اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

ذکر و نماز

عبادات اور ان میں بھی بالخصوص نماز کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ، نماز کو دین کا ستون کہا جاتا ہے ، نماز اگر مکمل توجہ اور اپنی تمام شرائط کے ساتھ انجام دی جائے تو نہ فقط نماز گزار کے قلب و روح کو بلکہ اس کے آس پاس سارے ماحول کو نورانی اور معطر کر دیتی ہے ۔
نماز گزار جس قدر خضوع و خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے گا اتنا ہی خود پرستی ، خود خواہی ، خود غرضی ، حسد ، بغض ، کینہ وغیرہ جیسی صفات رذیلہ کی قید سے آزاد ہوتا چلا جائے گا اور اتنا ہی اس کے چہرے کی نورانیت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔ موجودہ بشر کی تمام تر مشکلات و پریشانیوں کا سبب خدا سے دوری اور ذاتی مفاد سے وابستگی میں اضافہ اور شدت ہے ۔ نماز انسان کو ظلمتوں اور تاریکیوں سے آزاد کراتی ہے ۔اس کے غیض و غضب اور شہوات و ہوا و ہوس کو مغلوب کر کے اسے تقرب الہٰی اور امور خیریہ کی طرف راغب کرتی ہے ۔
نماز سکون قلب کی باعث ہے
خدا کی طرف سے انسان پر عائد کردہ وظائف اور عبادات میں سے نماز کو قرآن کریم نے سر فہرست قرار دیا ہے ۔ ’’ الذین ان مکناھم فی الارض اقاموا الصلاۃ ‘‘۔ اگر نماز میں سے اہداف نظام اسلامی کی مہک نہ آرہی ہوتی تو ایک اہم مقام نہ رکھتی اور اس کے متعدد و مختلف بنیادی فائدے نہ ہوتے تو قطعاً اسلام میں نماز سے متعلق اس حد تک تاکیدات موجود نہ ہوتیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ نماز اپنی تمام افادیت اور فوائد کے ساتھ فقط ایک وظیفہ شخصی نہیں ہے بلکہ یہ فرد کے ساتھ ساتھ سارے معاشرے کو رشد و ارتقاء بخشنے میں ایک اہم رول ادا کرتی ہے ۔ تمام واجبات میں جس قدر تاکید اس واجب کے لئے کی گئی ہے وہ بے مثال ہے حتی والدین پر واجب ہے کہ اپنے بچوں کو بچپنے سے ہی نماز سے آشنا و مانو س کریں ۔ یہ تمام تاکیدات صرف اور صرف اسی لئے ہیں کہ نماز فرد کے ساتھ ساتھ سارے معاشرے کو اس قابل بناتی ہے کہ معاشرہ دوسرے تمام وظائف کا بار بھی اپنے کاندھوں پر اٹھا سکے ۔ ان تمام پہلووں کے پیش نظر نماز کو اعلیٰ ترین عمل فرض کرنا چاہیے اور صدائے حی علی خیر العمل کو ایک حکمت آمیز صدا تصور کرنا چاہیے ۔
نماز ہی ہے جو ایثار ، اخلاص ، توکل بر خدا اور تعبد جیسی صفات انسان کے اندر پیدا کرتی ہے اور اس کو اس لائق بنا تی ہے کہ انسان دوسرے دشوار ترین واجبی امور مثلاً جہاد ، امر بالمعروف و زکاۃ وغیرہ کی انجام دہی پورے جوش و خروش سے انجام دے سکے اور شجاعانہ طور پر اس الہٰی وادی میں داخل ہوئے ۔
آج کا زمانہ الیکڑونک زمانہ ہے ۔جس کا اثر یہ ہے کہ انسان مختلف مسائل و مشکلات کا شکار ہو گیا ہے نتیجتاً بشریت کی کوشش یہ ہے کہ فردی اور اجتماعی زندگی کو مشینی حرکتوں سے ہم آہنگ کیا جا ئے ۔ صلہ رحم ، مروت ، ایثار ، محبت اور نہ جانے کتنی دوسری اخلاقی صفات و اقدار اس مشینی نظام زندگی کی بھینٹ چڑھتی جا رہی ہیں ۔ گھروں میں محبت آمیز فضا آہستہ آہستہ اپنی رنگت چھوڑتی جا رہی ہے ۔
گذشتہ چند برسوں سے انسانیت کا درد رکھنے والے بعض افراد اس سمت میں متوجہ کرتے رہے ہیں لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ابھی تک کروڑوں افراد مخصوصاً جو اس جہنم میں خود کو جلا رہے ہیں، انہیں اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے ۔
