امام زین العابدین علیہ السلامدانشکدہسیرت اھلبیت

امام زين العابدين (ع) کی حیات طیبہ

ولادت
آسمان ولايت كے چوتھے درخشاں ستارے امام على بن الحسين (ع) كى پيدائش پانچ شعبان 38ھ كو شہر مدينہ ميں ہوِئی (1)

سيد الشہداء حضرت امام حسين (ع) آپ كے والد اور ايران كے بادشاہ يزدگرد كى بيٹى آپ كى مادر گرامى ہيں (2) آپ كى ولادت اميرالمؤمنين (ع) كى شہادت سے دو سال پہلے ہوئی تقريباً 23 برس تک اپنے والد بزرگوار كے ساتھ رہے۔ (3)

اخلاقى خصوصيات
امام زين العابدين (ع) انسانيت كى خصوصى صفات اور نفس كے كمالات كا مكمل نمونہ تھے۔ مكارم اخلاق اور ستم رسيدہ و فقراء كى دستگيرى ميں آپ كا ہم مرتبہ كوئی نہ تھا۔

1۔ آپ (ع) سے متعلق افراد ميں سے ايك شخص نے لوگوں كے مجمع ميں آپ كى شان ميں ناروا كلمات كہے اور چلاگيا۔ امام چند لوگوں كے ساتھ اس كے گھر گئے اور فرمايا تم لوگ ہمارے ساتھ چلو تا كہ ہمارا بھى جواب سن لو۔ راستہ ميں آپ مندرجہ ذيل آيت، جس ميں كچھ مؤمنين كے اوصاف عالى كا تذكرہ ہے، پڑھتے جاتے تھے۔

”و الكاظمين الغيظ و العافين عن الناس و اللہ يحب المحسنين” (4)
”وہ لوگ جو اپنا غصہ پى كر لوگوں سے درگذر كرتے ہيں اور خدا نيكو كاروں كو دوست ركھتا ہے”۔

جب اس آدمى كے گھر كے دروازہ پر پہنچے اور امام (ع) نے اس كو آواز دى تو وہ اس گمان ميں اپنے كو لڑنے كے لئے تيار كركے باہر نكلا كہ امام (ع) گذشتہ باتوں كا بدلہ لينے آئے ہيں۔ امام نے فرمايا: ميرے بھائی تو تھوڑى دير پہلے ميرے پاس آيا تھا اور تو نے كچھ باتيں كہى تھيں، جو باتيں تونے كہى ہيں اگر وہ ميرے اندر ہيں تو ميں خدا سے بخشش كا طلبگار ہوں اور اگر نہيں ہيں تو خدا سے ميرى دعا ہے كہ وہ تجھے معاف كردے۔

امام زين العابدين (ع) كى غير متوقع نرمى نے اس شخص كو شرمندہ كرديا وہ قريب آيا اور امام (ع) كى پيشانى كو بوسہ ديكر كہا :”ميں نے جو باتيں كہيں وہ آپ ميں نہيں تھيں اور ميں اس بات كا اعتراف كرتا ہوں كہ جو كچھ ميں نے كہا تھا ميں اس كا زيادہ سزاوار ہوں”۔ (5)

2۔ زيد بن اسامہ حالت احتضار ميں بستر پر پڑے ہوئے تھے سيد سجاد (ع) ان كى عيادت كے لئے ان كے سرہانے تشريف لائے، ديكھا كہ زيد رو رہے ہيں آپ نے پوچھا آپ كيوں رو رہے ہيں، انہوں نے كہا پندرہ ہزار دينار ميرے اوپر قرض ہے اور ميرا مال ميرے قرض كے برابر نہيں ہے۔ امام (ع) نے فرمايا: ” مت رويئے آپ كے قرض كى ادائيگى ميرے ذمہ ہے”۔ پھر جس طرح آپ نے فرمايا تھا اسى طرح ادا بھى كرديا۔ (5)

3۔ راتوں كو امام زين العابدين (ع) مدينہ كے بے سہارا اور ضرورت مندوں ميں اس طرح روٹياں تقسم كرتے تھے كہ پہچانے نہ جائيں اور ان لوگوں كى مالى امداد فرماتے تھے۔ جب آپ كا انتقال ہوگيا تب لوگوں كو پتہ چلا كہ وہ نامعلوم شخصيت امام زين العابدين (ع)كى تھي۔ آپ كى وفات كے بعد يہ معلوم ہوا كہ آپ ايك سو خاندانوں كا خرچ برداشت كرتے تھے اور ان لوگوں كو يہ نہيں معلوم تھا كہ ان كے گھر كا خرچ چلانے والے امام زين العابدين (ع) ہيں۔ (7)

4۔ امام محمد باقر (ع) فرماتے ہيں كہ: ”ميرے پدر بزرگوار نماز ميں اس غلام كى طرح كھڑے ہوتے تھے جو اپنے عظيم بادشاہ كے سامنے اپنے پيروں پر كھڑا رہتا ہے۔ خدا كے خوف سے لرزتے رہتے اور ان كا رنگ متغير ہوجاتا تھا اور نماز كو اس طرح ادا كرتے تھے كہ جيسے يہ ان كى آخرى نماز ہو۔ (8)

