مقالاتکربلا شناسی

کربلا سے منہ موڑے ہوئے میڈیا

ثاقب اکبر)

علی وجدان ہمارے ایک عزیز دوست ہیں، ناصر کاظمی مرحوم سے انھیں شرفِ تلمذ حاصل ہے، ان دنوں کراچی میں ہوتے ہیں۔ سحر دم آنکھ کھلی تو موبائل فون پر نظر پڑی، علی وجدان کا پیغام آیا پڑا تھا۔ چار مصرعوں پر مشتمل یہ پیغام آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
حسینؑ مشعلِ ایمان لے کے ہاتھوں میں
نبی کے دین کی بگڑی بنانے چل دیئے ہیں
اگرچہ لوگ تو کم ساتھ ہیں مگر وجدان
جلو میں آقاؑ کے سارے زمانے چل دیئے ہیں
یہ قطعہ تو پڑھ لیا لیکن ذہن کربلا کی طرف چلا گیا، جہاں ان دنوں دنیا بھر سے تقریباً تین کروڑ انسان فرزند رسول جگر گوشہ علی و بتول سردار جوانان جنت سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کو نذرانہ محبت و مودت پیش کرنے کے لئے اکٹھے ہوچکے ہیں۔ رات بھیگی آنکھوں سے یہ خیال کرکے سوئے تھے کہ اتنی مخلوق خدا کو شرف باریابی حاصل ہوا ہے، ہمیں ایک مرتبہ پھر قدم بوسی کا اذن کب ملے گا۔

سوشل میڈیا پر ان دنوں جو تصویریں اور ویڈیوز کربلا سے بھیجی جا رہی ہیں، وہ دنیا کی تمام خبروں پر چھائی ہوئی ہیں، لیکن دوسری طرف ہمارے میڈیا کی عموماً یہ حالت ہے جیسے کربلا میں کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ ہمارے میڈیا کی عجیب صورت حال ہے، کسی ایک گاڑی کے الٹنے کی خبر جس کے مسافر ”معجزانہ“ طور پر بچ گئے، بار بار چلائی جا رہی ہے۔ کسی ATM سے جعل سازی کے ذریعے رقم چرانے والے کی سی سی ٹی وی کیمرہ سے حاصل کی گئی ویڈیو بار بار نشر کی جا رہی ہے۔ کسی چور اور ڈاکو کا بار بار تذکرہ ہے، لیکن پوری کائنات پر چھائے ہوئے معجزہ ¿ کربلا سے یہ میڈیا منہ موڑے ہوئے ہے۔ کیا میڈیا یہ خبر نہ دے گا تو دنیا کو خبر نہ ہوگی؟ کتنی غلط فہمی ہے؟ جس واقعے کی خبر اس کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے مخبر صادق نے برستی آنکھوں سے دی ہے، اس سے وابستہ خبروں کو کیسے چھپایا جاسکتا ہے اور انھیں پوری دنیا میں پھیلنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے۔ جناب زینبؑ نے یزید کے سامنے کہا تھا ”تو ہماری وحی کو ختم کرسکتا ہے، نہ ہماری یاد کو دلوں سے مٹا سکتا ہے۔”

دنیا کے ایک سو سے زیادہ ممالک کے لوگ بلا تفریق مذہب و ملت آج کربلائے حسینی موجود ہیں اور جیسا کہ سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے، کہا جا رہا ہے کہ ان کی تعداد تقریباً تین کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ ہزاروں شہروں سے آنے والے ان دیوانوں کے گھرانے کے جو افراد پیچھے رہ گئے ہیں، وہ ان کی خبروں سے وابستہ ہیں۔ سوشل میڈیا کی وسعت اور گھر گھر رسائی نے انھیں ٹی وی چینلوں اور اخباروں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ ان کے عزیزوں کی خبریں وہی نہیں بلکہ دیگر عاشقان اہل بیت رسول بھی سن اور دیکھ رہے ہیں۔ جن کے جسم تو کربلا سے دور ہیں، لیکن روحیں بین الحرمین پرواز کناں ہیں، کبھی السلام علی الحسین کہتی ہیں اور کبھی السلام علی العباس کہتی ہیں۔ ان کے نزدیک یہ میڈیا، جسے میڈیا کہتے ہوئے بھی حیرت ہوتی ہے، کس قدر بے قیمت اور ناقابل اعتبار ہو چکا ہے۔

