مقالاتکربلا شناسی

اربعین سیدالشہداء، عزت و سرافرازی کی میعاد گاہ

(سید نجیب الحسن زیدی)

بحمد اللہ عاشقان حسینی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نجف سے کربلا پورے تزک و احتشام و عزت و وقار کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے، امریکہ، یورپ و افریقہ سے لیکر ہندو پاک اور لبنان و شام نیز دنیا کے گوشے گوشے سے عشق حسینی کے قطرے اس سمندر کا حصہ بنے دنیا کے پرامن و باوقار انسانی مارچ کے ایک حسین منظر کو پیش کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ ہماری عزت، ہمارے وقار اور عزاء سیداشہداء کے سائے میں ہماری سربلندی ساری دنیا کے سامنے وہ اظہار ہے، جسے دائمی بنانے کی ضرورت ہے اور اسکے لئے ضروری ہے کہ نجف سے کربلا تک اپنی روح کو پاکیزہ بنانے کے ساتھ اپنی فکر کو فکر کربلا سے متصل کیا جائے۔ آپ اگر تحریک کربلا پر نظر ڈالیں تو آپکو تین ایسے اہم عناصر نظر آئیں گے، جو کربلا میں بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔
ا۔ عنصر عقل و منطق
۲۔ عزت و سربلندی اور شجاعت ( حماسہ)
۳۔ جذبات و احساسات
ہم بلا شبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں، جو تحریک سید الشہداء کے فکری سرمایہ کو اپنے کاندھوں پر ایک ستون و پلر کی حیثیت سے اٹھائے ہوئے ہیں۔

چنانچہ ہمیں صرف راستہ ہی نہیں چلنا ہے بلکہ راستہ چلتے چلتے اپنے مقصد کی طرف یوں گامزن ہونا ہے کہ اپنا جائزہ لیتے ہوئے چلنا ہے، یہ دیکھنا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے جو کربلا تعمیر کی تھی، وہ کہاں پر ہے اور ہم کہاں ہیں۔ چنانچہ ہم اگر ہم عالم اسلام کی صورت حال کا ایک جائزہ لیں تو ہمیں اپنے اس موجودہ دور میں کربلا سے ہٹ کر وہ شخصیتیں نظر نہیں آتیں، جو قوم کی جذبات و احساسات میں تلاطم بپا کرکے انہیں عزت و سربلندی کی راہوں کی طرف چلنے کے لئے ابھاریں، ایک عجیب قسم کا ہوکا عالم ہے، جیسے موت کے فرشتے نے آکر پوری ملت اسلامیہ کا گلا دبا دیا ہو اور اسکی سانس اکھڑ رہی ہو، ہم ایسے ہی بے حس و حرکت پڑے ہیں، دشمن ہمارے خلاف مسلسل سازشیں کر رہا ہے اور ہمیں ذرا بھی خطرے کا احساس نہیں ہے، بلکہ انتہائی ڈھٹائی و ذلت کے ساتھ ہم کاسہ گدائی لئے دوسروں کے در پر اپنے تحفظ و اپنی بقا کی بھیک مانگتے نظر آرہے ہیں، یہ فکر کربلا سے دوری کا نتیجہ ہے، ورنہ جہاں فکر کربلا ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سے تمام تر مشکلوں کے باجود کربلائی مزاج رکھنے والے لوگ باطل پرست طاغوتی طاقتوں سے نبرد آزما ہیں اور زمانے کی یزیدیت مل کر بھی انکا کچھ نہیں بگاڑ پا رہی ہے۔

