مجبور زندگی
سوال۱۰:کیا میں یہ کہہ سکتا ہوں کیونکہ میں زندگی پر راضی و خوش نہیں اورمجبوراً زندہ ہوں اگر گناہ کروں تو اس کا ذمہ دار وہی ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے؟ اگرخد ا مجھے پیدا نہ کرتا تو میں گنا ہ نہ کرتا اور آخر ت کاعذاب سہنے پرمجبور نہ ہوتا؟
اگر انسان اپنے حقیقی مقا م اور منز لت سے آگاہ ہو جا ئے تو کبھی اسے شکا یت نہ ہو گی اور وہ اپنے خالق سے نا را ضگی محسو س نہیں کرے گا،ا س بارے میں چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے۔
اول: انسان عالمِ ہست وبودکا حسین پھول ،آفرینش کا اصل جوہراورتا ج اوراشرف مخلو قا ت ہے ،حقیقت میں پوری کائنات کو اس کے لئے خلق کیا گیا ہے۔
تاج کر منا است بر فر ق سرت
جو ہر است انسان و چر غ او را عرض
ای غلامت عقل و تد بیر ا ست و ہوش
طوق اعطینا ک آویز بر ت
جملہ فر ع وپا یہ اند و او غرض
چوں چنینی خو یش ارزاں مفر وش(ا)
(اے انسان )تیرے سرپرولقدکرمنا بنی آدم کا تا ج رکھا ہو ا ہے ،انسان کائنا ت کا جوہرہے اور گردش ایام اور تما م دنیا عر ض ہے، (اے انسان)عقل تدبر اور ہو ش تیرے غلام اور خدمت گارہیں، تیرے جسم پر ’’اعطینا ک ‘‘کا ہا ر اور لبا س موجو د ہے ،کا ئنا ت اور اسمیں موجو دتما م چیزیں فروع میں سے ہیں اور اصل ہدف انسان ہے، جب تو بلند مرتبہ ہے تو اپنے آپ کو سستا نہ بیچ۔
دوم: اس حقیقت سے غفلت بھی نہیں برتنی چاہیے کہ باطنی نورکی خصو صیات انسان کی فطرت سے ہی جلوہ فگن اور نمایاں ہو تی ہیںاوراگراس منبع الٰہی کے ما خذاورمصدربھی یعنی فطرت کوزندہ دفن نہ کردیاجا ئے اورنفسانی خو اہشا ت وکثا فتوں کا غبا ر اسے ڈھانپ نہ لے تو ہمیشہ تابندہ اورروشن رہے گی،لیکن اگرفطرت گناہ کی ظلمت اور تاریکی کے پیچھے چھپ جائے توگناہگارانسان اپنی حقیقت کو نہیں دیکھ پاتا،اورچو نکہ گناہگارنورسے محروم ہو تاہے اس لئے خودکو کھودیتاہے اورکچھ عرصے بعدخودکومکمل طورفراموش کر دیتا ہے، صرف علم اور محبت کے ذریعے سے ہی فطرت انسانی تا بند ہ و رو شن رہتی ہے کیو نکہ علم فا عل آدمی کے مبد اء یعنی خدا کو انسان کے لئے ظاہر کرتا ہے جب کہ محبت انسا ن کو اس کی واحد اصل مبد ا ء یعنی خداوندمتعال تک پہنچاتی ہے۔
العلم ید ل علیہ والوجد ید ل لہ(۲)
انسانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی معرفت کی کو شش کریں تاکہ خودکو سستا فر وخت نہ کریں اور اس کا ئنا ت میں اپنے وجو د اور خلقت سے نارا ض نہ ہوں،بلکہ اس عالم میں اپنی حا ضری کے ذریعے ما دی اور معنو ی لذتوں سے حتی الامکا ن استفا دہ کریں (عالم آخرت میں) سعادت اورا بدی نعمتوں اور آسا ئشا ت کا حصو ل یقینی بنائیں۔
خویشتن نشا خت مسکین آدمی
خویشتن را آدمی ار زا ن فر وخت
از فزو نی آمدو رشد در کمی
بو دا اطلس خو یش بر د لقی بد وخت(۳)
اس مسکین انسان نے اپنے آپ کو نہ پہچا نا، انسا ن نے اپنے آپ کو بے حد سستا فروخت کر دیا وہ غنا سے غربت اور اما رت سے فقر کی طرف آیااور اس نے تنزل اختیا ر کر لی ،یہ انسان ریشم تھا جس نے اپنے آپ کو کھدرا ور فقیر انہ لبا س میں محبو س کر لیا ہے۔
امید کی اہمیت
