ہدایت و گمراہی
سوال ۱۱ : ۔ آیتِ شریفہ یُضِلُّ مَنْ یَشَائْ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَائُ سے مقصود کیا ہے؟ کیونکہ ظاہر آیت سے پتہ چلتا ہے کہ خداوندِمتعال جس کو چاہے ہدایت کرتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے ؟
ہدایتِ الٰہی کی دو قسمیں ہیں :
۱ ۔ ہدایتِ ابتدائی ۲ ۔ ہدایتِ جزائی
ہدایتِ ابتدائی وہ سرمایہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے عقل و فطرت اور وحیٔ نبوت کے ذریعے انسان کو عطا کیا ہے، اس بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے سب کی اندرونی و بیرونی سرمایہ کے ذریعے راہ راست کی طرف ہدایت کی ہے، جن لوگوں نے اس ہدایت کو غنیمت سمجھا، انہوں نے اس کی پیروی کی اور کچھ قدم آگے بڑھے تو ہدایتِ جزائی خداوندِمتعال کے مستحق ٹھہرے، معارفِ الٰہی اور فضائل کی طرف جھکائو، تمایل کو ظاہر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اچھے انسان بنیں جب مجلس ِ خیر و شر ہو توان کا جھکائو خیر کی طرف ہوتا ہے ۔
اضلال یا گمراہی ابتدائی صفاتِ سلبیہ میں سے ہے جو ذات مقدس الٰہی میں موجود نہیں، خدا نے ہر گز کسی کو گمراہ نہیں کیا اور نہ کرتا ہے، وہ خداجس نے باطن سے عقل و فطرت اور ظاہر سے اپنی عزیز ترین مخلوق یعنی انبیاء و علی ؑ اور اولاد علیؑ کو ہماری ہدایت کے لیے بھیجا، وہ ہر گز کسی کو گمراہ نہیں کر سکتا، اگر کوئی ان تمام رہنمائیوں کے باوجود غلط راہ پر چلتا ہے تو خداوندِمتعال نے اس کے لیے راہِ توبہ کو کھلا رکھا ہے، اگر انسان راہ توبہ کے کھلا ہونے کے باوجود غلط راستے پر چلتا رہے تو اس کے بعد خداوندِمتعال اس کو اضلال کرتا ہے ۔
کیا اس کا معنی یہ ہے کہ خداوندِمتعال اسے ضلالت نامی کوئی چیز عطا کرتا ہے؟ نہیں کیونکہ ضلالت امرِ عدمی ہے، پس گمراہ کرتا ہے یعنی اس سے اپنے لطف کو واپس لے لیتا ہے اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے، اس وقت یہ شخص ہوتا ہے اور (اس کی ) شہوت و غصہ یہ دونوں اسے جس طرف کھینچتی ہیں، اسی طرف چل پڑتا ہے اور آسانی سے گناہ کی طرف حرکت کرتا ہے۔
اس بناپر ہدایت ابتدائی بالکل مقابل نہیں رکھتی یعنی خداوندِ متعال بغیر استثناء کے سب کو ہدایت کرتا ہے اور اس آیت
( یُضِلُّ مَن یَشَاء ُ وَیَہْدِیْ مَن یَشَائُ)(۱)
وہ جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑدیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔
سے مقصود ہدایت ثانوی اور ضلالتِ جزائی ہےجبکہ ہدایتِ ثانوی مقابل رکھتی ہے، پس ہدایتِ ابتدائی وہ سرمایہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بغیراستثناء کے سب کو عطا کیا ہے وہ لوگ جو اس ہدایت سے استفادہ کرتے ہیں وہ اجر کے طور پر خاص فیض دریافت کرتے ہیں جو کہ ہدایتِ جزائی ہے، یہ جو فرمایا :
وَمَن یُؤْمِن بِاللَّہِ یَہْدِ قَلْبَہُ (۲)
جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے تو خدا اس کے قلب کی ہدایت کرتا ہے۔
وَإِن تُطِیْعُوہُ تَہْتَدُوا (۳)
اور اگر تم اس (رسولؐ) کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پائو گے۔
زَادَہُمْ ہُدًی وَآتَاہُمْ تَقْواہُم (۴)
ان کو خدا (قرآن کے ذریعہ سے )مزید ہدایت کرتا ہے اور اس کو پرہیزگاری عطا فرماتا ہے۔
یہ لوگ الٰہی جزاء و انعام سے برخوردار ہوتے ہیں اور آسانی سے کام انجام دیتے ہیں، اگر پہلے اس کے لیے روزہ رکھنا یا نماز پڑھنا سخت تھا تو اب وہ یہ کام آسانی سے انجام دیتا ہے
تمام اضلال جزائی و کیفر کے طور پرہے یعنی خداوندِمتعال ان لوگوں کو جو ابتدائی ہدایت تکوینی کی پیروی نہیں کرتے، انہیں وہ خاص اجزاء نہیں دیتا اور انہیں خود ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، اس حالت میں وہ ہوتا ہے اور اس کا شہوت و غصہ، اس کا علم محسوسات میں محدود
ہو جاتا ہے اور عمل شہوت میں، البتہ لطفِ الٰہی سے یہ اضلال بھی بندہ کے ذریعے قابلِ ازالہ ہے، جب بھی یا اللہ کہے گا اور واپس پلٹے گا، اس اضلال سے نجات حاصل کرے گا اور خود کو گروہ مومنین میںجو ہدایتِ جزاتی و ثانوی رکھتے ہیں، پائے گا۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا(۵)
اگر تم نے(شرارت) دہرائی تو ہم بھی(اسی روش کو) دہرائیں گے۔
إِن تَعُودُواْ نَعُدْ(۶)
اگر تم نے (اس جرم کا) اعادہ کیا تو ہم بھی (اس سزا کا) اعادہ کریں گے۔
(حوالہ جات)
(۱) سور ہ نحل آیت ۹۳
(۲)۔ سورہ تغابن آیت۱۱
(۳)۔ سورہ نور آیت ۵۴
(۴)۔ سورہ محمدؐ آیت ۱۷
(۵) سور ہ اسراء آیت ۸
(۶) سورہ انفال آیت ۱۹