اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

غرور؛خطرناک بیماری

(سیدہ تسکین فاطمہ رضوی)

تمام انبیاء کا مقصد یہ تھا کہ انسانوں کو صراط مستقیم پر گامزن کریں اور انھیں ان کی خلقت تک پہنچائیں ۔انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ سعادت اور کمال تک پہنچ جائے۔
لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو انسان اور اس کے کمال و سعادت کے بیچ رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں اور یہ رکاوٹ انسان کو حق کے مقابلہ میں نہ جھکنے دینے کا سبب بنتی ہے۔
قرآن کریم کی نظر سے سب سے بڑی چیز جو انسان کو کمال تک نہیں پہونچنے دیتی” غرور و تکبر ” ہے ۔یہ تاریخ رہی ہے کہ ہمیشہ انبیاء کے سامنے لفظ ”میں” کے بت کھڑے رہے ہیں اور ”میں” جیسے الفاظ مغرورانہ انداز میں ادا ہو تے رہے ہیں۔انبیاء کی مخالفت کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد ، دولتمند افراد کی ہی نظر آتی ہے ، جب ہم ان لوگوں کے حالات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سب سے زیادہ جو چیز انھیں حق کی طرف دعوت قبول کرنے سے روکتی تھی وہ ان کا غرور و تکبر ہی تھا ۔یہ ان لوگوں کا ”میں” تھا جس نے انھیں خدا کی بارگاہ میں سر جھکانے نہ دیا ۔
فرعون نے کہا (انا ربکم الاعلیٰ)میں تمھارا پرور دگار ہوں ۔کیوں؟اس لئے کہ وہ اس ” میں” کا غلام تھا۔اس ”میں” کی زنجیر میں جکڑا ہوا تھا ، خود کو اس ”میں” کے جال سے رہا نہیں کر پا رہا تھا ، یہی وجہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے اولو العزم نبی کے مقابلہ میں کھڑا ہو گیا ۔
یہی”میں” نمرود کے وجود میں بھی نظر آتی ہے جس کی وجہ سے جناب ابراہیم علیہ السلام جیسے نبی سے مقابلہ کیا جنھیں”خلیل اللہ” کا لقب ملاتھا۔
جب جناب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:۔میرا خدا وہ ہے جو زندگی اور موت عطا کرتا ہے تو نمرود نے جواب دیا:۔(انا احی و امیت)(بقرہ٢٨٥)
یعنی میں بھی زندگی اور موت عطاکرتا ہوں، یہ کہہ کر دو قیدیوں کو طلب کیا ، جس کو سزائے موت سنائی گئی تھی اسے آزاد کر دیااور جو بے گناہ تھا اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا اور کہا دیکھو میں نے بھی ایک کو زندگی عطا کی اور دوسرے کو موت دی ہے ۔
جناب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:۔ میرا خدا وہ ہے جو سورج کو مشرق سے طلوع کر تا ہے اور مغرب میں غروب کر تا ہے ، اگر تو خدا ہے تو صرف ایک بار مغرب سے نکال کر دکھا دے، نمرود سے جواب نہ بن پڑا اوراپنا سا منھ لے کر رہ گیا ۔بہر حال پوری تاریخ میں ہمیں یہی ملتا ہے کہ سب سے بڑی رکاوٹ دعوت حق کو قبول کر نے میں یہی”میں” تھا۔
غرور اور تکبر کے اسباب :
١۔غرور اور تکبر کے کے اسباب میں سے ایک سبب ”علم و دانش” ہے،کبھی کبھی بعض اشخاص چار کتابیں پڑھ لینے کے بعد یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ علامۂ دہر ہیں اور ان سے بڑا عالم کوئی نہیں ہے۔
