حضرت محمد مصطفیٰ (ص)دانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

سیرت رسول اکرم (ص) میں انسانی عطوفت اور مہربانی کے مظاہر(2)

(تحریر: آیت اللہ محمد علی تسخیری )
(ترجمہ و تلخیص: سید نجیب الحسن زیدی)

گذشتہ تحریر میں ہم نے انسانی عطوفت و مہربانی کے اسلامی اور قرآنی تصور کو واضح کرتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت سے انسانی عطوفت اور مہربانی کے کچھ نمونوں کو پیش کیا تھا، پیش نظر تحریر میں انشاءاللہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی سے مزید کچھ احسان و رحمت کے نمونوں کو پیش کرینگے، تاکہ بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبارک موقع پر حضور سرورکائنات کی زندگی کے ان عملی نمونوں کے پیش نظر ہم بین الاقوامی سطح پر اپنی ذمہ داری کو سمجھ سکیں کہ بعثت کے موقع پر صرف مبارکباد کے ایس ام ایس بھیج دینا، یا واٹس پر پر امیج بنا کر بھیج دینا کافی نہیں ہے، بلکہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ۲۷ رجب المرجب کو جو نبی مبعوث بہ رسالت ہوا اسکی عملی زندگی کیا تھی اور اسکی عملی زندگی اور ہماری عملی زندگی میں کتنا فاصلہ ہے۔ جتنا ہم حضور سرور کائنات (ص) کی زندگی سے اپنی زندگی کے فاصلہ کو کم کر لیں گے، اتنا ہی ہدف بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نزدیک ہو جائیں گے، اتنا ہی ہماری خوشیاں بامعنی ہو نگی، ورنہ ہماری خوشیاں کھوکھلی ہونگی، ہمارے نعرے بے روح ہونگے۔ آئیے دیکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں انسانی عطوفت و مہربانی کے جلوے ہم سے کیا مطالبہ کر رہے ہیں۔

روایات و احادیث میں احسان و ایثار اور سیرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت اور سیرت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ احسان و ایثار بھی رحمت اور عطوفت ہی کی طرح وسیع مفاہیم کا حامل ہے، ذیل میں آنے والی احادیث سے یہ بات مزید روشن ہو جاتی ہے۔
١۔ ”ہر انسان یا زندہ حیوان کے ساتھ نیکی کرنے کا اجر رکھا گیا ہے”۔ امام زین العابدین نے اسی حدیث سے استناد کرتے ہوئے ”حروریہ” نامی خوارج کے ایک گروہ کو جو اہلبیت کے سخت دشمن تھے، کھانا کھلانے کو صحیح اور جائز جانا ہے۔ (ابن حنبل، ج، ٢ ص ٧٣٥، بیہقی، ج، ٤، ص ١٨6، ج، ٨، ص ١٤، ر.ک: صدر، ص ١٦٠)۔
٢۔ ہر نیک کام ایک صدقہ ہے ۔ ( مسلم ، ج ، ٢، ص ٦٩٧،ح ٥٢، مستدرک الوسائل ، ج ١2، ص ٣٤٣، ح، ٢٠)
٣۔ کسی بھی نیک کام کو کم مت سمجھو، چاہے اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات ہی ہو کیوں نہ ہو (مسلم م ج، ٤، ص ٢٠٢٦، ح ١٤٤ و ثواب الاعمال، ج، ٢ ص ١٢٤٠ ، ح ٧)۔
٤۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا ہے، اسے اسکے حال پر نہیں چھوڑتا ہے، جو بھی اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے کے لئے آگے بڑھتا ہے خدا اسکی حاجت اور ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ جو کوئی بھی کسی ایک مسلمان کی کسی کوئی مشکل حل کرتا ہے، خداوند عالم روز قیامت اسکی مشکل کو برطرف کرتا ہے اگر کوئی کسی مسلمان کو اپنی پناہ میں لے تو خداوند قیامت کے دن اسے اپنی پناہ میں لے لیگا۔ (مسلم، ج، ٤، ص ١٩٩٦، ح ٥٨)۔

٥۔ مومن مومن کا آئینہ ہے، مومن مومن کا بھائی ہے، مومن مومن کی فکر میں رہتا ہے اور اسکی عدم موجودگی میں اپنے بھائی کا دفاع کرتا ہے۔ (ابو داؤد، ج، ٤، ص ٢٨٠، ح ٤٩١٨، اھوازی، ص ٤١)۔
٦۔ اشعری ”قبیلہ کے لوگوں میں جب کبھی انکی عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں یا انکے گھر میں آذوقہ کم ہو جاتا ہے تو جس کے پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے سب ایک جگہ جمع کرتے ہیں اور پھر ایک ہی پیمانہ سے سب کے درمیان برابر برابر سے تقسیم کر دیتے ہیں، وہ اس امر میں مجھ سے ہیں میں ان سے ہوں۔ (مسلم، ج، ٤، ص ١٩٥٥، ب ٣٩)
٧۔ دو لوگوں کا کھانا تین لوگوں اور تین لوگوں کا چار لوگوں کے لئے کافی ہے۔ (بخاری، ج، ٥، ص ٢٠٦١، ح ٥٠٧٧ و دعائم الاسلام ، ج، ٢ ِ ص ١٦)۔
٨۔ چالیس خصلتیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی انہیں ثواب کی خاطر انجام دے تو خداوند متعال اسے بہشت میں جگہ دے گا، ان میں سب سے بڑا اور بہترین کام کسی کو بکری تحفہ میں دینا ہے۔ ( اسکے دودھ سے استفادہ کے لئے)، صدوق، الخصال، ج، ٢ ص ١٥٤٣ ، ح ١)۔
٩۔ بیوہ عورتوں اور محتاجوں کے کام آنے اور انکی مدد کرنے والے لوگ راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کی طرح ہیں۔ ( بخاری، ج، ٥، ص ٣٠٤٧)، ح٥٠٣٨، و مسلم ، ج، ١)
١٠۔ تمہارے غلام تمہارے ہی بھائی ہیں۔ (بخاری، ج، ١، ص ٢٠، ح، ٣٠، مسلم ج، ٣ص ١٣٨٢، ح ٢٨، تنبیہ االخواطر، ج، ١ص ٥٧)۔
١١۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ خداوند روز قیامت اسکی مدد کرے، اسے چاہیئے کہ کسی کے کام آئے۔ (مسلم، ج، ٣، ص ١١٩٦، ح، ٣٢، ثواب الاعمال، جلد ١ ص ١٧٩، ح ١)۔

