دانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

حضرت امام محمد تقی (ع) کی مجاہدانہ زندگی

(کاشف علی رضوانی)

وہ امام جسکی امامت نے حضرت عیسی و یحیٰی علیہم السلام کی نبوت کی داقت کو مستحکم کر دیا، وہ امام جس نے ثابت کردیا کہ نبوت و امامت سن و سال میں مقید نہیں ہے، وہ امام جس نے پھر سے دربار میں غرور کا سرکچل دیا، سلسلہ تخلیق میں روئے زمین پر سب سے عجیب داستان، انسان کی داستان خلافت اور جانشینی ہے۔ اگر غور سے دیکھیں، تمام مخلوقات پر انسان کو جو برتری حاصل ہے وہ اسی عطیہ الٰہی کے سبب ہے کہ خدا نے زمین پر انسان کو اپنا نمائندہ بنایا ہے۔ انبیاء اور اوصیا کا سلسلہ آدم سے خاتم تک اور پیغمبر اسلام سے حضرت مہدی تک خدا شناسی اور معنویت کی تاریخ میں اس سلسلہ کوہ کے مانند ہے جو اپنے دامن میں علم و حکمت اور دُر ولایت کے خزانے لئے ہوئے ہے۔ یہ ہستیاں خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں اور روئے زمین پر خلافت الٰہی کی محافظ بھی۔ معنویت کے یہ کوہسار، بہترین مخلوق، نزدیک ترین، بندگان خدا اور انسانوں کے راہنما ہیں۔ اپنے دور میں ہر ایک کی زندگی علم و دانش اور خدا پسند گفتار و کردار سے بھرپور تھی، ہر ایک کی حیات غیر معمولی حیات تھی۔ مناسبتوں کے اعتبار سے ہر ایک مختلف خصوصیات کے حامل ہیں۔ ایک خصوصیت یہ ہے کہ انبیاء اور آئمہ علیہم السلام میں سے کسی ایک نے زانوئے تلمذیت نہیں کیا، بلکہ ان تمام حضرات نے ذات لازوال سے علم حاصل کیا اور علم لدنی کے مالک تھے۔ یہی خصوصیت [دنیا میں تعلیم حاصل نہ کرنا] اس بات کا سبب قرار پائی کہ رسالت اور الٰہی منصب کے لئے سن و سال کی قید نہ رہی، بلکہ خدا کی تائید اور ارادے سے ہر عمر میں رسالت اور انسانوں کی ہدایت کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ اسی لئے بعض درمیانی عمر میں، بعض جوانی میں بلکہ بعض بچپن ہی میں اس منصب الٰہی پر فائز ہو گئے کیوںکہ اس منصب کا حصول مشیت الٰہی کے بغیر ناممکن ہے اور جب خدا چاہے پھر سن و سال کی کوئی قید و شرط نہیں رہتی۔

یہ ان لوگوں کی کج کفری اور عقل سے انحراف ہے، جو ہمارے بعض آئمہ کی امامت پر صرف اس لئے اعتراض کرتے ہیں کہ انھیں کم سنی ہی میں منصب امامت عطا کر دیا گیا۔ اعتراض کرنے والوں کے لئے قرآن کریم کی آیتوں میں منھ توڑ جواب موجود ہے، یہ اعتراض بھرپور جہالت کی عکاسی کرتا ہے، کہ 8 یا 9 سال کی عمر میں کیسے امام جواد علیہ السلام امام ہوگئے۔

مختصر تعارف:
نام: محمد
کنیت: ابوجعفر
لقب: تقی
پدربزرگوار: حضرت امام علی رضا علیہ السلام
ولادت: ۱۰ رجب المرجب سن۱۹۵ھ
شہادت: آخر ذیقعدہ سن۲۲۰ھ
حضرت امام علی رضا (ع) کی عمر مبارک کے چالیس سال گذر چکے تھے لیکن آپ کے کوئی اولاد نہ تھی،
آپ کی ولادت شیعوں کے لئے خوشی و مسرت اور ایمان و اعتقاد میں استحکام کا سبب قرار پائی، کیوںکہ ولادت میں تاخیر کی وجہ سے بعض شیعوں میں جو شک و شبہ پیدا ہو رہا تھا وہ ختم ہوگیا۔ امام جواد (ع) کی والدہ کا اسم گرامی ”سبیکہ” تھا، لیکن امام رضا[ع] نے اپکا نام خیزران رکھا آپ رسول خدا [ص] کی زوجہ محترمہ ماریہ قبطیہ کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پیغمبر اسلام (ص) نے ایک روایت میں آپ کو "خیرالاما” یعنی بہترین کنیز خدا کے عنوان سے یاد فرمایا ہے۔

