خاندان اور تربیتمقالات

سیرت ا میرالمومنین ؑ

آیت اللہ سید علی خامنہ ای

خلفا ء کے ساتھ تعاون:
امیر المومنین علیہ السلام خلافت کے مسئلے سے کنارہ کشی اختیارکرنے کے بعد روٹھ کر خانہ نشین ہو سکتے تھے، حکمران طبقے کے خلاف گڑبڑ پھیلا سکتے تھے، ہر قسم کے مثبت کاموں کا بائیکاٹ کرسکتے تھے اور ایک ایسی غیر ذمہ دار حزب اختلاف کا کردار ادا کرسکتے تھے جسے لوگوں کے درمیان احترام ، عام مقبولیت اور تقدس حاصل ہو لیکن آپ ؑ نے ایسا نہیں کیا ۔ امیرالمومنین ؑ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد اہل مصر کے نام اپنے ایک خط میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
فامسکت یدی حتی رایت راجعۃ الناس قد رجعت عن الاسلام یدعون الی محق دین محمد۔(۱)
میں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے اور کنارہ کشی اختیار کرلی لیکن میں نے اچانک دیکھا کہ عالم اسلام کو میری ضرورت ہے۔پس ان حالات میں میں نے قیام کیا۔
امیرالمومنین ؑ نے خلفا کی مدد فرمائی اور ان کی مساعدت کی تاکہ اسلام کو خطرات سے محفوظ رکھیں۔ امام ؑ نے یہاں بھی اپنے نفس امارہ کو پاؤں تلے کچل دیا اور ایک ایسی غیر ذمہ دار لیکن تقدس مآب حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے سے اجتناب کیا جو کسی کو نے میں بیٹھ کر تنقید کرتارہے اور ان لوگوں کوکمزور کرنے میں کوشاں رہے ۔
امیرالمومنینؑ پوری قوت کے ساتھ میدان عمل میں اترے ۔ آپ ؑ پچیس سال تک عالم اسلام کے جملہ چھوٹے بڑے حوادث میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہے ۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کی اعلیٰ ظرفی، ایثار، اغماض اور جذبہ قربانی کا ایک تابندہ نمونہ ہے۔ (۲)
گوشہ نشینی نامنظور:۔
اس پچیس سالہ دور میں امیرالمومنین علیہ السلام نے خلفاء کے ساتھ محاذ آرائی سے اجتناب کیا اور ان کا مقابلہ نہیں کیا ۔ آپ ؑ فرماتے ہیں:
جب میں نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ میرے اور میرے رقیبوں کے درمیان کشمکش کا متحمل نہیں ہوسکتاتو میں نے (حکومت سے) کنارہ کشی اختیار کرلی۔

یہ کنارہ کشی ۲۵ سال تک جاری رہی۔ البتہ کنارہ کشی کا مطلب گوشہ نشینی ہر گز نہ تھی۔ یہ کہنا کہ آپ ؑ پچیس سال تک گوشہ نشین رہے غلط ہے ۔ آپ ؑ ہر گز گوشہ نشین یا خانہ نشین نہیں رہے بلکہ آپ ؑ ہمیشہ میدانِ عمل میں موجود رہے ، ذمہ داریاں قبول کرتے رہے ، تحویل شدہ ذمہ داریاں نبھانے کے لیے باہر نکلتے رہے ، مشورہ دیتے رہے اور مختلف منصوبوں پرعملدرآمد کرتے رہے ۔ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ امیرالمومنین ؑ روٹھ کر خانہ نشین ہوگئے تھے ۔ ایسا ہر گز نہیں ہوا بلکہ آپ ؑ ہمیشہ بہترین مشیر کا کام انجام دیتے رہے(۳)۔
ذمہ داریوں سے آگاہ وزیر:۔