اسی وجہ سے آج گذشتہ زمانوں سے کہیں زیادہ خدا وند کریم سے معنوی رابطہ قائم کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں نماز آسان ترین اور موثر ترین ذریعہ ہے جو ہمیں ان اخلاقی اور سماجی مشکلات سے باہر نکال سکتی ہے ۔
اہتمام نماز
اہتمام نماز سے مراد فقط یہ نہیں ہے کہ مومنین و صالحین حضرات نماز بجا لائیں اور بس ۔ یہ کوئی ایسا فعل نہیں ہے کہ جس پر حکومت اسلامی کی تشکیل منحصر ہو بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ نماز کو معاشرہ کا ایک حصہ بنا دیا جائے جہاں ہر شخص نماز کے اسرار و رموز سے واقفیت رکھتا ہو ۔ معنویت اور الہی ذکر و عبادت کی روشنی و نورانیت سارے معاشرے کو روشن و منور کرے اور نماز کا وقت نزدیک آتے ہی سارے مرد و زن نماز کی طرف ذوق و شوق کے ساتھ دوڑ جائیں اور دامن نماز میں ایک طرح کا قلبی و روحی سکون حاصل کریں ۔
نماز: دین کا ستون
نماز دین کا حقیقی ستو ن ہے ۔لہٰذا ضروری ہے کہ ہماری زندگی میں نمازکو اس کا حقیقی مقام و مرتبہ دیا جائے ۔ دین کے سائے میں انسان کو حیات طیبہ صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب وہ اپنے قلب کو یاد خدا سے زندہ اور روشن رکھے کیونکہ انسان صرف اسی ذریعہ سے تمام اقسام کے فساد و شر سے مقابلہ کر سکتا ہے نیز ظاہری اور باطنی شیطانوں کو مغلوب کر سکتا ہے اور یہ دائمی ذکر اور خضوع و خشوع فقط نماز کی برکت ہی سے حاصل ہو سکتا ہے ۔ نماز ایک ایسی حقیقت ہے جو انسان کو اپنے نفس پر غلبہ حاصل کرنے میں نہایت قوت و قدرت عطا کرتی ہے ۔
نماز سے بڑھ کر ایسا کوئی ذریعہ یا وسیلہ نہیں ہے جو انسان و خدا کے درمیان رابطے کو مستحکم تر یا قوی تر کر سکے ۔ ایک عام انسان بھی اگر خدا کے ساتھ اپنے رابطے کو استوار کرنا چاہتا ہے تو نماز ہی سے شروعات کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ خدا کا ایک مقرب ترین بندہ بھی اس نماز کے ذریعہ ہی تنہائیوں اور خلوتوں میں اپنے خدا ، اپنے محبوب سے راز و نیاز کر کے دل کی دنیا کو روشن و جاودانی بناتا ہے ۔ یہ ذکر و نماز ایک ایسا خزانہ ہے جس کا کوئی خاتمہ نہیں ہے ۔ جس قدر اس سے انسیت و قربت بڑھتی جائے گی اتنی ہی اس کی نور افشانیوں میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔
نماز کے مختلف جملے اور اذکار خود اپنے آپ میں معارف و تعلیمات دین کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور دن میں کئی کئی بار نماز گزار کو ان تعلیمات کی یاد آوری کرائی جاتی ہے ۔ نماز کو اگر اس کی تمام شرائط اور نقائص کے بغیر ادا کیا جائے تو یہ نماز انسان کو روز بروز معارف و تعلیمات الٰہی سے قریب اور آشنا کراتی ہے ۔ انسان کو ہمیشہ نماز کی ضرورت
ایسی نماز جو اپنی تمام تر شرائط کے ساتھ بجالائی جائے، انسان کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرتی ہے، اس کے پژمردہ قلب کو جلا بخشتی ہے، اس کی ناامیدیوں کو یقین میں تبدیل کرتی ہے ساتھ ہی اس کی زندگی کو باہدف بھی بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز تمام حالتوںخواہ جنگ کا میدان ہو یا گھر کا عیش و آرام، میں واجب ہے۔ انسان ہمیشہ نماز کا محتاج ہے مخصوصاًمسائل و مشکلات سے دچارہوتے وقت۔
حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے سامنے نماز کی اہمیت و منزلت صحیح و حقیقی طور پر بیان ہی نہیں ہو سکی ہے اور اسی لئے ہمارے یہاں نماز کو جو مقام ملنا چاہئے تھا نہیں مل سکا۔ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ مخصوصاً جوانوں کے سامنے نماز کے اسرار و رموز کو بیان کریں۔ انہیں نماز کی منزلت و فوائد بتائیں۔ یہ نماز ہی کا خاصہ ہے کہ ایک بچے سے لیکر ایک عالم تک نماز کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ حتی عرفاء بھی نماز کی ضرورت کا احساس کرتے ہیں۔ تب ہی تو ‘اسرار الصلوۃ‘‘ جیسی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ نماز ایک ایسا سمندر ہے جسکی گہرائی کا اندازہ ابھی تک نہیں لگایا جاسکا ہے۔ اگر چہ نماز کے بارے میں ائمہ طاہرینٴ سے متعدد روایات اور علمائے دین کے بے شمار اقوال موجود ہیں لیکن اس کے باوجود نماز کی منزلت بہت سے افراد سے ابھی تک پوشیدہ ہے حتی کہ وہ لوگ بھی جو نماز کو واجب سمجھ کر انجام دیتے ہیں ان کے لئے بھی ابھی تک نماز صحیح طور پر بیان نہیں ہو سکی ہے۔
بہر حال، نمازراہ سیر و سلوک کی طرف پہلا قدم ہے جسکو الٰہی ادیان نے انسان کے حقیقی ہدف یعنی کمال و خوشبختی دنیا و آخرت کی خاطر بشر کے حوالے کیا ہے۔ نماز خدا کی طرف پہلا قدم ہے۔ نماز کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اکرم فرماتے تھے نمازمیری آنکھوں کا نور ہے اور جب وقت نماز ہوتا تھا تو بلال سے کہتے تھے کہ اذان کے ذریعے میری روح کے اطمینان و سکون کا انتظام کرو۔ انسان کے تکامل معنوی میں جسقدر نماز موثر ہے اتنی دوسری کوئی عبادت نہیں ہے۔ نماز جہاں معاشرے کو اخلاقی و معنوی صفات و کمالات عطاکرتی ہے وہیں اپنی خاص شکل و شرائط کی بنا پر نماز گزار کو نظم و ضبط کا پابند بھی بناتی ہے۔
عبادت رسول اسلام
رسول اکرم اپنی تمام تر عظمت و منزلت کے باوجود ہرگزعبادت سے غافل نہیں رہتے تھے۔ رات کے پچھلے پہر میں گریہ و زاری اور مناجات و استغفار آپکا دائمی شیوہ تھا۔حضرت ا م سلمہ نے ایک رات دیکھا کہ پیغمبر موجودنہیںہیں۔ باہر نکلیں تو دیکھا کہ آنحضرت خدا کی بارگاہ میں دعا کرنے میں مشغول ہیں۔ اشک جاری ہیں اور استغفار کر رہے ہیں۔ زبان مبارک پر یہ جملہ جاری ہے: ’’اللّہم ولا تکلنی الی نفسی طرفۃعینٍ‘‘۔ ام سلمہ بے ساختہ روپڑیں۔ رسول اکرم ام سلمہ کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے فرمایا: ام سلمہ تم یہاں کیا کررہی ہو؟ ام سلمہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ کو تو خدا بے حد دوست رکھتا ہے اور آپ کو بخش دیا ہے: ‘لیغفرلک اللہ ما تقدّم من ذنبک و ما تآخر۔‘‘ (۱) پھر آپ کیوں گریہ کر رہے ہیںاور کہہ رہے ہیں کہ خدایا ! ہمیں ہمارے حال پر مت چھوڑ؟ فرمایا: ‘و ما یومننی‘‘ اگر خدا سے غافل ہوجاؤں تو کون میری حفاظت کریگا؟
یہ ہمارے لئے ایک درس ہے۔ ہر حال میں خواہ مصائب کا سامنا ہو یا خوشیوں کا، اچھے حالات ہوں یا برے ، خدا ہی پر بھروسہ  کرنا چاہئے اور اسی سے مدد مانگنا چاہئے نیز اسی پر توکل کرنا چاہئے۔ یہی وہ اہم درس ہے جو رسول خدا ہمیں دے گئے ہیں۔
حوالہ
۱۔سورہ فتح آیت ۲

Related Articles

Back to top button