ِدین اور سیاست کا باہمی تعلق
سوال۹:دین کی سیاست سے علیحدگی کی صورت میں دین کے استقلال اور اسلامی حکومت کے غیرضروری ہونے کے درمیان کیا ربط اور تعلق ہے ؟ کیا بعض افراد کا یہ کہنا درست ہے کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے لیکن دین کا نظام سیاسی نظام سے جدا ہے؟
اس سوال کے جواب میں چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے ۔
پہلا:سیاست یا سیاسی نظام سے دینی نظام کی جدائی کے مسئلے کو پیش کرنے والوں نے اس مفہوم کی کوئی جامع تعریف بیان نہیں کی اور نہ ہی اس کے لیے کوئی اصول اور ضابطہ ذکرکیاہے ۔ الفاظ کے مبہم ہونے کی وجہ سے اس سوال کا کوئی پختہ اور دقیق جواب نہیں دیا جا سکتا ، پس جو کچھ کہاجائے گا وہ احتمالات کی بنیاد پرہوگا۔
دوسرا:دینی نظام کی سیاست یا سیاسی نظاموں سے جدا اور الگ ہونے کی حدود واضح نہیں ہیں لہٰذایہ بات بھی جواب دینے کی صورت کو مشکل بنا دیتی ہے ۔
تیسرا:دینی نظام اور اس کی سیاست سے جدائی کے عنوان سے ایک اور چیز جس پر دیگر مفکّرین نے تاکید کی ہے وہ ’’علماء اور فقہا دین ‘‘ ہیں، دین کے اس ادارے کی سیاست سے علیحدگی اور لاتعلقی کا نتیجہ دین کی سیاست سے جدائی کی صورت میں نکلتا ہے اور درحقیقت نظام کے دینی ہونے کی اس سے نفی ہوتی ہے ، کیونکہ اس صورت میں کوئی بھی علمی یا فقہا پرمشتمل ادارہ جو قانون کے نفاذ اور جراء کی توانائی رکھتا ہو اور اس کی ضمانت بھی دیتا ہو ، سیاسی نظام میں موجود نہیں ہو گا ، نتیجہ یہی نکلے گا کہ حکومت سیکولر اور لادین ہو گی ۔
اس کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعض دینی ، روایتی اداروں اور حکومت کے درمیان ایک قسم کی علیحدگی موجود ہے لیکن اس جدائی کی کچھ حدود اور قیود ہیں ، جس کی وجہ سے عملی طور پر دین سیاست سے جدا نہیں ہوتا ، مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ مراجع تقلید کا انتخاب کرتے ہیں یعنی اپنی مرضی سے کسی مرجع کی تقلید کرتے ہیں ، اسی طرح مراجع عظام بھی احکام شرعی کے اخذ کرنے اور اپنا فتویٰ صادر کرنے میں بالکل آزاد ہیں ، ان کے فتاویٰ ان کے مقَلدّین کے لیے حجت اور قابل عمل ہیں لیکن ان سب کو خواہ عوام ہوں یا مجتہدین و مراجع ، سیاسی اور اجتماعی مسائل میں ولی امر مسلمین کے حکومتی احکامات کا پابند ہونا چاہیے تاکہ تصادم کی صورت پیدا نہ ہو ۔
دوسری مثال دینی محافل ، مساجد اور فلاحی اداروں کی سرگرمیاں ہیں جو دینی بنیادوں پر کام کرتی ہیں لیکن ان کا اسلامی معاشرہ پر حکمران سیاسی اداروں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا ۔