امیرالمومنین ؑ خلفاء کے پچیس سالہ دور میں اپنے فعال کردار کو وزارت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ قتل عثمان کے بعد جب لوگ امیر المومنین ؑ کو خلیفہ منتخب کرنے کے لیے آئے تو آپ ؑ نے فرمایا:
میرا وزیر ہونا امیر ہونے سے بہتر ہے ۔ مجھے حسب ِ سابق وزیر رہنے دو(۴)۔
امام ؑ اپنے پچیس سالہ کردار کو وزارت کا نام دیتے ہیں کیونکہ آپ ؑ برسرِ اقتدار خلفاء اور حکمرانوں کی مدد کرتے رہے تھے ۔ یہ ایک زبردست اور عظیم ایثار تھا ۔ انسان یہ دیکھ کر سچ مچ حیرت زدہ رہ جاتاہے کہ امیرالمومنین ؑ نے اس معاملے میں کس قدر ایثار کا ثبوت دیا تھا ۔ اس پورے پچیس سالہ دور میں امام ؑ نے حکومت کا تختہ الٹنے ، بغاوت کرنے ، مقابلہ کرنے اور حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
رسول اکرمؐ کی رحلت کے وقت امیرالمومنین ؑ تینتیس سالہ جوان تھے ۔ آپ ؑ کی جوانی اور جسمانی قوت جو بن پر تھی ، جوانی کا جوش و جذبہ موجزن تھا ، آپ ؑ لوگوں کے درمیان محبوب تھے ، ذہین و فطین تھے، بے پناہ علم کے حامل تھے اور ایک انسان میں جتنے کمالات ممکن ہیں وہ سب آپ ؑ کے اندر بدرجہ ٔ اتم موجود تھے ۔ اگر آپ ؑ کوئی باغیانہ اقدام کرنا چاہتے تو یقینا کرسکتے تھے لیکن آپ ؑ نے ان پچیس سالوں میں اسلامی معاشرے کے عمومی اور کلی مصالح و مفادات کی حمایت و حفاظت اور خدمت خلق کے علاوہ کوئی قدم نہیں اٹھایا(۵)۔
امانتدار مشیر:۔
خلیفہ دوم کے دور خلافت میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایران کے بہت سے صوبوں پر قبضہ ہوجانے کے بعد کچھ لوگوں نے بعض صوبوں میں دوبارہ سراٹھایا اور ایک بڑا لشکر تیار کیا پھر وہ مسلمانوں

سے لڑنے نکلے ۔ یہ ایک کڑا وقت تھا چنانچہ خلیفہ ٔ دوم نے تمام لوگوں کو مسجد میں جمع کیا ، صورتحال سب کے سامنے رکھی اور مشورہ طلب کیا ۔
اہم شخصیات میں سے ایک نے کھڑے ہو کر کہا : آپ خود ایک منجھے ہوئے تجربہ کار شخص ہیں ۔ میری تجویز ہے کہ آپ ایک لشکر روانہ کریں اور خود بھی لشکر کے محور کے طور پر نکلیں تاکہ بغاوت کا قلع قمع ہو ۔ اس کے بعد آپ مدینہ واپس آئیں ۔ یہ تجویز طلحہ کی تھی(۶)۔
ایک اور بزرگ نے کہا : میرے خیال میں آپ کو یہ حکم صادر کرنا چاہیے کہ مختلف شہروں اور مختلف مفتوحہ ممالک ( مثلاً روم ، شام اور فلسطین ) سے ہمارے لشکر آئیں تاکہ ہم ایک عظیم فوج جمع کرسکیں پھر ہم انہیں بھیج کر بغاوت کی سرکوبی کریں(۷)۔
اس کے بعد امیرالمومنین ؑ نے فرمایا :
نہیں ، ان میں سے کوئی تجویز فائدہ مند نہیں۔ اگر خلیفہ بذات خود اس مہم میں شرکت کریں تو دشمن کہیں گے :
’’ھذا اصل العرب ‘‘ یا ’’ھذا رجل العرب‘‘
