دانشکدہقرآن و سنتمقالات

تحریف قرآن

(آقائے علی رضائی بیرجندی؛ترجمہ : سید عزادار حسین)

ہماری بحث اس سلسلہ میں ہے کہ قرآن مجید ہر طرح کی تبدیلی اور تحریف سے محفوظ ہے ، اس میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ہے ،قرآن مجید میں رد و بدل نا ممکن ہے ؛قرآن مجید وہ واحد آسمانی کتاب ہے کہ جس میں ردو بدل (تحریف )نہیں ہوئی ، اوریہ وہ کتاب ہے جو اسلام کی جاودانگی پر محکم دلیل ہے اور آخری سفیر آسمانی حضرت محمدمصطفےٰۖ کا جاودانی معجزہ ہے ۔ اور یہ کتاب الٰہی انہی الفاظ، آیتوں اور سوروں سمیت روز اول سے آج تک باقی ہے۔ قرآن مجید کے دشمنوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس کے پاک دامن پہ داغ لگائیں لیکن اپنی سازش میں کامیاب نہیں ہوسکے اوریہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس پر تمام لوگ متفق ہیں۔
تحریف (رد و بدل ) : مفردات راغب میں لغت کے اعتبار سے تحریف کے معنی تبدیل اور منحرف کرنے کے ہیں، یہ مادہ قرآن مجید میں چار مرتبہ اسی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔

تحریف وتبدیلی کی قسمیں :
تبدیلی کی بہت سی قسمیں ہیں کہ ان میں سے بعض تو یقیناً قرآن مجید میں واقع ہوئی ہیں اور بعض کا بالکل وجود نہیں پایا جاتا اور بعض میں اختلاف ہے۔
الف ۔معنی کی تبدیلی( تحریف معنوی ): معنوی اعتبار سے تبدیلی یہ ہے کہ رائج اصول و قوانین کے بغیر قرآنی آیتوں سے ایسے معانی مراد لینا جو کہ اس میں نہ پائے جاتے ہو ں ، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اپنی ہوا و ہوس کے مطابق قرآنی آیتوں کی تفسیر بالرائے کرنا اور ان سے ایسے معانی سمجھنا جو کہ نا معقول اور نا پسند ہوں۔
ب۔ الفاظ کی تبدیلی(تحریف لفظی) : یہ ہے کہ کلمات کو اس طرح گھٹانا یا بڑھانا یا تبدیل کرنا کہ اس کے اصل معنی گم ہو جائیں، الفاظ میں زیادتی کی جانب تبدیلی کے اعتبار سے ابن مسعود کے قول کو بطور نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے ،ان کا نظریہ تھا کہ سورۂ حمد و معوذتین ( قُلْ َعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَق اورقُلْ َعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ) قرآن مجید کا حصہ نہیں ہے اوراس کے اصل نسخہ میں بھی درج نہیں ہے ، یا بعض خوارج کا کہنا ہے کہ سورۂ یوسف قرآن مجید کا حصہ نہیں ہے اور یہ صحیح نہیں ہے کہ عاشقانہ داستان؛ الٰہی کتاب کا جزو ہو۔
اور الفاظ میں کمی کی جانب تبدیلی کے اعتبار سے سورہ ٔ حفد ، سورہ خلع ، آیۂ رجم وغیرہ کو پیش کیا جا سکتا ہے ۔
معنی میں تبدیلی کی بنیاد قرائتوں میں اختلاف کا پایا جانا ہے جیسے ، مَلِکِ یَومِ الدّین، مَا لِکِ یومِ الدّین ، کی جگہ پر اور فتثبتوا، فتبینوا پڑھا جا تا ہے۔
معانی کے اعتبار سے تبدیلی یعنی تفسیر بالرّائے جو کہ علم کلام کے علماء کے درمیان رائج ہے اور کبھی کبھی فقہی علماء کے درمیان بھی پائی جاتی ہے، وہ ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کبھی کبھی تفسیر بالرّائے کو قرآن مجید سمجھنے کا نیا طریقہ بتایا جا تا ہے جو کہ اپنی جگہ پر دقت طلب بات ہے لیکن معنوی تبدیلی فی الحال ہماری بحث سے خارج ہے کیونکہ ہماری بحث الفاظ کی تبدیلی کے سلسلہ میں ہے کہ بعض لوگوں نے اس کو جہالت کی بنیاد پر اور بعض نے حسن نیت کی بنا پر اپنایا ہے اور وہ لوگ بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ الفاظ میں تبدیلی کی کوشش بھی معنوی تبدیلی کی مانند ہے اور یہ ایک ایسا بد ترین امر ہے کہ جس پر سبھی لعنت و ملامت کرتے ہیں اور یہ کام ذہنی مریض یا خود غرض و متعصب جاہل اور دنیا پرست ظالم کے علاوہ کوئی بھی انجام نہیں دیتا۔
