اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

امید جنت وخوف دوزخ

مصنف:
شھیدآیت اللہ عبدالحسین دستغیب

امید جنت وخوف دوزخ:

عمل واجب ہویا مستحب بہر حال اخلاص کے ساتھ ہونا چاہئے کیونکہ اس کی قدر وقیمت اخلاص ہی سے ہے او ر اخلاص کے بغیر کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں اخلاص کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان کے علم کامحرک دکھاوا یانمائش کا جذبہ نہ ہو بلکہ خوف عذاب یا طلب ثواب ہو.مثلاً جب وہ نماز فجر کے لئے اٹھے اور وضو کرے تو اس کا محرک یہ اندیشہ ہو کہ نما زواجب ہے اگر نہ پڑھی توترک صلواۃ کامجرم ہوکرکافر بنوں گا اور اس کی سزا میں پندرہ قسم کے عذاب ہائے خداوندی کانشانہ بنونگا.یا مثلاًجب وہ روزہ رکھے تو اس کے فاقہ برداشت کرنے اور چودہ گھنٹے کےلئے خود کوروزہ شکن امور اور دیگرخواہشات نفسانی سے بازرکھنے کا محرک ثواب کاوہ وعدہ ہو جوروزہ دار کودیاگیاہے.
یہ پہلا درجہ اخلاص کا ہے جس میں انسان کاعمل صحیح شمار ہوتاہے ،جس عذاب سے وہ ڈرتاہے اللہ تعالیٰ اسےاس سے امان میں رکھتاہے اور جس ثواب کاوہ امید وارہوتاہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اسے نوازتاہے.
لیکن اگر انسان کے عمل کامحرک محض دنیاوالوں کی نظروں میں برتری کاشوق یابے عزتی کاخوف ہو،مثلاً حج کو جانے سےاس کا مقصد طلب ثواب نہ ہو بلکہ اصل محرک دنیاکی نظروں میں برتری کی خواہش ہو یا اندیشہ ہو کہ اگر حج نہ کیا تو دنیا والے بخیل یا کنجوس کہیں گےتواس کا عمل باطل او رحرام ہے.
یہ بڑا مشکل مقام ہے بعض اوقات انسان اپنی ذات میں الجھ جاتاہے اور اپنا آپ اس کی نظروں میں مشکوک ہوجاتاہے.مثلاًوہ افعال بدسے بیزاری اورنفرت کااظہار کرتاہے یاامربالمعروف کرتاہے اور سمجھتاہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ایک ضروری اور واجب عمل انجام دیاہو لیکن اصل محرک اس کے اس عمل کا محض دکھاوا اور دوسروں کو یہ بارو کرانا ہوتاہے کہ اس کے دل میں دین کابڑا دردہے اور ہر چند کہ یہ عمل بظاہر اچھا ہے لیکن اس کے گناہان کبیرہ میں شمار ہوتاہے.

تیس سالہ عبادت کا اعادہ:
یہ ایک عبادت گذار کا قصہ ہے جس میں خوب غور کرنا چاہئے کہ مبادا ہمارابھی وہی انجام نہ ہو.
ایک صاحب تقویٰ شخص نماز با جماعت ادا کرنے کی غرض سے ہمیشہ سب سے پہلے مسجد میں پہنچتا سب سے اگلی صف میں کھڑا ہوتا اور سب سے آخر میں مسجدسےنکلتا تھا.پورے تیس سال اس کا یہ رویہ رہا اور ایک وقت کابھی اس میں ناغہ واقع نہ ہوا.ایک دن اسے کوئی بہت ہی ضروری کام پیش آگیا جس کی وجہ سے اسے دیرہوگئی اور وہ مسجد میں اپنے وقت پرنہ پہنچ سکا.جب آیا تو نماز شروع ہوچکی تھی لہٰذا ناچار اسے آخری صف میں کھڑا ہونا پڑانماز سےفراغت کے بعد لوگ مسجدسے رخصت ہوتے وقت اسےتعجب سےدیکھتے تھے.اسے بہت دکھ ہوا کہ نمازیوں نےاسے آخری صف میں کیوں دیکھا ارووہ شرم سے پانی پانی ہوگیا.
پھر اسے خیال آیا کہ شرمندہ ہونے کی کیابات ہے اور اپنے آپ سے مخاطب ہوکرکہنے لگا اے بدبخت یہ جو تیس سال توصف اول میں کھڑا ہوتارہامعلوم ہوتاہے کہ ثواب کے لئے نہ تھا بلکہ صرف دنیا کے سامنے نمائش کےارادے سے تھا ورنہ اگر خدا کے لئے تھا تو آج اسے منظور نہ رہا ہوگا کہ توصف اول میں کھڑا ہو.اس کی مشئیت پرناراض ہونے کی جرأت تجھے کیسے ہوئی…؟
آخر کار وہ تائب ہوا اور تیس سالوں کی نمازیں اس نے قضاکیں.