عربوں کا محور یا ان کی جڑیا عرب کا مرد آہن یہی تو ہے جو یہاں آیاہے۔ لہٰذا آؤ مل کر اس کا خاتمہ کریں۔ پس اگر آپ بنفس نفیس شریک جنگ ہوں گے تو وہ کوشش کریں گے کہ کمر ہمت باندھ کر آپ کا خاتمہ کریں ۔ تاکہ سارا مسئلہ ہی ختم ہو جائے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر خلیفہ مارا جائے تو پورا نظام حکومت ہی منہدم ہوجائے گا۔
رہی یہ تجویز کہ ہم مفتوحہ علاقوں سے اپنا لشکر جمع کریں تو یہ بھی قرین مصلحت نہیں ہے کیونکہ اگر ہم ان علاقوں سے اپنا لشکر بلالیں تو ان علاقوں میں بھی بدامنی پھیل جائے گی ۔ بنابرایں صحیح راستہ یہی ہے کہ آپ خود مدینہ میں رہیں اور بصرہ والوں کو تین حصوں میں تقسیم کریں ۔ ایک حصے کو بصرہ کے امور چلانے پر مامورکریں ، دوسرے حصے کو میدان جنگ کی طرف جانے والے سپاہیوں اور مجاہدین کی مدد پر مامور کریں اور ان کے ایک تہائی حصے کو جنگ کے لیے روانہ کریں ۔
خلیفہ دوئم نے یہ تجویز پسند کرلی اور کہا : یہ تجویز بہت عمدہ ہے پھر اسی پر عمل کیا ۔
خلیفہ سوئم کے گھر کے محاصرے اور دیگر واقعات میں امیرالمومنین ؑ نے زبردست مثبت کردار ادا کیا یہاں تک کہ لوگوں کو شورش سے روکنے میں بھی آپ ؑ نے گرانقدر خدمات انجام دیں(۸) کیونکہ امام ایسے فرد نہیں تھے جو روٹھ کر کنارہ کش ہوجاتے حالانکہ یہ حضرات آپ ؑ کے رقیب تھے اور یقینا امیرالمومنین ؑ تہہ دل سے انہیں (ان کے استحقاق کو ) قبول نہیں کرتے تھے ۔ امام ؑ کے خطبہ شقشقیہ کی رو سے آپ ؑ کا یہ اعتقاد تھا کہ یہ حضرات مسند خلافت کے حقدار نہیں تھے(۹)۔ اس کے باوجود چونکہ اسلام کا مفاد اس بات میں مضمر تھا کہ اختلاف وجود میں نہ آئے اس لیے آپ صبروتحمل سے کام لیتے رہے(۱۰)۔
چھ رکنی شوریٰ کے اندر بھی اصول پرستی کا مظاہرہ:
خلیفہ دوم کی رحلت کے بعد ان کی وصیت کے مطابق چھ رکنی کمیٹی وجود میں آگئی۔ اس کمیٹی میں عبدالرحمن بن عوف۔ سعد ابن ابی وقاص، طلحہ، زبیر، عثمان اور علی ابن ابی طالب ؑ شامل تھے۔ خلیفہ دوئم نے وصیت کی تھی کہ یہ چھ افراد مل بیٹھ کر تین دنوں کے اندر ایک فرد کو خلیفہ مقرر کریں۔ یہ چھ افراد اس دور کے دو مختلف محاذوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ ایک محاذ کا میلان بنی امیہ کی طرف تھا جبکہ دوسرے کا بنی ہاشم کی طرف ۔
ان چھ میں سے عبدالرحمن بن عوف حضرت عثمان کے رشتہ دار تھے ۔ طلحہ کا جھکاؤ بھی اسی طرف تھا ۔ زبیر امیر المومنین ؑ کے رشتہ دار تھے اور سعد بن ابی وقاص بھی اس طرف جھکاؤ رکھتے تھے ۔ طلحہ حضرت عثمان کے حق میں اور زبیر علی ابن ابی طالب ؑ کے حق میں دستبردار ہوگئے ۔
سعد بن ابی وقاص نے اپنے ووٹ کا حق عبدالرحمن بن عوف کے حوالے کر دیا۔
ان میں حضرت عثمان اور حضرت علی ؑ کی طرف ان کی نظریں زیادہ مرکوز تھیں ۔ ان دونوں کا بھی ایک ایک ووٹ تھا۔ عبدالرحمن بن عوف کے پاس دوووٹ تھے ۔ اگر وہ علی علیہ السلام کی بیعت کرتے تو آپ ؑ کی طرف چار ووٹ بنتے اور حضرت عثمان کی طرف دو ووٹ رہتے لیکن اگر عبدالرحمن حضرت عثمان کی بیعت کرتے تو ان کے چار ووٹ بنتے اور امیرالمومنین ؑ کے دو۔
