دانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

سیرت رسول ﷺ اور غیر مسلم

(ڈاکٹر ندیم عباس)

ماہ ربیع الاول ہے، پوری دنیا میں خاتم الانبیاء، افضل البشر، وجہ تخلیق کائنات حضرت محمدﷺ کی ولادت باسعادت کو منایا جا رہا ہے۔ ظلم و بربریت کی چکی میں پستی انسانیت کو انصاف و عزت کا راستہ دکھانے والے آرہے ہیں، بت پسرستی سے انسانیت کو نجات دلانے والے آرہے ہیں، غریبوں، مسکینوں اور فقیروں کی خبر گیری کرنے والے آرہے ہیں، بیٹیوں کے محافظ اور ان کو عزت دینے والے آرہے ہیں، غلاموں کو آزادی کے پروانے عطا کرنے والے تشریف لا رہے ہیں، یہ پورا ماہ خوشیوں اور مسرت کا ہے کیونکہ اس ماہ وہ آرہے ہیں، جو کفر و شرک میں ڈوبی اور زمینی خداؤں میں جکڑی انسانیت کو توحید پرودگار سے جوڑ کر سر بلند و سرفراز کریں گے۔ ویسے تو زندگی کے جس پہلو پر نظر دوڑائیں، نبی اکرمﷺ کی سیرت ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے اور قرآن کا پیغام بھی یہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں غیر مسلموں سے روا رکھے جانے والے نامناسب سلوک کی وجہ سے آج غیر مسلموں کے ساتھ نبی اکرمﷺ کے رویوں کو بیان کروں گا۔

سب سے پہلے ایک فکری کجی کی درستگی بہت ضروری ہے، عام طور پر انتہا پسند لوگ جنہوں نے یا تو پوری سیرت کا مطالعہ ہی نہیں کیا یا جان بوجھ کر ان واقعات اور ان رویوں کو بار بار بیان کرتے ہیں، جو نبی اکرمﷺ نے مدمقابل کفار لشکر اور مسلمانوں سے برسرپیکار گروہوں کے لئے اختیار کئے۔ وہ لوگ جو نبی اکرمﷺ سے جنگ لڑنے کے لئے ان کے مدمقابل آچکے تھے، آپؐ کے عزیز ترین لوگوں کو شہید کرچکے تھے اور اس بات کے درپے تھے کہ نور اسلام کو بجھا دیں، وہ یقیناً تجاوز کئے ہوئے لوگ تھے اور ان سے سختی برتنا قابل فہم ہے۔ مگر کج فہمی کا شکار لوگ جنگ کے مخصوص حالات کے دوران اختیار کئے گئے رویوں کو عام زندگی میں غیر مسلموں کے ساتھ اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جو سیرت رسول اکرمﷺ کے صریح خلاف ہے۔

عام حالات میں غیر مسلموں سے نبی اکرمﷺ کا رویہ رحم دلانہ اور عفو و درگذر پر مبنی تھا۔ ایک بار آپؐ کسی گلی سے گذر رہے تھے، دیکھا کہ ایک سیاہ حبشی غیر مسلم چکی پیس رہا ہے اور ساتھ میں بلند آواز سے کراہ بھی رہا ہے۔ رحمت دو عالم اس کے پاس تشریف لے گئے اور کہا کیوں کراہ رہے ہو؟ اس نے کہا میں ایک یہودی کا غلام ہوں، اپنی غلامی کے بدلے اسے کچھ دینا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بال بچے دار بھی ہوں، ان کے لئے بھی کمانا پڑتا ہے، اب میری عمر بھی کافی زیادہ ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے جوانی والی قوت و طاقت نہیں رہی، ایسے میں جب میں کام کرتے کرتے تھک جاتا ہوں اور کام نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو خود بخود یہ آہیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ نبی مکرمﷺ آگے بڑھے اور اسے اٹھا کر خود چکی چلانا شروع کر دی، کافی دیر چکی چلائی، جب کام مکمل ہوگیا تو جاتے ہوئے اس غیر مسلم حبشی غلام سے کہا میرا نام محمدﷺ ہے، میں عبداللہ کا بیٹا ہوں، بنی ہاشم کے محلے میں رہتا ہوں، جب بھی مدد کی ضرورت ہو مجھے بلا لیا کرو۔ عام معاشرے میں رہتے ہوئے نبی اکرمﷺ غیر مسلموں کے ساتھ ایسا رویہ رکھتے تھے۔