یہ ایک ایسا عمل ہے جو خدا کے تکوینی اور تشریعی امر کے مقابل قیام کرنے کے مترادف ہے اور اس کا انجام تباہی و بربادی اور ذلت و خواری کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور جن لوگو ں نے قرآن مجید کی جانب اس طرح کی غلط نسبت دی وہ بہت بڑے اور عظیم گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ ایسا عمل ہے کہ ایک طرف عقلی دلیلوں کی مخالفت ہوتی ہے تو دوسری طرف قرآنی آیات میں ٹکراؤلازم آتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض جاہل اور نا فہم لوگوں نے قرآن مجید کے پاک دامن کو اس طرح کی تہمت سے داغ دار کیا ہے اور دشمنوں کے لئے غلط فائدہ اٹھانے کا راستہ فراہم کیا ہے۔
قرآن میں تبدیلی نا ممکن کے ہونے کی دلیلیں :
اس کی دلیلوں کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ،جو مندرجہ ذیل ہیں۔
الف: عقلی دلیلوں کی بھی دو قسمیں ہیں:
١۔دلیل حکمت: یعنی خدا وند عالم نے تمام موجودات کو حکیمانہ مقصد اور ہدف کے مد نظر خلق فرمایا ہے ، انسان کی خلقت کا مقصد آزادی اور اختیار کے ساتھ کمال کے آخری درجہ تک پہنچنا ہے ، دوسری طرف خدا نے ا نسا ن کے لئے عقل کو اگر چہ باطنی حجت قرار دیا ( تاکہ اس کے ذریعہ کمال تک پہنچے ) لیکن یہ عقل کافی نہیں ہے لہٰذا اب ان کے کمال کی خاطر انبیاء اور بعثت اور وحی درکار ہوئی۔ اس لئے کہ اگر انسانوں کی جانب آسمانی دریچے نہ کھلتے اور وحی کا نزول نہ ہوتا تو انسان کمال کی آخری منزل پر نہیں پہنچ پاتا اور یہ امر خدا کے لطف اور اس کی حکمت کے خلاف ہے اسی وجہ سے خدا وند عالم نے اپنی حکمت کے تقاضہ کی بنیاد پر مقصد خلقت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے (مسلسل) رسولوں کو بھیجا تاکہ وہ انسانوں کو کمال کی جانب لے جائیں اور آخر میں اپنے آخری رسول کو بھیجا اس کے علاوہ بشریت کی ہدایت کے لئے کامل ترین معجزہ (قرآن) کو نازل فرمایا ، اب اگر یہ کتاب تا صبح قیامت تمام انسانوں کے لئے قانون نجات ہے اور یہ تبدیلی سے محفوظ نہ رہے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ بشر اس خدائی تحفہ سے محروم رہا اور کمال کی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتا اور یہ حکمت الٰہی کے خلا ف ہوگا یہی وجہ ہے کہ جب ہم نے اسلام کو قبول کر لیا کہ یہ آخری آسمانی دین ہے اس کے بعد نہ تو کوئی پیغمبر آنے والا ہے اور نہ ہی کوئی دوسری کتاب نازل ہونے والی ہے تو ہم کو یہ بھی ماننا ہوگا کہ اس کتا ب میں کسی طرح کی تبدیلی ممکن نہیں اس لئے کہ خدا کے لطف اور اس کی حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ قرآن مجید آخری کتاب او ر آسمانی سند ہونے کے اعتبار سے ہر طرح کے خطرے سے محفوظ رہے اور وہی دلیل جو نبوت کی ضرورت کے سلسلہ میں ہے اس کتاب میں تبدیلی نہ ہونے کے لئے بھی ہے ۔
٢۔ اعجاز قرآن: قرآن مجید نے اپنے نزول کے ابتدائی دنوں سے ہی منکروں اور دشمنوں کو اپنے جیسی مثال پیش کرنے کا چیلنج کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ یہ اعلان کیا کہ قرآن حق ہے۔ (١)
یہ کتاب ہدایت کرنے والی ہے۔(٢) یہ کتاب اختلاف سے محفوظ ہے ۔(٣) اس کتاب کے مثل کسی اور کتاب کا تصور کرنا ممکن نہیں ہے۔(٤)