خلاصہ یہ کہ عبدالرحمن کے ووٹ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل تھی ۔ عالم اسلام میں امیرالمومنین ؑ کی برتری تقریباً ایک واضح اور مسلمہ بات تھی لیکن عبدالرحمن نے پہلے امیر المومنین ؑ کا رخ کیا اور کہا:
اے علی! اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائیے تاکہ آپ ؑ کی بیعت کروں بشرطیکہ آپ قرآن ، سنت رسول اور سیرت شیخین یعنی حضرت ابوبکر و عمر کی سیرت پر عمل کریں۔
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:
تم اللہ کی کتاب اور سنت رسول پر عمل کی شرط کے ساتھ میری بیعت کرو تو ٹھیک ہے کیونکہ میرے لیے یہی دو چیزیں حجت ہیں۔ شیخین کا طرزِ عمل ان دونوں کا اجتہاد تھا جو میرے لیے حجت نہیں ہے۔
عبدالرحمن نے کہا:
نہیں میں یوں بیعت نہیں کروں گا۔
پھر عبدالرحمن نے حضرت عثمان سے کہا:
میں آپ کی بیعت کرتاہوں بشرطیکہ آپ اللہ کی کتاب، رسول اللہ کی سنت اور شیخین کی سیرت پر عمل کریں۔
حضرت عثمان نے کہا:
مجھے منظور ہے۔

اس کے باوجود عبدالرحمن نے حضرت عثمان کی بیعت نہیں کی اور دوبارہ امیرالمومنین ؑ کی طرف پلٹ کر پھر وہی تجویز سامنے رکھی۔ امیر المومنین ؑ نے اپنا سابقہ موقف دہرایا ۔ پھر عبدالرحمن نے حضرت عثمان کے سامنے وہی تجویز رکھی تو انہوں نے تجویز دوبارہ مان لی۔

عبدالرحمن نے تیسر ی بار امیرالمومنین ؑ کو وہی پیشکش کی تو آپ ؑ نے فرمایا : میرے لیے تو صرف اللہ کی کتاب اور رسول ؐ کی سنت حجت ہیں ۔ ان کے علاوہ میرے لیے کوئی چیز حجت نہیں ۔ اس کے بعد عبدالرحمن نے حضرت عثمان سے پھر وہی بات کہی تو انہوں نے اسے قبول کرلیا ۔ تب انہوں نے حضرت عثمان کی بیعت کی ۔ یوں وہ خلیفہ بن گئے۔
جس شخص کا اصلی ہدف ہی حکومت کا حصول ہو وہ اس مقصد تک رسائی کے لیے وقتی طور پر ہر قسم کی شرط تسلیم کرتاہے اگرچہ اسے دل سے قبول نہ کرتاہو ۔ وہ دل میں یہ سوچتاہے :
ابھی تو بہرحال قبول کرتاہوں پھر جب اقتدار پر قبضہ کرلوں گا تو اپنی مرضی کے مطابق عمل کروں گا۔
اس کا اصل مقصد حصول اقتدار ہوتاہے ۔ البتہ میں حضرت عثمان پر الزام لگانا نہیں چاہتا کہ ان کا اصل مقصد اقتدار پر قبضہ جمانا تھا۔ ممکن ہے ان کا عقیدہ ہی یہ ہو کہ شیخین کی سیرت پر عمل ضروری ہے لیکن علی ابن ابی طالب ؑ کا عقیدہ یہ نہ تھا ۔ آپ ؑ حکومت چلانے کے لیے شیخین کی سیرت پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے ۔ آپ ؑ نے اپنے اس عقیدے کو کسی لیپ پوت کے بغیر صریحاً بیان فرمایا:

یوں آپ ؑ حکومت سے محرومی پر آمادہ ہوئے ۔ آپ ؑ نے اس اقتدار کو جو آپ ؑ کی نظر میں آپؑ کا قطعی حق تھا سالہاسال کے لیے کسی اور کے ہاتھوں جاتے دیکھنا گوارا کرلیا جبکہ یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ محرومی کتنے سالوں پر محیط ہوگی ۔ ممکن تھا کہ حضرت عثمان مزید پچیس