جلوہ امامت:
ہمارے نویں امام حضرت محمد تقی علیہ السلام آٹھ یا نو سال کی عمر میں امامت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔
۱۔ معلی بن احمد کی روایت ہے کہ امام رضا (ع) کی شہادت کے بعد میں نے امام تقی (ع) کی زیارت کی اور آپ کے خدوخال، قد و اندام پر غور کیا تاکہ لوگوں کے لئے بیان کرسکوں، اتنے میں امام محمد تقی (ع) نے ارشاد فرمایا، اے معلی خداوند عالم نے نبوت کی طرح امامت کے لئے بھی دلیل پیش کی ہے،”و اتیناہ الحکم صبیا” ہم نے بچپنے ہی میں یحیٰی کو نبوت عطا کردی۔
۲۔ محمد بن عمار کی روایت ہے کہ میں دو سال سے مدینہ میں علی بن جعفر کی خدمت میں حاضر ہوتا اور وہ روایتیں لیتا تھا جسے وہ اپنے بھائی امام موسٰی بن جعفر علیہ السلام سے ہمارے لئے بیان کرتے تھے، ایک دن ہم لوگ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں امام جواد (ع) تشریف لائے، ان کو دیکھتے ہی علی بن جعفر برہنہ پا اور بغیر عبا کے احترام کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیا، امام نے فرمایا چچا جان آپ تشریف رکھیں، خدا آپ پر رحمتیں نازل فرمائے، عرض کیا آقا میں کیوں کر بیٹھ سکتا ہوں جبکہ آپ کھڑے ہوئے ہیں جب علی بن جعفر واپس آئے تو ان کے دوستوں اور ساتھیوں نے ان کو ملامت کی کہ آپ ان کے والد کے بھائی ہیں اور اس طرح ان کا احترام کرتے ہیں؛ علی بن جعفر نے کہا، خاموش رہو (اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا) جب خداوند عالم نے اس سفید داڑھی کو امامت کے لائق نہیں سمجھا، اور اس جوان کو اس کے لئے سزاوار قرار دیا تم یہ چاہتے ہو میں ان کی فضیلت کا انکار کروں؟ میں تمھاری باتوں کے بارے میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں، میں تو اس کا ایک بندہ ہوں۔

۳۔عمر بن فرج کا بیان ہے کہ میں امام جواد (ع) کے ساتھ دریائے دجلہ کے کنارے کھڑا ہوا تھا، میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا، آپ کے شیعہ کہتے ہیں کہ آپ دجلہ کے پانی کا وزن جانتے ہیں، فرمایا کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ ایک مچھر کو دجلہ کے پانی کے وزن کا علم عطا کر دے؟ عرض کیا؛ ہاں خدا قادر ہے، فرمایا، میں خدا کے نزدیک مچھر اور اس کی اکثر مخلوق سے کہیں زیادہ عزیز ہوں۔

۴۔ علی بن حسان واسطی کا بیان ہے کہ میں (امام کی کم سنی کا خیال کرتے ہوئے) کچھ کھیل کود کا سامان لے کر بطور تحفہ امام کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے حاضر خدمت ہوا، لوگ امام سے اپنے مسائل دریافت کر رہے تھے اور وہ ہر ایک کا جواب دے رہے تھے جب ان کے سوالات تمام ہوگئے اور وہ سب چلے گئے تو امام تشریف لے جانے کیلئے اٹھے، میں نے کھیل کود کا سامان ان کے سامنے رکھ دیا۔ امام نے مجھ پر ایک نظر کی اور سارا سامان ادھر ادھر کردیا اور فرمایا، خدانے مجھے کھیل کود کے لئے پیدا نہیں کیا ہے، مجھے اس سے کیا کام، میں نے تمام چیزیں سمیٹ لیں اور حضرت سے معذرت طلب کی اور حضرت نے معاف کردیا۔

