مقالات

صحابی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) عثمان بن عفان

عثمان بن عفان (متوفی ۳۵ ھ) اہل سنت کے یہاں خلفائے راشدین میں تیسرے خلیفہ اور اصحاب پیغمبر اکرم(ص) میں سے ایک صحابی ہیں۔ عمر بن خطاب نے اپنی موت سے پہلے خلیفہ چننے کے لیے جس چھ رکنی شورا کو تشکیل دیا تھا اسی نے عثمان کو ان کے بعد تخت خلافت تک پہنچا دیا۔ 23 یا 24 سنہ ہجری قمری سے 35 ھ تک انہوں نے خلافت کی اور آخر کار مدینہ میں انکی حکومت کے خلاف ایک بغاوت میں باغیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔

شوریٰ کے ارکان کا نام
برای تعیین خلیفہ سوم

امام علی (ع)
عثمان بن عفان
عبد الرحمن بن عوف
سعد بن ابی وقاص
زبیر بن عوام
طلحۃ بن عبیداللہ

حسب و نسب
تاریخ اسلام میں ان کا نسب کچھ یوں بیان ہوا ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف ابن قصی القرشی الاموی۔ عثمان بنی امیہ کے طا‎ئفے سے ہے، [1]انکے اجداد اور بنی ہاشم، عبد مناف سے جاکر ملتے ہیں۔[2]اس لحاظ سے وہ بنی امیہ کے ابوالعاص قبیلے سے ہے۔ [3] اس کی ماں أروی عثمان کے باپ کے طایفے سے ہے اور اس کا نسب کچھ یوں بیان ہوا ہے: اروی بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب ابن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی۔ [4] عثمان کی ماں پیغمبر اکرم(ص) کی پھوپھی،‌ ام حکیم بنت عبدالمطّلب کی بیٹی ہے۔ [5] عثمان کی ولادت کو اختلاف کے ساتھ ساتواں [6] اور چھٹا [7] عام الفیل لکھا ہے. اس کی دو کنیت ہیں: ابوعمرو اور ابوعبداللہ، جن میں پہلی کنیت زیادہ مشہور ہے۔[8]رقیہ بنت پیغمبر اکرم(ص)انکی بیویوں میں سے ایک ہے اور بعض کے کہنے کے مطابق ان سے دو بیٹے؛ عمرو اور عبداللہ متولد ہو‎ئے لیکن کو‎ئی ایک بھی زندہ نہ رہا اور بچپنے میں دنیا سے چل بسے.[9] بعض مآخذ میں آیا ہے کہ عمرو رقیہ کا بیٹا نہیں بلکہ جاہلیت کے دَور میں عثمان کی کسی اور بیوی سے متولد ہوا تھا اور اسی وجہ سے زمان جاہلیت میں عثمان کی کنیت ابوعمرو تھی اور اسلام لانے کے بعد رقیہ سے شادی کی اور عبداللہ متولد ہوا اور اسی وجہ سے عثمان کی کنیت ابوعبداللہ کو ابوعمرو پر ترجیح دیا۔[10] منابع کے مطابق رقیہ کے مرنے کے بعد پیغمبر کی دوسری بیٹی ام کلثوم کی شادی بھی عثمان سے ساتھ ہو‎ئی۔[11] چونکہ پیغمبر اکرم(ص) کی دو بیٹیوں سے شادی کی اسی لئےاہل سنت کے منابع میں اسکو «ذوالنورین» (دو نور والا) کہا گیا ہے۔[12]

اسلام لانا

کہا جاتا ہے کہ عثمان نے ابوبکر کی دعوت پر مکہ میں اسلام قبول کیا۔ [13]لیکن کس سال اسلام لائے اس کے بارے میں کو‎ئی اطلاع نہیں ہے۔ ہاں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسلام کے ابتدا‎ئی دنوں میں ارقم بن ابی ارقم کے گھر پر اسلام قبول کیا ہے۔[14]عثمان ان ابتدا‎ئی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی[15] اور جنگ بدر کے وقت مدینہ میں ہونے کے باوجود جنگ میں شرکت نہیں کی۔ مورخین نے انکی جنگ میں شرکت نہ کرنے کی وجہ انکی بیوی رقیہ بنت پیغمبر اکرم(ص) کی بیماری بتایا ہے۔ اسی وجہ سے خود پیغمبر اکرم(ص) نے انہیں مدینہ میں ٹھہرنے کا حکم دیا تھا اور اسی جنگ کے اختتام پر رقیہ کا انتقال ہوگیا۔[16]

خلافت

چھ رکنی شورا
تفصیلی مضمون: چھ رکنی شورای
عمر بن خطاب نے اپنے بعد خلیفہ معین کرنے کے لیے چھ رکنی شورای تشکیل کی یوں اسی شورای کے ذریعے عثمان سنہ 23 یا 24 ہجری قمری [17] کو خلیفہ منتخب ہوئے اور سنہ 35 ہجری قمری تک حکومت کی۔[18]اس سے پہلے کسی شورای کے ذریعے خلیفہ انتخاب کرنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ پیغمبر(ص) کی رحلت کے بعد بعض اصحاب سقیفہ میں جمع ہوگئے اور (شیعہ عقیدے کے مطابق) غدیر کے دن منتخب شدہ فرد کو مدنظر رکھے بغیر ابوبکر کو خلیفہ معین کیا اور کچھ خاص طریقوں سے تمام لوگوں سے بیعت لی گئی۔ انکی دلیل یہ تھی کہ خلیفہ کا چنا‎‎‎ؤ لوگوں کا کام ہے اور اپنے امام کے بارے میں لوگ خود فیصلہ کریں؛ لیکن ابوبکر نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں اس بات کی مخالفت کرتے ہو‎ئے عمر کو اپنا جانشین مقرر کیا۔عمر ابن خطاب نے گزشتہ دونوں طریقوں کے برخلاف انتخاب کے لئے ایک نیا طریقہ پہچنوایا اور اس بات کا اعتراف کرتے ہو‎ئے کہ ابوبکر کا انتخاب مسلمانوں کی مرضی سے نہیں تھا اور اس کے بعد مسلمانوں کی مشورت سے ہونا چاہیے[19]، چھ رکنی شورای بنا دیا تاکہ یہ ایک دوسرے کے مشورے سے انہی میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کریں۔ اس شورای کے افراد میں: علی بن ابی طالب(ع)، عثمان بن عفان، طلحہ بن عبیداللہ، زبیر بن عوام، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن عوف شامل تھے۔[20]

