بر َامکہ کی آخری نشانی
محمد بن زید مشقی کہتا ہے کہ ایک رات فضل برمکی نے مجھے اپنے دربار میں بلایا، جب میں وہاں پہنچا تو محفل سجی ہوئی تھی۔
فضل برمکی نے کہا: خدا نے مجھے بیٹا عطا کیا ہے،بہت سے شاعروں نے تہنیتی اشعار کہے ہیں مگر مجھے ابھی تک ان کا ایک شعر بھی پسند نہیں آیا،تجھے اس لیے بلایا ہے کہ تو اس وقت ہمیں کوئی اچھا سا شعر سنادے۔
میں نے کہا:اس وقت طبیعت مائل نہیں،کسی اور وقت سنائوں گا مگر وہ نہ مانا۔
جب اس کا اصرار بڑھا تو میں نے فی البدیہ ایک نظم سنائی جس کا ایک مصرعہ یہ تھا۔
و یفرح بالمولود من آل برمک
ولا سیما ان کان من ولد الفضل
آل برمک میں بچے کی پیدائش پر ہم سب خوش ہیں خصوصاً جب وہ فضل کا بیٹا ہو تو ہماری خوشی دو چند ہوجاتی ہے۔
فضل نے اس شعر پر خوش ہو کر مجھے دس ہزار دینار انعام دیا جس سے میری مالی حالت کو بہت سہارا ملا،میں نے اس رقم سے تجارت شروع کی اور چند سالوں میں میری دولت لاکھوں تک پہنچ گئی۔
میں اکثر اس واقعے کو یاد کرتا رہتا تھا اور کبھی کبھی تنہائی میں وہ شعر بھی گنگناتا تھا۔
زمانے نے کروٹ لی تو پورا منظر بدل گیا،برامکہ پر ہارون کا عتاب نازل ہوا اور اس نے اس خاندان کے تمام مردوں کو مروا دیا، میں زمانے کی نیرنگی پر بہت رویا ،برامکہ کے سقوط کو کئی سال گز رگئے تھے کہ ایک دفعہ میں نہانے کے لیے ایک حمام میں گیا، حمام والے سے میں نے درخواست کی کہ میری مالش کے لیے کسی آدمی کو بھیجے۔
ایک خوبصورت لڑکا میری مالش کے لئے آیا،اس نے میری مالش شروع کی، اچانک مجھے گزرا ہوا زمانہ یاد آگیا اور میں نے وہی شعر گنگنانا شروع کیا جو میں نے فضل برمکی کے بیٹے کی پیدائش پر کہا تھا۔
مالش کرنے والے لڑکے کو خدا جانے کیا ہوا کہ وہ اچانک بیہوش ہوگیا،میں نے حمامی سے شکایت کی کہ تم نے کیسا بیمار لڑکا ملازم رکھا ہے جو مالش کرتے ہوئے بیہوش ہوجاتا ہے۔
حمامی نے کہا:یہ لڑکا چند ماہ سے ہمارے حمام میں کام کر رہا ہے آج تک یہ کبھی بیہوش نہیں ہوا۔
کچھ دیر بعد لڑکے کو ہوش آیا تو میں نے اس سے پوچھا:تو ایک دم بیہوش کیسے ہوگیا تھا۔
لڑکے نے کہا: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ شعر کس کا ہے اور کس کے لئے کہا گیا ہے؟
میں نے کہا:ہاں!یہ شعرمیرا ہے،میں نے فضل برمکی کے بیٹے کی ولادت کے جشن تہنیت کے موقع پر کہا تھا۔
لڑکے نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ فضل کا بیٹا اس وقت کہاں ہے؟
میں نے کہا: نہیں مجھے معلوم نہیں۔
لڑکے نے کہا: وہ بد نصیب میں ہوں جس کی پیدائش پر تم نے یہ شعر کہا تھا،پھر اس نے اپنی آپ بیتی کہہ سنائی،میںنے دل میں کہا کہ خدا کے کام نرالے ہوتے ہیں۔
پھر میں نے اس سے کہا: بیٹا! تمہارے باپ کی دی ہوئی رقم سے اللہ نے مجھے دولتمند بنایا ہے،میرا کوئی بیٹا نہیں لہٰذا تم میرے ساتھ چلو،میری ساری دولت تمہارے لیے حاضر ہے۔
لڑکے نے کہا: نہیں!میرے باپ نے آپ کو اگر انعام دیا تھا تو میں اسے واپس نہیں لینا چاہتا،اگر آج میرے پاس کچھ ہوتا تو میں بھی تمہیں ضرور دیتا اور میں ویسے بھی گمنامی کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں،مجھے اندیشہ ہے اگر میں منظر عام پر آگیا تو مجھے بھی قتل کردیا جائے گا،اس دن کے بعد وہ لڑکا مجھے اس حمام میں دوبارہ نظر نہ آیا۔