امام کو کیسا ہونا چاہیئے:
امام کے اندر قیادت و رہبری و شائستگی ہونی چاہیئے، عالم و متقی ہونا چاہیئے تاکہ علم کی روشنی میں امت کے مفاد و مصالح کو معین کر سکے اور تقوٰی کی روشنی میں ان کو عملی جامہ پہنا سکے۔ چونکہ علم و تقوٰی اسلامی زمام داری کے دو بنیادی اور اصلی عنصر ہیں اس لئے شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام کے علم و دانش کا منبع وحی ہے۔ ان کا علم لدنی ہوتا ہے کہ یہی علم اسے خطا و لغزش سے محفوظ رکھتا ہے۔ اگرچہ اس وقت امام تقی کی عمر صرف 8 یا 9 سال تھی لیکن امامت کی تمام شرائط آپ میں جمع تھیں، اور علم و تقوٰی کے دونوں عنصر کے حامل تھے، لیکن 8 یا 9 سال کے تھے عجوبہ سمجھے جاتے تھے۔ اس بات کو مامون نے کہا اور مامون کے قول کو تاریخ نے محفوظ رکھا ہے۔ مامون سیاسی مصلحت کی بنا پر یا حقیقت میں امام علی بن موسٰی رضا کے قتل پر یشمان ہوگیا تھا وہ اپنے اس غیر انسانی عمل کے تدارک میں امام محمد تقی سے اپنی بیٹی کا نکاح کرنا چاہتا تھا لیکن خاندان رسالت کے سخت دشمنوں کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور غیبت و نمامی کا سلسلہ شروع ہو گیا وہ یکے بعد دیگرے مامون کے پاس پہنچے اور اسے اس کام کے عواقب سے ڈرانے لگے، اور مامون کی نظرون میں امام تقی کی عظمت کو گھٹانے کی بڑی کوشش کی اور امام کو فاقد صلاحیت بچہ ثابت کرنے کی سعی کی۔

آخر کار مامون کو امام کا امتحان لینے پر آمادہ کرلیا، نوبت امتحان پہنچی، امتحان کا دن اور تاریخ معین کردی گئی۔ اس جلسہ میں تمام بڑے بڑے علماء ملک کے سربرآوردہ افراد اور بنی عباس کے لوگوں کو بلایا گیا۔ جلسہ منعقد ہوا اپنے زمانے کا بڑا عالم قاضی یحیٰی بن اکثم سن رسیدہ کی صورت میں بڑے ہی رعب و آداب کے ساتھ جلسہ میں پہنچا اسی وقت امام محمد تقی جو کہ اس وقت نوجوان و کمسن تھے جلسہ میں پہنچے، ماموں نے آپ کو صدر مجلس میں یحیٰی بن اکثم سے اوپر اپنے پاس بٹھایا، مباحثہ کا آغاز ہوا۔ قاضی القضات یحیٰی ابن اکثم نے دست بستہ بادشاہ سے اجازت چاہی کیا میں اس بچہ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں، مامون نے کہا ہاں، قاضی نے امام سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص حالت احرام میں کسی جانور کا شکار کرے تو حضور کا حکم کیا ہے؟۔ علم لدنی کے حامل امام نے فرمایا، کتنا نامکمل سوال کرتے ہو، یہ بتلاو کہ وہ شکاری حل میں تھا یا حرم میں؟ کیا واقف حکم شرع تھا یا نا واقف حکم شرع؟ جان کر مارا تھا یا بھولے سے؟ آزاد تھا یا غلام؟ بالغ تھا یا نابالغ؟ پہلی غلطی تھی یا دوبار غلطی ہوءی؟ شکار پرندہ تھا یا پرندہ نہیں تھا؟ چھوٹا تھا یا بڑا؟ اپنی غلطی پر اصرار ہے یا کہ اسپر شرمسار ہے؟ رات کو شکار کیا یا دن میں؟ احرام عمرہ تھا یا احرام حج؟ قاضی القضات کو یہ جواب سنکر پسینہ آ گیا، چہرہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں اہل محفل حیران رہ گئے، قاضی صاحب کی خاموشی اور خمیدہ گردن نے مباحثہ کے نتیجہ کا اعلان کردیا، ایک مسئلہ اور اسکی بیس صورتیں اس تشریح کے ساتھ بیان کر دینا کوئی معمولی بات نہ تھی، پھر ہر ایک کا جواب دینا جس کو طوالت کی وجہ سے چھوڑا جارہا ہے اعجاز امامت نہ تھا تو اور کیا تھا۔ ماموں نے زعماء اور عباسیوں کی طرف دیکھ کر کہا کہو اب تو سمجھ گئے یہ بچہ نہیں ان سن رسیدہ، سفید ریش علماء سے افضل اور بزرگتر ہے۔ سب نے مامون کی تائید کی اور اسی محفل میں رسم عقد امام ادا کی گئی۔

