مقالاتکربلا شناسی

قیامِ امام حسین کے محرکات و مقاصد!

 

(طاہر یاسین طاہر)

واقعہ کربلا اپنے اندر بے پناہ ہدایت، حریت اور غیرتِ دینی سمیٹے ہوئے ہے۔ وہ محرکات فراموش نہیں کرنے چاہئیں جو واقعہ کربلا کی بنیاد بنے۔ تذکرۃ الخواص میں درج ہے کہ آپؑ نے مکہ سے کربلا جاتے ہوئے ایک منزل پر فرزدق سے فرمایا: ’’ان لوگوں نے خدا کی اطاعت چھوڑ کر شیطان کی اطاعت اختیار کر لی ہے۔ فساد کا اظہار کرتے ہیں، حدود خدا کا خیال نہیں رکھتے، شراب پیتے ہیں اور فقرا و مساکین کے اموال غصب کرچکے ہیں۔ اب دین، عزت، شرف کی مدد و نصرت اور کلمہ خدا کی سربلندی کی خاطر جہاد فی سبیل اللہ کی سب سے بڑی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔‘‘ جب بات یہاں تک پہنچ جائے کہ یزید جیسا شخص مسند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بیٹھ کر اپنے آپ کو مسلمانوں اور پورے عالم اسلام کا دینی و سیاسی رہبر سمجھنے لگے تو پھر امام حق کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں رہتا کہ وہ خطرے کا اعلان کرے اور اس کی حکومت کو ناجائز حکومت کہتے ہوئے اس کے خلاف اعلان جنگ کرے۔ کیونکہ بڑے بڑے صحابہ و تابعین کا اس پلید فطرت شخص کی بیعت کر لینا لوگوں کی نظروں میں اس کی حکومت کی صحت و جواز پر مہر و تائید تھی، جو حقیقی خلافت کی نابودی، اسلامی رہبریت و امامت کی تمام شرائط سے عدول اور معاشرے کو گمراہی و ضلالت کے سپرد کرنے

کے مترادف تھا۔ طبری کی جلد پنجم میں درج ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا ’’امام نہیں ہوسکتا مگر وہ جو کتاب خدا کے مطابق حکم کرے، عدالت برپا کرے، دین حق کا پابند ہو اور اپنے آپ کو ذات خدا کے لئے وقف کر دے۔‘‘

امام حسین کے دور کے اسلامی معاشرے کے بارے میں ایک روشن فکر اہل سنت محقق سید قطب (مصری عالم و مفسر) لکھتے ہیں کہ ’’اموی حکومت اسلامی خلافت نہیں تھی، بلکہ ایک ظالم و استبدادی حکومت جو وحی اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتی تھی، بلکہ جاہلیت کے افکار سے پر تھی، یہ بات سمجھنے کے لئے کہ اموی حکومت کن بنیادوں پر استوار تھی، بیعت یزید کی کیفیت کو جان لینا ہی کافی ہے۔ معاویہ نے مختلف لوگوں کو بلا بلا کر یزید کی بیعت کے حوالے سے مشورہ کرنا شروع کیا۔ یزید بن مقفع نامی شخص نے معاویہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا آپ امیر المومنین ہیں۔ پھر یزید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا معاویہ کے بعد امیر المومنین یہ ہے اور پھر کہا جو بھی یزید کو نہ مانے اس کے لئے تلوار ہے۔ معاویہ نے اس سے کہا تم بیٹھ جاؤ، ماشاء اللہ تم بڑے پائے کے خطیب ہو۔‘‘

