حکایات و روایاتکتب اسلامی

حسد کا انجام

مشہور عباسی خلیفہ معتصم کی ایک دیہاتی سے دوستی ہوگئی،ان کی دوستی اتنی گہری ہوئی کہ وہ دیہاتی بلا اجازت اس سے جب چاہے مل سکتا تھا،اس دیہاتی کا تکیہ کلام تھا کہ خدایا:نیک کو جزا اور برے کو سزا دے۔
معتصم کا ایک وزیر نہایت تنگ نظر اور حاسد تھا،معتصم سے دیہاتی کی دوستی اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی،وہ سوچنے لگا کہ اگر اس دیہاتی کا اثر رسوخ بڑھ گیا تو ممکن ہے کہ خلیفہ مجھے معزول کر کے میری جگہ اس دیہاتی کو اپنا وزیر بنالے۔
وزیر دیاہتی کو خلیفہ کی نظروں سے کرانے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا،چنانچہ اس نے دیہاتی سے دوستی کرلی اور اسے اپنے گھر کھانے کی دعوت پر بلایا۔
دیہاتی اس کے گھر گیا اور کھانا کھایا،سالن میں لہسن زیادہ ڈالاگیا تھا،جبدیہاتی کھانے سے فارغ ہوا تو وزیر نے اس سے پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے۔
دیہاتی نے کہا:میں خلیفہ کے پاس جائوں گا۔
وزیر نے کہا:تم نے جو سالن کھایا ہے اس میں لہسن زیادہ تھی اور بادشاہ کو لہسن کی بو سے نفرت ہے لہٰذا جب تم دربار میں جائو تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا۔
اس کے بعد وہ وزیر دیہاتی سے پہلے خلیفہ کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ نے اس دیہاتی کو خواہ مخواہ سر پر بٹھا رکھا ہے جبکہ وہ لوگوں میں کہتا پھر رہا ہے کہ خلیفہ کے منہ سے ہر وقت بدبو آتی ہے اور میں اس بدبو سے بہت تنگ ہوتا ہوں،کچھ دیر بعد دیہاتی معتصم کے دربار میں داخل ہوا اور خلیفہ کے نزدیک ایک کرسی پر بیٹھ گیا مگر آج اس نے خلاف معمول منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا،خلیفہ کو یہ دیکھ کر وزیر کی بات کا یقین ہوگیا۔
خلیفہ نے ایک رقعہ لکھ کر لفافہ میں رکھا اور اس پر اپنی مہر لگائی پھر اسے اپنے دیہاتی دوست کو دے کر کہا:تم یہ رقعہ لے کر فلاں شخص کے پاس چلے جائو۔
دیہاتی وہ رقعہ لے کر جار ہاتھا کہ راستے میں اسی وزیر سےملاقات ہوئی،وزیر نے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو؟
اس نے بتایا کہ خلیفہ کا رقعہ لے کر فلاں سرکاری اہلکار کے پاس جارہا ہوں،وزیر سمجا کہ ہو نہ ہو اس رقعہ میں خلیفہ نے اس کے لیے انعام کی سفارش کی ہے،یہ سوچ کر وزیر نےکہا: تم یہ رقعہ مجھے دے دو میں اسے پہنچا آتا ہوں۔
دیہاتی نے جتنا انکارکیا، وزیر نے اتنا اصرار کیا،آخر کار وزیر نے دو ہزار دینار کے عوض اس سے رقعہ حاصل کرلیا۔
دیہاتی رقم لے کر اپنے گھر چلا گیا اور وزیر نے وہ رقعہ متعلقہ شخص کو پہنچادیا،اس میں لکھا تھا کہ اس بے ادب کا سر قلم کر دیا جائے۔
چنانچہ حکم کی تعمیل ہوئی اور خلیفہ کے آدمی نے وزیر کا سر قلم کر دیا،خلیفہ کو وزیر چند روز تک جب دکھائی نہ دیا تو اس نے پوچھا کہ ہمارا وزیر کہاں ہے؟
درباریوں نے بتایا:آپ نے خود رقعہ لکھ کر اسے دیا تھا اور وہ قتل ہوگیا ہے۔

خلیفہ نے کہا: اس دیہاتی کا تمہیں کوئی پتا ہے؟تو انہوںنے بتایا :جی ہاں وہ شہر آیا ہوا ہے،خلیفہ نے کہا:اسے میرے سامنے پیش کیا جائے۔
تھوڑی دیر بعد دیہاتی خلیفہ کے سامنے کھڑا تھا،خلیفہ نے اس سے واقعہ کی تفصیل پوچھی تو اس نے سارا قصہ کہہ سنایا،پورا واقعہ سن کر معتصم نے کہا:’’قتل اللہ الحسد بداء بصاحبہ‘‘خدا حسد کو برباد کرے،اس نے حاسد سے ہی بربادی کی ابتداکی۔
اسی لیے یہ جملہ ایک ضرب المثل بن گیا ہے کہ جو دوسرے کے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرجاتا ہے۔

(حوالہ)

(ثمرۃ الاوراق ابن حجۃ حموی)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button