حضرت سجاد(ع) كى عظمت
آپ كى شخصيت اور عظمت ايسى تھى كہ دوست دشمن سبھى متاثر تھے۔

يزيد ابن معاويہ نے واقعہ ”حرّہ” (9) كے بعد حكم ديا كہ تمام اہل مدينہ غلام كے عنوان سے اس كى بيعت كريں اس حكم سے اگر كوئي مستثنى تھا تو وہ صرف امام على بن الحسين تھے (10)

ہشام بن عبدالملك اموى خليفہ حج ادا كرنے كے لئے مكہ آيا تھا، طواف كے وقت لوگوں كا ہجوم ايسا تھا وہ حجر اسود كا استلام نہ كرسكا (11) مجبوراً ايك طرف بيٹھ گيا تا كہ بھيڑ كم ہوجائے۔ اسى وقت امام زين العابدين (ع) مسجد الحرام ميں داخل ہوئے اور طواف كرنے لگے لوگوں نے امام (ع) كے لئے راستہ چھوڑ ديا، آپ نے بڑے آرام سے حجر اسود كو بوسہ ديا۔ ہشام آپ كے بارے ميں لوگوں كا احترام ديكھ كر بہت ناراض ہوا۔ شام كے رہنے والوں ميں سے ايك شخص نے ہشام سے پوچھا كہ يہ كون تھے جن كو لوگ اتنى عظمت دے رہے تھے؟ ہشام نے اس خوف سے كہ كہيں اس كے ساتھ والے امام (ع) كے گرويدہ نہ ہو جائيں جواب ديا كہ : ”ميں ان كو نہيں پہچانتا”

حريت پسند مشہور شاعر فرزدق بے جھجك كھڑے ہوگئے اور كہا ”ميں ان كو پہچانتا ہوں” اس كے بعد ايك طويل قصيدہ امام زين العابدين (ع) كى مدح و عظمت اور تعارف ميں پڑھ ڈالا۔ اشعار اتنے مناسب اور ہشام كے لئے ايسا طماچہ تھے كہ اموى خليفہ شدّت ناراضگى كى بنا پر ردّ عمل پر آمادہ ہوگيا۔ اس نے حكم ديا كہ فرزدق كو قيد خانہ بھيجديا جائے۔

امام(ع) جب اس واقعہ سے مطلع ہوئے تو آپ نے صلہ كے طور پر فرزدق كے پاس كچھ بھيجا فرزدق نے ان درہم و دینار كو واپس كرديا اور كہلوا بھيجا كہ ميں نے يہ اشعار خدا و رسول (ص) كى خاطر پڑھے تھے۔ امام (ع) نے فرزدق كے خلوص نيت كى تصديق كى اور دوسرى بار پھر وہ درہم فرزدق كو بھيجے اور ان كو قسم دى كہ قبول كرليں۔ فرزدق نے ان كو قبول كرليا اور مسرور ہو گيا۔ يہاں چند اشعار كا ترجمہ نمونہ كے طور پر پيش كرتے ہيں:

1۔ ”اے سوال كرنے والے تو نے مجھ سے جود و سخا اور بلندى كے مركز كا پتہ پوچھا ہے، تو اس كا روشن جواب ميرے پاس ہے”

2۔ ”يہ وہ ہے كہ مكہ كى سرزمين جس كے نقش قدم كو پہچانتى ہے، خانہ كعبہ، حرم خدا اور حرم سے باہر كى زمين پہچانتى ہے”

3۔ ”يہ اس كے فرزند ہين جو بہترين خلائق ہيں، يہ پرہيزگار، پاكيزہ، اور بلندحشم ہيں”

4۔ ”يہ وہ ہيں كہ پيغمبر (ص) گرامى ”احمد (ص)” جن كے جدہيں”۔

5۔ ”اگر ركن جان جاتا كہ اس كو بوسہ دينے كيلئے كون آرہا ہے تو وہ بےتاب ہو كر اپنے كو زمين پر گرا ديتا تا كہ اس كى خاك پا كو چوم لے”۔

6۔ ”ان بزرگوار كا نام ”على (ع)” ہے پيغمبر (ص) خدا ان كے جد ہيں۔ ان كى روشنى سے امتوں كى راہنمائي ہوتى ہے …” (12)

واقعہ كربلا كے بعد امام حسين (ع) كے بيٹوں ميں سے صرف آپ ہى زندہ بچے تھے۔ اپنے پدر عاليقدر كى شہادت كے بعد دس محرم 61ھ كو آپ(ع) نے امامت و ولايت كا عہدہ سنبھالا اور شہادت كے دن تک يزيد بن معاويہ، معاويہ بن يزيد، مروان بن حكم، عبدالملك بن مروان اور وليد بن عبدالملك جيسے زمامداران حكومت كا زمانہ آپ (ع) نے ديكھا۔

آپ (ع) كى امامت كا دور اور معاشرہ ميں حكومت كرنے والے اس زمانہ كے سياسى حالات تمام ائمہ كى زندگى ميں پيش آنے والے حالات سے زيادہ دشوار اور حساس تھے۔ سيرت و روش پيغمبر(ص) سے انحراف، امام زين العابدين (ع)كے زمانہ ميں اپنے عروج پر تھا اور اس كى شكل بالكل صاف نظر آتى تھی۔