ان کے دور خلافت کے واقعات
تاریخی شواہد کے مطابق عثمان کا خلیفہ بننے کے بعد بہت سارے گورنر اور عہدے داروں کو انکے منصب سے ہٹا کر اپنے رشتہ داروں کو انکی جگہ مقرر کرنا اس کے ابتدا‎ئی اقدامات میں سے ہیں۔[21] مثال کے طور پر عمار بن یاسر کو ہٹا کر انکی جگہ اپنے سوتیلے بھا‎ئی ولید ابن عقبہ کو کوفہ اور ابوموسی اشعری کو ہٹا کر اپنے کمسن خالہ زاد بھا‎ئی عبد اللہ ابن عامر کو بصرہ کا گورنر مقرر کیا۔ عمرو بن عاص کو فتوحات اور شمالی افریقہ کی جنگوں کا سپہ سالار معین کیا اور اپنا رضاعی بھا‎ئی عبد اللہ ابن ابی سرح کو فتوحات کے خزانے (خراج اور غنا‎ئم) کا عہدہ دیا۔ لیکن بعد میں عمرو عاص کو اپنے عہدے سے معزول کر کے اس کی جگہ پر بھی عبد اللہ کو بٹھا دیا۔[22]

فتوحات
عثمان کے دَور میں مسلمانوں کی فتح شدہ زمینوں میں اضافہ ہوا۔ جیسے فارس کے کچھ شہر عربوں کے ہاتھ آ‎ئے اور اس فتح کے سپہ سالار عثمان ابن ابی العاص تھے۔ اسیطرح 29 ہجری کو عبد اللہ ابن ابی سرح کی سرپرستی میں شمالی افریقہ کے کچھ علاقے اور معاویۃ بن ابی سفیان کی سربراہی میں جزیرہ قبرس فتح ہو‎ئے۔[23]

بعض علاقے جیسے ایران کے علاقہ فارس کے کچھ شہروں میں بغاوت ہو‎ئی اور اپنی خود مختاری کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہیں سرکوب کیا گیا۔[24] ساسانی سلسلے کا آخری بادشاہ؛ یزدگرد سوم بھی عثمان کے دَور خلافت میں مارا گیا۔ منابع کے مطابق، آخری بار ایک تالاب میں یزدگرد اور عرب سپاہیوں کا آمنا سامنا ہوا اور عثمان ابن ابی العاص اور عبد اللہ بن عاص جو اس علاقے میں عرب فوج کے سپہ سالار تھے، نے ان کا مقابلہ کیا، یزدگرد کو شکست ہوئی اور مَرو کی طرف بھاگ گیا بعد میں نیند کی حالت میں کسی چکّی چلانے والے کے ہاتھوں مَرو میں مارا گیا۔[25]

قرآن مجید کی جمع آوری(جمع القرآن)
قرآن کریم پیغمبر اکرم کے دَور میں ہی لکھا جاتا تھا اور آپ کے کچھ قریبی لوگ قرآنی آیتوں کو حفظ بھی کرتے تھے۔ اس کے باوجود کچھ علل و اسباب کی وجہ سے ابوبکر کے دَور تک قرآن ایک کتاب کی شکل اختیار نہ کر سکا۔ یمامہ کے واقعے میں بہت سارے حافظ قرآن کا قتل ہونا قرآن کی تدوین کا باعث بنا۔ ابوبکر نے اس کام کیلیے زید بن ثابت کو انتخاب کیا.[26] زید نے قرآن کے تمام منتشر نسخوں کو جمع کیا اور ہر آیت کو دسیوں حافظ اور نسخوں سے مطابقت دی اور تا‎ئید کرایا، اور کم از کم دو گواہ (ایک تحریر اور ایک حافظ سے) کے ذریعے قبول کرتا تھا۔ زید کا جمع شدہ قرآن ایک مصحف میں نہیں تھا بلکہ کئی صحیفے بنے تھے ان کو ایک صندوق میں رکھا اور کسی کو اس کی حفاظت پر مامور کیا۔ قرآن کو اسطرح سے جمع کرنے میں 14 مہینے اور حد اکثر 13 ہجری قمری ابوبکر کی وفات تک وقت لگا۔ اس نسخے کو ابوبکر کی وصیت کے مطابق عمر کے حوالے کیا گیا اور عمر کے بعد انکی وصیت کے مطابق انکی بیٹی اور پیغمبر اکرم کی بیوی حفصہ بنت عمر کے سپرد کیا گیا.[27] عثمان کے دَور خلافت میں اسلامی فتوحات کے ساتھ ساتھ نئی اسلامی سرزمینوں میں جب قرآن کریم پہنچا تو قرا‎ئت قرآن کریم میں بہت ساری مشکلات اور اختلافات کا سامنا ہوا اسی وجہ سے عثمان نے زید بن ثابت ، سعید بن عاص ، عبداللہ بن زبیر اور عبدالرحمن بن حارث پر مشتمل ایک گروہ تشکیل دیا اور اس گروہ نے قریش اور انصار کے دوسرے 12 افراد کی تعاون سے آخری نسخہ کی تدوین کا کام شروع کیا اور یہ کام ایک طرح سے امام علی علیہ السلام کی زیر نظارت[28] انجام پایا۔ ان لوگوں نے پیغمبر اکرم کے دَور میں لکھے گئے تمام نسخوں کو جمع کیا اور پھر ابوبکر کے دَور میں زید کا لکھا ہوا نسخہ بھی امانت کے طور پر لے آیا جو حفصہ کے پاس موجود تھا۔ اور یہ طے پایا کہ جب کبھی زید کے معاونین میں سے تین آدمی کسی لفظ میں اختلاف کریں تو قریش کے لہجے کے مطابق لکھا جا‎ئے گا۔ اور اس طرح سے پیغمبر اکرم کے باقیماندہ صحیفوں اور مختلف افراد کے نسخے بالخصوص حفصہ اور زید کا اپنا نسخہ کی بنا پر، گواہوں کی شہادت اور حافظوں کے حفظ پر اعتماد کرتے ہو‎ئے «مصحف امام» یعنی رسمی اور آخری نسخہ جو مصحف عثمانی سے مشہور تھا کا کام شروع ہوا اور چار یا پانچ سال کے عرصے میں یعنی ۲۴ہ ق سے لیکر ۳۰ہ ق کے ختم ہونے سے پہلے پہلے تک یہ کام مکمل ہوا۔ اور اسی نسخے کے مطابق چار یا پانچ اور نسخے بھی لکھے گئے جن میں سے دو نسخے مکہ اور مدینہ میں رکھے گئے باقی تین یا چار نسخے ایک حافظ قرآن کے ساتھ جو معلم اور استاد کے عنوان سے ہمراہ تھا، اسلامی دنیا کے اہم مراکز یعنی؛ بصرہ، کوفہ، شام اور بحرین بھیجے گئے۔ پھر عثمان نے حکم دیا کہ سابقہ تمام نسخوں کو مٹایا جا‎ئے تاکہ اختلاف جڑ سے ہی مکمل طور پر ختم ہوجا‎ئیں.[29]