سال حکومت کرتے جیسا کہ وہ بارہ سال حکومت کرتے رہے، یہ اور بات ہے کہ وہ قتل ہوگئے ۔ اگر وہ قتل نہ ہوتے تو شاید زندہ رہتے اور مزید دس سال حکومت کرتے۔
امیرالمومنین ؑ کی زندگی کا مقصد اقتدار نہیں تھا ۔ جو لوگ اقتدار کے پجاری ہوتے ہیں وہ آسانی کے ساتھ اصولوں سے اور اپنے دین سے دستبردار ہوتے ہیں ۔ ان کی نظر میں دین کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جیسا کہ ہم دنیا میں عام طور پر اس بات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ۔ اسلامی معاشروں میں اس قسم کے لوگ دین سے دست بردار ہوجاتے ہیں جبکہ غیر اسلامی معاشروں میں لوگ مثبت اقدار سے دست بردار ہوتے ہیں(۱۱)۔
خلافت عثمانی کے خلاف بغاوت:۔
حضرت عثمان کے دور ِ حکومت کے بارہ سال گزرچکے تو ان پر اعتراضات کی شرح میں اضافہ ہونے گا، سارے مسلمان مورخین نے (خواہ شیعہ ہوں یا سنی) لکھا ہے کہ حضرت عثمان کے آخری دور میں ان پر اعتراض و تنقید میں اضافہ ہواتھا(۱۲)۔
مخالفین ان پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر رہے تھے(۱۳)۔ کچھ مخالفین مصر سے ، کچھ عراق سے ، کچھ بصرہ سے اور کچھ دیگر علاقوں سے مدینہ آئے تھے ۔ یوں ان کی کافی بڑی تعداد جمع ہوگئی ۔ انہوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور خلیفہ کی جان خطرے میں پڑگئی۔
ان حالات میں امیرالمومنین ؑ کیا طرز عمل اختیار فرماتے؟
وہ شخص جو اپنے آپ کو خلافت کا اصلی حقدار سمجھتاہو ، جسے پچیس سالوں تک اپنے مسلمہ حق سے محروم رکھا گیا ہو اور جسے موجودہ حکمران پر بھی اعتراض ہو وہی شخص اب دیکھ رہا ہو کہ خلیفہ کا گھر محاصرے میں ہے تو آپ سوچئے کہ اس کا موقف کیا ہونا چاہیے تھا۔ عام لوگ بلکہ بڑی بڑی شخصیات ان حالات میں کیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں؟ وہی طرز عمل جو جناب طلحہ ، جناب زبیر، اور حضرت عائشہ نے اختیار کیا تھا یا دیگر لوگوں نے جو قتل عثمان کے واقعے میں کسی نہ کسی طرح دخیل تھے۔
قتل عثمان تاریخ اسلام کے اہم ترین سانحات میں سے ایک سانحہ ہے۔ نہج البلاغہ ، اسلامی مآخذ اور تاریخ اسلام سے خوب واضح ہوتاہے کہ حضرت عثمان کو کن لوگوں نے قتل کیا اور قتل کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے۔ جن افراد نے بعد میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے حضرت عثمان سے اپنی عقیدت کے اظہار کا سہارا لیا اور ان کی حمایت کا ڈھنڈورا پیٹا انہوں نے ہی لوگوں کو اکسایا اور خلافت کی پشت میں خنجر گھونپ دیا۔