کربلا کا واقعہ جو ایک صحرا میں ہوا، وہ زمان و مکان کی حدود سے گزرتا ہوا کیسے کائنات کے گوشہ و کنار میں پہنچ چکا ہے۔ راقم کے ایک سلام کے چند اشعار دیکھیئے، جن میں اس کیفیت کو بیان کیا گیا ہے:
یزید والے ہیں حیراں کہ دشت میں جو ہوا
اس ایک سانحے کی کوبکو خبر ہوئی ہے
تم اس کہانی کے راوی کا پوچھتے ہو مجھے
جو نشر نوک سناں سے نگر نگر ہوئی ہے
یہ دین قرنوں کے پار آگیا کہ اس کے لئے
ردائے زینب مظلوم بال و پَر ہوئی ہے
تاریخ عجیب عبرت کدہ ہے۔ اسی زمانے میں، یزید ہی کے دور میں، مدینے جیسے شہر میں، ایک بہت بڑا سانحہ وقوع پذیر ہوا، جسے واقعہ ¿ حرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعے میں یزیدی فوج نے بہت ظلم ڈھائے، صحابہ اور صحابہ کی اولاد کو بے دریغ قتل کیا، صحابہ کی بیٹیوں کی عصمت دری کی اور مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے۔ مدینہ نبوی کی توہین اور پامالی کا اس سے بڑا سانحہ تاریخ میں پھر نہیں ہوا، لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ کیا وجہ ہے کہ کربلا میں ہونے والا بظاہر ایک مختصر سا واقعہ اور کم و بیش 72 افراد اہل بیت و انصار کی شہادت اور وہ بھی ایک صحرا میں، کی خبر اس طرح سے عالم پر چھائی ہوئی ہے کہ مرد و زن، پیر و جوان، بلکہ بچہ بچہ اس سے آشنا ہے، لیکن واقعہ حرہ کو فقط تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں۔

جب کربلا کا واقعہ طویل ملوکیت اور ظلم و استبداد کے دور سے گزر کر ہر جگہ پہنچ چکا ہے تو کیا یہ بات سمجھنے کے لئے کافی نہیں کہ اسے باقی رکھنے کے لئے اللہ کی حکمت اور ارادہ کارفرما ہے۔ اللہ کے ارادے کے سامنے کون دَم مار سکتا ہے۔ جس اللہ نے ارادہ کیا کہ اہل بیت کو پاک و پاکیزہ رکھے گا، اسی اللہ کا ارادہ ہے کہ اہل بیت نبوت کی یاد کو دنیا میں پوری عظمت و شوکت کے ساتھ باقی رکھے گا۔ ان پاک ہستیوں کی محبت دلوں کو پاک بھی کرتی ہے اور پاک دلوں میں ہی رہ سکتی ہے۔ انسانوں کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ انھوں نے کب رجس سے منہ موڑ کر خانوادہ طہارت کی طرف رخ کرنا ہے۔ جس سچے پیغمبر نے حسین کی شہادت کی خبر دی ہے، اسی نے اپنی بیٹی فاطمہ زہرا کی اولاد میں سے ایک آخری پیشوا کی بشارت بھی دے رکھی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کربلا انسانیت کو اب اس بشارت کی تکمیل کی طرف لے جا رہی ہے۔
یہ کربلا کیوں تمام دنیا سے عاشقوں کو بلا رہی ہے؟
نئے کسی انقلاب کا کیا حسینؑ سامان کر رہا ہے؟

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button