احادیث مذکورہ کے پیش نظر عاشق و پیروِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذمہ داری:
ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پیرو مسلمان ایک ایسے نیک انسان کی صورت میں تبدیل ہو جاتا ہے، جو ہر انسان یا ہر جاندار کے ساتھ نیکی کرتا ہے۔ ہر طرح کے اچھے کام انجام دیتا ہے چاہے وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں، اپنے بھائی کے اچھے اور برے وقت میں اسکے ساتھ رہتا ہے اور اسے اپنے آئینہ کی صورت سے دیکھتا ہے ”اشعریوں” کی طرح اپنی روٹی بھی دوسروں کے ساتھ تقسیم کرتا ہے۔ بیوہ عورتوں اور ضرورتمندوں کی فریاد رسی کرتا ہے۔ لوگوں کا احترام، بخشش، اچھی باتیں، رواداری کا سلوک، اور حسن ظن، یہ تمام صفات جو ذکر ہوئیں، سب کی سب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مہر و محبت کے جلوے ہیں، ذیل کی احادیث انکی ترجمانی کر رہی ہیں۔
١۔ جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عرفہ میں لوگوں سے خطاب کے دوران فرمایا : تمہارا خون اورتمہارا مال اس دن ، اس جگہ اور اس مہینہ کی حرمت کی طرح تم پر حرام ہے ( مسلم ، ج، ٢، ص ٨٨٩، ح ١٤٧، دعائم الاعلام ، ج، ٢، ص ٤١٣ ، ح ٤١٠ و مستدرک الوسائل ، ج، ١٨، ص ٢٠٦)۔
٢۔ اپنی عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو تم نے انہیں خدا کی امانت کے طور پرحاصل کیا ہے اور وہ خدا ہی کے نام پر تمہارے اوپر حلال ہوئی ہیں۔ (دعائم الاسلام، ج، ٢، ص ٢١٤، ح ٧٨٩)۔
٣۔ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی سفارش کرو۔ ( بخاری، ج، ٣، ص ١٢١٢، ح ٣١٥٤)۔
٤۔ جو بھی کسی ایسے شخص کو قتل کر دے، جس کے ساتھ کوئی پیمان باندھا ہو تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا جبکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کے فاصلہ سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

٥۔ آپ مجاہدین کو یہ نصیحت کرتے تھے۔ ” لڑو لیکن خیانت نہ کرو ،مقتولین کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کرو اور بچوں کو قتل نہ کرو۔ (نصب الرایہ ج، ٣، ص ٣٨٠، و دعائم الاسلام، ج، ١ص ٣٦٩)۔
٦۔ سلام واضح اور آشکار طور پر کرو، اپنی باتوں کے لئے نرم لہجہ اختیار کرو، صلہ کرو رات کو جب لوگ سو رہے ہیں اس وقت نماز بجا لاؤ تاکہ جنت میں داخل ہو جاؤ۔ (ابن حنبل، ج، ٢، ص ٤٩٣، رازی، ج، ٢، ص ١٧، مستدرک الوسائل ، ج، ٨، ص ٣٦٤)
٧۔ نرم و ملائم لہجہ میں گفتگو صدقہ ہے۔ (ابن حنبل، وہی مدرک، ص ٢١٣، کافی ج، ٢ ص ١٠٣ ، ح ٢)۔
٨۔ ہم کچھ لوگوں کے سامنے خنداں پیشانی سے ملتے ہیں جبکہ دل میں ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ (یعنی انکے برے کردار سے دور رہتے ہیں لیکن ان سے بدکلامی نہیں کرتے)۔
٩۔ لوگوں کے ساتھ رواداری کا سلوک صدقہ ہے۔ (ابن حبان، ج، ٢، ص ٢١٦ و ری شہری، ج، ٢٧ ، ص ١١٥٤، ح ٥٤٩٦)۔
ان تمام چیزوں کو دیکھ کر یہ بات ملاحظہ کی جا سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر انسان کے احترام کی دعوت دیتے ہوئے مومنین کرام کے درمیان ایک دوسرے کے لحاظ اور ایک دوسرے کو گزند نہ پہچانے کی تلقین، عورتوں کے سلسلہ میں حسن سلوک نیز عھد و پیمان کی رعایت اور جنگ کی صورت میں انسانی آداب کی رعایت کا حکم دے رہے ہیں۔ صلح و محبت، اچھی باتیں، صلہ رحم اور خدا کے حضور خضوع و خشوع کے ساتھ رات کی تاریکی میں نماز، ملائم گفتگو، جنکے لئے دل میں کوئی نفرت یا کینہ پایا جاتا ہے، ان سے بھی رواداری سے ملنا ملانا یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں آنحضرتۖ اسلامی سماج میں رائج دیکھنا چاہتے ہیں، وہ چیزیں ہیں جنکے آج ہم ہر دور سے زیادہ محتاج ہیں۔(جاری ہے)

Related Articles

Back to top button