ھے کہ یہ کھا جاسکے کہ کائنات میں دقیق اور پیچیدہ نظام موجود ھے۔
دوسرے لفظوں میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ ھم جس موجودہ نظم کو جانتے ھیں اس کے ذریعہ ایک حکیم ناظم کا وجود اس کائنات میں ثابت ھو جاتا ھے چاھے کائنات کا وہ حصہ جوابھی ھمارے لئے مجھول ھے اس کے نظم کا ھمیں علم نہ ھو۔

۳) برھان نظم ان افراد کے نظریے کو رد کرتا ھے جو کھتے ھیں کہ کائنات اسی فاقد عقل و شعور طبیعت کی پیداوار ھے اور چھوٹے چھوٹے ذرات کی کور کورانہ حرکت اور ان کے ایک دوسرے پر تاثیر اور تاثرات کے ذریعہ وجود میں آئی ھے۔

۴) جتنی سائنس ترقی کرتی جا رھی ھے اتنا ھی کائنات میں نظم کا وجود ثابت ھوتا جا رھا ھے اور برھان نظم کی قوت میںاضافہ ھوتا جا رھا ھے اس لئے کہ اس کائنات کے اسرار سے ھر اٹھایا جانے والا پردہ خدا کے وجود کے اثبات کے لئے ایک آیت اور علامت دانشمندوں کے سامنے پیش کردیتا ھے۔جیسا کہ مشھور ماھر فلکیات ھرشل کا قول ھے:
جتنا زیادہ علم کا دائرہ بڑھتا جائے گا خدائے ازلی اوراس کے وجود کے اثبات پر دنداں شکن اورقوی ترا ستدلالات بھی مھیا ھوتے جائیں گے۔

۵) حالانکہ قرآن کریم نے اثبات وجود خدا پر صریحاً کوئی دلیل قائم نھیں کی ھے( کیونکہ قرآن وجود خدا کو ایک بدیھی امر سمجھتا ھے) لیکن امر خلقت ، عالم کی تدبیر وغیرہ میں خدا کے شریک نہ ھونے اور خدا کے تنھا پروردگار عالم ھونے کو بیان کرتے ھوئے بارھا انسجام اور موجودات عالم کے حیرت انگیز نظم کی یاد آوری کرائی ھے اور لوگوں کو اس پر غور و فکر کی دعوت دی ھے نیز کائنات کے ھر موجود کوخدا کے وجود کی ایک نشانی قراردیاھے۔اس سلسلے میں قرآن کی بعض آیات مندرجہ ذیل ھیں:
إنّ فی خلق السمٰوات و الاٴرض و اختلاف اللیل و النهار لآیات لاٴولی الالباب
بے شک زمین و آسمان کی خلقت ،لیل و نھار کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت خد اکی نشانیاں ھیں۔(۱)
وفی خلقکم و مایبثّ من دآبة آیات لقوم یوقنون
اور خود تمھاری خلقت میں بھی اور جن جانوروں کو وہ پھیلاتا رھتا ھے ان ،میں بھی صاحبان یقین کے لئے بھت سی نشانیاں ھیں ۔ (۲)
إنّ فی خلق السمٰوات و الاٴرض و اختلاف اللیل و النهار و الفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس و ما اٴنزل الله من السماء من ماءٍ فاٴحیا به الاٴرض بعد موتها و بثّ فیها من کلّ دابّة و تصریف الریاح و السحاب المسخّر بین السماء و الاٴرض لآیات لقوم یعقلون۔
بے شک زمین و آسمان کی خلقت ،لیل و نھار کی آمد و رفت اوران کشتیوں میں جو لوگوں کے فائدے کے لئے دریاؤں میں چلتی ھیں اور اس پانی میں جسے خدا نے آسمان سے نازل کرکے اس کے ذریعے مردہ زمینوں کو زندہ کیاھے اور اس میں طرح طرح کے چوپائے پھیلا دئے ھیں اور ھواؤں کے چلانے میں نیز آسمان و زمین کے در میان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کے لئے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ھیں ۔(۳)
وفی الار ض آیات للموقنین و فی انفسکم افلا تبصرون
اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بھت سی نشانیاں پائی جاتی ھیں اور خود تمھارے اندر بھی ۔کیا تم نهیں دیکہ رھے ھو۔(۴)

حوالہ جات:

۱۔آل عمران :۱۹۰ ،
۲۔جاثیہ:۴
۳۔بقرہ:۱۶۴
۴۔ذاریات۔۲۰،۲۱

Related Articles

Back to top button