اسلامی احکام میں تبدیلی
عثمان نے بعض موارد میں اسلامی احکام کو تبدیل کیا۔ اس نے رسول اللہ(ص) کی سنت کے خلاف منا میں نماز پوری پڑھی اور جب صحابہ جیسے عبدالرحمان بن عوف کے اعتراض کا سامنا ہوا اور جواب دینے سے قاصر رہا تو کہا "ہذا رَأىٌ رَأَیْتُہ” ” یہ میری رای ہے جو میں نے دی ہے”[30] اور متقی ہندی کے کہنے کے مطابق وضو میں تبدیلی اور شیعہ اور اہل سنت کا اختلاف بھی اس کے دَور خلافت سے شروع ہوا ہے. [31]وہ ایک جگہ خود کہتا ہے کہ پیغمبراکرم(ص) نے ہاتھ اور منہ دھونے کے بعد سر کا مسح کیا اور پھر پا‎‎‎ؤں کا مسح کیا[32]لیکن ایک اور جگہ پیغمبراکرم(ص) کے وضو میں پا‎‎‎ؤں دھونے کے بارے میں کہا ہے۔ [33] حضرت علی(ع)اس بارے میں فرماتے ہیں: "اگر دین افراد کی نظر کا تابع ہوتا تو پا‎‎‎ؤں کے تلوں کا مسح کرنا پاؤں کے اوپر والے حصے کی نسبت زیادہ مناسب لگتا؛ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ(ص) پا‎‎‎ؤں کے اوپر والے حصے کا مسح کرتے تھے”.[34] اہل سنت کی روایات کے مطابق حضرت جبرئیل نے رسول خدا(ص) کو پا‎‎‎ؤں کا مسح سکھایا.[35]

عثمان کے خلاف بغاوت
بغاوت کی وجوہات
اسلامی مآخذ کے مطابق عثمان کے خلاف بغاوت کی وجہ سابقہ خلیفوں کی روش کے خلاف حکومتی عہدہ داروں کو مقرر کرنا اور اسلامی اور عوامی مال کو بے عدالتی کے ساتھ تقسیم کرنا تھا۔ اقرابا پروری، بیت المال رشتہ داروں کے حوالے کرنا اور حکومتی عہدوں اور سہولیات سے انکو مستفید کرنا عثمان کی حکومت کے ابتدا‎ئی دنوں سے ہے آشکار تھا اور یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اعتراضات کا باعث بنا اور یہی اس کے خلاف قیام کی بنیادی وجہ بھی تھی.[36]مسلمانوں کی اقتصادی مشکلات نے بعض علاقے جیسے عراق میں عثمان کی خلافت کے خلاف بہت ساری مخالفتوں کو جنم دیا اور اقتصادی اور سیاسی بعض امتیازی سلوک کی وجہ سے یہ مخالفتیں اور بڑھ گئیں۔ شاید بصرہ اور کوفہ کے گورنروں کو ہٹا کر اپنے رشتہ داروں کو انکی جگہ تقرری نے عثمان کے خلاف ابتدا‎ئی نارضایتی کو ابھارا.[37] بنی امیہ کے کچھ داغدار ماضی والے افراد کو عوامی خزانے پر مسلط کرنا صحابہ اور تابعین پر ناگوار گزرا۔ مثال کے طور پر مدینہ کے مشرق میں مہرقہ نامی جگہ حارث ابن حکم کو بخشدیا یہ وہی جگہ ہے جہاں جب رسول اللہ پہنچے تو پاوں زمین پر مارا اور فرمایا: « یہ جگہ ہماری نماز کی جگہ، طلب باران کی جگہ اور عید الاضحی اور عید فطر کی جگہ ہے اس جگہ کو ویران کرے گا اور اس جگہ سے کرایہ لے گا اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جو ہماری بازار سے کو‎ئی چیز کم کرے» اسی طرح فدک مروان بن حکم کو دیا افریقہ کے خمس، غنا‎ئم کو بھی اسے بخش دیا اور یہ واقعہ مسلمانوں پر اتنا ناگوار گزرا کہ عبد الرحمن بن جنبل جحمی نے اس کی مذمت میں اشعار پڑھا.[38] اسیطرح منابع کے مطابق عثمان نے اس غنیمت سے چار لاکھ درہم عبداللہ بن خالد ابن اسید بن رافع کو اور ایک لاکھ حکم ابن ابی العاص کو دیدیا۔[39] بعض کتابوں کی گزارشات سے معلوم ہوتا ہے کہ عثمان کا یہ طریقہ عمر کے دَور یا اس سے پہلے سے آغاز ہوچکا تھا لیکن عوام پکڑ دھکڑ کے خوف سے اعتراض نہ کرسکے۔ اور ان گزارشات کی تصریح کے مطابق عثمان کے بعض کاموں پر عوام اعتراض کرتے تھے لیکن یہی کام عمر ابن خطاب انجام دیتا تو اس کو کچھ نہیں کہتے اور اسکی بنیادی وجہ عمر سے ڈرنا تھا۔ وہ اعتراضات کو روکتا تھا لیکن عثمان نرم مزاج تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس کے خلاف اعتراضات آشکارا ہونے لگے اور روز بروز بڑھنے لگے۔[40] عبد اللہ ابن عمر سے نقل کیا گیا ہے کہ « عثمان کے بعض کاموں پر تنقید ہو‎ئی ہے اگر یہی کام عمر انجام دیتا تو اس پر اعتراض نہیں ہوتا».»[41] خود عثمان سے بھی منقول ہے کہ اعتراضات کے ابتدا‎ئی دنوں میں منبر پر چلا گیا اور کہا: « اے مہاجر اور انصار!۔۔۔ خدا کی قسم، میرے جن کاموں پر اعتراض کرتے ہو، اگر خطاب کے بیٹے کے کاموں پر اعتراض کرتے تو تمہیں قلع قمع کرتا، کسی میں جر‎ا‎ئت نہیں تھی کہ اس سے نظریں ملا کر دیکھ لے».»[42]

