اسلامی حکومتکتب اسلامی

اسلامی حکومت میں خدا اور عوام کا مقام

سوال۳۳:اسلامی حکومت میں اللہ تعالیٰ کی رضایت اور دینداروں کی مرضی کی کیا حیثیت ہے اور ان میں سے کس کی مرضی اور رضایت کو ترجیح دی جائے گی ؟
۱۔خدا محوری حکومت
بنیادی طور پر اسلامی حکومت کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے، اس کا محور اللہ تعالیٰ ہے،اس لحاظ سے حق تعالیٰ کا ارادہ ، رضا اور مرضی اسلامی حکومت کا بنیادی ترین رکن ہے،البتہ اس نکتے کو بھی ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی سعادت اور خوش بختی چاہتا ہے اور اس کی خواہش بالکل انسان کی اصلاح اور فلاح کے مساوی ہے ۔
۲۔عوام کی پسند اورمرضی
اسلامی نظام میں عوام کی خواہش اور مرضی کی یقینا بہت بڑی اہمیت ہے لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ عوام کی خواہش اور مرضی اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع ہونی چاہیے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے نمبر پر اللہ تعالیٰ نے حکمرانوں سے چاہا ہے کہ وہ لوگوں کو راضی کرنے اور ان کے مفادات کو حاصل کرنے میں اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لائیں،اس بارے میں وہ ان سے باز پرس کرے گا اور وہ اس کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔امیر المومنینؑ اپنے عہد نامے میں مالک اشتر کو لکھتے ہیں :
اپنے باطن کو لوگوں سے مہربانی ، دوستی اور محبت سے مالامال کرو ، ان پر درندہ بن کر نہ رہنا جو انہیں چیرنے پھاڑنے کو غنیمت سمجھتا ہے کیونکہ توان پر حاکم ہے اور جو تم پر حاکم ہے وہ تجھ سے مافوق ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے اوپر ہے ، اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے امور کو چلانا تیرے ہاتھ میں دیا ہے اور تجھے اس کا ڈھنگ سکھایا ہے ، خبر دار اپنے آپ کو خدا سے جنگ میں نہ ڈال دینا ، اس کی سزا کا تو متحمل نہیں ہو سکتا ۔ (۱)
یہاں پر لوگوں پر ظلم و ستم کو اللہ تعالیٰ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کی پسند اور مرضی اس وقت تک قابل اہمیت ہے جب وہ خداوند متعال کی مرضی ، ارادے اور قانون کے خلاف نہ ہو ۔
چنانچہ امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں :
لا طا عۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق (۲)
خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاسکتی ۔
اسلامی حکومت میں عوام کی پسند اور مرضی کی اہمیت کے حوالے سے مندرجہ ذیل امور کو ملاحظہ کرنا مفید ہے :۔
۱۔اسلامی نظام حقیقت میں عوام کی خواہش اور مرضی کی بنیاد پر ہی وجود میں آجاتاہیے ان پر مسلط نہیں کیاجاتا،دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ حکومت ِاسلامی کا تعلق اسلامی معاشرے سے ہے اور اسلامی معاشرہ اسلامی حکومت کے علاوہ کسی اور کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
۲۔ان مواردمیں جہا ں شارع نے کسی موضوع کے متعلق خاص حکم نہیں دیا اور حکومت کو اس کے راہ حل کے لیے مکمل اختیار دیا ہو تو عوام کی خواہش کا احترام کرنا(اس طرح ہے کہ ان کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے)لازمی اور ضروری ہے ، لیکن اگر ان کی خواہشات اور مرضی اسلام کے مسلم اور واضح احکامات کے خلاف ہو تو پھر کوئی اہمیت نہیں ہے ۔
اس بناء پر اسلامی نظام نہ تو ان آمر اور استبدادی حکومتوں کی طرح ہے جو عوام کی رائے اور خواہشات کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتیں اور نہ ہی ظاہری عوامی حکومتوں کی طرح ہے جو عوام کے آراء اور خواہشات کی بلاچون وچراپیروی کرنے کادعویٰ کرتی ہیں،(اگرچہ کبھی بھی اس دعویٰ پرعمل نہیں ہوا)اسلامی حکومت ایک تیسرا راستہ ہے جس میں عوامی رائے اور خواہشات کی اہمیت اوراحترام،احکام اور ارادئہ الٰہی کے سائے میں ہے(جو انسان کی دنیاوی اور اخروی سعادتوں کی ضمانت دیتا ہے)۔

(حوالہ جات)
(۱) نہج البلاغہ ، مکتوب ۵۳ (۲) بحار الانوار ، ج ۱ ، ص ۲۲۷ ، نہج البلاغہ ، حکمت ، ۱۶۵

Related Articles

Back to top button