اس نے سب کو مقابلے کی دعوت کی ہے اور دشمنوں کو ایک بہترین طریقہ سے قرآن کے مثل لانے یا دس سورے لانے کی دعوت دی ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو کم از کم ایک سورہ ، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو ایک ہی آیت لے آؤ جیسے الفاظ سے چیلنج کیا ہے۔
گفت اگر آسان نماید این بہ تو
این چنین آسان یکی سورہ بگو
ترجمہ : (قرآن نے) کہا اگر یہ کتاب تمہاری نظر میں آسان ہے ، تو اسی کی طرح کوئی آسان سورہ اس کے جیسا لیکر آؤ ، آج بھی اور ہمیشہ اس دعوت کی تاریخ محکم اور استوار ہے، اور یہ بہترین عقلی دلیل ہے ۔ لہٰذا اس وجہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس وقت جو مسلمانوں کے ہاتھ میں کتاب ہے وہ کامل طور پر وحی الٰہی ہے اس میں کسی بندہ کا کلام شامل نہیں ہے ، کیونکہ اگر پورا قرآن یا اس کا کچھ حصہ غیر خدا کا کلام ہوتا تو ممکن تھا کہ اس کے جواب میں اسکے مثل دوسری کتاب آجاتی جبکہ ایسا ان ( قرآنی دشمنوں ) کے بس میں نہیں ہے ، لہٰذا قرآن مجید مکمل طور پر خدا کا ہی کلام ہے اور اس میں کسی بشر کا کلام شامل نہیں ہے۔
ب: تاریخی نمونے: قرآن مجید مسلمانوں کی بنیادی اور سیاسی ،قانونی کتا ب ہے اس کے علاوہ اس میں حکومت کے قوانین اور زندگی کے دستور العمل بھی پائے جاتے ہیں اور یہ ایک عظیم آسمانی مقدس کتاب ہے قرآن مجید وہ کتاب ہے کہ جس سے صدر اسلام کے مسلمان ہمیشہ اپنی نمازوں ، مسجدوں ، گھروں ، جنگ کے میدانوں ، ثقافتی اور تہذیبی میدانوں میں فائدہ اٹھاتے تھے ،حتیٰ کہ اسلامی تواریخ سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ قرآن کی تعلیم کا سلسلہ خواتین میں رائج تھا اور درحقیقت قرآن ہی ایسی واحد کتاب ہے جو ہر زمانے میں اور ہر جگہ رائج تھی، یہ ایک ایسی کتاب ہے جو پیغمبر اسلام ۖکے زمانے میں جمع کی گئی تھی اور اس کی شکل وصورت وہی تھی جو قرآن اس وقت موجود ہے ، تمام مسلمان پورے وجود کے ساتھ اس کی تعلیم اور اس کے حفظ کو اہمیت دیتے تھے اور لوگوں کی پہچان کا معیار قرآنی تعلم تھا ، حافظان قرآن اور قاریان قرآن اتنی کثرت سے پائے جاتے تھے کہ پیغمبر اسلام ۖکے بعد واقع ہونے والی ایک جنگ میں شہید ہونے والو ں کی تعداد میں چار سو قاریان قرآن تھے (٥) واقعہ بئر معونہ ، میں جو کہ پیغمبر اسلامۖ کے زمانے میں رونما ہوا تقریباً سات سو قاریان قرآن شہید ہوئے۔ (٦)
قرآن مجید کے حفظ اور قرأت کا مسئلہ ہمیشہ سے مسلمانوں کے درمیان ایک عبادت کے عنوان سے معروف ہے ، یہاں تک کہ اشاعت کے اس ترقی یافتہ زمانے میں بھی یہ سلسلہ بر قرار ہے اور جہان اسلام میں لاکھو ں افراد حافظ کل قرآن پائے جاتے ہیں، کیا ایسی صورت میں قرآن مجید کے اندر تبدیلی (تحریف ) کا احتمال دینا ممکن ہے ؟!اس کے علاوہ وحی الٰہی کے لکھنے والے ( یعنی کاتبان وحی ) پیغمبر اسلامۖ کے زمانے میں کثرت کے ساتھ موجود تھے جس پر تا ریخیں گواہ ہیں۔
ایک مورخ لکھتا ہے : ”کان للنبی کُتَّابًا یکتبون الوحی و ھم ثلاثة و اربعون اشھرھم الخلفاء الاربعة وکان الزمھم للنبی زید بن ثابت و علی بن ابی طالب علیہ السلام” (٧)
پیغمبراسلامۖکے پاس٤٣کاتبان وحی (قرآن) تھے جن میں سے مشہور ترین خلفاء اربعہ تھے ، لیکن حضرت علی اورزید ابن ثابت پیغمبرکے مستقل کاتب تھے ۔ ایک ایسی کتاب کہ جس کے اتنے حافظ و قاری اور کاتب پائے جاتے ہوں کیسے ممکن ہے کہ اس کتاب تک تبدیلی کرنے والوں کی دست رسی ہو سکے۔
