مقصدخلقت
رازِ خلقت
سوال۱:انسان رازِ خلقت اور ہد فِ زندگی کے بار ے میں کیوں سوال کر تا ہے ؟ اس کا جا ننا انسان کی کو ن سی مشکل حل کر تا ہے؟
رازِ خلقت اور ہدفِ زندگی کے بارے میں تجسس کی جڑیں انسان کی فطرت کی گہرائیوں میں موجود ہیں اسی وجہ سے یہ انسان کا بنیا دی ، قدیمی اور مضبوط ترین سوال ہے، ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ سے پو چھتا ہے کہ میں کہاں سے آیا ہوں ؟ میرے آنے کا مقصد کیا تھا ؟ میں کہاں جا ؤں گا؟
کو نسا انجام میرے سامنے ہے ؟ ہما ری سعا دت و خو ش بختی کس میں ہے اور کس طرح اسے حاصل کیا جا سکتا ہے ؟
مولانا رومی ؒنے انسان کے اندر سے جنم لینے والے سوالا ت کو بہت خو بصو رتی سے نظم میں پرویا ہے:
روزہا فکر من این است وبہ شب ھا سخنم
ما ند ہ ام سخت عجب کزچہ ساخت مرا
از کجا آمدہ ام آمد نم بہر چہ بو د
مرغ با غ ملکو تم نیم از عالم خا ک
ای خو ش آں رو ز کہ پر و ا زکنم تا بر دو ست
کہ چر ا غافل از ا حوال دل خو یشتنم
پا چہ بو دہ است مر اد وی از این سا ختنم
بہ کجا می روم آخر ننمائی وطنم
چند رو زی قفسی ساختہ اند از بد نم
بہ ھوا ی سرکو یش پر و با لی بز نم(ا)
دن کو میری سو چ یہی ہے اور راتوں کو میری گفتگو کا محور یہی ہے کہ میں اپنے دل کے احوال سے کیو ں غافل ہو ں ؟ میں حیرت کے سمندر میں غوطہ ور ہو ں کہ اس نے مجھے کیوں بنا یا ہے اور میری تخلیق سے اس کی مرادکیاتھی ؟میں کہاں سے آیا ہو ں اور میرے آنے کا مقصد کیا تھا؟ اور آخرکا ر میں کہاں جا ؤں گا اورمیر ا حقیقی وطن کہا ں ہے ؟ میں توباغ ملکوت کا پرندہ ہوں میں اس خاک سے تو نہیں ہوں، کچھ دنوں کے لئے میرے بدن کو میرا پنجرہ قرار دے دیاگیا ہے، وہ کیسادن ہو گا جس دن میں اپنے حقیقی دوست کی طرف پر واز کر جاؤں گا، جس دن اس کی گلی میں پہنچنے کی آرزو لئے اپنے بال وپر آزما ؤں گا ۔
ان سوالوں کا صحیح اور در ست جو اب پانا زند گی سا ز اور اس میں نا کا می زندگی سو ز ہے،را زِ خلقت کو جاننا جہا ں انسان کی حقیقت طلبی اور جستجو گری کی حس کی ضرورت اور طلب کو پور ا کر تا ہے وہاں یہ زندگی کے مقصد کی طرف رہنما ئی اور اس کے آج اور کل کے مستقبل کے درمیا ن رابطہ بھی استو ا ر کر تا ہے۔
انسانی حیا ت اور زندگی کے ہد ف سے آگاہی، اسے مطمئن، ذمہ دار ، پُر و لو لہ، متحرک اورپر شو ق بنا دیتی ہے، جب کہ اس ہد ف سے محرو می اسے اضطر اب ، بے چینی، رنج و الم ا ورمدہو شی سے ہمکنار کر دیتی ہے اوراسے غیرذمہ دار بنا دیتی ہے۔(۲)
فرانسیسی دا نشوربی سنٹ ہیئلر علم الاخلاق کے مقدمہ میں ارسطو سے نقل کرتاہے کہ:
وہ شخص اپنے آپ سے جنگ لڑتا ہے جو نہیں جاننا چاہتا کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ اور وہ کونسا مقدس مقصد ہے جس کے حصول کے لئے اسے اپنے نفس کی تربیت کرنی چاہیے؟(۳)
استاد ہمائی کے بقول:
گیتی است’’ سنا‘‘گلشنی آرا ستہ لیکن
ما جز علف ہر زہ از این با غ نچید یم
اے سنا! یہ عالم ایک آراستہ اور خوبصورت گلشن ہے لیکن ہم نے اس باغ سے بے کار گھاس کو ہی چُنا۔
کارل یوستا ویونگ ہدفِ زندگی کو پانے اور زندگی میں دین کے کردار کے بارے میں کہتے ہیں:
میرا اپنی آخری نصف زندگی میں جتنے بیماروں سے واسطہ پڑا ان سب کی آخری مشکل زندگی کے’’مقصد‘‘کو پانے کے سواکچھ نہیں تھی،اطمینان سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ سب اسی وجہ سے بیماری محسوس کرتے تھے کہ وہ سب اس چیز سے محروم رہے جسے ہر زمانے میں زندہ ادیان اپنے پیروکاروں کے سامنے پیش کرتے ہیں اوران میں سے کوئی بھی مریض اپنی ’’دینی فکر‘‘ کو پانے سے پہلے حقیقی طور پر صحت یاب نہیں ہو سکا۔(۴)
(حوالہ جات)
(۱) شرح و نقد و تفسیر مثنوی ج۱ ، ص ۱۸۴ (۲) مزید وضاحت اور آگہی کے لئے دیکھئے: دین شناسی و ادیان و مذاہب، قم معارف، ۱۳۸۶
(۳) تفسیر و نقدو تحلیل مثنوی، ج۱، ص، ۵۸۸ ،علامہ محمد تقی جعفری
(۴) پیٹرآلسٹن ، ملٹن بیکر ، محمدلگنھاوزن، دین چشم انداز ہای نو ، ترجمہ غلام حسین توکلی ص / ۱۶۳، قم انتشا را ت دفتر تبلیغا ت اسلامی، ۱۳۸۶