احکام اسلامیمقالات

معرفت رب

آیت اللہ ابراہیم امینی

خداوند عالم نے دنیا کو پیدا کیا اور اسے منظّم طریقہ سے چلا رہا ہے ، کوئی بھی چیز بغیر سبب کے وجود میں نہیں آتی ہے مثال کے طور پر اگر ہم کسی نئے گھر کو دیکھیں تو یقین کریں گے کہ اس کا بنانے والا ، اور نقشہ کھینچنے والا انجینئر کوئی ضرور ہوگا ، یعنی یہ گھر الٰہی افراد کی زحمات کا نتیجہ ہے کسی کے خیال میں بھی نہیں آئے گاکہ یہ خود بخود تیار ہوگیا ہوگا۔
اگر ہم ٹیبل پر قلم اور سفید کاغذ رکھ کر چلے جائیں اور واپسی پر دیکھیں کہ اس پر کسی نے لکھا ہے تو دیکھ کر ہمیں اطمینان سا ہوجائے گاکہ ہماری غیر موجودگی میں کوئی آیا تھا ، اور اس پر اپنے آثار چھوڑگیا ہے اگر کوئی کہے بھائی صاحب آپ کی غیر موجودگی میں یہ قلم خود ہی اس پر رواں ہوگیا اور اس نے یہ تمام چیزیں لکھ دی ہیں تو ہم اس کی باتوں پرتعجب کریں گے اور اس کی بات غیر معقول قرار دینگے، اگر ہم کسی مقام پر خوبصورت تصویر بہترین پارک میں بنی ہوئی دیکھیں جو ہر ایک کا دل اپنی طرف لبھا رہی ہو تو کیا ہمارے ذہن میں یہ بات آئے گی کہ ہو نہ ہویہ خود بخود بن گئی ہوگی۔
ہم گاڑی میںسفر کرتے ہوئے چلے جارہے تھے اتفاق سے گاڑی رک گئی ڈرائیور کو اطمینان ہے کہ گاڑی بغیر وجہ کے نہیں رکے گی ، موٹر میں کوئی نہ کوئی ضرور خرابی آئی ہے ، اور بنانے کے لئے تمام کوششیں کررہا ہے ہم کہیں بھائی ٹھہرو ابھی گاڑی خود بخود صحیح ہو کر چلنے لگے گی ۔
ہمارے ہاتھ کی گھڑی چلتے چلتے رک گئی ہم نے بنانے والے کودی ، کیا وہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ابھی خود ہی سے ٹھیک ہوجائے گی ۔
آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی چیز کا وجود بغیر علت کے نہیں ہوتا ہے ، اور اس کی تلاش ہر شخص کو ہوتی ہے،اب آپ سے سوال کیا جائے کہ یہ اتنی بڑی طویل و عریض دنیا بغیر کسی پیدا کرنے والے کے پیدا ہوگئی ہے؟ ہر گز ایسا نہیں ہے ، اتنی بڑی اور منظّم دنیا، پھیلے ہوئے دریا ، چمکتے ہوئے ستارے اور دمکتا ہوا سورج یہ رات دن کا آنا جانا، فصلوں کی تبدیلی ، درختوں کے شباب ، گلوں کے نکھار بغیر کسی بنانے والے کے نہیں ہوسکتے۔
دنیا میں نظم و ترتیب
اگر ہم ایک ایسی عمارت دیکھیں جو نہایت منظّم اورخاص ترتیب سے بنی ہوئی ہواور اس کے اجزا آپس میں اچھی طرح خوب ملے ہوئے ہوں اور اس میں رہنے والوں کے لئے تمام ممکن ضروریات کی چیزیں بھی باقاعدہ اپنی اپنی جگہ پر فراہم ہوں یعنی اس میں کسی طرح کا کوئی عیب و نقص نظر نہ آرہا ہو اُجالے کے لیے بجلی، پینے کے لئے بہترین پانی ، سونے کے لئے کمرہ ، کچن ، مہمان خانہ ، حمام ، پیشاب خانہ اور جاڑے میں گرم کرنے کے لئے ہیٹر، گرمی میں سرد کرنے کے لئے (AC) اور کولر بہت ہی نظافت سے پانی کے پائپ اور بجلی کے تار پھیلے ہوئے ہوں ، اور اس کی بناوٹ میں ڈاکٹری پہلوؤں پر خاص توجہ دی گئی ہو، سورج کی ٹکیا پورے طور پر اس گھر میں نور چھٹر ک رہی ہو، جب ہم یہ ملاحظہ کرتے ہیں تو ہماری عقل یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یہ ہر لحاظ سے منظّم گھر خود بخود نہیں بنا ہوگا، بلکہ اس کے بنانے اور سنوارنے والا کوئی باہوش مدبر ، دور اندیش ، ظرافت سے نقشہ کے مطابق بنانے والاہے۔
اس مثال کے ذکر کے بعد چاہیں گے کہ اپنی روزانہ کی زندگی پر آپ لوگوں کی توجہ مبذول کراؤں انسان اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے پانی اور کھانے کا محتاج ہے کہ کھانا کھائے اور پانی پئے اور بدن کے خلیوں (CELLES ) کی ضروریات کو پورا کرے تاکہ بدن کے تمام خلیے زندہ اور اپنے کاموں میں مشغول رہ کر ہماری زندگی کو اچھی طرح قائم و دائم رکھیں، ضروری ہے کہ مختلف انواع کے کھانے کھائیں اور ان کو فوت ہونے سے بچائیں ورنہ ان کے ساتھ ہی زندگی کے چراغ مدھم ہونا شروع ہو جائیں گے، انسان اپنی زندگی کے لئے مفید ہوا کا محتاج ہے تاکہ اس کو جذب کرے اور داخلی جراثیم کو باہر نکال کر حیات کو تازگی بخشے ، آپ ملاحظہ کریں ، کس طرح ہماری زندگی کو بہترین بنانے کے لئے ضروریات کی تمام چیزیں خارج میں موجودہیں۔
اگر کھا نا تلاش کریں تو مختلف انواع و اقسام کے کھانے موجود ہیں اگر زندگی کے لئے گیہوں ، چاول ، سبزی ، پھل اور گوشت وغیرہ کی تلاش ہو تو تمام کی تمام چیزیں خارج میں موجود ہیں ، اگر پانی یا ہوا کی ضرورت ہو تو باہر موجود ہے پاؤں ہوں تو کھانے کی تلاش میں نکل سکتے ہیں آنکھیں ہوں تو مناسب اچھی غذائیں دیکھ سکتے ہیں اور ہاتھ ہوں تو اٹھاسکتے ہیں ، اور پیدا کرنے والے نے ہاتھ کو بھی کیا خلق کیا ہے کہ پورے طور پر ہمارے اختیار اور ہماری ضروریات کو مختلف انداز میں پورا کرنے کے لئے تیار ہے جس طرح اور جس وقت چاہیں اٹھائیں بٹھائیں فقط ہمارے ارادہ کے محتاج ہیں ، جیساارادہ ہو ویسا کریں ، بندکرنا چاہیں تو کھلیں نہیں اور کھولنا چاہیں تو بند نہ ہوں ، کس قدر تعجب خیز ہے ہاتھوں کی بناوٹ اور اس میں انگلیوں اور ہتھیلیوں کی ظرافت ، ہونٹوں کو پیدا کیا تاکہ منھ کو بند رکھیں لقمہ باہر آنے سے محفوظ رہے ۔
مشکل ترین مسئلہ یہ ہے کہ بدن کی ضروری غذائیں جو رنگ برنگ اور مختلف اقسام کے ساتھ پائی جاتی ہیں کیا یہ اتنی آسانی سے بدن کے خلیوں کے لئے لائق استفادہ ہو سکتی ہیں ؟ ہر شخص کہہ سکتاہے ، نہیں بلکہ اس میں بہترین طریقہ سے تغیر و تبدیلی واقع ہو ، تاکہ وہ بدن کے استفادہ کے مطابق ہوسکے، انسان کی داخلی مشینری (Machinery) غذا کو چار مرحلہ کے بعد ہضم کے لائق بناتی ہے خلاصہ قارئین کے پیش خدمت ہے ۔
