طمع اور لالچ
(۱)’’ وقال النبيﷺ:
والحريص بين سبع آفات صعبة: فكر يضر بدنه ولا ينفعه، وهم لا يتم له اقصاه، وتعب لا يستريح منه إلا عند الموت، (ويكون عند الراحة أشد تعبا) ، وخوف لا يورثه إلا الوقوع فيه، وحزن قد كدر عليه عيشه بلا فائدة، وحساب لا يخلصه من عذاب (الله إلا أن يعفو الله عنه)، وعقاب لا مفر له منه ولا حيلة‘‘
پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا:
حریص ہمیشہ سات آفتوں میں گھر را رہتا ہے:
(۱) مسلسل بے فائدہ فکر جو اس کی صحت کے لیے مضر ہے۔
(۲) مسلسل کوشش جس کی انتہا نہیں ہے۔
(۳)رنج و تھکاوٹ کہ مرنے سے پہلے جس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے اور راحت کے وقت بھی اسے رنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
(۴)بے جا خوف کہ نعمت و دولت کب چھن جائے۔
(۵)غم جو اس کی زندگی کو مکدرکئے رہتا ہے۔
(۶)سخت حساب جس سے اللہ کی مہربانی اور بخشش کے سوا رہائی پانا ممکن نہیں ہے۔
(۷)وہ عذاب جس سے اسے کے لیے کوئی راہ فرار اور حیلہ نہیں ہے۔
(۲)’’قال أبوجعفر عليه السلام:
مَثَلُ الْحَرِيصِ عَلَى الدُّنْيَا مَثَلُ دُودَةِ الْقَزِّ كُلَّمَا ازْدَادَتْ مِنَ الْقَزِّ عَلَى نَفْسِهَا لَفّاً كَانَ أَبْعَدَ لَهَا مِنَ الْخُرُوجِ حَتَّى تَمُوتَ غَمّاً‘‘
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
دنیا کے حریص کی مثال ریشم کے کیڑے جیسے ہے کہ وہ جتنا زیادہ ریشم میں لپٹتا ہے اتنا ہی اس کے بچ نکلنے کا راستہ بند ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی جان ہار جاتا ہے۔
(۳)’’عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ:
مِنْ صِحَّةِ يَقِينِ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ أَنْ لَا يُرْضِيَ النَّاسَ بِسَخَطِ اللَّهِ وَ لَا يَلُومَهُمْ عَلَى مَا لَمْ يُؤْتِهِ اللَّهُ فَإِنَّ الرِّزْقَ لَا يَسُوقُهُ حِرْصُ حَرِيصٍ وَ لَا يَرُدُّهُ كَرَاهِيَةُ كَارِهٍ وَ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ فَرَّ مِنْ رِزْقِهِ كَمَا يَفِرُّ مِنَ الْمَوْتِ لَأَدْرَكَهُ رِزْقُهُ كَمَا يُدْرِكُهُ الْمَوْتُ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ بِعَدْلِهِ وَ قِسْطِهِ جَعَلَ الرَّوْحَ وَ الرَّاحَةَ فِي الْيَقِينِ وَ الرِّضَا وَ جَعَلَ الْهَمَّ وَ الْحَزَنَ فِي الشَّكِّ وَ السَّخَطِ‘‘
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:
مرد مسلم کے یقین کی علامت یہ ہے کہ اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی کرے اور اللہ نے جو اسے عطا نہیں کیا اس پر لوگوں کو ملامت نہ کرے کیونکہ حریص کی حرص،رزق کے لانے کا سبب نہیں بنتی اور نہ لوگوں کی ناراضگی،رزق کو دور کرسکتی ہے،اگر تم میں سے کوئی شخص رزق اور موت سے بھاگنا چاہے تو اسے رزق مل کر رہے گا اور موت آکر رہے گی، پھر فرمایا:اللہ نے اپنے عدل و انصاف سے راحت کو یقین اور رضا میں قرار دیا اور غم کو شک اور اپنی نارضگی میں رکھا۔
(۴)’’ قال الصادق (عليه السلام):
” لا تحرص على شئ لو تركته لوصل إليك، وكنت عند الله مستريحا محمودا بتركه، ومذموما باستعجالك في طلبه، وترك التوكل عليه، والرضى بالقسم، فان الدنيا خلقها الله بمنزلة ظلك، إن طلبته اتعبك ولا تلحقه ابدا، وان تركته تبعك وانت مستريح‘‘
امام جعفرصادقؑ نے فرمایا:
ایسی چیز کی طمع نہ کرو جسے تم چھوڑ دو تو تمہیں مل جائے اور جسے چھوڑ کر تمہیں راحت نصیب ہو اور جس کے چھوڑنے سے تم اللہ کے نزدیک لائق تعریف قرار پائو اور جس کی طلب میں جلدبازی کی وجہ سے اللہ کے نزدیک تم قابل مذمت ٹھہرو اور توکل کو ترک کرنے اور اللہ کی تقسیم پر راضی نہ ہونے کی وجہ سے لائق مذمت بنو،جان لو کہ اللہ نے دنیا کو تمہارے سائے کی طر ح قرار دیا ہے،اگر تم اپنے سائے کے پیچھے بھاگو گے تو تھک جائو گے اور اسے کبھی نہ پکڑ سکو گے اور اگر تم اس سے منہ موڑ لو گے تو وہ تمہارے پیچھے آئے اور تمہیں راحت نصیب ہوگی۔
(حوالہ جات)
(مستدرک الوسائل ج۱۲،ص۶۰)
(وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۲۰۲)
(مستدرک الوسائل ج۱۲،ص۶۰)