امام زين العابدين (ع) كى روش ان كى امامت كے زمانہ ميں دو حصوں ميں تقسيم كى جاسكتى ہے۔

الف: اسيرى كا زمانہ ب: اسيرى كے بعد مدينہ كى زندگی

الف:كربلا كے جاں گداز واقعہ ميں امام زين العابدين (ع) اپنے بزرگوار كے ساتھ تھے۔ خدا كے لطف و كرم نے دشمن كے گزند سے محفوظ ركھا ليكن باپ كى شہادت كے بعد اسير ہو گئے اور دوسرے لوگوں كے ساتھ كوفہ اور شام لے جائے گئے۔

اس ميں كوئی شک نہيں كہ اہل بيت امام حسين (ع) كا اسير ہونا ۔ آپ كے مقدس انقلاب كو كاميابى تک پہنچانے ميں بڑا مؤثر ثابت ہوا۔ چوتھے امام (ع) نے اسيرى كے زمانہ ميں ہرگز تقيہ نہيں كيا اور كمال بردبارى اور شہامت كے ساتھ تقريروں اور خطبوں ميں واقعہ كربلا كو لوگوں كے سامنے بيان فرمايا اور حق و حقيقت كا اظہار كرتے رہے۔ مناسب موقع پر خاندان رسالت كى عظمت كو لوگوں كے كانوں تک پہنچاتے رہے، اپنے پدربزرگوار كى مظلوميت اور بنى اميہ كے ظلم و ستم اور بے رحمى كو لوگوں كے سامنے واضح كرتے رہے۔

امام زين العابدين (ع) با وجود اس كے كہ اپنے باپ كى شہادت كے وقت بيمار تھے، باپ ،بھائيوں اور اصحاب كى شہادت پر دل شكستہ اور رنجيدہ بھى تھے ليكن پھر بھى يہ رنج و آلام آپ كے فرائض كى انجام دہى اور خون آلود انقلاب كربلا كے تحفظ ميں ركاوٹ نہ بن سكے۔ آپ نے لوگوں كے افكار كو روشن كرنے كے لئے ہر مناسب موقع سے فائدہ اٹھايا۔

كوفہ ميں اسيروں كا قافلہ كوفہ پہنچا۔ جب لوگ جناب زينب (ع) اور ان كى بہن ام كلثوم (ع) كے خطبوں سے پشيمان ہو كر رونے لگے تو امام زين العابدين (ع) نے اشارہ كيا كہ مجمع خاموش ہو جائے پھر پروردگار كى حمد و ثنا اور پيغمبر(ص) پر درود و سلام كے بعد آپ (ع) نے فرمايا:

”اے لوگو ميں على بن الحسين (ع) ہوں، ميں اس كا فرزند ہوں كہ جس كو فرات كے كنارے بغير اس كے كہ انہوں نے كسى كا خون بہايا ہو يا كسى كا حق ان كى گردن پر ہو، ذبح كرديا گيا۔ ميں اس كا فرزند ہوں جس كا مال شہادت كے بعد لوٹ ليا گيا اور جس كے خاندان كو اسير بنا كر يہاں لايا گيا۔ لوگو كيا تمہيں ياد ہے كہ تم نے ميرے باپ كو خط لكھ كر كوفہ بلايا اور جب وہ تمہارى طرف آئے تو تم نے ان كو قتل كرديا؟ قيامت كے دن پيغمبراكرم (ص) كے سامنے كس منہ سے جاؤگے؟ جب وہ تم سے فرمائيں گے كہ ”كيا تم نے ميرے خاندان كو قتل كرديا اور ميرى حرمت كى رعايت نہيں كى لہذا تم ميرى امت ميں سے نہيں ہو”۔ (13)

حضرت امام زين العابدين (ع) كى تقرير نے طوفان كى طرح لوگوں كو ہلا كر ركھ ديا۔ ہر طرف سے گريہ و زارى كى آوازيں آنے لگيں، لوگ ايک دوسرے كو ملامت كرنے لگے كہ تم ہلاک اور بدبخت ہوگئے اور حالت يہ ہے كہ تم كو خود ہى نہيں معلوم۔

امام حسين (ع) كے اہل حرم كو ابن زياد كے دربار ميں لے جايا گيا اور جب ابن زياد اور امام زين العابدين (ع)كے درميان گفتگو ہوئی تو آپ(ع) نے نہايت يقين اور شجاعت كے ساتھ ہر موقع پر نہايت دنداں شكن جواب دیے جس سے ابن زياد ايسا غضب ناک ہوا كہ اس نے امام (ع) كے قتل كا حكم ديديا۔

اس موقع پر جناب زينب سلام اللہ عليہا نے اعتراض كيا اور فرمايا كہ :”اگر تم على ابن الحسين (ع) كو قتل كرنا چاہتے ہو تو ان كے ساتھ مجھے بھى قتل كردو”۔ امام (ع) نے اپنى پھوپھى سے فرمايا: ”آپ كچھ نہ كہيں ميں خود اس كا جواب دے رہا ہوں” اس كے بعد آپ(ع) نے ابن زياد كى طرف رُخ كيا اور فرمايا: ”اے زياد كے بيٹے كيا تم مجھے قتل كرنے كى دھمكى دے رہا ہے كيا تم يہ نہيں جانتے كہ قتل ہوجانا ہمارى عادت اور شہادت ہمارى كرامت ہے؟ (14)