سیاسی تقرریاں اور برطرفیاں
عثمان نے عمار یاسر کو کوفہ کی امارت سے برطرف کیا اور اپنے سوتیلے بھایی ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو اس کی جگہ مقرر کیا، ابوموسی اشعری کو بصرہ کی امارت سے ہٹا کر اپنا ماموں زاد بھا‎ئی، عبداللہ بن عامر بن کریز کو مقرر کیا جبکہ وہ ایک تازہ جوان تھا، عمرو بن عاص کو مصر کی جنگ کا سپہ سالار معین کیا اور عبد اللہ بن ابی سرح کو مصر کے خراج کا متولی بنا دیا جبکہ وہ اسکا رضاعی بھا‎‎ئی تھا۔ پھر عمرو ابن عاص کو سپہ سالاری سے برطرف کر کے دونوں منصب عبد اللہ ابن ابی سرح کے سپرد کیا.[43] جبکہ ان میں سے بعض لوگ تو اسلامی آ‎ئین اور پیغمبر اکرم کی معنوی میراث کے اتنے پابند بھی نہیں تھے۔ بعض منابع کے مطابق بعض لوگ جن کو پیغمبراکرم(ص) نے مدینہ سے جلا وطن کیا تھا، عثمان کے دَور میں اس کی خواہش کے مطابق مدینہ لوٹ آ‎ئے اور حکومتی عہدوں پر فا‎ئز ہو‎ئے، مثال کے طور پر عثمان نے اپنا رشتہ دار حکم ابن ابی العاص کو جلاوطنی سے واپس بلایا اور اسکا بیٹا مروان کو اپنا مشاور بنایا[44] مروان بعد کے چند سالوں کی بغاوتوں میں مستقیم ملوث تھا۔ پیغمبر اکرم نے اسرار فاش کرنے کی جرم میں حکم ابن ابی العاص کو شہر بدر کیا تھا.[45] بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ مروان جو کہ عثمان کا داماد تھا اور مروان کا عثمان پر مکمل کنٹرول تھا اور عثمان کے غلط تصمیمات مروان کی باتوں میں آکر اور اس کے پروپیگنڈوں کی وجہ سے تھے.سانچہ:مآخذ کی ضرورت بہ ہر حال، مروان کا ایک حکومتی عہدے پر فا‎ئذ ہونے نے مسلمانوں کو خاص کر موثر اصحاب کو الجھن کا شکار کیا۔ عبد اللہ بن ابی سرح، عثمان کا رضاعی بھا‎ئی، مصر کا گورنر بنا،[46] اس کا ماضی اسلام میں کو‎ئی اچھا نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ مدینہ میں کاتب وحی تھا لیکن مرتد ہوا اور قریش سے جا ملا۔ ایک آیہ شریفہ (سورہ أنعام/آیہ ۹۳) بھی اسکی مذمت میں نازل ہو‎ئی.[47]وہ چونکہ قریش کی نسبت پیغمبراکرم(ص) کی ذہنیت سے خوب واقف تھا اس لیے پیغمبراکرم(ص) سے روبرو ہونے کا مشورہ دیتا تھا.[48] فتح مکہ کے دوران پیغمبراکرم(ص) نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا لیکن اس نے عثمان کے ہاں پناہ لی اور کسی مناسب موقع پر پیغمبراکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عثمان کی سفارش پر اسکی معافی ہوگئی [49] اگرچہ پیغمبراکرم(ص) اسکو معاف کرنے میں راضی نہیں تھے۔ منابع میں نقل ہوا ہے کہ عثمان آپ کی خدمت میں آیا اور عبد اللہ کو معاف کرنے کی درخواست کی لیکن آپ نے کو‎ئی جواب نہیں دیا اور درخواست کو بار بار تکرار کرنے کی وجہ سے اسے معافی ملی لیکن اس کے دوست احباب جو اس وقت وہاں تھے ان سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا کہ قبل اس کے میں اسکو معاف کروں تم سے کسی ایک نے اسے کیوں قتل نہیں کیا؟.[50] کوفہ کا گورنر اور عثمان کا رشتہ دار ولید بن عقبہ ظاہری طور پر بھی اسلامی احکام کی رعایت نہیں کرتا تھا۔ ایک دن اس نے مستی کی حالت میں صبح کی نماز چار رکعت پڑھی اور مسجد میں حاضر لوگوں سے کہا اگر چاہو تو اس سے زیادہ پڑھوں۔ ولید کے شراب پینے کی خبر عثمان تک پہنچی لیکن عثمان نے اس پر شراب|شراب پینے کی حد جاری نہیں کیا.[51] ولید وہ شخص ہے جس کے بارے میں پیغمبر اکرم کے زمانے میں ایک آیہ نازل ہو‎ئی جس میں اسکو فاسق کہا گیا.[52]آخر کار عثمان نے مسلمانوں کے دبا‎‎‎ؤ میں آکر بہت دیر سے ولید کو کوفہ کی حکومت سے معزول کیا اور سعید بن عاص کو اس کا جانشین بنادیا۔ لیکن سعید کی بری کارکردگی نے حالات کو اور مشکل بنادیا وہ گفتار اور کردار کے ذریعے کہتا تھا کہ عراق، قریش اور بنی امیہ کی ملکیت ہے۔ بعض اصحاب جن میں مالک اشتر بھی تھا، اس کے کردار پر اعتراض کرنے لگے لیکن اسکا کو‎ئی فایدہ نہیں ہوا اور صرف سعید اور ان کے درمیان حالت زیادہ کشیدہ ہوگئے اور اعتراضات مزید وسیع ہوگئے۔ عثمان نے اپنے گورنر کی خودخواہی کو مدنظر رکھتے ہو‎ئے اعتراض کرنے والوں کے سربراہوں کو شام جلاوطن کردیا جن میں کوفہ کے کچھ سرکردگان جیسے مالک اشتر اور صَعْصَعَةِ بْنِ صُوحان بھی شامل تھے۔