امام نے خود خطبہ اور صیغہ نکاح پڑھا مجمع جب طعام و انعام سے فارغ ہوا، تو مامون نے کہا کہ اگر امام چاہیں تو اسی محفل میں قاضی یحیٰی ابن اکثم سے بھی فقہی سوال کرسکتے ہیں، قاضی گھبرا گیا، امام نے فرمایا، کیا مذائقہ ہے، قاضی کی طرف رخ کیا فرمایا کیا یہ ممکن ہے کہ ایک عورت کسی مرد پر صبح سویرے حرام ہو دن چڑھے حلال ہو جائے ، زوال کے وقت پھر حرام ہو جائے، عصر کے وقت پھرحلال ہو جائے، غروب کے وقت حرام ہو جائے، عشا کے وقت حلال نصف شب میں پھر حرام ہو جائے اور جب پھر صبح ہو حلال ہو جائے؟ مسائل اور بھی پوچھےجا سکتے تھے مگر محفل عقد کی مناسبت سے یہ امام ہی کی نظر تھی کہ اس مسئلہ کا انتخاب فرمایا، قاضی شرم کا مارا ہوا کہنے لگا فرزند رسول اس مسئلہ پر بھی آپ ہی روشنی ڈالئے۔ امام نے فرمایا سنو اور یاد رکھو، وہ عورت ایک غیر شخص کی کنیز تھی صبح کو اسے دیکھنا حرام تھا دن چڑھے اس کو خرید لیا جائز ہوگئی، ظہر کے وقت اسے آزاد کیا حرام ہوگئی، عصر کے وقت اس سے عقد کرلیا حلال ہو گئی، مغرب کے وقت ظہار کیا حرام ہوگئی عشاء کے وقت کفارہ ظہار دیا تو حلال ہوگئی، نصف شب میں طلاق دیدی حرام ہوگئی، صبح کے وقت رجوع کیا تو حلال ہوگئی۔ امام کا قیام بعد عروسی بغداد میں ہی رہا، بہت کوشش ہوئی کہ امام محل سرا میں قیام فرمائیں مگر امام نے پسند نہ فرمایا، ایک معمولی مکان میں لوگوں کے دینی دنیاوی مسائل حل فرماتے رہے۔

اعجاز امامت کا ایک اور عجیب واقعہ:
مقدس اردبیلی کی کتاب حدیقتہ الشیعہ ص ۴۷۴ میں ہے، جناب حکیمہ دختر امام رضا (ع) فرماتی ہیں کہ میں اپنے بھائی امام محمد تقی کی شہادت کے بعد اپنی بھاوج ام الفضل سے ملنے گئی، میں نے دیکھا کہ وہ مفارقت امام میں زار و قطار روتی ہیں، مجھ سے کہنے لگیں کہ عمہ گرامی میں آپ کو واقعہ سناوں، ایسا واقعہ جو کبھی سنا ہی نہ ہو، میں نے کہا واقعہ سناو کیا ہے، کہنے لگی ایک روز میں بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک نہایت خوبصورت اور خوش سلیقہ عورت مجھ سے ملنے آئی، میں نے کہا آپ کون ہیں، کہا میں خاندان عمار یاسر سے ہوں اور امام تقی کی زوجہ ہوں، میں اس کے سامنے تو خاموش رہی مگراس صدمہ اور غصہ کو برداشت نہ کرسکی، نصف شب کے قریب میں روتی ہوئی باپ خدمت میں پہنچی اور اس سے شکایت کی کہ محمد تقی نے اور شادی کرلی ہے، اور جب میں نے کہا کہ وہ مجھے اور تجھے برا بھلا کہتے ہیں، میرا باپ مامون اسوقت شراب کے نشہ میں ایسا مست تھا کہ اسکو سروپا سے بے خبری تھی، غصہ میں فورا کھڑا ہوگیا، تلوار اٹھائی کچھ خداموں کو ساتھ لیا اور خانہ امام میں داخل ہوگیا، دیکھا امام سو رہے ہیں تلوار سے پارہ پارہ کر دیا اور چلا گیا، میں روئی اور دل میں کہا کہ یہ میں نے اپنے اوپر ظلم کیا، میں روتے روتے ایک گوشہ میں سوگئی صبح کو خادم نے میرے باپ سے کہا کہ رات آپ سے ایک خلاف امید کام سرزد ہوا ہے، مامون نے پوچھا کیا؟ خادم نے کہا رات آپکی لڑکی آئی اور اس نے فرزند رسول کی شکایت اور آپ نے جاکر ان کو قتل کردیا، مامون یہ سن کر زار و قطار رویا، منہ پر طمانچے مارے اور بےہوش ہوگیا، آخر ہوش آیا تو خادم سے کہا جاکر امام کی خبر لے۔ خادم جب خانہ امام میں آیا تو کیا دیکھا کہ امام وضو کررہے ہیں، جب وضو کرچکے تو میں نے چاہا کہ کچھ بات کروں کہ امام نماز میں مصروف ہوگئے، خادم نے آ کر مامون کو سارا واقعہ بتایا، ماموں خدا کا شکر ادا کیا اورمجھ سے کہا اگر تونے کبھی کوئی شکایت امام تقی کی مجھے کی تو میں تجھے قتل کر دونگا، کیا تو یہ چاہتی ہو کہ جو چیز خدا نے ان کے لئے حلال قرار دی ہے میں حرام کر دوں۔ میں نے دیکھا کہ امام کے جسم پر کوئی زخم کا نشان نہیں تھا۔ مامون نے امام تقی سے معافی مانگی اور امام نے اسے نصیحت فرمائی کہ شراب نوشی تک کر دے، وہ اسی روز سے تائب ہوا۔ یہ واقعہ اعجاز ہے اور قدرت کا ایک بڑا راز ہے۔