شام ميں ایک ہى رسن ميں اہل بيت (ع) كے چند دوسرے افراد كے ساتھ امام (ع) كو بھى باندھا گيا تھا اسى حالت ميں امام كو شام ميں يزيد كے دربار ميں لے جايا گيا۔ امام (ع) نے نہايت شہامت اور دليرى كے ساتھ يزيد سے خطاب فرمايا: اے يزيد اگر پيغمبر(ص) مجھ كو اس حالت ميں رسن بستہ ديكھ ليں تو، تو ان كے بارے ميں كيا خيال كرتا ہے؟ (15) (وہ كيا كہيں گے)۔

امام زين العابدين (ع)كے اس چھوٹے سے جملہ نے حاضرين پر اتنا اثر كيا كہ سب رونے لگے۔ (16) امام (ع) نے جب يزيد سے گفتگو كى تو ایک نشست ميں اس نے قتل كى دھمكى دی۔ امام (ع) نے اس كے جواب ميں فرمايا: اسيرى سے آزاد ہونے والے بنى اميہ جيسے كبھى بھى قتل انبياء و اوصياء كا حكم نہيں دے سكتے مگر يہ كہ اسلام سے خارج ہوجائيں اور اگر تم ايسا ارادہ ركھتے ہو تو كسى صاحب اطمينان شخص كو ميرے پاس بھيجو تا كہ ميں اس سے وصيت كردوں اور اہل حرم كو اس كے سپرد كردوں۔ (17)

ايک دن شام كى جامع مسجد ميں يزيد نے ایک اہم نشست كا انتظام كيا گیا اور خطيب سے كہا كہ منبر پر جا كر زين العابدين (ع) كے سامنے اميرالمؤمنين (ع) اور امام حسين (ع) كو برا بھلا كہے اس كرايہ كے خطيب نے ايسا ہى كيا۔

امام سجاد(ع) نے بلند آواز ميں فرمايا: ”وائے ہو تجھ پر اے خطيب تو نے خالق كى ناراضگى كے بدلے مخلوق ( يزيد) كى خوشنودى خريدى اور اس طرح تم دوزخ ميں اپنا ٹھكانہ بنا رہے ہو۔ پھر يزيد كى طرف مخاطب ہوئے اور فرمايا ”تو مجھے بھى اسى لكڑى ( منبر) پر جانے دے اور ايسى بات كہنے دے جس سے ميں خدا كو خوش كروں اور وہ حاضرين كے لئے اجر و ثواب كا باعث ہے”۔ يزيد نے پہلے تو اجازت نہيں دى ليكن لوگوں كے اصرار كے جواب ميں بولا كہ ”اگر يہ منبر پر جائيں گے تو مجھ كو اور خاندان ابوسفيان كو ذليل كیے بغير منبر سے نيچے نہيں اتريں گے” لوگوں نے كہا كہ :”يہ كيا كرسكتے ہيں؟ يزيد نے كہا كہ ”يہ وہ خاندان ہے جس نے علم ودانش كو بچپنے سے دودھ كے ساتھ پيا ہے”۔ لوگوں نے بہت اصرار كيا تو يزيد نے مجبوراً اجازت دے دی، امام(ع) منبر پر تشريف لے گئے اور پيغمبر (ص) پر درود و سلام بھيجنے كے بعد فرمايا:

”اے لوگو خدا نے ہم كو علم، بردباری، سخاوت، فصاحت، دليرى اور مؤمنين كے دلوں ميں ہمارى دوستى عطا كى ہے… پيغمبر(ص) ہم ميں سے ہيں۔ اس امت كے صديق حضرت اميرالمؤمنين علی (ع) ہم ميں سے ہيں، جعفر طيّار ہم ميں سے ہيں، حمزہ سيدالشہداء ہم ميں سے ہيں، امام حسن اور امام حسين عليھما السلام پيغمبر (ص) كے دونوں نواسے ہم ميں سے ہيں۔

ميں فرزند مكہ و من ، فرزند زمزم و صفا ہوں، ميں اس كا بيٹا ہوں جس نے حجر اسود كو عبا ميں ركھ كر اٹھايا۔ (18)

ميں اس بہترين خلائق شخص كا بيٹا ہوں جس نے احرام باندھا، طواف و سعى کی، حج بجالايا… ميں خديجة الكبرى كا بيٹا ہوں، ميں فاطمہ زہراء (ع) كا بيٹا ہوں، ميں اس كا بيٹا ہوں جو اپنے خون ميں غوطہ زن ہوا، ميں اس حسين (ع) كا بيٹا ہوں جس كو كربلا ميں قتل كر دیا گيا”۔