بغاوت کی تفصیل
نالا‎یق لوگوں کو شہروں اور اسلامی مملکت کے صوبوں اور بزرگ صحابہ پر مسلط کرنا عثمان کی حکومت کا شیوہ تھا اس وجہ سے اعتراضات کا دامن پھیلتا گیا۔ مخالفوں نے خطوط کے ذریعے یا خود ان سے ملاقات کر کے اپنا اعتراض ان تک پہنچایا اور عثمان نے ان سے گفت و شنید کی اور کام حل کرنے کا وعدہ دیا لیکن کو‎ئی فیصلہ کن کاروا‎ئی نہیں کیا جس سے مخالفین قانع ہوسکیں اس نے بہت ساروں سے مشورے لیتا تھا لیکن صرف اپنے رشتہ داروں جیسے مروان ابن حکم اور معاویہ کی بات پر ہی عمل کرتا تھا.[53]اعتراضات کے ابتدا‎ئی دنوں میں ایک بار عثمان منبر پر جاکر اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور لوگوں کے سامنے اللہ کے درگاہ میں توبہ کیا اور لوگوں سے معافی طلب کی، لیکن مروان ابن حکم نے اس کو اعترافات سے روکا اور کہا اپنی توبہ توڑ دو اور کسی سے عذر خواہی نہ کرو اور عثمان نے عملی میدان میں ثابت کردیا کہ اس نے مروان کی بات پر عمل کیا ہے۔[54]

صحابہ کا اعتراض آمیز خط
جب لوگ عثمان کی حکومتی پالیسی میں تبدیلی سے نا امید ہو‎گئے تو ان میں سے بعض نے جو اصحاب پیغمبر بھی تھے، عثمان کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اشارہ کیا کہ ان کے عقیدے کے مطابق اس نے رسول اللہ کی سنت اور پہلے والے دونوں خلیفوں کی سیرت کی مخالفت کی ہے۔ ان میں سے بعض موارد درج ذیل تھے: افریقہ کا خمس مروان بن حکم کو دینا، جبکہ یہ خمس تھا جو اللہ اور اسکے رسول کا حق تھا، مدینہ میں سات عمارتیں بنانا، اپنی بیوی نا‎ئلہ کو مکان بنانا، عا‎ئشہ کے لیے مکان بنانا، مروان کے لیے لکڑی سے ایک گھر قصر کی شکل میں بنانا، بیت المال کو مروان اور دوسروں کے ذمے رکھنا، شہروں اور دوسری سرزمینوں کو اپنے طرفدارو کی سرپرستی میں دینا، بنی امیہ کے ان بچوں اور غلاموں کو مال دینا جن کی پیغمبر اکرم سے کسی بھی قسم کی وابستگی نہیں تھی، ولید ابن عقبہ کو کوفہ کا گورنر بنانا جبکہ وہ احکام اسلامی کی ظاہر میں بھی رعایت نہیں کرتا تھا اور شرابخواری ثابت ہوچکی تھی لیکن عثمان نے اس پر شراب پینے کی حد تک جاری نہیں کیا، مہاجر اور انصار کو دور رکھنا اور کسی بھی کام میں ان سے مشورت نہیں لینا، مدینے کے اطراف کی زمینوں میں داخلہ ممنوع کرنا، زمینوں، مال اور عطایا ان لوگوں کو دینا جنکی پیغمبر اکرم سے کو‎ئی وابستگی نہ رہی ہے، مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے بانس کی لکڑی[نرم لکڑی جس سے درد نہیں ہوتا تھا] کے بجا‎ئے تازیانہ[جس سے زیادہ درد ہوتا تھا] استفادہ کرنا۔ لوگوں نے عہد کیا کہ اس خط کو کسی بھی صورت میں عثمان تک پہنچا دینگے۔ عمار نے خط عثمان تک پہنچا دیا۔ مروان ابن حکم اور بنی امیہ کے دوسرے کچھ لوگ بھی عثمان کے ساتھ تھے۔ عمار نے خط عثمان کو دیا اور اس نے پڑھ لیا۔ عثمان نے کہا کیا یہ خط تم نے لکھا ہے؟ عمار نے کہا: جی۔ عثمان نے کہا: اس خط کو لکھنے میں کس نے تمہاری مدد کی ہے؟ عمار نے کہا: جن لوگوں نے اس خط کو لکھنے میں میری مدد کی ہے وہ نہیں آ‎ئے ہیں۔ عثمان نے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ عمار نے نام بتانے سے انکار کیا۔ عثمان نے کہا: تمہیں اتنی جر‎ا‎ئت کیسے ہو‎ئی میرے خلاف کو‎ئی بات کرے؟ مروان ابن حکم نے کہا: اے امیرالمومنین، اس نے عوام کو آپ کے خلاف ورغلایا ہے اگر اس کو قتل کروگے تو دوسروں کی زحمت سے نجات ملے گی۔ عثمان نے کہا: اس کو مارو۔ اور خود نے بھی دوسروں کے ساتھ عمار کو مارا۔ اور کھینچتے ہو‎ئے دار الامارہ سے باہر لے جایا گیا۔ پھر چند لوگوں نے پیغمبر اکرم کی زوجہ ام سلمہ کے کہنے پر ان کے گھر لے گئے۔[55]

مصر کی حکومت کا واقعہ
عثمان کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کو کنٹرول کرنے میں کچھ حوادث مانع بنے مدینہ کے نا آرام حالات میں مصر کے لوگوں نے عبداللہ ابن ابی سرح کے خلاف عثمان کے پاس شکایت کی۔ اور امام علی کی طرح بزرگ صحابیوں نے عبداللہ کو برطرف کر کے محمد ابن ابوبکر کو انکی جگہ مقرر کرنے کا مشورہ دیا۔ عثمان نے ایسا ہی کیا اور ایک خط میں لکھ کر محمد بن ابوبکر کو دیا۔ مخالفین کے ایک گروہ کے ہمراہ محمد مصر روانہ ہو‎ئے۔ راستے میں تیزی سے آتا ہوا ایک غلام کو دیکھا گویا وہ کسی چیز سے بھاگ رہا تھا۔ اس کو روک لیا تو معلوم ہوا کہ مروان ابن حکم کا غلام تھا جو اس کی طرف سے عبداللہ ابن سرح کیلیے ایک خط لے جارہا تھا۔ خط میں محمد ابن ابوبکر اور اس کے ساتھیوں کے بارے لکھا تھا اور عبد اللہ سے مطالبہ کیا تھا کہ محمد ابن ابوبکر اور اس کے ساتھیوں کو قتل کرے اور اگلا خط ملنے تک مصر کی حکومت پر باقی رہے۔ اسی وجہ سے محمد ابن ابوبکر مدینہ لوٹے اور پیغمبر اکرم کے اصحاب اور مسلمانوں کے درمیان خط کا متن فاش کیا اور اس طرح سے مدینہ کے حالات اور کشیدہ ہوگئے عثمان کے گھر کا گھیرا‎‎‎ؤ کیا اور رفت و آمد کو روک دیا اور اس پر پانی بھی بند کیا.[56]

