خدا پر توکل
توکل کے لیے اسباب کی ضرورت ہے،اسباب فراہم کئے بغیر توکل کا کوئی مطلب نہیں ہوتا جیسا کہ مندرجہ ذیل روایتوں سے ظاہر ہے:
ایک مرتبہ حضرت موسیٰؑ بیمار ہوئے تو بنی اسرائیل ان کی عیادت کے لیے آئے اور ان سے کہا:یا نبی اللہ!آپ فلاں جڑی بوٹی استعمال کریں تو آپ تندرست ہوجائیں گے۔
حضرت موسیٰؑ نے کہا:’’لااتداوی حتی یعافینی الله من غیر دواء‘‘کوئی دوا استعمال نہیں کروں گا،خدا مجھے دوا کے بغیر ہی اچھا کردے گا۔
آپؑ کافی مدت بیمار رہے،پھر خدا نے آپؑ کو وحی فرمائی:مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم!اے موسیٰ ؑجب تک تم اس جڑی بوٹی سے اپنا علاج نہیں کروگے اس وقت تک میں تمہیں شفا نہیں دوں گا،حضرت موسیٰؑ نے بنی اسرائیل کے ان لوگوں کو بلایا اور کہا کہ جو دوا تم نے تجویز کی تھی وہ مجھے لادو،آپ ؑنے وہ دوا کھائی اور چند دنوں میں ہی صحت یاب ہوگے۔
حضرت موسیٰؑ کے دل میں کئی دنوں تک یہ خلش رہی کہ خدا اگر دوا کے بغیر مجھے شفا بخش دتیا تو اس میں کیا برائی تھی؟جب آپؑ کوہ طور پر گئے تو خدا نے فرمایا:’’اردت ان تبطل حکمتی بتوکلک علی فمن اودع العقاقیر منافع الاشیاء‘‘ اے موسیٰؑ! تم مجھ پر توکل کر کے میری حکمت کو بیکار کرنا چاہتے ہو،ذرا سوچو ان جڑی بوٹیوں میں یہ اثر کس نے رکھا ہے کہ وہ بیمار کو اچھا کردیں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک عابد عبادت کے لئے آبادی کو چھوڑ کر پہاڑوں میں چلا گیا اور دل میں عہد کیا کہ میں رزق و روزی کے لیے کوئی کوشش نہیں کروں گا، خدا غیب سے مجھے رزق عطا فرمائے گا۔
ایک دن گزرا،کہیں سے عابد کے پاس کھانا نہ آیا،دو دن گزرے،کہیں سے کچھ نہ آیا،اس طرح پورے سات دن گزر گئے اور کہیں سے کچھ بھی نہ آیا،عابد بھوک کی وجہ سے نڈھال ہوگیا اور خدا سے کہنے لگا:خدایا! تو نے میرا جو رزق لکھا ہے مجھے یہیں عطا فرما ورنہ مجھے موت دیدے،غیب سے آواز آئی :’’وعزتي وجلالي لا أرزقك حتى تدخل الامصار وتقعد بين الناس‘‘مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم!اس طرح میں تجھے رزق نہیں دوں گا جب تک تو شہر میں جا کر کام نہ کرے اور لوگوں میں نہ اٹھے بیٹھے۔
تو میری حکمت کو ضائع نہ کر،میں بندوں کے ذریعے بندوں کو رزق پہنچاتا ہوں، براہ راست رزق دینا میری حکمت کے خلاف ہے۔
(حوالہ)
(جامع السعادات ج۳،ص۲۲۷)