قرآن مجید میں تبدیلی کے نا ممکن ہونے کا دوسرا نمونہ وہ دلیلیں ہیں جو قرآن مجید کی حقانیت کے سلسلہ میں اہلبیت سے مرقوم ہیں وہ اسی موجودہ قرآن کے لئے ہیں نہ کہ کسی دوسرے قرآن کی حقانیت کے لئے ۔اور دوسری دلیلوں کی مثالیں کچھ اس طرح ہیں : آیات ولایت ، ذوی القربیٰ وغیرہ ، اور کبھی بھی ان حضرات سے قرآن کی تبدیلی کے سلسلہ میں نہیں سنا گیا ، اگر یقینی طور پر اس (قرآن ) میں تبدیلی ہوئی ہوتی تو حضرت علی ان لوگوں کی خلافت کے دور میں اس تبدیلی کو بر طرف فرماتے ، اور امیر المومنین جو اسلامی احکام کے چھوٹے چھوٹے مسئلہ پر کڑی نظر رکھتے تھے اور اس کو لاگو کرنے میں حد درجہ کوشاں رہتے تھے ، انہوںنے اسی موجودہ اور مشہور قرآن کی تائید کی ہے جو کہ اس وقت مسلمانوںکے درمیان مشہور ہے ، یہاں سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید کا وہ نسخہ جس کو امیر المومنین نے جمع فرمایا تھا ، جس کے سلسلہ میں بہت ساری روایات موجود ہیں کہ حضرت کے پاس ایک ایسا نسخہ موجود تھا کہ جس میں تمام احکام کی وضاحت اور آیات کی تاویل و تفسیر پائی جاتی ہے نہ کہ اس میں موجودہ قرآن مجید سے الگ اور آیات کا اضافہ ہوا ہے۔ (٨)
نقلی دلیلیں :١۔ قرآن : قرآن مجید وحی کا سرچشمہ خدا کو بتاتا ہے ، اور جن کے قلوب مریض ہیں اور قرآن کو بشر کے افکار کا نتیجہ سمجھتے ہیں ایسے لوگو ں کو دندان شکن جواب بھی دیتا ہے اس کے علاوہ تعجب میں ڈالنے والی خبر یہ ہے کہ اس آسمانی کتاب کی بقاء کی ذمہ داری خود خدا نے لی ہے اور یہ یقینی ہے کہ اس میں وعدہ خلافی کا امکان نہیں کیونکہ یہ وعدۂ الٰہی ہے۔ (ِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَِنَّا لَہُ لَحَافِظُون)یعنی ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔(٩)
شاعر کہتا ہے :
مصطفےٰ را وعدہ داد الطاف حق ۔ گر بمیری تو نمیرد این نسق
ترجمہ:خدا وند عالم کے لطف و کرم نے مصطفےٰ سے یہ وعدہ کیا ، کہ اگر آپ اس دنیا سے کوچ کر جائیں پھر بھی یہ کتاب باقی رہے گی۔
یا ایک اور مقام پر شاعر نے کہا :
من کلام و معجزت را حافظم
بیش و کم کن را ز قرآن دافعم
ترجمہ : میں تیرے اعجازاور اقوال کا نگہبان ہوں، میں قرآن میں کمی و زیادتی کا محافظ ہوں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ آیت کے اطلاق کو پیش نظر رکھتے ہوئے خدا نے جو قرآن کی حفاظت اور اس پر کسی طرح کی آنچ نہ آنے کا وعدہ کیا ہے ، یہ وعدہ کسی خاص زمانے یا سا ل سے مخصوص نہیں اور نہ ہی کسی خاص آیت کو مد نظر رکھا ہے بلکہ یہ پورے قرآن کی حفاظت کا وعدہ ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے ، اور یہ بات یعنی قرآن میں تحریف (تبدیلی ) ممکن نہیں اس سے خدا وند عالم کی قدرت نمایاں ہوتی ہے۔
ہمارے بزرگ عالم دین جناب کاشف الغطاء رقمطراز ہیں :”لاریب انہ (قرآن ) محفوظ من النقصان بحفظ الملک الدیان”
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید خدا کی خاص توجہ کی روشنی میں ہر طرح کی کمی و زیادتی سے محفوظ ہے ، اور اس مطلب کے لئے قرآن مجید اور علماء کا اجماع ہر دور اور ہر زمانے میں کافی ہے اور اگر کچھ لوگ اس کی مخالفت بھی کریں تو وہ قابل اعتبار نہیں ہیں۔ (١٠)
دوسری آیت میں قرآن مجید نے خود کو صاحب عزت اور ناقابل تسخیر کتاب سے تعبیر کیا ہے اس لئے کسی کو اس کی بارگا ہ میں دخل اندازی کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ یہ اس کا کلام ہے جو خالق صاحب حکمت اور لائق تعریف ہے۔
( ِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَائَہُمْ وَِنَّہُ لَکِتَاب عَزِیز٭اَیَْتِیہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَمِنْ خَلْفِہِ تَنزِیل مِنْ حَکِیمٍ حَمِید )بیشک اس وقت جن لوگوں کے پاس یہ ذکر (قرآن ) آیا تو وہ کافر ہو گئے ( اور میرے نزدیک یہ عمل بالکل پوشیدہ نہیں رہے گا )اور یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کو کسی بھی طرح سے شکست دینا ممکن نہیں اور نہ ہی کوئی باطل کسی بھی جہت سے اس کا مقابلہ کر سکتا ہے ، اس لئے کہ یہ اس خدا کی طرف سے نا زل کی ہوئی ہے جو کہ صاحب حکمت اور لائق تعریف ہے۔(١١)
یہ آیت بھی واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ کوئی بھی باطل طاقت کسی بھی راستہ سے قرآن مجید کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے ، اس کتاب سے نہ ہی کوئی آیت یا لفظ کم ہو اہے اور نہ ہی اس میں کچھ اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ تبدیلی (تحریف ) کرنے والوں کی پرواز سے ما وراء ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآنی آیتو ں سے ، اس میں کوئی تبدیلی ہونے کو ثابت کرنا ، کسی بھی طریقہ سے باطل قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لئے ہم سب سے پہلے عقلی راستہ پر گامزن ہوتے ہیں کیونکہ عقل کو ام الحج ، یعنی دلیلوں کی اصل اور ماں قرار دیا گیا ہے ، لہٰذا عقلی دلیلوں سے ثابت کریں گے کہ یہ موجودہ قرآن، کتاب خدا ہے اس کے علاوہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی کا امکان نہیں ہے چاہے وہ آیات کے اضافہ کی شکل میں ہو یا کمی کی شکل میں ہو، لہٰذا موجودہ قرآن کی تمام آیات خدا کا کلام ہیں اور یہ کلام اس چیز کا اعلان کر رہا ہے کہ نا قابل تسخیر اور قدرت والی کتاب ہے ، اس میں باطل کے نفوذ کی کوئی راہ نہیں ہے اس کو کم کرنے میں دشمن کسی کو اپنا مددگار بھی نہیں بنا سکتا ، یہی وجہ ہے کہ عقلی دلیلیں قرآن مجیدمیں تبدیلی (تحریف) نہ ہونے پر گواہ اور محکم دلیل ہیں ،اس لئے کہ اگر اس میں کسی قسم کی تبدیلی (تحریف ) ہوئی ہوتی تو اس کے جیسی کتاب پیش کی جا سکتی تھی جبکہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ابھی تک کوئی اس کے جیسی کتاب یا سورہ نہیں لا سکا ، نتیجہ یہ ہوا کہ یہ قرآن کی آیات بے نظیر اور آسمانی اور الٰہی معجزہ ہیں کسی بشر کا کلام نہیں اور قرآن خود کو تبدیلی(تحریف) سے محفوظ ہونے کا بھی اعلان کر رہا ہے اس کے علاوہ ہر دعوے کی محکم دلیل ہوتی ہے تب کہیں جاکر وہ بات قبول کی جا تی ہے جبکہ ہم یہ دیکھتے ہیں جو تبدیلی(تحریف ) کے قائل ہیں ان کا یہ دعویٰ بغیر دلیل کے ہے او ر ان کا محض دعویٰ قرآن مجید اور اس کی آیات کے اعتبار کو ختم نہیں کر سکتا ۔
٢۔ روایات :قرآن مجید کو تبدیلی (تحریف) سے محفوظ ہونے کی بہترین دلیل اقوال پیغمبر اسلام ۖاور معصومین ہیں ، اس لئے کہ روز اول ہی سے ان حضرات نے اسی موجودہ قرآن کی تلاوت، اس کے ادراک اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے یہاں تک کہ اسی قرآن کو اپنے اقوال کو قبول کرنے کا معیار قرار دیا ہے۔(١٢)
رسول اسلام ۖنے بعنوان ثقل اکبر کتاب خدا سے متمسک ہو نے کی دعوت دی ہے اور اس چیز کا اعلان فرمایا ہے کہ ہدایت اور نجات قرآن مجید سے متمسک ہونے میں ہے چاہے کوئی بھی زمانہ ہو ، رسول اسلام ۖ اپنے اس اعلان کے ذریعہ قرآن مجید کو تبدیلی سے محفوظ ہونے کی بہترین دلیل بنا کر امت کے درمیان چھوڑ کر گئے ہیں۔(١٣)