نجاشی نے مسلمانوں کا خوب عزت و اکرام کیا تھا اور انہیں پناہ دی تھی، یہاں تک کہ مکہ کے اپنے دوستوں کو بھی مسلمانوں کے لئے ناراض کر دیا تھا۔ جب حبشہ کے کچھ لوگ آپؐ کے پاس آئے تو آپؐ نے ان کی بہت زیادہ آؤ بھگت کی، کچھ صحابہ نے سوال کیا تو فرمایا، دیکھو جب انہوں نے میرے اصحاب کا اکرام کیا تھا تو آج یہ حق رکھتے ہیں کہ ہم بھی ان کا اکرام کریں۔ اسلام کا یہ بنیادی اصول بھی ہے، احسان بدلہ احسان ہے، اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ احسان کرنے والا مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو۔ کیونکہ اہل حبشہ نے مشکل ترین وقت میں آپؐ کا ساتھ دیا تھا اور مسلمانوں کو پناہ دی تھی تو اس لئے آپؐ نے مسیحی ہونے کے باوجود ان کا خوب اکرم کیا۔

ہمارے معاشرے میں ایک بڑی غلط فہمی بہت زیادہ پھیل گئی ہے کہ کسی بھی غیر مسلم سے انتہائی برا سلوک کیا جاتا ہے اور جب پوچھا جائے کہ ایسا کیوں کیا؟ تو جواب ملتا ہے کہ ایسا اس لئے کیا کہ وہ غیر مسلم ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں، کیا غیر مسلم ہونے کا مطلب تمام حقوق سے دستبردار ہونا ہے؟ کیا غیر مسلم ہونے سے کوئی دائرہ انسانیت سے نکل جاتا ہے؟ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ اسلام نے غیر مسلموں کو بہت زیادہ حقوق دیئے ہیں۔ نبی مکرم تشریف فرما تھے، ایک یہودی کا جنازہ آیا آپؐ کھڑتے ہوگئے، صحابہ کرام نے پوچھا یارسول اللہ یہ تو غیر مسلم ہے۔؟ آپؐ نے فرمایا تو کیا ہوا؟ کیا یہ انسان نہیں ہے۔ آپؐ نے انسان ہونے کے شرف کا خیال رکھا۔

نبی اکرمﷺ نے مدینہ کے یہودیوں اور نجران کے مسیحیوں سے جو معاہدات کئے، ان کی ایک ایک شق پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ آپؐ نے انہیں جان کا تحفظ، مال کا تحفظ، عبادت کی آزادی، داخلی معاملات میں مکمل خود مختاری، ان کے مذہبی معاملات میں عدم مداخلت، ریاست کے شہری ہونے کی وجہ سے کچھ ذمہ داریاں جیسے دفاع کرنا، ٹیکس دینا وغیرہ۔ نجران کے مسیحیوں کے ساتھ جو سلوک آپؐ نے کیا، اسے تو نصاب کا حصہ ہونا چاہیئے۔ جب وہ آپ ؐکے ساتھ مشغول گفتگو رہے تو ان کی عبادت کا دن اتوار آگیا، اس پر انہوں نے آپؐ سے کہا کہ ہم تو ہر اتوار کو عبادت کرتے ہیں، اب ہم کہاں عبادت کریں؟ آپؐ انہیں مدینہ میں کوئی بھی گھر عطا کرسکتے تھے، مگر آپؐ نے انہیں مسجد نبویﷺ میں عبادت کی اجازت دی اور انہوں نے اپنے مسیحی طریقے کے مطابق اللہ کی عبادت کی۔

میں ایک خبر دیکھ رہا تھا کہ ایک مسیحی بچے کو اس لئے مارا پیٹا گیا کہ وہ شدید گرمی کے موسم میں پانی پینے کے لئے مسجد میں داخل ہوگیا تھا۔ اسلام کی کتنی غلط تفہیم ہے اور جب معاشرے میں اس کا اظہار ہوتا تو بجائے اس کے کہ اس کے ساتھ سیرت نبی اکرمﷺ کے مطابق الفت و محبت والا رویہ رکھا جاتا، اسے شربت پلایا جاتا، اس کو مسجد سے محبت دی جاتی اور وہ پھر بار بار مسجد میں آتا اور کسی دن نور اسلام سے منور ہو جاتا، اسلام اور سیرت بانی اسلام کے خلاف چلتے ہوئے اسلام کے نام پر اس غیر مسلم کے دل میں مسجد کا خوف، ڈر اور اہل اسلام کا ایک غیر سلامتی والا چہرہ پیش کر دیا، جو سیرت خاتم الانبیاءؐ کے خلاف ہے۔ خدا ہمیں اسلام کی درست تفہیم عطا فرمائے۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button