نہ اقتصادی ناکہ بندی، نہ ہی دنیا میں الگ تھلگ کر دینے کی پالیسی، کوئی بھی سیاست فکر کربلا کے سامنے چلتی نظر نہیں آرہی ہے۔ ایسے میں کیا ضروری نہیں کہ ملت اسلامیہ مل بیٹھ کر غور کرے اور سمجھے کہ سربلندی و عزت خیمہ حسینی ؑ کے سوا کہیں اور نہیں ملنے والی ہے۔ اس لئے عزت و سربلندی اگر چاہیئے تو در حسین پر سر جھکانا ضروری ہے اور اگر ہم در حسین ؑ پر سر جھکالیں گے تو دنیا و آخرت کی سربلندی ہماری جھولی میں خود آجائے گی، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ حسینی کردار کو اپنے وجود میں اتارا جائے، محض بڑی بڑی باتوں اور نعروں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ امت مسلمہ کا جو حال ہے، وہ تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ کس طرح بڑی ڈھٹائی سے ساری دنیا کو مشرک کہہ کر خود کو پرچم توحید کا وارث قرار دینے والے ملک کو مسلسل فضیحت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انکے اپنے ہی آقا نے آنکھیں دکھاتے ہوئے آئینہ بھی دکھا دیا کہ اگر ہماری بیساکھی نہ ہو تو تم دو ہفتے بھی چلنے کے لائق نہیں۔ یہ بات اپنے آپ میں قابل غور ہے کہ یہ فضیحت و خفت انہیں کے دامن گیر ہے، جو دعویٰ توحید تو کرتے ہیں، لیکن روح توحید سے بے خبر ہیں۔ اس لئے کہ پیغام حسینی ؑ سے لا تعلق ہیں۔

اسکے بر خلاف جہاں حسینی پیغام ہے، وہاں چالیس سال کا عرصہ ہونے آیا، ساری توانائی صرف کر لینے کے باجود بھی دشمن کو سوائے شکست کے کچھ نہیں نصیب ہوا ہے۔ خیر یہ تو امت مسلمہ دیکھ ہی رہی ہے کہ جہاں حسینت ہے، وہاں عزت و وقار کا عالم کیا ہے، جہاں حسینیت سے فرار ہے، وہاں کی ذلتوں کا عالم کیا ہے، لیکن ہمیں اگر ملکی سطح پر بھی اپنے معاشرہ کو عزت و سربلندی عطا کرنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان راہوں کی جستجو کی جائے، جس پر چل کر کربلا والے رہتی دنیا تک منارہ عزت بن گئے اور اسکے لئے زبانی جمع خرچ نہیں، ان راہوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جو عزت و سربلندی پر منتہی ہوتی ہیں، جب ہم ان راہوں پر غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے چند اہم عوامل آتے ہیں، جنہیں عوامل و اسباب عزت کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔

عوامل و اسباب عزت:
1۔ تقویٰ الہیٰ:
تقویٰ کی بنیاد پر یوں تو بہت سے بندگی کے گوہر نکھرتے ہیں اور پروردگار متقی کو بے شمار انعامات سے نوازتا ہے، ان بہت سے انعاموں میں ایک معنوی انعام عزت ہے۔ حدیث میں ہے ’’لاعزٌ اعز من التقویٰ‘‘:’’کوئی عزت تقویٰ سے زیادہ عزیز نہیں ہے۔‘‘[1] ؂ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: «من اراد ان یکون اعز الناس فلیتق الله عزوجل‘[2]”جو لوگوں میں سب سے زیادہ عزت مند ہونا چاہتا ہے، ضروری ہے کہ تقویٰ الہیٰ اختیار کرے۔” تقویٰ سے بڑی کوئی پناہ گاہ نہیں، جس میں انسان جب داخل ہو جائے تو دشمن اسے ہرا نہیں سکتا اور اسے بے عزت نہیں کرسکتا، جو تقویٰ کی پناہ میں آگیا، اسکے مقابل جس نے فسق و فجور کیا، وہ ذلیل خوار ہونے والا ہے۔ چنانچہ امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «اعلموا عباد الله ان التقوی دار حصن عزیز والفجور دار حصن ذلیل; "جان لو اے بندگان خدا، تقویٰ ایسا قلعہ ہے، جو انسان کو ناقابل شکست بناتا ہے اور فسق فجور ایسا محل ہے، جو انسان کو ذلیل و رسوا کرتا ہے۔”[3] ایک تپتے بے آب و گیاہ صحرا میں شہید ہونے والے امام حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب با وفا آج شہید ہو کر بھی لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں حصار تقویٰ کی بنیاد پر۔ اور محلوں میں رہنے والا یزید خوار و ذلیل ہے، اپنے فسق و فجور کی بنیاد پر۔ آج اگر مسلمانوں کو خود انکے ممالک میں کہیں بے عزتی جھیلنی پڑ رہی ہے تو بیرونی عوامل تو اپنی جگہ ہیں ہی، ایک درونی عامل یہی ہمارے گناہ ہیں، ہمارے وجود کے اندر تقویٰ کا نہ ہونا ہے۔ اس لئے کہ اگر ہمارے وجود کے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے تو ممکن نہیں کہ ذلتیں ہمارے دامن گیر ہو جائیں۔ جب تقویٰ نہیں ہوتا تو ہم اسکے در پر کاسہ لیسی کرنے پہنچتے ہیں، جسکی بنیاد پر ہمیں ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