اور یہ ایسی دلیل ہے کہ اس مضمون میں پیغمبر اسلام ۖسے متعدد حدیثیں معتبر طرق سے نقل ہوئی ہیں،اس لئے کہ تبدیلی (تحریف ) کا لازمہ کتاب کی حجیت کا اعتبار ختم ہو جانا ہے، ائمہ معصومین نے بھی اسی موجودہ قرآن کو وحی الٰہی جانا ہے اور وہی قرآن جانا ہے جس کو خدا نے نازل فرمایا ہے اور اس پر عمل کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے، امیرالمومنین نے قرآن مجید کے بہت سارے اوصاف بیان کئے ہیں جن میں سے ہم چند صفتوں کا تذکرہ کررہے ہیں ، آپ نے فرمایا :
”و کتاب اللہ بین اظھر کم نا طق لا یعییٰ لسانہ و بیت لا تھدم ارکانہ و عز لا تھزم اعوانہ” (١٤) کتاب خدا تمہارے درمیان اس طرح گفتگو کرنے والی ہے جس کی زبان میں کبھی سستی نہیں ہوتی، اور یہ ایسا مکان ہے جس کے ستون کبھی بھی گرنے والے نہیں،اپنے پرودگار کے لئے ایسی عزت ہے کہ وہ کبھی (دشمن کے سامنے) مغلوب نہیں ہوں گے ۔
اور خطبہ١٧٦ ، میں ارشاد فرمایا:” واعلموا ان ھذاالقرآن ھوا لناصح الذی لایغش” جان لو کہ قرآن مجید ایسا واعظ اور نصیحت کرنے والا ہے کہ کبھی بھی نصیحت کرنے میںخیانت نہیں کرتا ایسا ہادی اور رہنما ہے کہ کبھی بھی گمراہی کی طرف نہیں لے جاتا۔
اس طرح کی تعبیریں امیرالمومنین اور دیگر ائمہ معصومین کے اقوال میں کثرت سے پائی جاتی ہیں ، اگر قرآن میں تبدیلی (تحریف) ہوئی ہوتی تو معصوم رہبروں نے ہر گز ہم کو اس موجودہ قرآن کی طرف جو کہ مسلمانوں کے درمیان ہے رجوع کرنے کی دعوت نہ دی ہوتی اور وہ بھی اسم اشارہ، ھذا،(اس قرآن )کے ذریعہ ۔
قرآن کی تبدیلی (تحریف) کے بارے میں متعدد اقوال کے اسباب :
وہ حوادث اور واقعات جو صدر اسلام میں پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد رونما ہوئے اور حاکمیت کو ظاہر ی طور پر دیکھا گیا (نہ کہ حقیقی طور پر) اس کے علاوہ امت کا اہلبیت پیغمبر ۖ کے مقام و منزلت کو نہ پہچاننا یہ ساری چیزیں تحریف قرآن کے اسباب میں شمار ہوتی ہیں اور یہی نہیں بلکہ دوسری طرف امت اسلامیہ کا ائمہ معصومین کے بیانات اور ان کی احادیث میں دقت نہ کرنا ، غور وفکر نہ کرنا بھی باعث بنا کہ بہت سارے لوگ تبدیلی کی طرف مائل ہو گئے۔
شیعوں کی جو چار معتبر اور معروف حدیثی کتابیں ہیں ان میں سے پہلی کتاب اصول کافی ہے، اس میں متعدد حدیثیں نقل ہوئی ہیں جن سے یہ بات صاف طریقہ سے ظاہر ہو جاتی ہے ۔ اور اس طرح کی حدیثیں چند دیگر کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں مثلاً تفسیر عیاشی ، بصائر الدرجات ، غیبت نعمانی ، اور ان تمام کتابوں سے لیکر علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں اکھٹا کیا ہے ، اس کے بعد اخباری فکر کے زور پکڑنے کے ساتھ بہت سے علماء ، جیسے شیخ حر عاملی ، فیض کاشانی ، علامہ مجلسی نے اس سلسلہ میں ایسے کلمات اور تعبیریں استعمال کی ہیں جو ذو معنی ہیں ، یا ایسی گفتگو کی کہ جن سے یا تو تبدیلی کا اثبات ہوتا ہے یا نفی ہوتی ہے ، بارہویں صدی میں یہ فکر اپنے شباب پر تھی اس دلی رجحان کے ساتھ کہ وہ اہلبیت کی خدمت کر رہے ہیں اوراغیار پر لعن طعن کر رہے ہیں ، اس چیز نے نا خواستہ طور پر اسلام کے سچے اور اچھے پیکر پر بہت بڑا ضربہ لگایا ہے ، اور اس تحریک کے علمبردار سید نعمت اللہ جزائری (١١١٢ھ) تھے جنھوں نے پہلی بار داستان تبدیلی (تحریف)کو طشت از بام کیا ہے اور انھوں نے اپنی کتاب الانوار النعمانیہ میں جعلی حدیثوں کو دلیل بنا کر اس بات کو پیش کیا کہ اغیار نے کتاب خدا میں تحریف کی ہے۔(١٥)
سید نعمت اللہ جزائری کی پیروی کرتے ہوئے محدث نوری نے بھی ایک کتاب ( فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب ) لکھی اور انھوں نے یہ کتاب ایک ہندوستانی عالم کے جواب میں لکھی ، جس نے یہ سوال کیا تھاکہ قرآن میں ائمہ کے نام کیوں نہیں ہیں ؟ تو انھوں نے یہ گمان کیا کہ مخالفین نے وہ آیتیں جو اہلبیت کی شان میں اور ان کی فضیلت میں تھیں اور وہ آیتیں جو ان کے دشمنوں کی مذمت میں تھیں ان کو قرآن مجید سے نکال دیا ہے ۔
