مقالاتکربلا شناسی

کربلائی عزادار

(شرف سراج گلتری)

واقعہ کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے کہ جہاں سے اقدار انسانیت پھر سے تازہ دم ہوئی ہیں۔ اگر واقعہ کربلا وجود میں نہ آتا تو انسانیت ظلم و جور کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں سسک سسک کر دم لیتی اور ہر طرف وحشت و درندگی کا راج ہوتا۔ ظالم ظلم پہ ظلم ڈھاتا اور معاشرے میں تمام اخلاقی برائیاں منڈلاتی۔ مگر حریت فکر کے سالار حسین ابن علیؑ نے ظلم کو کچل کر اس کی خوفناک شکل کو عیاں کر دیا اور ہر دور کے حریت پسندوں کے لئے واقعہ کربلا کو بطور ایک اسوہ چھوڑا ہے۔ لیکن اس اسوہ حسینؑ پر چلنے کے لئے ایک مرد مومن کو علم، بصیرت اور شجاعت جیسی صفات کا حامل ہونا ضروری ہے، تاکہ راہ کربلا اور فکر کربلا کی صحیح پہچان کے ساتھ اقدار عاشورا کو معاشرے میں زندہ کرسکے اور وقت کے طاغوت کے خلاف تحریک حریت کے قیام کا صحیح طرز عمل بھی واقعہ کربلا سے ہی لے سکے۔ عصر حاضر کے اکثر عزاداروں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ راہ کربلا اور فکر کربلا کو سمجھنے میں خطا کر بیٹھے ہیں، جس کی وجہ سے عزاداری سے منسوب ہر رسم کو جائز سمجھتے ہیں اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو سعادت سمجھتے ہیں۔ گویا عزاداری کو رزم سے نکال کر رسم کے پیکر میں ڈھالنے کے لئے بھرپور کوشاں ہیں۔

کاش فکر کربلا کو زندہ رکھنے کے لئے لوگوں کا جمع ہوکر چند رسومات کو بجالانا ہی کافی ہوتا، تاکہ آج کا رسمی عزادار بھی کربلائی عزادار کہلانے کا حقدار ٹھہرتا، مگر راہ کربلا اور فکر کربلا پر چلنے کے معیارات بہت ہی تلخ ہیں، جس کے ہر موڑ پر پر زہر کا ایک ایک گھونٹ پی کر آگے کی منزل کی جانب بڑھنا ہے، جس کے لئے جناب جون جیسا جگر چاہیے اور حق کی راہ میں اس زہر کو بھی جام کوثر سمجھ کر پینے کے لئے تبسم جناب علی اصغر چاہیے، تاکہ ایک مرتبہ پھر کربلا کی حقیقی تفسیر ہوسکے۔ اس زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے

تو ایک کربلائی عزادار اور مثالی عزاداری کو پہچاننے کا معیار یہ نہیں ہے کہ مجلس میں کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے اور کتنے لوگوں کا مجموعہ ہوتا ہے، بلکہ معیار یہ ہے کہ مجلس میں کس فکر کا درس پڑھایا جاتا ہے، رسوماتی یا پھر آزادی افکار کا۔ اگر سادہ الفاظ میں لکھ دیا جائے تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ کربلائی عزادار کو پہچاننے کا معیار یہ نہیں کہ حسین کے نام پر کتنا پیسہ خرچ کرتا ہے، بلکہ معیار یہ کہ صحیح اور مناسب جگہوں پر خرچ کرتا ہے یا نہیں، جس سے اسلام اور انسانیت کو فائدہ پہنچ سکے۔ ایسا نہ ہو کہ عزادار کسی کام پر امام حسینؑ کے نام پر پیسہ خرچ کریں، وہی کام مسلمانوں کو راہ کربلا اور اور فکر کربلا سے دور کرنے کا باعث بنے۔

پس ایک کربلائی عزادار بننے کے لئے سب سے مہم کام راہ کربلا اور فکر کربلا کی صحیح شناخت کرنا ہے، تاکہ دنیا کے گونا گوں حالات کی تبدیلیوں میں اٹھنے والی تحریکوں میں فرق کر سکے کہ کونسی تحریک الٰہی ہے اور کونسی تحریک طاغوتی ہے۔ دوسرا مہم کام راہ کربلا کو سمجھنے کے بعد ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ یہی دو اہم ارکان ہیں کہ جو کربلائی عزادار اور رسمی عزادار کے درمیان نقطہ افتراق کو سمجھا دیتے ہیں، ان معیارات کے مطابق اگر آج کے عزاداروں کو تولا جائے تو کتنے لوگ ہوں گے کہ جو کربلائی عزادار کہلوانے کے حقدار ٹھہر سکیں گے، کیونکہ دنیا کی نگاہوں میں ہے کہ آج کا عزادار نظام ولایت کے لئے چھوٹی سے چھوٹی مشکلات کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اپنی خود ساختہ خاندانی، علاقائی، قبائلی اور گھریلو مشکلات کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہے اور فکر کربلا و راہ کربلا پر چلنے سے گھبراتا ہے، جس کی وجہ سے طاغوت یا طاغوت کے ایجنڈے کو اپنا رہنما چننے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ اگر کربلائی تعلیمات کے معیار سے تولا جائے تو مایوسی فکر کربلا نہیں اور نہ ہی ایسے فکر کے حامل حضرات کربلائی عزادار بن سکتے ہیں۔ لہٰذا اس بات سے آگاہی لازمی ہے کہ ایک رسمی عزادار یہ کہہ کر اپنے آپ کو کربلائی عزادار ثابت کرنے کے لئے شاید راستہ نکالتا ہو کہ آج کوئی حسین ہے ہی نہیں کہ جس کا ساتھ دے کر وقت کے طاغوت کے خلاف مقاومت دیکھا کر ایک اور کربلا سجا سکیں۔