امراض نفسانی کاعلاج کیجئے:
یہ داستان ہم سب کے لئے باعث عبرت ہونی چاہئے ہم یہ نہیں کہتے کہ نماز کے لئے مسجد میں صف اول میں کھڑے نہ ہوں .ضرور کھڑے ہوں لیکن فضیلت اور ثواب کے حصول کےلئے نہ کہ دنیا کے دکھا وےکے لئے، اگر کسی دن پہلی صف میں جگہ نہ ملی اور آپ کو دوسری ،تیسری یا آخری صف میں کھڑا ہونا پڑا تو اس میں توہین کی کوئی بات نہیں.یہ نہ کہیں کہ میں عالم ہوں مجھے ضرورہی صف اول میں جگہ ملنی چاہئے ،پچھلی صفیں میرے شایان شان نہیں بلکہ آپ کو پچھلی صفوں میں کسی بچے یا کسی جاہل کے ساتھ بھی کھڑاہونا پڑے تو آپ کو ترددلاحق نہیں ہونا چاہئے.
یہ نفسانی امراض ہیں جو انسان کو ہلاک کردیتے ہیں.امام جماعت کابھی فرض ہے کہ مقتدیوں کی تعداد کو اہمیت نہ دے ورنہ گناہ گارہوگا.مقتدی خواہ ایک ہو یا دس ہزار ہوں اس کے لئے برابر ہونا چاہئے.

ریاء اور ذیلی محرکات سےتوبہ:
لہٰذا یہ ضروری ہے کہ انسان کے عمل کاادنیٰ محرک خوف عذاب یاامید ثواب ہو اس سے بہتر اور مکمل ترصورت یہ ہے کہ محرک خود ذات خداوندی ہو اس کے سوا جوکچھ بھی ہے ریا ہے او رباطل وحرام ہے اور اگر وہ عمل واجب تھا تو اس کا اعادہ او رضاءضروری ہے اور توبہ توہر حال میں لازم ہے خواہ وہ عمل واجب ہویامستحب.
اسی طرح ذیلی محرکات بھی ریاء ہی کے حکم میں داخل ہیں مثلاً کوئی شخص مشہد مقدس کی زیارت کو جائے لیکن اس کا محرک وہاںکی آب وہوا یا پھلوں کی فراوانی یاسیاحت ہو کہ زیارت ثانوی حیثیت اختیار کرجائے.