لوگوں ميں كھلبلى مچ گئی وہ امام (ع) كى طرف ديكھ رہے تھے۔ آپ(ع) ہر جملہ كے ساتھ بنى اميہ كى حقيقت سے پردہ اٹھاتے جا رہے تھے اور اموى گروہ كى كثيف ماہيت كو آشكار كرتے اور اپنے خاندان كى عظمت اور شہادت حسين (ع) كى زيادہ سے زيادہ قدر و قيمت لوگوں كے سامنے نماياں كرتے جا رہے تھے، رفتہ رفتہ لوگوں كى آنكھيں آنسووں سے ڈبڈبا گئيں، گريہ گلو گير ہوگيا۔ پھر ہر گوشہ سے بے تابانہ رونے كى آواز بلند ہوئیں۔ يزيد كو ڈر لگنے لگا اور امام (ع) كى تقرير كو روكنے كے لئے اس نے مؤذن كو آذان دينے كا حكم ديا،امام خاموش ہو گئے مگر مؤذن جب ”الشہد انّ محمداً رسول اللہ” پر پہنچا تو آپ نے عمامہ سر سے اتارليا اور فرمايا:

”اے مؤذن اسى محمد(ص) كى قسم ذرا ٹھہر جا” ۔ پھر يزيد كى طرح رخ كركے فرمايا:” اے يزيد يہ رسول اكرم (ص) ميرے جد ہيں يا تيرے؟ اگر تم كہو كہ تمہارے جد ہيں تو سب جانتے ہيں كہ يہ جھوٹ ہے اور اگر تم يہ كہتے ہو كہ ميرے جد ہيں تو پھر ان كى عترت كو تم نے كيوں قتل كيا ان كے اموال كو كيوں تاراج كيا اور ان كے خاندان كو تم نے كيوں اسير كرليا؟

اے يزيد تو ان تمام افعال كے باوجود محمد (ص) كو پيغمبر خدا جانتا ہے اور قبلہ كى طرف رخ كركے كھڑا ہوتا ہے، نماز پڑھتا ہے، وائے ہو تجھ پر كہ ميرے جد و پدر قيامت ميں تيرا گريبان پكڑيں گے”۔

يزيد نے مؤذن كو حكم ديا كہ نماز كے لئے اقامت كہے، ليكن لوگ بہت ناراض تھے يہاں تک كہ كچھ لوگوں نے نماز بھى نہيں پڑھى اور مسجد سے نكل گئے۔ (19)

شام ميں امام (ع) كى تقريريں اس بات كا باعث بنى كہ يزيد قتل امام (ع) كا قصد ركھنے كے باوجود اس بات پر مجبور ہوا كہ آپ (ع) كو اور تمام اہل بيت (ع) كو مدينہ واپس كردے۔

روح مبارزہ و جہاد كى بيداری
اسيرى كى تمام مدت ميں امام زين العابدين (ع)ب ہت سے لوگوں كے تصور كے برخلاف جو كہ آپ كو شكست خوردہ سمجھتے تھے، ہر محفل و مجلس ميں اپنى اور اپنے والد كى كاميابى اور بنى اميہ كے گروہ كى شكست كے بارے ميں تقريریں كرتے تھے۔

دوسرى طرف آپ (ع) نے اس بات كى كوشش كى كہ اپنے خاندان كى عظمتوں اور خصوصيتوں اور بنى اميہ كے ظلم و جور كے بيان كے ذريعہ مسلمانوں كى انقلابى فكر كو بيدار كريں اور بنى اميہ سے نفرت كا احساس اور انجام پا جانے والے گناہوں كے جبران كى ضرورت كو لوگوں كے ضمير و وجدان ميں زندہ كريں۔

ابھى زيادہ دن نہيں گذرے تھے كہ اس مثبت رويّہ كى وجہ سے اموى سلطنت كے خلاف عراق و حجاز ميں انقلاب كا پرچم بلند ہوگيا اور ہزاروں افراد خون حسين (ع) كا انتقام لينے كے لئے اٹھ كھڑے ہوئے۔ (20)

مدينہ واپسى كے بعد
اسيرى كے دن گذرجانے كے بعد امام سجاد (ع) مدينہ واپس آگئے اور معاشرہ پر حكومت كرنے والى سياست كى حالت بھى بدل گئي۔ بنى اميہ كى حكومت اور سياسى روش كے مقابل امام (ع) كا رويہ بھى بدلا۔

آپ (ع) كى امامت كا سارا زمانہ اس وقت كے ان ظالم حكمرانوں كے طرح طرح كے اجتماعى بحران و آشوب سے پُر تھا جو مختلف بہانوں سے امام (ع) پر دباؤ ڈالنے اور ان كى سرگرميوں كو محدود كرنے كى كوشش ميں لگے ہوئے تھے۔

زمانہ كے حالات سے واقفيت كے لئے ان ظالموں كے جرائم كے چند گوشے ملاحظہ ہوں:

يزيد كے مرتے ہى (21) عبداللہ بن زبير جو برسوں سے خلافت و حكومت كى لالچ ميں تھا، مكہ ميں اٹھ كھڑا ہوا اور حجاز و يمن، عراق و خراسان كے لوگوں نے بھى اس كى بيعت كر لی، اور شام ميں معاويہ بن يزيد كے ہٹ جانے كے بعد جو بہت تھوڑے دنوں (يعنى تين مہينہ يا چاليس دن) مسند خلافت پر تمكن رہا اس كے بعد مروان بن حكم نے، سازش كے ذريعہ حكومت تک رسائی حاصل كى اور عبداللہ بن زبير كى مخالفت ميں اٹھ كھڑا ہوا۔ شام كے بعد مصر پر اپنا قبضہ مضبوط كيا۔ ليكن اس كى حكومت زيادہ دنوں تک باقى نہيں رہى اور تھوڑى ہى مدت ميں مرگيا۔ اس كى جگہ اس كا بيٹا عبدالملك مسند خلافت پر بيٹھا۔ عبدالملك نے شام و مصر ميں اپنى پوزيشن مضبوط ہوجانے كے بعد 65ھ ميں عبداللہ بن زبير كا مكہ ميں محاصرہ كيا اور اس كو قتل كرديا ۔ (22)