اس امر میں کلام نہیں کہ امام حسین ؑ اپنی شہادت اور ظاہری کامیابی کے حاصل نہ ہونے سے مکمل طور آگاہ تھے، مگر آپؑ کے قیام کا مقصد یزیدی حکومت کو باطل ثابت کرنا، دین کا احیا کرنا، فکری انحرافات و شبہات کو دور کرنا اور یزیدی حکومت کی طرف سے اسلام پر پڑنے والی ضربتوں سے اسلام کو نجات دلانا تھا، بے شک حسین (ع) اپنے عظیم مقصد میں کامیاب رہے اور تاریخ اس پہ گواہ ہے۔ یزید ظاہری کامیابی حاصل کرکے بھی نامراد و لعین رہا اور حسینؑ سر کٹا کر بھی سربلند ہیں۔ صبح قیامت تک دنیا بھر کے عدل پسند یزید پہ لعنت اور حسین ؑ کو سلام پیش کرتے رہیں گے۔ دنیا بھر کے حریت پرست آج بھی حسین علیہ السلام کے اس جملے سے حرارت لیتے ہیں کہ مجھ جیسا کبھی بھی یزید جیسے کی بیعت نہیں کرے گا۔ اس ایک جملے پر ہی دفتر کے دفتر لکھے جا چکے ہیں۔ کربلا میں دو شخصیات نہیں دو نظریات کا ٹکراؤ ہوا۔ حسینی نظریہ جو اسلام کی بقا اور انسانی وقار کا ضامن ہے، اپنے پورے جلال کے ساتھ کامران ہوا۔ یزید اپنے باطل ارادوں، باطل نظریات اور ظلم و ستم سمیت لعنتوں کے سمندر میں غرق ہے۔ معروف محقق و مفسر سید قطب لکھتے ہیں کہ ’’یزید کے سیاسی کارنامے جیسے، قتل حسینؑ، خانہ کعبہ کا محاصرہ، اس پر سنگ باری، خانہ کعبہ کی تخریب اور اسے جلانا اور واقعہ حرہ سب شاہد ہیں کہ یزید کے بارے میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے، اس میں ذرہ بھر بھی مبالغہ نہیں۔ یزید کی خلافت کے لئے نامزدگی، اسلام، اسلامی نطام اور اسلام کے مقاصد و اہداف پر بڑی کاری ضرب تھی۔‘‘

ایک جگہ امام غزالی لکھتے ہیں کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ جو دھچکا اسلام کو بنی امیہ کے فتنوں سے لگا، وہ اتنا زیادہ شدید تھا کہ اگر اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کو لگتا تو وہ مکمل نابود ہو جاتا اور اس کی بنیادیں تباہ ہو جاتیں۔‘‘ بے شک ایسا ہی ہوتا، اسلام کی خوش بختی مگر یہ ہے کہ اس کے پاس حسین ؑ ایسا نبی کی گود کا پالا شخص موجود تھا، جس نے آگے بڑھ کر یزید کی باطل حکومت اور اسلام مخالف نظریات کا گلا گھونٹ کر اسلام کو ابدی حیات عطا کر دی۔ قیام امام حسین ؑ کے محرکات بڑے طویل اور المناک ہیں، جن کا خلاصہ سطور بالا میں رقم کیا ہے، مگر کیا امام حسین ؑ کے فلسفہ شہادت اور قیام کے مقاصد کو بھی سمجھنے کی کوشش کی جائے گی؟ بے شک اس حوالے سے اہل فکر و نظر قیام امام حسین ؑ کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے واقعہ کربلا کا مطالعہ اور اس کا تذکرہ کرتے ہیں۔ آج کے پر آشوب اور ستم پرور دور میں اس بات کی ضرورت کہیں زیادہ ہے کہ قیام امام حسین ؑ کے ان مقاصد کو پورے شعور کے ساتھ سمجھا جائے، جن کے لئے امام عالی مقام ؑ نے اپنے اہل و عیال تک قربان کر دیئے۔ آج ہمیں حسینی ؑ نظریہ کی بقا کے لئے یزیدی فکر سے سے ٹکرا جانا ہے۔ آج کا یزید بڑا شاطر اور اپنی جابرانہ فکر کے نفاذ کے حق میں کئی تاویلات لاتا ہے۔ بقا مگر حسین ؑ کو ہے۔ داوم حسینؑ کو ہے۔ سارے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے نبی کے حضور تعزیت پیش کریں اور یہ اعلان کریں کہ ہم سب حسینی ؑ ہیں۔ ہمیں یزید اور اس کی فکر سے نفرت ہے۔

Related Articles

Back to top button