محاصرہ
حجاز میں حالات کشیدہ ہونے اور عثمان نے عوام کے مطالبات جس میں سب سے اہم عثمان کا استعفی تھا، نہ ماننے کی وجہ سے مدینہ والوں نے کوفہ اور مصر کے بہت سارے لوگوں کے ساتھ ملکر عثمان کے خلاف اقدامات کو تیز کردیا.[57]جس کے نتیجے میں اشتر نخعی کوفہ سے ایک ہزار لوگوں کے ساتھ ابن ابی جذیفہ چار سو مصر کے مردوں کے ساتھ عثمان کے گھر کے دروازے پر گئے اور دن رات عثمان کے گھر کو محاصرے میں رکھا۔ اسوقت طلحہ دونوں گروہ کو عثمان کے خلاف ابھار رہا تھا۔ ان سے کہتا تھا: عثمان تمہارے محاصرے اور گھیرا‎‎‎ؤ سے نہیں ڈرتا ہے کیونکہ علی اس کو پانی اور غذا پہنچا رہا ہے۔ اس لیے عثمان سے پانی روک دو.[58] اس سے پہلے علی نے ایک مدت کے لیے مدینہ سے باہر جانے کی اطلاع دی اور عثمان نے موافقت کی.[59] اگرچہ امام علی نے اپنے دونوں بیٹوں کو عثمان کی حفاظت کے لیے اس کے گھر پر پہرہ بٹھایا لیکن علی علیہ السلام مدینہ سے باہر جانے کے بعد عثمان کا گھیرا‎‎‎ؤ مزید تنگ ہوگیا.[60]عثمان اور جو لوگ اس کے ساتھ گھر پر تھے پانی اور غذا کے لیے مشکلات میں تھے اور عثمان نے مکہ اور شام کچھ خطوط بھی لکھا اور ان دو شہروں کے مسلمانوں سے مدد مانگا اور خط میں لکھا کہ میں نے توبہ کیا ہے لیکن یہ لوگ میری توبہ قبول نہیں کر رہے ہیں اور میرے استعفی کے علاوہ کسی اور چیز پر راضی نہیں ہوتے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ گھر کے اندر کا آذوقہ ختم نہ ہوجا‎ئے۔[61] واقدی کی نقل کے مطابق عثمان کا محاصرہ انچاس دن تک طول پکڑا ہے.[62]

عثمان کا قتل
باغی آہستہ آہستہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عثمان استعفی دینے والا نہیں اور انکے مطالبات نہیں مانے گا، اس لیے اس کی جان کے درپے ہو‎ئے؛ لیکن کچھ مشکلات تھیں جس کی وجہ سے وہ عثمان کے گھر پر حملہ نہیں کر سکتے تھے۔ جیسے حسن بن‌علی(ع) کا پہرہ دینا، باغیوں کا عثمان اور بنی‌ہاشم کے ساتھ لڑا‎ئی کی طرف ما‎ئل نہ ہونا، باغیوں نے دور سے عثمان کے گھر کی طرف تیراندازی کی جس کی وجہ سے امام حسن علیہ السلام زخمی ہو‎ئے۔ ایک تیر مروان کو لگا اور محمد ابن طلحہ بھی زخمی ہوا، قنبر کا سر پھوٹ گیا امام حسن علیہ السلام زخمی ہونے پر محمد بن‌ابی‌بکر پریشان تھا کہ کہیں اسی وجہ سے بنی ہاشم میدان میں کود نہ پڑیں اور فتنہ بڑھ جا‎ئے۔[63] جب امام حسن علیہ السلام زخمی ہو‎ئے تو دو آدمی آپ کو عثمان کے گھر سے باہر لے گئے۔ محاصرہ کرنے والوں نے کہا اگر بنی ہاشم امام حسن کے سر اور چہرے پر خون دیکھیں گے تو لوگوں کو عثمان کے اطراف سے دور کرینگے؛ اسی لیے فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے کسی کو پتہ چلے عثمان کو قتل کر دیں۔ اور چند لوگ ایک انصار کے گھر سے ہوتے ہو‎ئے عثمان کے گھر تک پہنچ گئے اور عثمان کے افراد کو پتہ تک نہیں چلا۔ اس وقت صرف عثمان کی بیوی اس کے پاس تھی۔ باغیوں نے عثمان کو قتل کیا اور اس کی بیوی نے فریاد شروع کیامام حسن(ع) اور امام حسین(ع) جب دار الامارہ پہنچے تو دیکھا عثمان قتل ہوا ہے اور اس کا بدن مُثلہ (ٹکڑے ٹکڑے) ہوا ہے امام علی(ع)، طلحہ، زبیر اور سعد کو جب یہ خبر ملی تو آیہ انا للہ و انا الیہ راجعون کی تلاوت کی۔[64] دینوری سے منقول ہے کہ بعض لوگ، جیسے علی علیہ السلام، عثمان کے قتل پر رو دیئے یہاں تک کہ امام علی بے ہوش ہوگئے۔[65] عثمان 35ہ ق کو قتل ہوا.[66] اس کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے واقدی (متوفی: ۲۰۷ یا ۲۰۹ق.) سے نقل ہوا ہے کہ عثمان کی عمر 82 سال تھی.[67] بعض منابع نے عثمان کے قاتل کا نام سودان بن حمران لکھا ہے.[68] مدینہ والوں نے عثمان کو قبرستان بقیع میں دفن کرنے سے منع کیا اور اسی وجہ سے ایک نیزار میں جو «حَشِّ کوکب» کے نام سے مشہور تھا، بقیع سے باہر یا بقیع کی پشت پر دفن کیا۔ معاویہ کی حکومت میں مروان بن حکم کو جب مدینہ کی حکومت ملی تو مروان نے عثمان کے قبر کے اطراف کو خریدا اور مسلمانوں کو اپنے مرحومین عثمان کی قبر کے دوسری طرف دفن کرنے کا حکم دیا تاکہ عثمان کی قبر بقیع سے متصل ہو‎جا‎ئے۔[69]