عبدالملك كے بڑے جرائم ميں حجاج بن يوسف كو بصرہ اور كوفہ كا حاكم بنانا ہے۔ حجاج ایک خون خوار اور جرائم پيشہ شخص تھا اس نے لوگوں كو اذيتيں پہنچائيں اور كشت و خون كا بازار گرم كيا۔ خاص كر شيعيان علی (ع) كو ختم كرنے كا بيڑا اٹھايا اور اپنى حكومت كے زمانہ ميں تقريباً ايک لاكھ بيس ہزار افراد كو قتل كرڈالا ۔ (23)

عبدالملك بڑى سختى سے امام زين العابدين كى نگرانى كرتا تھا اور اس كوشش ميں تھا كہ آپ (ع) كے خلاف كسى بھى طريقہ سے كوئی بہانہ ہاتھ آجائے تو وہ آپ (ع) پر سخت گيرى كرے يا آپ كى توہين كرے۔

اس كو جب يہ اطلاع ملى كہ امام زين العابدين (ع) نے اپنى آزاد كردہ كنيز سے عقد كر ليا ہے تو اس نے ايک خط ميں اس كام پر آپ كى شماتت كی۔ اس نے چاہا كہ اس طرح وہ حضرت كو يہ سمجھا دے كہ ہم آپ (ع) كے تمام امور حتىٰ كہ داخلى اور ذاتى امور سے بھى باخبر ہيں۔ اور اس نے اپنى قرابت دارى كو بھى ياد دلايا، تو امام (ع) نے جواب ميں آئين اسلام كو اس سلسلہ ميں ياد دلاتے ہوئے فرمايا: كہ مسلمان ہو جانا اور خدا پر ايمان لانا ہميشہ دوسرے امتيازات كو ختم كرديتا ہے، امام(ع) نے طنز كے ذريعہ اس كے آبا و اجداد كى گذشتہ جہالت پر (اور شايد اس كى موجودہ جہالت حالت پر) سرزنش كى اور فرمايا:

فلا لوم على امرئ: مسلم: انّما اللّومُ لوم الجاہلية” (24)
86ھ ميں عبدالملك كے مرنے كے بعد اس كا بيٹا وليد اس كى جگہ پر مسند خلافت بيٹھا۔ 25 سيوطى كے بيان كے مطابق وہ ایک ستمگر اور لا پرواہ شخص تھا اور دوسرے بنى اميہ كے حكمرانوں كى طرح يہ بھى امام (ع) كى شہرت اور محبوبيت سے خوف زدہ تھا اور آپ (ع) كى علمى و روحانى شخصيت سے اس كو تكليف تھی، اس وجہ سے وہ شيعوں كے چوتھے پيشوا كا وجود مسلمانوں كے معاشرہ ميں برداشت نہيں كر سكتا تھا، اس نے دھوكہ كے ساتھ آپ كو زہر دے ديا۔ (26)

ایک طرف تو امام زين العابدين (ع) اپنے زمانہ كے ايسے ظالم و جرائم كا ارتكاب كرنے والے بادشاہوں اور ان كى شديد نگرانيوں كو برداشت كر رہے تھے، دوسرى طرف اپنے اطراف ميں ايماندار جاں نثاروں اور مجاہد دوستوں كا فقدان محسوس كرتے تھے۔ لہذا آپ (ع) نے مخفى مبارزہ اور جہاد شروع كيا۔ اپنے دروازہ كو دوسروں كے لئے بند كرديا، اس طرح آپ (ع) نے اپنى اور اپنے كچھ قابل اعتماد اصحاب كى جان بچالى اور اس محاذ پر صاحب امتياز عناصر كى پرورش، صالح افراد كى تيارى اور مخفى مبارزہ كے ذريعہ شيعى افكار كى تعليم ميں مشغول ہوگئے تا كہ اس راستہ كے سلسلہ كو جو بے شک منزل مقصود سے بہت قريب تھا۔ اپنے بعد كے امام كے سپرد كرديں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام اپنى ایک حديث ميں امام (ع) چہارم كے حالات اور ان كى كردار ساز خدمات كو اس طرح بيان كرتے ہيں:

