دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

یزید سے یزید تک

( سید اسد عباس تقوی )

یزید فقط 70ھ کی دہائی میں نمودار ہونے والے ایک فرد کا نام نہیں بلکہ یہ لفظ ریاستی دہشت گردی کا وہ استعارہ ہے، جس کے مظاہر آج بھی ہم دنیا میں مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ 61ھ میں یزید کے اقتدار میں آنے سے قبل اور بعد، مسلم معاشرہ جس خوف کی فضا سے دوچار تھا اس کا اندازہ تاریخ کی کتابوں کے مطالعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ امام حسن ﴿ع﴾ کے خلاف سازشیں، ان کے ساتھیوں کو دھمکیوں اور رشوتوں کے ذریعے امام ﴿ع﴾ سے دور کرنا، امام حسن ﴿ع﴾ پر میدان جنگ میں قاتلانہ حملہ، ان کو صلح پر مجبور کرنا اور پھر ان کے باوفا ساتھیوں کو چن چن کر قتل کرنا، مسلمانوں کی املاک پر قابض ہونا، من پسند افراد کو اعلٰی ترین مناصب پر متعین کرنا، بیت المال میں خرد برد اور آخر کار ایک شارب الخمر، کھلنڈرے نوجوان کو منبر رسول ﴿ص﴾ پر براجمان کرنا، انہی خیانتوں میں سے چند ایک ہیں جن کا حوالہ امام حسین ﴿ع﴾ نے بیعت کے تقاضے پر مشتمل امیر شام کے خط کے جواب میں دیا۔

کیا تو حجر بن عدی ان کے بھائیوں اور نماز گزار ساتھیوں کا قاتل نہیں ہے، جو تجھے ظلم کرنے سے روکتے تھے اور بدعتوں کے مخالف تھے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتے تھے؟ کیا تو صحابی رسول عمرو بن حمق ﴿ر﴾ جیسے عبد نیک خصال کا قاتل نہیں ہے، جن کا جسم عبادت خدا کی وجہ سے نڈھال ہوچکا تھا اور کثرت عبادت کے سبب ان کا رنگ زرد پڑ چکا تھا؟ خدا نہیں بھولا ان گناہوں کو جو تو نے کئے، کتنوں کو محض گمان پر تو نے قتل کیا۔ کتنے اولیائے خدا پر تو نے تہمت لگا کر انہیں قتل کیا۔ کتنے اللہ والوں کو تو نے ان کے گھروں سے نکال کر شہر بدر کیا اور کس طرح تو نے یزید جیسے شرابی اور کتوں سے کھیلنے والے کے لیے لوگوں سے زبردستی بیعت لی۔

ہونہار بیٹے نے والد کے بنائے ہوئے نظام سلطنت کو مزید ترقی دی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ کسی بھی عزت دار آدمی کے لیے اپنی عزت کو محفوظ رکھنا اور ناموس کو بچانا مشکل ہوگیا۔ اس مقصد کے لیے اس کے پاس پہلے سے موجود وفاداروں کی ایک ایسی فوج ظفر موج تھی جو اپنی بربریت میں ثانی نہیں رکھتے تھے۔ کوفہ میں جب حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام نے امام حسین ﴿ع﴾ کے لیے بیعت لینی شروع کی تو ہزاروں افراد آپ کے گرد جمع ہوگئے۔ ان حالات سے پریشان ہو کر بنی امیہ کے وفاداروں اور نمک خواروں نے یزید کو خط لکھا کہ کوفہ تیرے ہاتھوں سے نکلا چاہتا ہے، اگر اس حکومت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو والی کو بدل دے۔ یزید جسے بجا طور پر 70ھ کی دہائی کا سب سے بڑا دہشت گرد کہا جاسکتا ہے، نے اپنی شقی ترین کارندے عبیداللہ ابن زیاد کو کوفہ بھیجا اور حالات کو ہر حال میں کنڑول کرنے کا کہا۔ عبید اللہ ابن زیاد نے مکرو فریب کا وہ جال بچھایا کہ مسلم بن عقیل تن و تنہا رہ گئے اور شہید کر دیئے گئے۔