عثمان کا قتل اور امام علی علیہ السلام کا موقف
تاریخ اسلام کے منابع کے مطابق امام علی علیہ السلام عثمان کے قتل کے مخالف تھے اور اس کے قتل کو روکنے کے لیے اپنے دونوں بیٹے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام اور دوسرے کچھ لوگوں کو اس کے گھر پر پہرہ بٹھایا.[70] بعض منابع کے مطابق عثمان کے قتل کے بعد آپ رو‎ئے اور اس کے گھر کے پہرہ دار کو ڈانٹا اور فرمایا عثمان کے قتل کی کو‎ئی توجیہ نہیں ہے.[71]ایک اور نقل میں امام علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ حسن اور حسین جو عثمان کی حفاظت کر رہے تھے عثمان نے خود انکو گھر پر حملہ آوروں کے ساتھ لڑنے سے منع کیا.[72] عثمان کے قتل سے پہلے بھی کئی بار امام علی علیہ السلام واسطہ بنے اور اس تک مدد پہنچایا مثال کے طور پر جب مخالفوں نے پانی اور کھانا عثمان پر بند کیا تو آپ اس تک پانی اور کھانا پہنچایا کرتے تھے۔[73] اہل سنت کے منابع میں امام علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ اگر عثمان مجھ سے مدد مانگتا تو اس کا دفاع کرنے میں جان سے بھی دریغ نہیں کرتا اور حسن اور حسین کی موت پر بھی راضی ہوجاتا، میں نے لوگوں کو عثمان کے قتل سے ڈرایا.[74] کہا گیا ہے کہ جب مصر والوں نے عثمان کا محاصرہ اور قتل کا قصد کیا تو امام علی علیہ السلام کے پاس آ‎ئے اور کہا: اٹھو اور ہمارے ساتھ چلو اس شخص کی طرف چلیں گے جس کا خون اللہ تعالی نے حلال کیا ہے۔ علی علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم میں ایسا نہیں کرونگا اور تمہارے ساتھ نہیں آوں گا۔ مصریوں نے کہا: پھر ہمیں خط کیوں لکھا تھا؟ امام علی علیہ السلام نے کہا: خدا کی قسم میں نے کبھی تمہیں کو‎ئی خط نہیں لکھا ہے۔ اسوقت مصر والے ایک دوسرے کے منہ تکنے لگے .[75]

عثمان کے قتل کے نتا‎ئج
عثمان ابن عفان کو قتل کرنے کے بعد باغیوں نے امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کی۔ شام کا گورنر معاویہ نے خلافت کا دعوا کیا لیکن پیغمبر اکرم کے بعد مقام اور منزلت کے اعتبار سے معاشرے میں علی ابن ابی طالب کے مقابلے میں اس طرح کا دعوا کرنے کے لیے طاقت نہیں تھی اس لیے عثمان کے قتل کا بہانہ بنایا اور ادعا کیا کہ عثمان کے قتل میں علی علیہ السلام کا ہاتھ ہے اور خود کو عثمان کے خون کا وارث کہہ کر شام والوں کو علی کے خلاف جنگ کرنے پر ورغلایا۔ جو لوگ معاویہ کو علی علیہ السلام کی مشروع خلافت کی پیروی کرنے کا کہتے تھے تو معاویہ ان لوگوں کے جواب میں کہتا تھا علی عثمان کے قتل میں بےتقصیر نہیں ہے اور وہ مقصر نہیں ہے تو عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کرے پھر اس کے بعد والامسئلہ یعنی مسلمانوں کی خلافت کے بارے میں غور و فکر کریں.[76] دوسری طرف عثمان کی بیوی نے عثمان کے خون سے لت پت قمیص اور اسکی کھینچی گئی کچھ داڑھی کو ایک خط کے ساتھ معاویہ کو بھیجا اور خون خواہی کا مطالبہ کیا اور معاویہ نے اس خط اور عثمان کی قمیص کو لوگوں سے اپنی بیعت لینے کے لیے استفادہ کیا اور امام علی علیہ السلام کو عثمان کے قتل میں ملوث معرفی کیا۔ اس کے علاوہ عثمان کی قمیص کے ذریعے شام والوں کو امام علی(ع) کے خلاف جنگ کی تشویق کی۔ اس طرح سے خون آلود کپڑے اور عثمان کی خون خواہی علی علیہ السلام کی خلافت کو ناحق اور معاویہ کی خلافت کو برحق دکھانے کا ایک بہانہ بن گیا۔ شام والے بھی اس کے ساتھ ہوگئے اور معاویہ سے کہا: عثمان تمہارا چچازاد بھا‎ئی ہے اور تم اس کے خون کا وارث ہو اور ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں.[77] عثمان کا قتل اور اس کے بعد خلافت پر معاویہ کے دعوا نے مسلمانوں پر جنگ صفین جیسی بڑی جنگیں تحمیل کیا اور پیغمبر کے اصحاب سمیت جیسے عمار بن یاسر ہزاروں لوگ ان جنگوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امام علی علیہ السلام کی شہادت، معاویہ کا حکومت پر پہنچنا اور خلافت کو اسلامی راستے سے ہٹا کر موروثی بنانا عثمان بن عفان کے قتل کے اہم نتا‎ئج تھے۔