”حسين ابن على (ع) كے بعد تمام لوگ راستہ سے پلٹ گئے مگر تين افراد: ابو خالد كابلی، يحيى ابن ام طويل اور جبير بن مطعم، اس كے بعد دوسرے لوگ ان سے آملے اور شيعوں كا مجمع بڑھ گيا۔ يحيى بن ام طويل مدينہ ميں مسجد پيغمبر (ص) ميں آئے اور تقرير ميں لوگوں سے كہنے لگے: ہم تمہارے (راستہ اور آئين كے) مخالف ہيں اور ہمارے اور تمہارے درميان دشمنى اور كينہ ہے”۔ (27) مكہ كے راستہ ميں ایک شخص نے اعتراض كرتے ہوئے امام سجاد (ع) سے كہا كہ ”آپ نے جہاد اور اس كى سختى كو چھوڑ ديا اور حج جو آسان ہے اس كے لئے جا رہے ہيں؟ تو آپ (ع) نے فرمايا: اگر باايمان مددگار اور جان نثار اصحاب ہوتے تو جہاد اور مبارزہ حج سے بہتر تھا۔ (28) ابوعمر نہدى كا بيان ہے كہ ”امام زين العابدين (ع) نے فرمايا: مكہ اور مدينہ ميں ہمارے بيس دوست (حقيقى اور جاں نثار) نہيں ہيں۔ (29)

اس طرح امام زين العابدين (ع) كا كام بے حد دشوار ہمت شكن اور شجاعت كا كام تھا اور آپ نہايت محدوديت كے عالم ميں اس بات ميں كامياب ہوگئے كہ ایک سو ستر ايسے نماياں شاگردوں كى تربيت كرديں جن ميں سے ہر ایک اسلامى معاشرہ ميں روشن چراغ تھا۔ جن افراد كے نام رجال كى كتابوں ميں موجود ہيں ان ميں سعيد بن مسيب ،سعيد بن جبير، محمد بن جبير، يحيى بن ام طويل، ابوخالد كابلي، ابوحمزہ ثمالى جيسى شخصيتوں كے نام لئے جاسكتے ہيں۔

امام زين العابدين (ع) نے نماياں شاگردوں كى تربيت اور اسلامى معارف كى نشر و اشاعت كے ذريعہ اسلامى معاشرہ اور اموى حكومت كے صاحب حيثيت افراد كے دلوں ميں ایک مخصوص شكوہ و عظمت پيدا كرلى يہاں تک كہ ایک حج كے موقع پر جب آپ (ع) كا سامنا عبدالملك بن مروان سے ہوا تو نہ صرف يہ كہ آپ نے اس كو سلام نہيں كيا بلكہ اس كے چہرہ پر نظر بھى نہيں ڈالى عبدالملك اس بے اعتنائي پر بڑا ناراض ہوا۔ اس نے آہستہ سے امام (ع) كے ہاتھ كو پكڑا اور كہا: ”اے ابومحمد مجھے ديكھئے ميں عبدالملك ہوں نہ كہ آپ كے باپ كا قاتل يزيد” امام (ع) نے جواب ديا: ”ميرے باپ كے قاتل نے اپنے اقدام كے ذريعہ اپنى آخرت خراب كر لى اگر تو بھى ميرے باپ كے قاتل كى طرح ہونا چاہتا ہے تو كوئی حرج نہيں ہے”۔

عبدالملك نے غصہ ميں كہا:” ميں ہرگز ايسا ہونا نہيں چاہتا ليكن مجھے اس بات كى اميد ہے كہ آپ(ع) ہمارے وسائل سے بہرہ مند ہوں گے امام (ع) نے جواب ميں فرمايا:” مجھ كو تمہارى دنيا كى اور جو كچھ تمہارے پاس ہے اس كى كوئی ضرورت نہيں۔ (30)

دعائيں
صحيفہ سجاديہ كے مضامين اور اس ميں بيان كى گئي باتوں پر غور و فكر نے بہت سے مسائل كو ہمارے لئے روشن كرديا ہے، اسلامى معاشرہ بلكہ انسانى معاشرہ كو اس كتاب نے عالم كى معلومات، خدا كى معرفت، انسان كى معرفت و غيرہ كے ايک سلسلہ كا تعارف كرايا ہے۔

ان حالات ميں جب امام كو بيان اور گفتگو كى آزادى ميسر نہ تھي، آپ نے دعا اور مناجات كے ذريعہ اعتقادى اور اخلاقى دستور العمل اور اجتماعى زندگى كے لائحہ عمل كو بيان كيا اور مسلمانوں كے درميان اس كو منتشر كرديا۔

صيحفہ سجاديہ كى عظمت كو سمجھنے كے لئے مشہور مصرى مفسر طنطاوى كا قول كافى ہے، وہ كہتے ہيں كہ ”صحيفہ سجاديہ وہ تنہا كتاب ہے جس ميں علوم و معارف اور حكمتيں موجود ہيں اس كے علاوہ كسى كتاب ميں ايسا ذخيرہ نہيں ہے اور يہ مصر كے لوگوں كى بد نصيبى ہے كہ وہ ابھى تک اس كى گراں بہا اور جاودانہ باتوں سے واقف نہيں، ميں اس ميں جتنا بھى غور كرتا چلا جاتا ہوں اس كو مخلوق كے كلام سے بالاتر اور خالق كے كلام سے نيچے ديكھتا ہوں۔ (31)

