نماز اور حضور قلب
سوال ۵۲:۔ہم کس طرح نماز میں حضور ِقلب حاصل کریں ؟
ہم میں سے ہر ایک اس جماعت کے حکم میں ہے جو ایک شخص کی امامت میں کام کرتی ہے، اس دنیا میں اس جماعت کا امام ہمارا باطن ہے جو یا عقل ہے یا خیال، یا وہم ہے یا عشق، بالآخر ہر کوئی اپنے امامِ جماعت کو جانتا ہے، پست خصوصیات ماتحت اعضاء وجوارح، سب اس کی امامت میں کام کرتے ہیں، یعنی اگر کوئی انشاء اللہ سالم و سالک انسان ہو تو اس کی تمام اندرونی و بیرونی قوتیں اس کی عقل کی امامت میں کام کرتی ہیں۔
عاقل انسان اپنی اندرونی قوتوں، بیرونی رفتار و کردار اور تحریر کی عاقلانہ تنظیم و تدبیر کرتا ہے، ہم اگر دیکھنا چاہیں کہ ہمارے اندر امامِ جماعت عقل ہے یا خواہش نفسانی تو اپنے اعمال اور رفتارواقوال سے سمجھنا چاہیے، یعنی انسان کی گفتار، رفتار، تحریر، طرز عملِ انسانی اس امام کے گواہ ہیں جو اس کے باطنی محراب میں مقرر کیا گیا ہے، ہم کہاں سے سمجھیں کہ فلاں شخص اچھا آدمی ہے؟ ہم دیکھیں گے کہ اچھی باتیں کرتا ہے، اچھے عمل کرتا ہے، اس کی باتیں اس کے اعمال کے مطابق ہیں، کسی کی برائی نہیں چاہتا اور اس کا ظاہرو باطن ایک ہے، ہم اس کے تمام اعمال کی جمع بندی کریں گے اور پھر کہیں گے کہ یہ سب اس بات کی علامات ہیں کہ اس کے اندر نور موجود ہے، لیکن اگر کوئی بدکار ہو، جھوٹا ہو، مکار ہو یا رشوت لے اوردھوکہ کرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے اندرایک خائن، امام ہو گیا ہے، پس اگر اعضاء و جوارح سالم ہوں تو یہ اس امام کے ماموم ہیں، جو قبلہ رو نماز پڑھتا ہے اور اگر اعضاء و جوارح فساد سے آلودہ ہوں تو یہ ایسے امام کے ماموم ہیں جو قبلہ کو پشت کر کے نماز پڑھتا ہے۔
بہرحال بعض لوگ مختالانہ زندگی بسر کرتے ہیں نہ کہ عاقلانہ، قرآن میں آیا ہے:
إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُو (ا)
بتحقیق خدا کسی اکھڑنے والے اور اترانے والے کو دوست نہیں رکھتا۔
مختال،متخیل یعنی جو شخص خیالی زندگی بسر کرتا ہے جو شخص خیال کے ساتھ زندگی گزارے نہ کہ عقل کے ساتھ، وہ محبوب خدا نہیں، یہ اعتباری وجلد ختم ہونے والی اقدار و مناصب ہیں یہ’ میں‘ اور’’ہم‘‘ یہ سب خیالبافی ہیں، اگر خدا نہ کرے کوئی اس قسم کے مسائل میں مبتلا ہو اور خود کو غیر اللہ کے ساتھ مشغول کرے وہ مختال ہے، مختال آدمی وہ ہے جو عاقلانہ زندگی بسر نہیں کرتا اور عاقلانہ نماز نہیں رکھتا، عاقلانہ نماز کو وہ انجام دیتا ہے جو باہر سے اپنی قوتوں کو پاک کرتا ہے، ناجائز باتیں، تقاریر و گفتگوباعث بنتی ہیں کہ ہم عاقلانہ زندگی اور نتیجہ کے طور پر عاقلانہ نماز سے محروم ہوجائیں۔
اگر انسان کوشش کرے اور پوری زندگی اپنے اعضاء و جوارح،ا فکار کی مراقبت کرے کہ ان سے کوئی گناہ انجام نہ پائے، قطعی طور پر زیادہ حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھے گا کیونکہ نماز کے چند منٹوں میں حضور قلب پوری زندگی میں خدا کے سامنے حضورِ قلب کا خلاصہ ہے، جو شخص ہر لحظہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے دیکھتا ہے، آسانی سے کامل حضورِ قلب کے ساتھ نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے، لیکن وہ شخص جو پورا دن رات خدا کے علاوہ ہر چیز کی فکر میں ہوتا ہے، قطعی طور پر نماز میں حضور قلب پیدا نہیں کر سکتا۔
(حوالہ )
(۱)سورہ لقمان آیت ۱۸