اس سانحے میں امیرالمومنین ؑ نے کمال اخلاص کے ساتھ وہ کردار ادا کیا جسے آپ ؑ اپنی شرعی اور اسلامی ذمہ داری سمجھتے تھے ۔ تاریخ کی مسلمہ حقیقتوں میں سے ایک یہ ہے کہ امیرالمومنین ؑ نے امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دو گراں بہا گوہر اور یادگار تھے) حضرت عثمان کی حفاظت کے لیے بھیجا۔ خلیفہ کا گھر محاصرے میں تھا اور کھانے پینے کی چیزیں اندر لے جانے کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ ان حالات میں امام ؑ نے خلیفہ کے گھر کے اندر سامان خورد و نوش بھیجا(۱۴)۔ آپ ؑ نے باربار ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کیے جو حضرت عثمان سے خشمگین تھے تاکہ ان کے غیظ و غضب کو کم کیا جا سکے۔
شفیق اور مخلص ثالث:
مسلمانوں کے ہاتھوں حضرت عثمان کے گھر کے محاصرے کے دوران اور اس محاصرے سے پہلے جب عالم اسلام میں خلیفہ کے خلاف نفرت عروج پر تھی امیرالمومنین علیہ السلام نے ایک مخلص ایلچی اور ایک ہمدرد مصلح و ثالث کا کردار ادا کیا(۱۵)۔
امام علیہ السلام خلیفہ تک لوگوں کی باتیں منتقل کرنے او ر خلیفہ کو نصیحت کرنے والے ثالث کا کردار ادا کرتے رہے ۔ جن دنوں خلیفہ کا گھر محاصرے میں تھا امیرالمومنین ؑ خلوص دل کے ساتھ حضرت عثمان کی مدد کررہے تھے حالانکہ محاصرہ کرنے والوں میں آپ ؑ کے چاہنے والے بھی شامل تھے ۔ یہ لوگ آپ علیہ السلام سے کچھ اور توقع رکھتے تھے ۔ وہ یہ توقع رکھتے تھے کہ امیر المومنین علیہ السلام ان کی قیادت سنبھالیں اور مل کر یہ مہم سرکرلیں لیکن امیر المومنین علیہ السلام نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آپ ؑ کو یہ بات قبول نہیں تھی(۱۶)۔ آپ ؑ نے اس معاملے میں ایک ایسا مثبت کردار ادا کیا جو عام طور پر انسانی خواہشا ت کے سوفیصد منافی ہوتاہے ۔ یہ او ربات ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کا عظیم باطن ان خواہشات سے کہیں بلند و برتر تھا(۱۷)۔
قتل عثمان کا گھمبیر اور پیچیدہ سانحہ:
اگرچہ حضرت عثمان کو ان لوگوں نے قتل کیا تھا جو سچ مچ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بن چکے تھے اور ان کے درمیان اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی لیکن سوال یہ ہے کہ اس قتل کا اصلی محرک کو ن تھا؟
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس حادثے کے پیچھے وہی لوگ تھے جنہوں نے بعد میں امیر المومنین علیہ السلام کا مقابلہ کیا ۔ حضرت عثمان کے خلاف لوگوں کو اکسانے والوں میں سے ایک رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ ام المومنین حضرت عائشہ تھیں ۔ چنانچہ وہ مدینہ سے مکہ گئی تھیں۔ بہت سے مورخین نے جناب عائشہ کی زبانی یہ جملہ نقل کیا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں سے کہا:
اُقتُلُوا نَعثَلاً ۔
یعنی اس ’’نعثل ‘‘ کو قتل کردو ۔