2۔ قرآن کریم:
انسان کے لئے ایک بڑا سبب وسیلہ خود قرآن کا ہے، انسان اگر قرآن سے مانوس ہے تو ذلیل و خوار نہیں ہوسکتا، اسلئے کہ یہ کتاب عزت بخشنے والی کتاب ہے، آج دنیا میں مسلمان ذلیل و رسوا ہیں تو قرآن کو

چھوڑنے کی بنیاد پر۔ شاید اسی لئے ماضی میں جب مسلمان قرآن سے وابستہ تھا تو اسکی حالت اتنی غیر نہ تھی، جتنی آج ہے، کیا ہی خوب کہا تھا علامہ اقبال نے:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
قرآن کی پناہ میں جو آگیا، وہ کیونکر ذلیل و خوار ہوسکتا ہے، جبکہ خود قرآن اسکا محافط ہو۔ امام علی علیہ السلام قرآن کے سلسلہ فرماتے ہیں:’’وعزا لا تهزم انصاره وحقا لا تخذل اعوانه‘‘[4] "یہ ایسی (عزت بخشنے والی) کتاب ہے، جو اپنے دوستوں کو ایسی طاقت دیتی ہے کہ وہ شکست نہ کھا سکیں اور ایسی حقیت ہے کہ اپنے دوستوں کو رسوا نہیں ہونے دیتی۔”

کتنے ذلیل و خوار تھے قرآن کو چھوڑنے والے اور کتنے عزیز تھے، قرآن کو اپنے وجود میں اتارنے والے کہ کٹے ہوئے گلے نوک نیزہ پر بھی تلاوت قرآن کرکے اپنی شکست ناپذیری اور خدا کے حضور اپنے عزیز ہونے کا اعلان کر رہے تھے اور سروں کو کاٹنے و نیزوں پر چڑھانے والے اپنے جسموں پر سر ہونے کے بعد بھی ذلیل و رسوا تھے، کس طرح قرآن سے تمسک عزت دیتا ہے اور کس طرح قرآنی تعلیمات کو بھلا دینے سے انسان ذلیل ہوتا ہے، یہ کربلا بتا رہی ہے۔ آج بھی وہ حسین عزیز ہے، جسے تلاوت قرآن پسند تھی اور اسکے چاہنے والے عزیز ہیں، لیکن وہ یزید پلید جو جاہلیت کے اشعار پر ناز کرتا تھا، آج لعنتوں کا طوق لئے گھوم رہا ہے۔ اب اسی معیار پر ہم خود کو تول لیں کہ جہاں مشاعروں کا دور قرآن کی بزم سے زیادہ ہو، مشاعروں میں ایک بھیڑ امڈی ہو، لیکن قرآن کے دروس کا نام سن کر سانپ سونگھ جاتا ہو اور اگر کہیں کوئی خوش لحن قاری کسی محفل میں پہنچ جائے تو لوگ اسکا استقبال کرنے کے بجائیں گھڑیاں دیکھنے لگیں اور قوالیوں اور نغموں کی محفلوں میں گھڑیاں اتار کر پہنچیں تا صبح محفلیں جمی رہیں، ہلڑ ہنگامہ رہے، قہقہوں کے ساتھ ساتھ واہ واہ اور داد دینے کا سلسلہ رہے تو انسان کو سوچنا چاہیئے کہ وہ کدھر جا رہا ہے۔ اب اگر قرآن پر غور تو دور اسکی تلاوت بھی بھاری پڑے تو ایسے معاشرہ پر ذلتوں کے سائے نہیں منڈلائیں گے تو اور کیا ہوگا۔؟