٢۔دوسرا سبب، ”عبادت ہے ” دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نوافل، واجبات، مستحبات کو ادا کر تے ہیں لیکن ساتھ ساتھ اس غرور میں بھی مبتلا ہوجا تے ہیں کہ وہی اللہ کے نیک اور محبوب بندے ہیں ، حالانکہ خدا کی بندگی اور تکبر دو ایسی مختلف چیزیں ہیں جو ایک ساتھ جمع ہو ہی نہیں سکتیں ، تکبر کی مثال اس زہر جیسی ہے جسے لذیذ اور مزہ دار کھانے پر چھڑک دیا جائے جس کے نتیجہ میں کھانے کی تمام لذت ختم ہو جا ئے گی۔
٣۔”حسب و نسب” بھی کبھی کبھی غرور کا سبب بن جاتا ہے۔
ایک شخص پیغمبر اسلام ۖ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا ، مجھے پہچانتے ہیں؟میں فلاں کا بیٹا، اور وہ فلاں کا بیٹا ، اور وہ فلاں….اسی طرح نو پشتوں تک گنتا چلا گیا ، پیغمبر ۖ نے فرمایا:۔اور تم دسویں ہو جو ان کے ساتھ جہنم میں رہو گے اپنے کافر آباؤ اجداد پر میرے سامنے فخر کر رہے ہو؟
٤۔”قوت و شجاعت” بھی غرور کا سبب ہے، لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ طاقت اور بہادری ایک فانی چیز ہے ، ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے ، بلکہ خدا نے دی ہے اور جب چاہے گا لے لے گا ، ایک چھوٹی سی بیماری اتنا کمزور بنا سکتی ہے کہ طاقت و بہادری کا نام و نشان تک مٹ جائے۔
٥۔”خوبصورتی” بھی غرور کا سبب بن جاتی ہے لیکن یہ بھی طاقت کی طرح ہمیشہ باقی رہنے والی چیز نہیں ہے ۔
٦۔”سلطنت وحکومت ” بھی انسان کو اس طرح غرور میں مبتلا کردیتی ہے کہ وہ لوگوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے ، اگر کوئی شخص کسی چھوٹے سے مدرسہ کا پرنسپل بن گیا تو اس طرح اکڑ کر چلتا ہے جیسے کہ پرائم منسٹر ہو گیا ۔امام خمینی فرماتے ہیں:۔”مجھے لوگوں کا رہبر کہنے سے بہتر یہ ہے کہ مجھے لوگوں کا خدمت گذار کہا جائے ”
مولائے کائنات علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ ولأ لفیتم دنیاکم ھٰذہ أزھد عندی من عفطةعنز..(نہج البلاغہخ٣)
یعنی تم لوگ جانتے ہو کہ تمھاری دنیا میری نظروں میں بکری کی ناک سے نکلے ہوئے پانی سے بھی زیادہ بے وقعت ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:۔ واللّٰہ لدنیاکم ھٰذہ أھون فی عینی من عراق خنزیرفی ید مجزوم(نہج البلاغہ فیض:کلمات قصار٢٢٨)
یعنی خدا کی قسم میری نظر میں تمھاری دنیا سور کی اس ہڈی سے بھی زیادہ بے ارزش ہے جو کسی مجزوم کے ہاتھ میں ہو ۔
جس انداز سے مولا علیہ السلام نے دنیا کی تحقیر کی ہے اس سے زیادہ دنیا کو اور حقیر نہیں کیا جا سکتا لہٰذا انسان کو چاہیئے کہ خود کو اس چند روزہ دنیا کی روشنی اور خوشی میں بھلا نہ بیٹھے ، چونکہ دنیا کی خوشیاں، عزیزو رشتہ دار ، منصب و مقام….کوئی بھی چیز ابدی نہیں ہے بلکہ ایک دن ہر چیز کو فنا ہونا ہے تو فانی چیزوں کے لئے خود کو کیوں تکبر و غرور کا اسیر اور قیدی بنائیں؟
جو چیز ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے وہ تقویٰ ہے علم و دانش بھی انسان کو ہر جگہ نہیں بچا سکتا ۔
وہ چیز جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور اسباب غرور کو ختم کر سکتی ہے ، صرف و صرف تقویٰ ہے ، صرف انسان کا عمل اوراس کا خدا کے ساتھ رابطہ بر قرار کرنا ہے۔

 

Related Articles

Back to top button