Nasihatenکتب اسلامی

(حصہ چہارم)عقائد و کلام

علم ِ کلام سے متعلق سوالات کے آغازسے پہلے درج ذیل نکات کی طرف توجہ قابلِ اہمیت ہے :
۱ ۔ ہر علم یا علوم کے ہر شعبہ کا تعلق انسان سے ہے یا اس کا فائدہ و نتیجہ کار انسان سے متعلق ہے یعنی جب تک انسان کو نہ پہچانیں، اس علم سے استفادہ نہیں کر سکتے۔
۲۔ خداوندِمتعال نے انسان کو کرامت اور بزرگواری عطا کی ہے۔
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ(۱)
اور ہم نے یقیناً آدم کی اولاد کو عزت دی۔
۳۔ اس کرامت سے انسان کے استفادہ کا معیار خلیفۃ اللہ ہونا ہے یعنی خداوندِمتعال کا خلیفہ ہونا کرامت رکھتا ہے۔
۴۔ ہر خلیفہ کے لیے ضروری ہے کہ اس ہستی کی بات کرے جس کی طرف سے وہ خلیفہ ہے اور اپنے نظریہ کو بیان نہ کرے، اگر کوئی کرسیٔ خلافت پر بیٹھے اور اپنی بات کرے وہ غاصب ہے نہ کہ خلیفہ، خلیفۂ پیامبر ﷺ کے لیے ضروری ہے، سنت و سیرتِ پیامبر ﷺ رکھتا ہو اور دوسرے لوگوں کی سنت و سیرت کی طرف رغبت سے پرہیز کرے، رہبران الٰہی کا دوسرے لوگوںسے اختلاف اسی مسئلہ میں ہے، اگر کوئی اپنی بات کرے اور کہے میرا نظریہ یہ ہے، یہ وہی چیز ہے کہ جس کے بارے میں قرآن فرماتا ہے:
أَفَرَأَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ (۲)
بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے۔
یہ اپنی مرضی وخواہش سے بات کرتا ہے، انسان کی خواہش و مرضی کی کوئی حد نہیں ہے، جبکہ اس کا علم و آگاہی محدود ہے، اگر انسان اپنی مہار کوخواہش کے حوالے کر دے تو چونکہ اس کا علم محدود ہے، جب وہ اپنی خواہشِ نفس کے ہمراہ چل پڑتا ہے تویہ بہت بڑی مصیبت و بلا کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔

(حوالہ جات)
(۱)سورہ اسراء آیت ۷۰
۲۔ سورہ جاثیہ آیت ۲۳

Related Articles

Back to top button