تاریخ کہتی ہے کہ امام حسین ﴿ع﴾ نے جب یزید کے اس سوال پر کہ یا بیعت کرو یا موت کے لیے تیار ہو جاؤ، مثلی لا یبایع مثلہ کہا تو بہت سے خیر خواہوں نے حالات کے تناظر میں فرار کر جانے کا مشورہ دیا۔ کوئی کہتا فرزند رسول پہاڑوں کی جانب نکل جائیں، کوئی کہتا ہندوستان چلے جائیں، کوئی کہتا تھا سرحدی علاقوں کا رخ کر لیں، کوئی کہتا خواتین کو نہ لے جائیں۔ ان سب مشوروں کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے اور وہ یہ کہ عبداللہ ابن عباس اور ان جیسے دیگر خیر خواہ جانتے تھے کہ جس قسم کا گروہ اس وقت عنان اقتدار میں ہے، اس سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ وہ جانتے تھے کہ یہ گروہ حتّی ناموس مصطفٰی ﴿ص﴾ اور نسبت رسول ﴿ص﴾ کو بھی اہمیت نہیں دے گا۔ بالآخر وہی ہوا جس کا ظاہری طور پر خطرہ تھا۔ کربلا میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نواسہ اپنے اصحاب و انصار کے ساتھ شہید ہوا ، ان کے بے گور و کفن لاشے میدان میں موجود تھے اور حرم رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اسیر کرکے کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں پھرایا گیا۔

حسین ﴿ع﴾ کے قتل اور ان کے خانوادے کی بے حرمتی پر ہی بس نہ کی گئی۔ ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ مزید پھیلا، مدینہ الرسول صلی اللہ والہ وسلم پر لشکر کشی کی گئی۔ واقعہ حرہ کے نام سے موسوم اس سانحہ میں مدینہ کے شہریوں کا خون اور عزت جارح لشکر پر تین روز کے لیے مباح قرار دے دے دی گئی۔ تاریخ کہتی ہے کہ اس سانحے میں سینکڑوں مدنی مسلمان شہید ہوئے اور صحابہ و تابعین کی بیٹیاں یزیدی لشکر کی درندگی کا نشانہ بنیں۔ مسجد نبوی تین دن تک یزیدی فوج کا اصطبل بنی رہی۔ مدینہ کے بعد اس لشکر نے مکہ مکرمہ کا رخ کیا اور بیت اللہ کو منجنیقوں سے نقصان پہنچایا گیا۔ عبداللہ ابن زبیر کو بیت اللہ کی پناہ میں قتل کیا گیا۔ کوفہ میں یا ثارات الحسین کا نعرہ لگانے والوں کو تہ تیغ کیا گیا۔ کتب تاریخ، یزید اور اس کی ریاستی دہشت گردی کے جرائم سے پر ہیں، یہی سبب ہے کہ طول تاریخ میں محدودے چند کے ہر طبقہ فکر نے اس فرد کو مستحق لعن قرار دیا اور اس کے اعمال کو نفرت کی نظر سے دیکھا۔

70ھ کی دہائی کے یزید اور اس کے جرائم کے ذکر کا مقصد آج کے یزیدی کردار کی شناخت ہے۔ فرق ہے تو اتنا کہ کل کا یزید امت مسلمہ کا ایک کردار تھا، جبکہ آج اس کردار کی حامل قوت دنیا کے سمٹ جانے کے سبب عالمی حیثیت کی حامل ہے۔ کل اس کردار کی عکاس شخصیات اور افراد تھے جبکہ آج ان کی جگہ اداروں اور ریاستوں نے لے لی ہے۔ یہ وہی قوت ہے جس نے مسلمانوں کی ایک اکائی جو خلافت عثمانیہ کے عنوان سے قائم تھی، کو سازشوں کے ذریعے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کیا۔ ایسا کرنے کے لیے اس نے کہیں لشکر کشی کی تو کہیں رشوتوں اور لالچ سے کام چلایا۔ تقسیم کے عمل کے بعد مسلمان ریاستوں پر ایسے گماشتے تعینات کیے جو اپنے آقاؤں کی وفاداری میں کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔

یزیدی کردار کی حامل اس قوت نے جب عالمی اقتدار کے خواب سے ہاتھ کھینچا تو اپنے ہی نسل کے ایک دوسرے کو اس منصب پر فائز کر دیا۔ آزادی، انصاف اور انسانی عظمت کے نعروں پر قائم ہونے والا امریکہ جلد ہی استحصالی اداروں کے اشاروں پر ناچنے لگا، اس ریاست کی حکومتوں نے انسانیت پر ظلم کی وہ تاریخ رقم کی، جس سے بربریت کی گزشتہ تمام مثالیں بھی شرمانے لگیں۔ ہیروشیما اور ناگاسا جیسے ہنستے بستے شہروں کو اپنی دہشت کی مثال بنانے کے لیے باسیوں سمیت زمین بوس کر دیا گیا۔ ویت نام میں خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ کبھی بغل میں چھری اور منہ پہ رام رام اور کبھی Either you are with us or against us کے الفاظ میں دھمکیاں۔

9/11 نامی واقعہ کے بعد تو خوف و دہشت کا وہ بازار گرم ہوا کہ مسلمان ہونا ایک گالی بن گیا۔ دو میناروں کی تباہی کا بہانہ کیا ملا، دو مسلمان ریاستوں پر آگ و خون کی بارش کر دی گئی۔ جس کا خمیازہ آج بھی مسلمان ریاستیں بالخصوص پاکستان دہشت گردی، عسکریت پسندی اور ڈرون حملوں کی صورت میں بھگت رہی ہیں۔ ابو غریب، گوانتانامو بے اور جلال آباد جیل کی داستانیں زیادہ دور کے قصے نہیں۔ عراقی جیلوں سے لکھے جانے والے قیدی خواتین کے مراسلے، عافیہ صدیقی اور ان جیسی ہزاروں ان کہی داستانیں، مسلمان ریاستوں کے مال اور افرادی قوت پر عالمی اداروں کے ذریعے شب خون کا سلسلہ، مسلمان علاقوں پر غاصبانہ قبضہ۔ غزہ، فلسطین اور لبنان کے بیدار اور آگاہ مسلمانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اسرائیل کی صورت میں عبیداللہ ابن زیاد کی تعیناتی۔ CIA,FBIاور بلیک واٹر کے نام سے گماشتوں کا لشکر جو پوری دنیا میں اس یزید کی دھاک بٹھانے میں مصروف ہے، چند ایک ایسے ہتھکنڈے ہیں، جو 61ھ کے یزید اور 21 ویں صدی کے یزید کے جرائم میں مشترک ہیں۔

شاید یہی ”کل یوم عاشورة و کل ارض کربلا“ کی تفسیر ہے، تاہم آج کامعرکہ کربلا اس حوالے سے زیادہ کٹھن اور پرخطر ہے کہ اس میں یزید وقت اور اس کے گماشتوں کے خلاف برسرپیکار قوتوں کے قافلہ حریت میں حسین ﴿ع﴾ موجود نہیں۔ وہ حسین ﴿ع﴾ جو وجود خدا پر سب سے بڑی دلیل و حجت تھا، وہ حسین ﴿ع﴾ جو امیدوں کا مرکز تھا، وہ حسین ﴿ع﴾ جو مشکلات، پریشانیوں اور مصائب کے مقابلے میں پناہ گاہ تھا، جس کا وجود دل کو ڈھارس بندھاتا تھا، جس کے الفاظ کی شیرینی رگ وپے میں ایمان کے دیپ روشن کر دیتی تھی، جس کے کہنے پر ہزار مرتبہ جان قربان کرنا حقیر سا عمل محسوس ہوتا تھا، جو حق کا پیمانہ تھا، جس کی سانسوں سے نفس رسول ﴿ص﴾ کی مہک آتی تھی، جو جوانان جنت کا سردرار تھا اور جس کے بارے میں رسول ﴿ص﴾ نے فرمایا تھا کہ حسین ﴿ع﴾ مجھ سے ہے اور میں حسین ﴿ع﴾ سے ہوں۔ اس کے باوجود انسانی عظمت و حرمت کا داعی یہ کاروان توحید، حسینی ﴿ع﴾ فکر و عزم کو ذہنوں میں بسائے، کربلا والوں کی منہج پر گامزن ہے اور اس حسین زمان (عج) کی آمد کا منتطر ہے، جس نے حق و باطل کے اس ازلی معرکہ کو حتمی نتیجے تک لے جانا ہے، جس کا وعدہ لسان صدق نے ان الفاظ میں کیا:
قل جاءالحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button