کشتہ راہ خر:
پس اگر انسان سے کوئی نیک علم سرزدہو تو غرور وفریب میں نہ آجائے کہ میں نےخدا کی راہ میں یہ کام کیا بلکہ اسے چاہئے کہ اس کا م کےمحرک کا تعین کرے کیونکہ حقیقی ہدف اس کا وہی چیزہے جس نے اسے عمل پر اکسایا اوراس کوخدا کی راہ میں قرار دینا صرف اس صورت میں ممکن ومعقول ہے کہ آپ نے پورے عزم سچی نیت اور دلی ارادہ سے محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے اسےانجام دیاہو.
روایت میں ہے کہ عہد رسالتﷺ میں ایک محاذ جہاد پر ایک کافر ایک خوبصورت سفید خچرپر سوار جنگ میں مصروف تھا ایک مسلمان کی نظرجو اس سفید راہوار پرپڑی تو اس پر لٹوہوگیا اور دل میں کہنے لگا اس کافر کوقتل کرکے اس خچر کوحاصل کرنا چاہئے.اس نیت سے وہ آگے بڑھا لیکن پیشتر اس کے کہ وہ اس کافر پر حملہ آور ہو اس کافر نے سبقت کی اور اسے قتل کردیا.صحابہ میں وہ مسلمان "قتیل الحمار” (کشتہ راہ خر)مشہور ہوگیا.
ملاحظہ کیا آپ نے کہ اس نےکس نیت سے حرکت کی اور اس سے اسےکیا حاصل ہوا.اس بازار میں صرف حق وحقیقت کالین دین ہوتاہے.ظاہر داری جیسے کھوٹے مال کی یہاں کوئی پرسش نہیں.پس وائے ہو اس بدبخت انسان پر جواپنے نفس کی غلامی میں جان دے کر”خسرالدنیا والاخرۃ” حاصل کرے اگر کوئی شخص اپنے نفس کی غلامی میں جان دے کر”خسر الدنیاا والآخرہ”حاصل کرے.اگر کوئی شخص اپنے نفس کی خاطر سرگرم عمل ہوتو سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشئیت سے بعض اوقات اپنے مقصد کو پابھی لے لیکن اس کا یقینی حصول صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ عمل کو پورے اخلاص نیت سے صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر انجام دیا جائے.اس طرح سے نہ صرف یہ کہ حصول مقصد میں کامیابی حتمی ہوگی بلکہ اس کے فضل و کرم سے توقعات سے بڑھ کر چڑھ کر نتائج حاصل ہوں گے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:> مَنْ کانَ یُرِیدُ حَرْثَ الْآخِرَۃِ نَزِدْ لَہُ فِی حَرْثِہِ وَ مَنْ کانَ یُرِیدُ حَرْثَ الدُّنْیا نُؤْتِہِ مِنْہا وَ ما لَہُ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ نَصِیب‏ <جو انسان آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لئے اضافہ کردیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی کا طلبگار ہے اسے اسی میں سے عطا کردیتے ہیں اور پھر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے.

ضمنی محرکات مبطل عمل نہیں:
اس مقام پر یہ یاددہانی ضروری ہے کہ ضمنی محرکات مبطل عمل نہیں ہیں مثلا ایک شخص حصول ثواب کی نیت سے حضرت امام رضاؑکی زیارت کے لئے مشہدمقدس جاتاہے کیونکہ امام رضاؑ کاوعدہ ہے کہ وہ میزان اصراط اور نامہ اعمال کی تقسیم کے وقت اپنے محبین کی مدد کو پہنچیںگے اسی وعدے کے وثوق میں وہ جاتاہے کہ امامؑکی شفاعت سے اللہ تعالیٰ اسے حج وغیرہ کا ثواب عطا فرمائے گا.
ضمناًوہ یہ سوچتاہے کہ ذارایک ہفتہ ٹھہرجاؤں تاکہ مشہد کی خوبانی خوب یا خبربوزے نے سفر مشہد پرآمادہ نہیں کیا بلکہ حقیقی محرک اس کے سفر کازیارت امامؑ ہے اور خوبانی خربوزہ یا ہواخوری اس کے ذیلی محرکات ہیں.

خانہ کعبہ تپتی سرزمین پر:
نہج البلاغہ میں حج اور اس کی حکمت کے بارےمیں جناب امیرؑنے اپنے خطبہ جلیلہ میں فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ شریف و تپتی سرزمین پر قرار دیا جس میں جسمانی آسائش کاسامان نہیں کیونکہ اس کے اطراف میں تپتے ہوئے پہاڑ ہیں اور زمین وہاں کی بنجرہے.اگر اللہ تعالیٰ کی مشئیت ہوتی تو وہ اپنے مقدس گھر کو دنیا کے خوش موسم ترین خطہ میں قرار دیتالیکن ایسا کرنے سے لوگوں کی آزمائش نہ ہوسکتی .
مثلاً اگر خانہ کعبہ لبنان میں ہوتا تو لوگ خوشگوار آب وہوا اور خوبصورت باغوں اور سبزہ زاروں کے فرحت بخش مناظرسے لطف اندوز ہونے کے لئے وہاں جاتے اور اس طرح تقرب خداوند ی سے محروم رہتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے زیادہ حظِ نفس ہوتا اور اس کا محرک اخلاص عبادت نہ ہوتا.
کچھ نہیں کہا جاسکتاہے کہ حالیہ سالوں میں عربستان میں نعمت کی جوفراوانی واقع ہوئی ہے او رسفرکی آسانی اور وسائل کی کثرت جوبہترین طریقے سے صورت پذیر ہوئی ہے ،آیا اس نے لوگوں کی نیتوں پر بھی کچھ اثر کیا ہے یا نہیں اور وہاں کا سفر بھی تجارت اورتفریح وغیرہ کا ذریعہ بناہے یا نہیں.خدانہ کرے کہ ایسی عظیم عبادت کامحرک حظِ نفس ہوسکے.