3۔ اللہ کی ذات پر بھروسہ:
اسباب عزت میں ایک بڑا سبب جسکی بنا پر انسان ہمیشہ عزت کے ساتھ جیتا ہے، خدا پر بھروسہ اور توکل ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں: «الغنی والعز یجولان فی قلب المؤمن فاذا وصلا الی مکان فیه التوکل اقطناه[5]; "بے نیازی و عزت مومن کے دل میں جولانی کرتے رہتے ہیں اور جب وہ ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں، جس میں توکل ہو تو اس پر تصرف کر لیتے ہیں۔” شاید امام محمد باقر علیہ السلام کی یہ حدیث یہ بتانا چاہتی ہو کہ بے نیازی و عزت دو ایسی چیزیں ہیں، جو اس وقت تک انسان کے وجود میں نہیں سماتیں، جب تک اس کے دل میں توکل نہ ہو۔ جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے بھی ایک دوسرے انداز میں اسی بات کو یوں فرمایا ہے: «ان العز والغنی خرجا یجولان، فلقیا التوکل فاستوطنا[6] "بیشک عزت و بے نیازی نکل گئیں اور حرکت کرنے لگیں، پس انکی ملاقات توکل سے ہوئی، وہیں انہوں نے اپنا وطن بنا لیا۔” شاید مفہوم حدیث یہ ہے کہ عزت و بے نیازی اس وقت تک نہیں آتیں، جب تک توکل نہ ہو اور ایک عزت مند و بے نیاز انسان وہی ہوتا ہے، جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہو۔ ظاہر ہے جب وہ خدا پر بھروسہ کرے گا تو این و آن کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرے گا، جسکی بنا پر اسے کسی کے سامنے ذلیل نہیں ہونا پڑے گا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ پر بھروسہ و توکل کیسا ہونا چاہیئے۔

توکل وہ ہے، جس کے سلسلہ سے امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:”من اتکل علی حسن اختیار الله تعالی له لم یتمن غیر ما اختاره عزوجل له”:”جو اللہ کے حسن اختیار (انتخاب) پر توکل کرے، وہ ان چیزوں کی تمنا نہیں کرتا جسے اللہ نے اس کے لئے نہیں چنا ہے۔” توکل یہ ہے کہ انسان سب کچھ خدا پر چھوڑ دے، بندگی کرے اور بس، اپنی کوشش کرے، لیکن یہ نہ سوچے کہ میں کر رہا ہوں، توفیقات کو بھی اپنے مالک کی عنایت جانے، اسی پر بھروسہ کرے اور اسی کی طرف بازگشت کو اپنے دل سے قبول کرے۔ جیسا کہ امام حسین علیہ السلام اپنے وصیت نامے میں بیان فرماتے ہیں: "وهذه وصیتی الیک یا اخی وما توفیقی الا بالله علیه توکلت والیه انیب …[7]”اور یہ میری وصیت ہے تمہارے لئے، اے میرے بھائی کہ کوئی توفیق حاصل نہیں ہوتی مگر خدا کی جانب سے، اسی پر بھروسہ ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔”