امام گوشہ نشينى اور محدوديت كے باوجود دعاؤں كے ذريعہ مسلمانوں كو قيام اور تحریک كا درس ديتے ہيں اور اپنے خدا سے راز و نياز كى باتيں كرتے ہوئے فرماتے ہيں ”خدايا مجھ كو ايسى طاقت اور دست رسى عطا كر كہ جو لوگ مجھ پر ظلم كرتے ہيں ميں ان پر كاميابى حاصل كروں اور ايسى زبان عنايت فرما كہ مقام احتجاج ميں غلبہ حاصل كرسكوں، ايسى فكر اور سمجھ عطا فرما كہ دشمن كے حيلوں كو درہم برہم كردوں اور ظالم كے ہاتھ كو ظلم و تعدى سے روک دوں۔ (32)

صحيفہ سجاديہ ميں ايسے بہت سارے نمونے موجود ہيں۔

شہادت
امام زين العابدين (ع)57 سال تک رنج و مصيبت برداشت كرنے كے بعد وليد بن عبدالملك كے دور حكومت ميں اس كے حكم سے جس نے اپنى خلافت و حكومت كا محور ظلم و جور اور قتل و غارت بنا ركھا تھا، مسموم ہوكر، 25 محرم 95ھ ق كو شہادت پائی اور قبرستان بقيع ميں امام حسن مجتبى (ع) كى قبر مطہر كے پہلو ميں سپرد خاک كئے گئے۔ (33)

حوالہ جات
1 الفصول المہمہ /201-
2 اصول كافى جلد/ 466، ارشاد مفيد /253، اعيان الشيعہ ( دس جلد والى ) جلد 1/629-
3 ارشاد مفيد /253-
4 آل عمران /134-
5 ارشاد مفيد /257، اعيان الشيعہ جلد 1/632-
6 ارشاد مفيد/259، مناقب جلد 4/ 163 ليكن مناقب ميں زيد بن اسامہ كے بجاے ” محمد بن اسامہ ” لكھا ہے۔
7 تذكرة الخواص ابن جوزى / 184، اعيان الشيعہ جلد 1/633، مناقب جلد 4/153-
8 خصال صدوق مطبوعہ غفارى /517، مناقب جلد 4/150-
9 يہ واقعہ، سانحہ كربلا كے بعد يزيد كى حكومت كے دوسرے سال پيش آيا اس ميں يزيد كے حكم سے سپاہ شام نے مدينہ پر حملہ كيا اور تين دن تك مسلمانوں كى جان، مال،عزت و آبرو كو اپنے اوپر مباح سمجھتے رہے۔
10 اعيان الشيعہ ج 1/ 636، بحار ج 46/138،كامل ابن اثير ج 4/112-113-
11 استلام ۔ہاتھ سے لمس كرنا، چھونا، بوسہ دينا۔
12 امالى سيد مرتضى جلد 1/66، اعيان الشيعہ ( دس جلد والي) جلد 1/634، تذكرة الخواص، بحار ج 46/127-125-
13 احتجاج طبرسى جلد 2/30، اعيان الشيعہ ( دس جلد والي) جلد1/613، بحار جلد 44/112-
14 لہوف سيد ابن طاؤوس /144، مقتل خوارزمى جلد 2/43، بحار جلد 44/117-118-
15 اما ظنّك برسول اللہ لو راناً موثقين فى الحبال-
16 تذكرة الخواص /149، اعيان الشيعہ ( دس جلدي) جلد 1/615، بحار جلد 44/132-
17 ذريعة النجاة /234-
18 عام الفيل كے 35 سال بعد پيغمبراكرم (ص) كے ہاتھوں حجر اسود نصب كئے جانے والے واقعہ كى طرف اشارہ ہے۔
19 كامل بہائي جلد 2/302، بحار جلد 45/137۔139-
20 امام حسين كى زندگى كى تاريخ كى تحقيق كے سلسلہ ميں ہم نے بعض شورشوں اور تحريكوں كى طرف اشارہ كيا ہے۔
21 امام حسين (ع) كى شہادت كے بعد يزيد كى حكومت كے سہ سالہ جرائم كو گذشتہ اسباق ميں بيان كيا گيا ہے اس لئے يہاں پر اس كا تكرار نہيں كيا۔
22 كامل ابن اثير جلد 4/348۔356-
23 كامل ابن اثير جلد 4/587-
24 كافى جلد 5/244، مناقب جلد 4،162۔ يعنى مسلمان ميں كوئي پستى اور ذلت نہيں ہے بلكہ صرف جاہليت كى فرمايگى ميں پستى ہے۔
25 تاريخ الخلفاء /223۔
26 مناقب ابن شہر آشوب جلد4/176۔
27 بحار جلد 46/144، الاختصاص للمفيد /64، رجال كشى /81۔
28 احتجاج طبرسى جلد 2/44،45، اعيان الشيعہ جلد 1/635، مناقب جلد 4/159۔
29 بحار جلد 46/143، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد جلد 4/104۔
30 بحار جلد 46/120۔
31 خاتمہ ترجمہ صحيفہ سجاديہ مطبوعہ آخوندي۔
32 اللہم صلّ على محمّدو آلہ و اجعل لى يداً على من ظلمنى و لساناً على من خاصمنى و ظفراً بمَن عاندنى و ہب لى مكراً على من كادنى ” صحيفہ سجاديہ دعاء /20”۔
33 مصباح كفعمى /509، كافى جلد 1/468، بحار جلد 46/152۔

Related Articles

Back to top button