پہلا مرحلہ : خداوند عالم نے ہمارے منھ میں دانت جیسی نعمت دی جو غذا کے مطابق لقمہ کو چبا کر ریزہ ریزہ کرنے کے کام آتے ہیں ، اور زبان میں حرکت پیدا کی تاکہ لقمہ کو مناسب دانتوں کی طرف ہدایت کرے اور منھ کے اندر بعض حصوں کو ایسا بنایا جو کھانے کے ذائقہ اور اس کی اچھائی و خرابی ، مٹھاس اور تلخی کو دماغ کی طرف منتقل کرتے ہیں ، اور اسی لقمہ ( غذا) کے مطابق ، مرطوب اور نرم کرنے کے لئے مخصوص پانی چھوڑتے ہیں ، تاکہ وہ لقمہ آسانی سے چبانے اور نگلنے کے لائق ہو جائے اس کے علاوہ یہ منھ کے پانی غذا کو ہضم کرنے میں کافی مدد کرتے ہیں اور خود اس کے اند ر کیمیائی طاقتیں بھر پور پائی جاتی ہیں۔
دوسرا مرحلہ : جب دانت اپنے کام سے فارغ ہوجائے یعنی لقمہ نگلنے کے لائق ہوجائے تو غذا منہ کے راستہ کے ذریعہ معدہ میں پہنچ جاتی ہے ، لقمہ کو نیچے جاتے وقت چھوٹی زبان ،ناک اور سانس کے سوراخ کو بند کرلیتی ہے اور اس مخصوص پردہ کے ذریعہ ناک و سانس کے راستے کو بند کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کھانا ناک کے سوراخ میں نہ چلا جائے۔
تیسرا مرحلہ : کھانا کچھ دیر معدہ میں رہتا ہے تاکہ وہ ہضم کی صلاحیت پیدا کرلے ، معدہ کی دیواروں میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے غدود پائے جاتے ہیں جس سے خاص قسم کا سیّال پانی نکلتا ہے لہذا اس کے ذریعہ کھا نا ہضم اور بہنے والے پانی کے مانند ہو جاتاہے۔
چوتھا مرحلہ : غذا پتلی نالیوں کے ذریعہ (آنت) کی تھیلی میں جاتی ہے اور وہاں پر بڑا غدود جس کو (لوزالمعدہ) کہتے ہیں ، جس سے مخصوص قسم کا ، سیّال اور غلیظ پانی نکلتا ہے جو غذا کو ہضم کرنے کے لئے نہایت ہی ضروری ہے ، کھانا آنت میں بہنے والی چیز وں کی طرح رہتا ہے ، اور اس آنت کی دیواروں پر لگے ہوئے غدود اس سے غذائی مواد حاصل کرتے ہیں ، اور اس مواد کو خون کی صورت میں تبدیل کرکے تمام بدن میں پہنچاتے ہیں اور دل جو برابر حرکت میں رہتاہے اس قیمتی مواد کو خون کے ذریعہ بدن کے تمام حصوں میں بھیجتا ہے اور اس طریقہ سے انسان کے بدن کے تمام خلیے اپنی اپنی غذائیں حاصل کرتے ہیں۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ انسان کے عضلات اور دنیا کی چیزوں میں کس قدر ارتباط اور رابطہ پایا جاتا ہے ، کیا اب بھی کسی میں ہمت ہے جو کہے یہ دنیا خود بخود پیدا ہوگئی ہے!