زاد سفر:
کسی کو ہماری باتوں سے بدگمانی نہیں ہونی چاہئے ہم یہ نہیں کہتے کہ مکہ معظمہ جاکر اچھی غذا نہ کھائیں ،ذادسفرسے غفلت برتیں اور کوئی تحفہ وغیرہ نہ خریدیں بلکہ بہترسے بہتر زادسفر کی فراہمی ایک مستحب فعل ہے اور اسی طرح سے گھر کی طرف لوٹنے والامسافر تحفہ یا سوغات بھی لاتاہے، اس میں بھی کوئی قباحت نہیں.ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ سفر حج کے لئے صرف یہی امور آپ کے محرک نہیں ہونے چاہئیں .بلکہ آپ کو حج کاشوق دلانے والی چیزکم ازکم یاخوف عذاب یاطلب ثواب ہوکیونکہ ہم کہہ چکے ہیں کہ جوشخص خوف عذاب سے یاطلب ثواب کے لئے کوئی نیک عمل بجالاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مایوس نہیں فرماتا.لیکن اگرنیت ہی خالص نہیں تو عمل بیکارہے.
معانی الاخبار میں روایت ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علیؑاپنے ایک شیعہ کے سرہانے تشریف لائے جو حالت نزع میں تھا آپؑ نے احوال پرسی فرمائی تو اس نے جواب دیا”اخاف ذنبی وارجورحمۃ ربی” اپنے گناہوں کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کاامید وارہوں.آپ نے فرمایایہ امیدوہمت جس دل میں ہو اللہ تعالیٰ اسے اس چیزسے امان میں رکھتاہے جس سے وہ اندیشہ ناک ہو اور جس چیز کاوہ امید وارہو اسے عطافرماتا ہے.

خداسے معاملہ:
یہ معاملہ ایسا ہے جس میں نقصان کااندیشہ نہیں،اورنہ ہی اس میں دنیاوی معاملات کی طرح "لمن نشاء” کی شرط ہوتی ہے بلکہ یہاں قطعی وعدہ دیاگیا ہے او رنیک عمل کی کوشش کو سعی مشکور فرمایاگیاہے.وہ ہواوہوس والامعاملہ ہے جومتزلزل ہوتاہے. اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ قطعی اور یقینی ہے اور اس میں کسی قسم کےنقصان کاکوئی اندیشہ نہیں.
سورۂ اسراء میں ارشاد باری ہے:
مَنْ کانَ یُریدُ الْعاجِلَۃَ عَجَّلْنا لَہُ فیہا ما نَشاءُ لِمَنْ نُریدُ ثُمَّ جَعَلْنا لَہُ جَہَنَّمَ یَصْلاہا مَذْمُوماً مَدْحُوراً ،وَ مَنْ أَرادَ الْآخِرَۃَ وَ سَعى‏ لَہا سَعْیَہا وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِکَ کانَ سَعْیُہُمْ مَشْکُوراً جو شخص بھی دنیا کا طلب گار ہے ہم اس کے لئے جلد ہی جو چاہتے ہیں دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد اس کے لئے جہنمّ ہے جس میں وہ ذلّت و رسوائی کے ساتھ داخل ہوگا ،اور جو شخص آخرت کا چاہنے والا ہے اور اس کے لئے ویسی ہی سعی بھی کرتا ہے اور صاحب ایمان بھی ہے تو اس کی سعی یقینا ًمقبول قرار دی جائے گی.

Related Articles

Back to top button