مرحوم نوری صاحب مستدر ک الوسائل ( جن کی یہ کتاب شیعوں کی آخری معتبر کتاب ہے اور اس کی مقبولیت بھی بہت زیادہ ہوئی )محدث تو تھے مگر حقیقی معنوں میں محقق نہیں تھے ، انھوں نے اپنی کتاب میں ١٢ فصلیں رکھی ہیں جن میں ١٢ دلیلیں قرآن مجید کی تبدیلی (تحریف ) کی سلسلہ میں ذکر کی ہیں لیکن ان تمام دلیلوں میں فقط دو دلیلیں شیعہ طرق سے نقل کی ہیں بقیہ اہل سنت کی حدیثیں ہیں ، جبکہ خوداہل سنت بھی ان حدیثوں کو معتبر نہیں ما نتے ہیں ، اکثر روایات ایسی ہیں جن کی یا تو سند موجود نہیں ہے یا اگر سند ہے تو اس کا اعتبا رنہیں ہے ، اور مندرجہ ذیل افراد جیسے لوگوں کی کتابوں سے نقل کیا ہے :احمد بن محمد سیاری ، علی بن احمد کوفی یہ لوگ کذاب ، وضاع اور فاسق العقیدہ تھے۔(١٦)
وہ روایتیں جن کی اسناد موجود بھی ہیں وہ اکثر اختلاف قرأت سے متعلق ہیں ، یا ان میں سے بعض تفسیر ، توضیح اور شان نزول یا تا ویل سے متعلق ہیں اس کے علاوہ بعض روایات مصداق کو معین کرتی ہیں ، اور دوسری قسم کی وہ روایتیں جن میں لفظ تحریف آیا ہے ان میں تحریف (تبدیلی) سے مراد معنوی تحریف (تبدیلی ) ہے (نہ کہ لفظی تحریف ) ۔ اس کے علاوہ چونکہ ان روایات کی صحت کے لئے معیار اور میزان ، خود قرآن مجید ہے اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ روایتیں صحیح ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی روایت صحیح بھی ہے اور غلط بھی ۔ اور یہ نتیجہ کچھ شیعہ اخباری لوگوں کی تلاش اور کوشش کی بنا پر ہے ، جنھوں نے پیغمبر اسلام ۖکی خدمت کی نیت سے یہ عمل انجام دیا لیکن دوسری طرف قرآن مجید اور اہل بیت کی مقدس بارگاہ میں بہت بڑاضربہ لگایا ہے اگرچہ ان میں سے بعض لوگوں نے پشیمانی اورندامت کا اظہار کیا ہے لیکن شیعہ محققین ائمہ کے زمانے سے لیکر اب تک مکمل توجہ کے ساتھ ولایت اہلبیت کے مدنظر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن مجید کی عبارتیں اور ساری آیات متواتر ہیں کسی بھی طرح کی تبدیلی (تحریف لفظی) نہیں ہوئی ہے اور اس دعوے پر دلیل خود قرآن مجید اور قطعی السند روایتیں ہیں اور ان لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ اسی موجودہ قرآن میں ہی اہلبیت پیغمبر ۖ کے علمی ، سیاسی ، معنوی مقام و منزلت کو واضح طور پر اور کا فی حد تک بیان کیا گیا ہے اور قرآن کی سند میں کسی بھی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے (کہ یہ خدا کی طرف سے ہے یا نہیں )۔
شیعہ محققین کے کچھ نام بطور نمونہ پیش کرتے ہیں :(١)شیخ صدوق (٣٨١ھ) الاعتقادات میں ب ٣٣ (٢) شیخ مفید (٤١٣ھ)اوائل المقالات ص٩٣(٣) سید مرتضیٰ علم الھدیٰ(٤٣٦ھ)، المسائل الطرابلسیات میں (٤) شیخ الطائفہ جناب شیخ طوسی، تبیان، میں (٥) مرحوم امین الاسلام (٥٤٨ھ ) مجمع البیان کے مقدمہ میں (٦) سید ابن طاؤس (٦٦٤ھ،ق) سعد السعود، میں (٧) علامہ حلی (٧٢٦ھ،ق) اجوبةالمسائل المھتاویة، میں ان کے علاوہ اور بہت سے علماء یا دور حاضر میں امام خمینی اور آیة اللہ خوئی وغیرہ ہیں کہ جنھوں نے قرآن مجید میں تبدیلی کے قول کو خرافات جانا ہے (یہ فقرات ترجمۂ انگلش قرآن: میر احمد علی ص٩١، البیان ص٢٥٩پر مرقوم ہیں) اگرچہ بعض علماء نے جیسے ابن اثیر اپنی کتاب، کامل میں فخر رازی اپنی کتاب تفسیر کبیر میں و…. سعی و کوشش کی ہے کہ قول تحریف کو شیعوں سے منسوب کیا جائے ، لیکن وہ روایتیں جو تلاوت کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتی ہیں ، اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ قرآن مجید کا کافی حصہ تلاوت اور پڑھنے سے منسوخ ہو گیا ہے اور یہ بات بالکل اس نظریہ کی مانند ہے جو لوگ قرآن مجید میں کمی ہو نے کے قائل ہیں (یعنی اس کی تحریف کمی کر کے ہوئی ہے )۔