خدا وند کریم اپنی رحمت سے نا امید ی کو بہت بڑا گنا ہ قرار دیتا ہے اور پیا مبر اکرم ؐ کو مخا طب کر تے ہو ئے فر ما تا ہے:
قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُالذُّنُوبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ (۴)
اے پیا مبر ؐ آپ پیغا م پہنچا دیجئے کہ میرے بند ے جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت ِ خدا سے ما یو س نہ ہو نا اللہ تما م گنا ہو ں کا معاف کر نے والا ہے اور یقینا بہت زیا دہ بخشنے والا مہربا ن ہے ۔
فضل حق با ینکہ اوکثر می تند
سبق بر دہ رحمتش وآں عذر را
آب بھر این با ر ید از سما ٹ
عا قبت زین جملہ پا کشی می کند
دادہ نو ری کہ نبا شد بدررا
تا پلیدان راکند از خپث پا ک(۵)
اگرچہ انسان الٹی چالیں چلتا ہے اور بری حرکتیں کرتا ہے ،اللہ کی رحمت ہمیشہ مقدم ہوتی ہے،اور انسان کی دھو کے بازیوں اورغلط کاریوں کو صاف کرتے ہوئے اسے وہ نورا نیت عطاکرتی ہے جو چاند کو بھی حاصل نہیں ہوئی، آسمان سے وہ رحمت کا پانی برساتاہے تاکہ یہ پاک اور زلال پانی گندے اور پلید لوگوں کو گند گی اورخبث سے پا ک کرے۔
اس صورت حال کے پیش نظر نہ نا را ضگی اور نہ غم و اند وہ کی کو ئی گنجا ئش ہے اور نہ ہی نا امید ی کی پھر گناہ کیوں…؟ اور شکو ہ کس لئے ؟ صحیح ہے اگر خداوندمتعال ا نسان کو پیدا نہ کر تا تو انسان گنا ہ بھی نہ کرتا لیکن ا س با ت کا نتیجہ یہ نہیں کہ انسا ن کا گنا ہ اللہ کی گردن پر ہے۔
آفرینش اور خلقت ِ انسا ن ’’حصو ل علم ‘‘کے مشابہ ہے، علم اورسائنس انسان کی ترقی بلندی اوررشدکے اسبا ب اور بنیادی ترین ضرورتوں میں سے ہے،لیکن اسی سا ئنس اور علم کو بہت سے مو اقع پر غلط استعما ل بھی کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے عالم انسانیت کوناقابل تلا فی نقصانات اٹھا نے پڑے،اگرعلم اورسا ئنس نہ ہوتی توآج تبا ہ کن کیمیا ئی ایٹمی، بیالو جیکل ہتھیار بھی نہ ہو تے … لیکن کیا اس کامطلب یہ ہے کہ سا ئنس اور علم بری چیزہیں؟
اس کا معنی یہ ہرگز نہیں کہ علم بری چیز ہے اور تما م تبا ہ کن عالمی جنگوں کا گنا ہ ، علم و دانش کے سرہے جوچیزبری ہے وہ ایمان کافقدان اور اس کیساتھ سا تھ صحیح سمت اور راستوں کا انتخا ب نہ کر نا ہے اور قصو راس انسا ن کاہے جو ہو یٰ و ہوس کی پر ستش کر تا ہے جس نے علم کو اقتداراورطاقت تک پہنچنے کا ذریعہ اورطا قت کو اپنے نفس اما رہ کی خو اہشا ت تک رسائی کارا ستہ قراردیاہے ،ہما را وجود ’’اچھا‘‘ہے لیکن اگر ہم اس وجو د اور اس کی صلا حیتوں نیزجاوداں سعادتوں کے حصو ل کے لئے اللہ کی طرف سے دی گئی مختلف نعمتوں اور ذرائع سے اچھی طرح استفا دہ نہ کریں توپھریہ براہو گااوراس سے بد تر یہ ہو گا کہ ذمہ دا ر ی سے جان چھڑاتے ہو ئے اپنی کوتاہی اور کفرانِ نعمت کو خدائے مہربا ن کے ذمے ڈال دیں۔
(حوالہ جات)
(۱)۔ مثنوی معنوی ابیا ت ۳۵۷۴۔۳۵۷۶
(۲) شرح کلما ت با با طا ہر عریاں ، بحو الہ تفسیر موضو عی قرآن کریم ، آیۃ اللہ جوا دی آملی ، ج ۱۴ ، ص ۱۳۴، قم ،ا سراء
(۳) مثنوی معنوی ،دفتر ۳، بیت۱۰۰۰،۲۰۰۱
(۴) سورہ زمر، ۵۴ (۵) مثنوی معنوی دفتر۵ ،ابیات ۱۹۵،۱۹۶،۱۹۹