شاید ظاہری طور پر یہ درست ہو، کیونکہ ممکن ہے بعض لوگوں کے معیار کے مطابق ایسا کوئی حسین نظر نہ آتا ہو، جو بھروسے کے لائق ہو، مگر یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کل کے یزید کی طرح آج کا حاکم بھی تخت پر بیٹھے اسلام اور انسانی اقدار کو پامال کر رہا ہے، پس اس کے خلاف ایک مرد مومن کی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔ آیا ایک مرد مومن پر لازم نہیں کہ طاغوت کے تخت کو گرا کر الٰہی حکومت کو معاشرے میں قائم کرنے کی سعی کریں، تاکہ انسانی اقدار بچ جائیں۔ خصوصاً ایک شیعہ مسلم جو غیبت کبریٰ پر ایمان رکھتا ہے، اس کی ذمہ داری صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہونا ہے یا پھر غیبت کبریٰ میں امام زمانہ کی طرف سے ایک شیعہ پر عائد ہونے والی ذمہ داریاں طاغوت سے سمجھوتہ کرکے طاغوتی ایجنڈے کو انتخاب کرنے سے پوری ہو جاتی ہے۔ لہٰذا آج کے عزاداروں کو اپنے خود ساختہ بہانوں کے سہارے خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے، بلکہ امام مھدی عج کی عالمگیر حاکمیت کے لئے ماحول بنانے کے لئے مشکلات اور سختیوں کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے، تب جا کر شاید کربلائی عزادار کہلوانے کا حقدار بنے۔ اس لئے کہ حریت فکر کربلا بہانہ سازی اور مایوسی کو مسترد کرتی ہے اور ظالم کے خلاف ہمت باندھنے اور ظلم سے نجات پر یقین رکھنے کا درس دیتی ہے۔ بہانہ سازی اور مایوسی ہی دو ایسے اسباب ہیں کہ جن کی وجہ سے ظالم کو تقویت ملتی ہیں اور ظالم کو مزید ظلم کرنے کا حوصلہ مل جاتا ہے۔

آج اگر دنیا میں ظالم چین سے بیٹھا ہوا ہے، تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ عوام کو بزدلی اور مایوسی کا درس پڑھایا گیا ہے، طاغوت کے خلاف قیام پر موت کو یقینی بتایا گیا ہے اور طاغوت کے سائے میں جو کچھ مل رہا ہے، اسی کو غنیمت سمجھ کر خاموشی اختیار کرنا اور ان سے منسلک رہنے میں ہی بقاء سمجھایا گیا ہے، مگر حریت فکر کے سالار حسین بن علیؑ نے قیامت تک کے آزادی پسند انسانوں کے لئے "ھیھات من الذلہ” کہہ کر یہ پیغام دے گئے ہیں کہ خبردار اگر تمہیں حق کے راستے پر تنہا کر دیا جائے اور چاروں طرف سے تمہارا محاصرہ کر لیا جائے اور ہزاروں دشمنوں کی تلواروں کا رخ تمہاری جانب ہوجائے تو بھی تمہیں طاغوت کو تسلیم نہیں کرنا ہوگا، وگرنہ ذلت اور غلامی ابن آدم کا مقدر بن جائے گی اور اگر تم نے اس پرخطر دور میں آزادی کی راہ میں استقامت دکھائی اور تمہارا سر تن سے جدا کر دیا جائے اور تمہارا بدن پارہ پارہ بھی ہو جائے تو بھی تمہارا خون ہی ظالم کی نابودی کا سبب بنے گا اور عزت و کامرانی کو تمہارے نام ثبت کر دیا جائے گا اور حریت پسندوں کے لئے تم ایک مشعل راہ بن جاؤ گے، کیونکہ جو حق کی راہ میں قتل ہو جاتا ہے، اس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ شہید کا خون اللہ کی راہ میں لڑنے والے مجاہدین کے خون کو گرماتا رہے گا اور ہمیشہ ظالموں کو للکارتا رہے گا "إن لقتل الحسين حرارة في قلوب المؤمنين لا تبرد أبدا ” کا مطلب بھی یہی ہے کہ حسینؑ کا غم مومن کو ظلم سہنے کا درس نہیں دیتا، غلامی کی زنجیریں پہننے نہیں دیتا، بلکہ ظالم کے سامنے مقاومت دکھانے کے لئے آمادہ کرتا ہے اور ستم پذیری و غلامی کی تمام تر زنجیروں کو توڑ کر حریت فکر کا تاج سر پر سجا دیتا ہے۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button