قاضی کا اعتراف:
یحیٰی بن اکثم خاندان رسالت و امامت کے سخت دشمنوں میں سے تھا۔ (الکافی کی روایت ہے) خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ میں نے ایک دن امام جواد کو رسول خدا کی قبر پر دیکھا، میں نے کہا خدا کی قسم کچھ باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں مگر شرم آرہی ہے۔ امام نے فرمایا، سوال کے بغیر تمہاری باتوں کا جوب دیتا ہوں، تم یہ پوچھنا چاہتے ہو کہ امام کون ہے؟ میں نے کہا واللہ یہی دریافت کرنا چاہتا تھا۔ فرمایا "میں امام ہوں” میں نے کہا اس بات پر کوئی دلیل ہے؟ اسوقت وہ عصا جو حضرت کے ہاتھ میں تھا،وہ گویا ہوا اور، اس نے کہا: "یہ میرے مولٰی ہیں، اس زمانے کے امام ہیں اور خدا کی حجت ہیں”۔

امام تقی علیہ السلام مدینہ میں:
امام علیہ السلام آخر بغداد سے اعجاز امامت دکھاتے، خشک درختوں کو بار آور بناتے، مدینہ کی طرف رخصت ہوئے۔ مدینہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا سیکڑوں شاگرد جید عالم بن کر نکلے۔ جن میں سے ہر ایک نے تفسیر و حدیث و فقہہ کی متعدد کتابیں تالیف کیں۔ نمایاں افراد میں سے چند ایک کے نام ۱۔ علی بن مہزیار ۲۔ احمد بن محمد ابی نصر بزنطی ۳۔ محمد بن اسماعیل بن بزیع ۴۔ زکریا بن آدم ہیں۔ امام کی ہر نماز روضہ رسول میں ادا ہوئی لوگ جوق در جوق اپنے مسائل کے حل کیلئے آتے۔ ایک مرتبہ خلیفہ بیمار ہوا اور منت مانی کہ کثیر رقم فقراء میں تقسیم کرے گا، خدا نے صحت دی، آخر علما کو جمع کیا گیا کہ کثیر رقم سے مراد کیا ہے اور مجھے کتنی رقم خیرات کرنی چاہیئے مگر کوئی بھی جواب نہ دے سکا، بالآخر امام سے پوچھا گیا آپ نے فرمایا اگر درہم منت مانی ہے تو اسی درہم اور اگر دینار کی منت ہے تو اسی(80) دینار خیرات کر دیئے جائیں، اسلئے کہ خدا وند عالم قرآن میں فرماتا ہے "لقد نصرکم اللہ فی موطن کثیرۃ” یعنی ہم نے تمہاری کثیر خطرات میں مدد کی، جن موقعوں پر خدا نے اپنے رسول کی مدد فرمائی اگر سب غزوات اور سریا کو شمار کیا جائے تو وہ اسی(80) ہوتے ہیں۔ لہذٰا کثیر سے مطلب اسی ہے۔

خود بنے تھے وہ، انہیں حق نے بنایا ہے امام
وہ امامت اور تھی اور یہ امامت اور ہے

Related Articles

Back to top button