یہاں حضرت عائشہ خلیفہ کو ایک غیر مسلم شخص سے تشبیہ دیتے ہوئے لوگوں کو ان کے قتل کی ترغیب دیتی ہیں(۱۸)۔ جب مصر، بصرہ اور دیگر مقامات کے لوگوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا اور سامان خورد و نوش تک اندر لے جانے پر بھی پابندی لگا دی تو اس وقت خلیفہ نے امیر معاویہ کو خط لکھا اور ان سے مدد کا تقاضا کیا ۔
امیر معاویہ اور حضرت عثمان میں رشتہ داری بھی تھی اور دونوں کا تعلق ایک ہی قبیلے سے تھا، امیر معاویہ کو بخوبی معلوم تھا کہ حالات سنگین ہیں ۔ وہ ایک لشکر کے ساتھ شام سے مدینہ جاکر حضرت عثمان کی مدد کرنے پر قادر تھے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ امیر معاویہ جان بوجھ کر لیت و لعل سے کام لیتے رہے یہاں تک کہ قتل عثمان کی خبر آ گئی(۱۹)۔
ادھر جناب طلحہ اور جناب زبیر ( جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو معروف اور محترم صحابی تھے ) اس وقت مدینے میں موجود تھے لیکن انہوں نے بھی لوگوں کو روکنے اور حضرت عثمان کو بچانے کی کوشش نہیں کی ۔ بنابریں قتل عثمان کو ایک سیدھا سا دہ واقعہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لہٰذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ لوگ حکومت کے بعض گورنروں اور کارندوں سے تنگ آئے ہوئے تھے چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان سے انتقام لیا۔
یہ درست ہے کہ جو لوگ براہ راست کارروائی کررہے تھے وہ عام لوگ تھے لیکن اس واقعے کے اصل محرک خلیفہ کے سیاسی مخالفین، رقیب اور ان سے ذاتی عناد رکھنے والے تھے ۔ یہ سب یاان میں سے اکثر لوگ وہ تھے جنہوں نے بعد میں امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ بھی محاذ آرائی کی۔ خلاصہ یہ کہ یہ سب اس واقعے میں دخیل تھے، یہاں تک کہ خلیفہ قتل ہو گئے(۲۰)۔

حوالہ جات
۱۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر۶۲، صفحہ۴۵۱
۲۔ نماز جمعہ (۲۔۳۔۱۳۶۵ھ ش) کے خطبات سے اقتباس
۳۔ ۱۹ رمضان (۲۸۔۲۔۱۳۶۶ھ ش) کی مناسبت سے رہبرمعظم کے بیانات سے ماخوذ
۴۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر۹۲
۵۔ نماز جمعہ (۸۔۲۔۱۳۶۸ ھ ش) کے خطبات سے اقتباس
۶۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد ۹، صفحہ۱۰۰
۷۔ یہ تجویز خلیفہ سوئم حضرت عثمان کی تھی۔
۸۔ نہج البلاغہ، کلام ۲۴۰، صفحہ۳۵۸
۹۔ نہج البلاغہ، خطبہ۳، صفحہ۴۸
۱۰۔ ۱۹ رمضان (۲۸۔۲۔۱۳۶۶ ھ ش) کی مناسبت سے رہبرمعظم کے بیانات سے ماخوذ
۱۱۔ تاریخ یعقوبی، جلد۲، صفحہ۱۶۲
۱۲۔ رہبرمعظم کے بیانات (۲۰ رمضان، ۷۔۱۳۶۸ ھ ش) سے ماخوذ
۱۳۔ تاریخ طبری، جلد۳، صفحہ۴۰۰
۱۴۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر۱ اور مکتوب نمبر۲۸
۱۵۔ نماز جمعہ (۸۔۲۔۱۳۶۸ ھ ش) کے خطبات سے اقتباس
۱۶۔ نہج البلاغہ، کلام نمبر۱۶۴
۱۷۔ نہج البلاغہ، خطبہ۳۰
۱۸۔ تاریخ طبری، جلد۳، صفحہ۴۰۲
۱۹۔ ۲۱ رمضان (۹۔۳۔۱۳۶۵ ھ ش) کی شب رہبرمعظم کے بیانات سے ماخوذ

Related Articles

Back to top button