اگر ہم کربلا کی آفاقی تعلیمات پر غور کریں تو ہمیں کربلا میں خدا پر بھروسہ و توکل اپنی عالی ترین منزل پر نظر آتا ہے، توکل اگر روایت کے بموجب عزت و بے نیازی کے لئے وطن کی حیثیت رکھتا ہے تو اب ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی خاص پارٹی یا تنظیم کا دامن تھام لینے سے ہمارا کام نہیں چلے گا، اس لئے کہ ممکن ہے کوئی پارٹی کسی خاص زمانے میں ووٹوں کی بنا پر ہم پر مہربان ہو، لیکن الیکشن کے بعد ہی اپنا رنگ دکھانے لگے۔ لہذا یہ بات ہرگز صحیح نہیں ہے کہ اگر کوئی اگر مختلف مذاہب کے درمیان ایک کثیر اللسانی ملک میں رہتا ہے تو سوچے کہ اگر ہمیں ایک کثیر المذاہب اور کثیر اللسانی ملک میں رہنا ہے تو کسی نہ کسی پارٹی کا دامن تو تھامنا ہی ہوگا، انسان اگر خود پر بھروسہ کرتے ہوئے اللہ کا دامن تھامے تو اس کے اندر یہ دم بھی پیدا ہوگا کہ اپنی کنڈیشن کسی بھی پارٹی کے سامنے رکھ سکتا ہے کہ اگر تمہیں اس جمہوری ملک میں ہمارے ووٹوں کی ضرورت ہے تو یہ ہمارے جائز مطالبات ہیں، پہلے ان پر عمل کرکے دکھاو اور یہ کچھ ایسے مطالبات ہیں، جن پر عمل اقتدار کے بعد یقینی ہے تو انکی عملی ضمانت دو، اسکے بعد ہم فیصلہ کریں گے کیا کرنا ہے، لیکن یہ بات تبھی ہوسکتی ہے، جب ہمارے سامنے اپنا وجود نہ ہو بلکہ خدا کا وجود ہو۔

لیکن ہماری بدقسمتی تو ہے یہ ہے کہ چاہے ہمارا اپنا ملک ہو یا ملک سے باہر کا مسلم معاشرہ، ہر طرف دوسروں کی طرف ہم حسرت سے دیکھتے نظر آتے ہیں اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے بل پر کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں، نتیجہ یہ ہے کہ زمانہ ہمیں بری طرح ذلیل کرتا ہے اور ہم میں سے بعض ذلتوں کے طوق ڈالے عزتوں کو تلاش کرنے میں سرگراں نظر آتے ہیں۔ اگر ہم اپنی روح کو کربلا کے ساتھ متصل کر لیں تو یقیناً ایک ہی مقام پر ہمیں یکجا وہ ساری چیزیں مل سکتی ہیں، جنکی بنیاد پر ہم دنیا میں سربلندی کے ساتھ جی سکیں، اس لئے کربلا کی روح کی فریاد ہے "ھییات منا الذلہ۔۔۔” اور یہ اربعین امام حسین علیہ السلام اسی ھیات منا الذلہ کی ایک ادنیٰ تفسیر ہے، بات تو تب ہے جب ہم اسی تفسیر کو یہیں چھوڑ کر نہ جائیں بلکہ اپنا سرمایہ سمجھ کر وہاں لے جائیں، جہاں سے آئے ہیں۔ کاش اربعین کی معنویت، اربعین کا عشق، اربعین کی صداقت، اربعین میں لوگوں کے درمیان ایمانی جذبہ، عشق حسینی کی یہ حرارت یہ سب نجف سے کربلا پہنچ جانے کے بعد ختم نہ ہو جائے اور ہم اسے بچا کر اپنے اپنے وطن تک لے جا سکیں کہ اگر ایسا کر لیا تو یقیناً ہم کہہ سکیں گے کہ ہم منارہ عزت و سربلندی، سید الشہداء کا چہلم منا کر واپس پلٹے ہیں، وہ حسین جس نے گھوڑوں کی سموں سے پامال ہونا گوارا کیا، لیکن اپنی آبرو و عزت کا سودا نہیں کیا تو پھر ہم کیونکر اسکے چہلم سے پلٹ کر آنے کے بعد بھی دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا ہوسکتے ہیں، ہرگز نہیں کہ کربلا میں سربریدہ لاشوں سے سے نکلنے والی آواز اب بھی آ رہی ہے، "ھیات منا الذلہ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
[1]۔ نہج البلاغہ، کلمات قصار،۳۷۱۔
[2] ۔ بحارالانوار، ج 70، ص 285، حدیث 7
[3] ۔ نهج البلاغه، محمد دشتی، ص 292، خطبه 157
[4] ۔ نھج البلاغہ، خطبه 198، ترجمہ دشتی، ص 418[5] ۔ میزان الحکمہ، ج 5، ص 1959، حدیث 12862
[6] ۔ میرزا حسین نوری، مستدرک الوسائل، ج 11، ص 218، حدیث 12793.
[7]۔ ملحقات احقاق الحق، ج 11، ص 602

Related Articles

Back to top button