اگر ہم اپنے بدن کی ساخت پر نظر ڈالیں اور اعضائے بدن کے اندر جو دقیق و عمیق ریزہ کاری اور باریک بینی کا مظاہر ہ کیا گیا ہے غورو فکر کریں تو تعجب کی انتہا باقی نہ رہے گی کہ اس بدن کے اجزا اور دنیاوی چیزوں کے درمیان کیسا گہرا تعلق اور رابطہ پایا جاتاہے جس سے ہمارے لئے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ انسان اور دوسری تمام چیزیں ، خود بخود وجود میں نہیں آئی ہیں، بلکہ پیدا کرنے والے نے بہت ہی تدبیر، ذرہ بینی اور تمام ضروریات کو مدنظر رکھنے کے بعد خلق فرمایاہے ، کیا خدا کے علاوہ کوئی ہو سکتا ہے جو انسان اور دنیا کے درمیان اتنا گہرا رابطہ پیدا کر سکے؟ کیا طبیعت جس میں کوئی شعور نہیں ہے۔
انسان کے ہاتھوں کو اس طرح موزوں اور مناسب خلق کرسکتی ہے؟ کیا طبیعت کے بس میںہے جو انسان کے منہ میں ایسا غدود رکھے جس سے انسان کا منہ ہمیشہ تروتازہ بنا رہے؟ کیا چھوٹی زبان ( کوا) جو سانس اور ناک کے مقام کو ہر لقمہ اور ہر قطرہ پانی سے محفوظ رکھتی ہے خودبخود بن جائے گی ؟ کیا یہ معدہ کی غدود جو غذا کے لئے ہاضم ہیں خود خلق ہوئی ہے؟ وہ کونسی چیز ہے جو بڑی غدود کو حکم دیتی ہے کہ وہ سیّال اور غلیظ پانی کا غذا پر چھڑکاؤ کرے ؟ کیا انسان کے دو عضو اپنے فائدے کا خود خیال رکھتے ہیں ؟ وہ کیا چیز ہے جو دل کو مجبور کرتی ہے کہ وہ دن رات اپنے وظائف کو انجام دے اور پروٹین (Protein) حیاتی ذرّات کو بدن کے تمام حصوں میں پہنچائے ؟ ہاں ، خداوند عالم کی ذات ہے جو انسان کے عضلاتی مجموعے کو صحیح طریقہ اور اصول پر منظّم رکھتے ہیں۔
بچپن کا زمانہ
اب ہم اپنی زندگی کے دوسرے پہلوؤں پر بھی نظر ڈالیں ، جب ہم نے دنیا میں آنکھیں کھولیں، تو اتنے کمزور تھے کہ بات کرنے کی بھی تاب نہیں رکھتے تھے، چل کر معاش فراہم کرنا کیسا؟ہمارے ہاتھوں میں تو لقمہ اٹھانے کی طاقت نہیں تھی جو اٹھاتے اور منھ میں رکھتے ، منھ میں کیا رکھتے کہ چبانے کے لئے دانت نہیں تھا، معدہ میں ہضم کرنے کی صلاحیت موجود نہیں تھی ، اس حال میں سب سے بہترین غذا خداوند عالم نے دودھ کو ہمارے لئے قراردیا۔
جب ہم نے دنیا میں آنکھیں کھولی تو خدا نے اس سے پہلے ہی ماں کے سینہ میں ہماری غذا رکھ چھوڑی تھی، اس کے دل میں ہماری محبت اور الفت کی جگہ دی تاکہ شب و روز کے لمحات میں ہمارے لئے زحمت و مشقت برداشت کرے ، ہماری زندگی کو اپنی زندگی اور ہمارے آرام کو اپنے لئے آرام سمجھے، جب تھوڑا بڑے ہوئے ہاتھ پاؤں آنکھ کان اور معدہ کی قوت کے سبب سنگین غذاؤں کی طرف ہاتھ بڑھانا اور معمولی دانتوں سے کھانا شروع کیا۔
انصاف کریں
کس نے ہمارے لئے محبت پیدا کی ؟ اور ہمارے بچپنے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ماں جیسی شفیق و مہربان خاتون بنائی؟ کس نے اس وسیع و عریض دنیا، چمکنے والے ستارے سورج اور چاند کو خلق کیا؟ کس نے اس دنیا کو منظّم و مرتب پیدا کیا ؟ کس نے زمین اور چاند کو عمیق حسابوں سے رواں دواں کیا؟ یہ سردی ، گرمی، برسات اور خزاں کو کس نے معین فرمایا؟!