حوالہ جات

ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.
دایرة المعارف اسلام(انگلیسی)، ذیل مدخل ‘UTHMAN B. ‘AFFAN.
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.
ابن حجر، الاصابہ، ۴، ۳۷۷.
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۷.
ابن جوزی، المنتظم، ۴، ۳۳۴.
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۹.
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۹.
ذہبی، اسد الغابہ، ۳، ۴۸۱.
ابن جوزی، المنتظم، ۴، ۳۳۵.
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸.
مراجعہ کریں: واقدی، المغازی، ۱، ۱۰۱؛ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۳۸؛ ذہبی، اسد الغابہ، ۳، ۴۸۲.
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۴۴.
دینوری، الامامۃ والسیاسہ، ۱، ۴۴ – ۴۶؛ زرکلی، الاعلام، ۴، ۲۱۰.
المصنف، ج ۵‌،ص۴۴۵‌؛ الطبقات‌الکبری، ج ۳‌،ص۳۴۴‌.
سیوطی، تاریخ خلفا،ص۱۲۹.
دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.
دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.
مراجعہ کریں: دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.
دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.
مراجعہ کریں: دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹ و ۱۴۰.
خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۶۳۴
خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۶۳۵
تاریخ قرآن، رامیار، ص۴۲۳؛ خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۶۳۵
تاریخ قرآن، رامیار، ص۴۰۷-۴۳۱؛ خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۶۳۵
تاریخ اسلام، ج4 ص268
کنزالعمال ج9 ص443 ح 26890
المصنف في الأحاديث والآثار ج1 ص16
مسند الدارمي ج1 ص544
ابن ابی شیبہ، المصنف في الأحاديث والآثار ج1 ص25؛ كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال ج9 ص606
صنعانی، المصنف ج1 ص19؛ ابن ابی شیبہ، المصنف في الأحاديث والآثار ج1 ص26
مثال کے طور پر مراجعہ کریں: مقدسی، البدء و التاریخ، ۵، ۲۹۹.
دایرةالمعارف اسلام(انگلیسی)، ج۱۰، ص۹۴۷، ذیل مدخل ‘UTHMAN B. ‘AFFAN
البدء و التاریخ، ۵، ۲۰۰.
البدء و التاریخ، ۵، ۲۰۰.
مراجعہ کریں: امامت وسیاست/ترجمہ،ص۴۸.
مراجعہ کریں: امامت وسیاست/ترجمہ،ص۴۸.
امامت وسیاست/ترجمہ،ص۴۹.
دینوری، اخبارالطوال/ترجمہ، ص۱۷۴
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۳۸۸.
البدء و التاریخ، ۵، ۲۰۰.
دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹.
مراجعہ کریں: ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱، ۶۹.
مراجعہ کریں: واقدی، مغازی، ۲، ۷۸۷.
ابن اثیر، اسدالغابہ، ۲، ۲۴۹.
واقدی، مغازی، ۲، ۸۵۶.
امامت و سیاست/ترجمہ،ص:۵۴.
مراجعہ کریں: طبری، تفسیر جامع البیان، ۲۶، ۷۸.
معاویہ سے مشورے کے بارے میں مراجعہ کریں: امامت وسیاست/ترجمہ،ص۵۲.
مراجعہ کریں: امامت و سیاست/ترجمہ، ۵۳.
مراجعہ کریں: امامت و سیاست/ترجمہ، ۵۳-۵۵
دینوری، امامت وسیاست/ترجمہ،ص:۶۰ و ۶۱.
مراجعہ کریں: دینوری، امامت وسیاست/ترجمہ،ص: ۶۱.
مراجعہ کریں: دینوری، امامت وسیاست/ترجمہ،ص: ۶۱.
مراجعہ کریں: دینوری، امامت وسیاست/ترجمہ،ص:۵۷ و ۵۸.
مراجعہ کریں: دینوری، امامت و سیاست(ترجمہ فارسی)، ص۵۷ و ۵۸و ۶۴.
مراجعہ کریں: دینوری، امامت وسیاست/ترجمہ،ص: ۵۸ و ۵۹.
مراجعہ کریں: ابن عبد البر، الاستيعاب، 3، 1044.
دینوری،امامت و سیاست، ترجمہ، ص۶۷.
ماجرا کی تفصیل کیلیے مراجعہ کریں: دینوری، امامت و سیاست، ترجمہ، ص۶۷-۷۰.
دینوری، امامت و سیاست، ترجمہ، ص۶۹.
ابن عبد البر، الاستیعاب،
ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۴۸.
ابن عبدالبر، الاستعیاب، 3، 1045.
ترجمہ مروج الذہب مسعودی؛ ج۱ص۷۰۳/ ترجمہ الطبقات الکبری؛ الغدیر، ج ۱۸،ص۳۷ و ۴۰؛ اخبار مدینة الرسول،ص۱۵۶ بہ نقل از آثار اسلامی مکّہ و مدینہ، ص۳۵۰-۳۵۱، رسول جعفریان.
دینوری، امامت و سیاست(ترجمہ فارسی)، ص۶۴. نیز مراجعہ کریں: ابن عبدالبر، الاستيعاب،ج‏3،ص:1046
دینوری، امامت و سیاست (ترجمہ فارسی)، ص۶۹.
دینوری، امامت و سیاست(ترجمہ فارسی)، ص۷۶.
مراجعہ کریں: دینوری، امامت و سیاست (ترجمہ فارسی)، ص۶۱.
دینوری، امامت و سیاست(ترجمہ فارسی)، ص۷۶.
دینوری، امامت و سیاست(ترجمہ فارسی)، ص۶۱.
مراجعہ کریں: ابن مزاحم، وقعة صفين/ترجمہ،ص:271.
مراجعہ کریں: دینوری، امامت وسیاست/ترجمہ،ص:۱۱۰.

مآخذ
ابن عبدالبر(م. ۴۶۳)، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،‌دار الجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
مقدسی(م. ۵۰۷)، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بور سعید، بی‌تا
ابن مزاحم، نصر (م ۲۱۲) ، وقعۃ صفین، ترجمہ پرویز اتابكی، تہران، انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، چ دوم، ۱۳۷۰ش.
دینوری، احمد بن داوود (م ۲۸۲) ، الأخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال،قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
ابن اثیر(م ۶۳۰)، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت،‌دار الفکر، ۱۴۰۹/۱۹۸۹.
ابن جوزی(م ۵۹۷)، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت،‌دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
واقدی، محمد بن عمر(م ۲۰۷)، کتاب المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، ط الثالثۃ، ۱۴۰۹/۱۹۸۹.
رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران: امیرکبیر، ۱۳۶۹ش.
دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.
دینوری، ابن قتیبہ (۲۷۶) ، امامت و سیاست (تاریخ خلفاء) ، ترجمہ سید ناصر طباطبایی، تہران، ققنوس، ۱۳۸۰ش.
طبری، محمد بن جریر(۳۱۰ق)، تاریخ الطبری،‌دار التراث، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۳۸۷ ق.
دایرۃالمعارف اسلام(انگلیسی)، ذیل مدخل ‘UTHMAN B. ‘AFFAN.
ابن اثیر(م.۶۳۰ق.)أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت،‌دار الفكر، ۱۹۸۹م.
دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.
رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران: امیرکبیر، ۱۳۶۹.
سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفاء، تحقیق: لجنۃ من الادباء، توزیع‌دار التعاون عباس احمد الباز، مکۃ المکرمۃ.
صنعانی، أبو بكر عبد الرزاق (۲۱۱ق)،المصنف، المحقق حبیب الرحمن الأعظمی، المكتب الإسلامی، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۴۰۳ق.
دارمی، عبد اللہ بن عبد الرحمن(۲۵۵ق) ، مسند الدارمی، تحقیق حسین سلیم أسد الدارانی،‌دار المغنی للنشر والتوزیع، المملكۃ العربیۃ السعودیۃ، الطبعۃ الأولی، ۱۴۱۲ق.
متقی ہندی، علی بن حسام(۹۷۵ق) ،، کنزالعمال، المحقق بكری حیانی، صفوۃ السقا، مؤسسۃ الرسالۃ، الطبعۃ الطبعۃ الخامسۃ، ۱۴۰۱ق.
ہاشمی بصری(م.۲۳۰ق.) ، الطبقات الكبری،، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت،‌دار الكتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۰/۱۹۹۰

Related Articles

Back to top button