اور یہ حدیثیں ز یادہ تر اہل حدیث اور فرقہ حشویہ سے نقل ہوئی ہیں ان لوگوں نے ان روایات کو ، روایات نسخ تلاوت (یعنی وہ روایتیں جو تلاوت کے منسوخ ہونے پر دلالت کرتی ہیں )کے نام سے یاد کیا ہے تاکہ ان کا شمار تبدیلی ( تحریف ) کا عقیدہ رکھنے والوں میں نہ ہو ۔ اس کی نظیر آیت رجم ہے جس کو عمر نے نقل کیا ہے (١٧) اوراسی طرح تفسیردر منثورج١ ص١٠٦میں آیات رغبہ و جھاد صیانة القرآن ص١٢٨ پرآیۂ فراش وحنفیة، مسند احمد بن حنبل ج٢ص ٥٠پر آیۂ رضاعہ ہے۔
یہ تمام روایتیں سند اور دلالت کے لحاظ سے مردود (ناقابل قبول) ہیں، اس کے علاوہ ان روایات سے ٹکراتی ہیں جو کہ عدم تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں یا تفسیر قرطبی میں وارد ہوا ہے کہ آپ کو اختیار ہے چاہیں تو ” سمیعاًعلیماً” کے بجائے ” عزیزاًحکیماً” کہہ سکتے ہیں ، ایسی صورت میں قرآن پر بہت بڑا الزام ہے اس لئے کہ اگر قرآن میں اسی طرح کی تبدیلی ہوتی رہے تو پھر اسکی حجیت کا کوئی اعتبارہی نہیں رہ جائے گا ، اور بقول آیة اللہ خوئی پھر تو ہمیں ، یٰس والقرآن الحکیم ،، کے بجائے ، یس و الذکر العظیم انک لمن الانبیاء علی طریق سوی انزال الحمید الکریم لتخوف قوما ًما خوف اسلا فھم ساھون،، پڑھنا چاہیئے حالانکہ قرآن مجید فرما رہا ہے ، ،(…قُلْ مَا یَکُونُ لِی َنْ ُبَدِّلَہُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِی۔۔۔) (١٨) اے پیغمبر! آپ کہہ دیجیئے کہ میں حق نہیں رکھتا کہ اپنی طرف سے اس قرآن میں تبدیلی کروں ، اور میں ان چیزوں کی پیروی کرتا ہوں جو خدا کی طرف سے وحی ہوئی ہے ( اس آیت کے ذریعہ یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ ) جب پیغمبر ۖاپنی طرف سے قرآن میں تبدیلی نہیں کر سکتے ، تو پھر ہم کیسے مان لیں کہ دوسروں کے لئے قرآن میں تغیر وتبدیلی کرنا جائز ہے ؟ غرض یہ کہ قرآن ایک کیفیت اور حقیقت کے ساتھ نازل ہو اہے۔(١٩)
اور چونکہ اس میں مسلمانوں کی زندگی اور نظم امور ، دنیا و آخرت اور اس کا انجام مرقوم ہے لہذا اس کی حفاظت (تحریف سے محفوظ رکھنا ) لوگوں نے کی ، اور خدا وند عالم نے بھی ہر طرح کے خطرہ سے بچانے کی ضمانت لی ہے (وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلًا لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیم)(٢٠) (اے پیغمبر ) تمہارے پروردگار کا کلام صدق و عدل کے ساتھ اپنی آخری حد تک پہنچا ہو ا ہے ، کوئی بھی اس کے کلمات کو تبدیل نہیں کر سکتا ، اور وہ(خدا) سمیع و علیم ہے۔

حوالہ جات
١۔ سورۂ طارق / ١٤
٢۔سورۂ نحل / ٨٩
٣۔ سورۂ نسائ/ ٨٢
٤۔ سورۂ اسرائ/ ٨٨۔
٥۔البیان فی تفسیر القرآن ص٢٦٠
٦۔سفینةالبحار :ج١، ص٥٧
٧۔تاریخ القرآن: ص٢٤
٨۔البیان :ص٢٢٣
٩۔سورہ ٔحجر / ٩
١٠۔تفسیر آلاء الرحمان: ص٣٥
١١۔سورۂ فصلت / ٤١ ،٤٢
١٢۔الوسائل :ج٣، کتاب القضائ: ص٣٨٠
١٣۔ البیان: ص٢١١
١٤۔نہج البلاغہ :خطبہ ١٣٣
١٥۔الانوارالنعمانیہ: ج١ ،ص٩٧، ٩٨
١٦۔ البیان: ص ١٢٢٦
١٧۔الاتقان :ج٢،ص٨٦
١٨۔ سورۂ یونس ١٥
١٩۔ البیان: ص ١٨١
٢٠۔سورۂ انعام /١١٥

Related Articles

Back to top button