آنکھ ، کان ، زبان ، معدہ ، دل ، کلیجہ ، آنت، پھیپھڑا ، ہاتھ ، پاؤں ، دماغ او ردوسرے تمام بدن کے عضلات اس مہارت سے کام کرنے والے کس نے بنائے ہیں ؟
کیا ممکن ہے بے شعور و بے ارادہ طبیعت ، حیوان و انسان کے اعضا کو پیدا کرنے کی علت بن سکتی ہے؟ جب کہ آنکھ جیسا حصہ ، نہایت دقت و باریک بینی کو گھیرے ہوئے ہے ، نہیں ہر گز ایسا ممکن نہیں ہے بلکہ خداوند مہربان نے ان کو پیدا کیا ہے وہی ہے ، جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اور زندہ رکھتاہے اور مارتاہے ، خدا ہی ہے جو بندوں کو دوست رکھتا ہے اور ان کے لئے تمام نعمتوں کو پیدا کرتا ہے ہم خدا کو چاہتے ہیں اور اس کے سامنے عاجزی و فروتنی سے سرجھکا تے ہیں ، اس کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں ، اور اس کے علاوہ کسی کو لائق عبادت و اطاعت نہیں جانتے، اور اپنے سر کو دوسروں کے سامنے عاجزی و ذلت سے نہیں جھکاتے ہیں۔
ہر موجود کے لئے علت کا ہونا ضروری ہے
ہم جن چیزوں کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں ان کے وجود اور موجود ہونے میں کیسے فکر کریں ؟ اس مطلب کو ہم اپنے وجدان سے درک کرسکتے ہیں کہ یہ موجود خود بخود وجود میں نہیں آیا ہے موجود کے لئے وجود ، عینِ ذات نہیں ہے بلکہ وہ ذات میں وجود و عدم سے خالی ہے اور وجود و عدم دونوں ہی اس کو چاہتے ہیں اوروہ دونوں کی قابلیت رکھتا ہے ایسے موجود کو ممکن کہتے ہیں مثلا پانی پر توجہ کریں ہم وجداناً کہیں گے کہ پانی در حقیقت نہ وجودہے اور نہ ہی عدم ، نہ بالذات وجود چاہتا ہے او ر نہ عدم بلکہ دونوں کی نسبت مقام اقتضا اور خواہش ہے، وہ چاہے تو وجود کو لے کر موجود ہوجائے اور چاہے تو عدم ہی رہے، پانی کی طرح دنیا کی تمام چیزیں مقام ذات میں اپنے وجود عدم سے خالی ہیں یہاں پر ہماری عقل کہتی ہے موجودات چونکہ مقام ذات میں خود بہ خود وجود نہیں رکھتی ہیں ، اگر چاہیں تو وجود میں آجائیں تو چاہیے کہ ایک دوسرا عامل ہو جو اس کے نقائص اور کمی کو دور کرے تا کہ وہ چیز موجود اور ظاہر ہوسکے۔
مقام ذات میں تمام موجودات ضرورت مند ہیں جب تک کہ ان کی احتیاج پوری نہ ہو ان پر وجود کا لباس نہیں آسکتاہے اور وہ چیز موجود نہیں ہوسکتی ہے ، تمام دنیا چونکہ اپنی ذات میں کمی و نقص رکھتی ہے اور خود مستقل اور اپنے پیروں پر نہیں ہے لٰہذا ممکن ہے ، پس چاہیے ایک کامل مستقل اور بے نیاز وجود رکھنے والا جس کا وجود خود عین ذات ہو، اور اس کے لئے ممکن ہونے کا تصور بھی محال ہو، آئے اور اس کو وجود کا لباس پہنائے ایسے وجود کامل کو واجب الوجود اور خدا کہتے ہیں ، خدا کی ذات عین وجود ہے اور اس کے لئے عدم و نابودی اصلاً متصور نہیں ہے ، یعنی خود اس کا وجود عین ذات اور مستقل ہے ( جیسے دال نمکین ہے نمک کی وجہ سے اور نمک خود اپنی وجہ سے نمکین ہے) اور تمام دنیا اور موجودات اس کے ضرورت مند و محتاج ہیں اور اسی سے اپنا وجود حاصل کرتے ہیں۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button