امام مہدی علیہ السلامدانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

عقیدہ مہدویت پر ایک تحقیقی نظر

(تحریر: محمد حسن جمالی)

مھدی موعود پر عقیدہ رکھنا مکتب تشیع کے نزدیک امامت کی مباحث میں محکم اور اساسی اصول شمار ہوتا ہےـ یہ اجمالی طور پر تمام مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ ہے۔ ہر وہ شخص جو احادیث کی تھوڑی سا بھی شُد بُد رکھتا ہو وہ اس حقیقت سے آگاہ ہےکہ پیغمبر اکرمؐ، آئمہ ھدٰی (ع) اور آپ کے اصحاب نے آخری زمانے میں امام مھدی ؑ کے ظہور کی بشارت دی ہے، جو دنیا سے ظلم اور جہالت کا خاتمہ کرکے اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے، وہ دین برحق کا کھل کر اظہار کریں گے، چاہے مشرکین ناپسند ہی کیوں نہ کریں۔ پیغمبر اکرم (ص) سے یہ ارشاد گرامی متعدد طرق سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا، اگر دنیا کی عمر ایک دن سے زیادہ باقی نہ رہے تو بھی اللہ تعالٰی اس ایک دن کو یہاں تک طولانی کرے گا کہ میری نسل سے ایک مرد (امام مھدی) ظہور کریں گے جو زمین ظلم و جور سے پر ہونے کے بعد اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ مسلمانوں کے درمیان امام مھدی کے بارے میں اختلاف آپ کی ولادت میں ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ امام مھدی ؑ کون ہے؟ وہ امام حسن کی نسل سے ہے یا امام حسین کی نسل سے؟ وہ آخری زمانے میں پیدا ہوں گے یا ابھی زندہ ہیں؟ اس حوالے سے اہلسنت مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ امام مھدی کی ولادت ابھی نہیں ہوئی وہ پیدا ہوں گے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ جب ہم ہرچیز سے قطع نظر انصاف کی عینک سے مسئلہ مھدویت پر نگاہ کرتے ہیں تو اسے قبول کرکے تصدیق کرنے میں، اور اس کے عدم رد کے حوالے سے ہمیں کوئی مشکل دکھائی نہیں دیتی، بلکہ فراوان دلائل اور بہت ساری روایات مسئلہ ظہور مھدویت کی تائید کرتی ہیں، جن کے راوی مسلمان اور امین تھے اور جن کتابوں سے انہیں نقل کیا ہے وہ معتبر ہیں۔ مثال کے طور پر ترمذی، رجال تخریج و حکم (جو نقل حدیث کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی کتابیں حدیث کے معتبر منابع میں شمار ہوتی ہیں)۔ اس کے علاوہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی ایسی روایات موجود ہیں جن کے مضامین مسئلہ مھدویت کے لئے سند بن سکتے ہیںـ بطور نمونہ صحیح مسلم کے اندر ایک حدیث ہے جو حدیث جابر سے معروف ہے، جس کا ایک حصہ یہ ہے، "ان کے امیر و فرماندہ (عیسٰی) ان کو آگے بڑھ کر نماز پڑھانے کا حکم دیں گے”۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ کی حدیث کے بعض جملے یہ ہیں، اس وقت تمہارا حال کیا ہوگا جب مسیح فرزند مریم تمہارے درمیان اتریں گے درحالیکہ آپ کا امام آپ میں سے ہی ہوگاـ پس کوئی مانع نہیں وہ امیر (مذکورہ کتاب صحیح مسلم) یا وہ امام (مذکورہ صحیح بخاری کی روایت میں) مھدی آخر الزمان ہو۔ اس کے علاوہ گذشتہ بہت سارے علماء نے اس کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ مسلمانوں کے اس عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے شروحات اور تقریرات لکھی ہیں۔

شیعہ امامیہ کے عقیدے کے مطابق 255 ہجری کو سر من رای (سامرا) میں امام مھدی (ع) دنیا میں تشریف لا چکے ہیں اور 260 ہجری کو جب آپ ؑ کے پدر بزرگوار اس دنیا سے چلے گئے، اسی وقت آپ ؑحکم الٰہی سے پردہ غیبت میں چلے گئے ہیں۔ یقینا دنیا میں عدل و انصاف کو مجسم کرنے کے لئے اللہ تعالی اسے ظاہر کیا جائے گا۔ یہاں ہم امام مھدیؑ کے بارے میں شیعہ سنی سے منقول روایات کی فہرست بیان کرنے پر اکتفا کریں گے۔
1۔ آپ ؑ کے ظہور کی بشارت کے بارے میں۔۔ 657 حدیث
2۔ آپ ؑ اہل بیت نبی اکرم ؐ سے ہے۔۔۔۔۔389 حدیث
3۔ آپ ؑ امام علی ؑ کے فرزندوں میں سے ہے۔۔۔ 214 حدیث
4۔ آپ ؑ فاطمۃ الزھراء کے فرزندان میں سے ہے۔۔۔ 192 حدیث
5۔ وہ اولاد امام حسین ؑ میں سے نواں فرزند ہے۔۔ 148 حدیث
6۔ وہ امام زین العابدین کی اولاد میں سے ہے۔۔۔ 185 حدیث
7۔ وہ امام حسن العسکری کی اولاد میں سے ہے ۔۔۔ 146 حدیث
8۔ وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔۔۔ 132 حدیث
9۔ وہ طولانی غیبت کے حامل ہوں گے۔۔۔ 91 حدیث
10۔ وہ طولانی عمر کے حامل ہوں گے۔۔۔ 318 حدیث
11۔ وہ آئمہ اہل بیت کا بارہواں امام ہوں گے۔۔ 136 حدیث
12۔ ان کے ظہور کے بعد اسلام پوری کائنات میں عام ہوگا۔۔۔ 27 حدیث
13۔ ان کی ولادت کے بارے میں ۔۔۔۔۔ 214 حدیث۔

اہلسنت کے فقط انگشت شمار علماء نے امام مھدی ؑ سے مربوط احادیث کو کمزور کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے، جیسے احمد مصری نامی شخص نے ایک رسالہ "الھدی والمھدویہ” کے عنوان سے لکھا ہے جس میں بزعم خود امام مھدی ؑسے مربوط احادیث کو رد کیا ہے، اس نے سنت و احادیث سے جہالت و عدم آگاہی کی وجہ سے وہ تمام احادیث جو حد تواتر سے بالاتر ہیں سے بھی انکار کیا ہے۔ اسی طرح ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے مقدمے میں لکھا ہے، استاد احمد محمد صدیق کے قول کو رد کرنے کی غرض سے میں نے ایک رسالہ لکھا ہے جس کا عنوان یہ ہے "ابراز الوھم المکنون من کلام ابن خلدون” بعض اہل سنت محققیین نے ابن خلدون کے توہم کے رد میں یوں کہا ہے، اس مورد میں مشکل فقط ایک دو حدیث میں نہیں بلکہ یہ احادیث کے ایک پورے مجموعے پر مشتمل ہے، جن کی تعداد تقریبا 80 تک پہنچ جاتی ہے اور 100 سے زیادہ راویوں نے جن کو نقل پر اجماع کیا ہے، پس کس دلیل سے اتنی بڑی تعداد احادیث کو ہم رد کرسکتے ہیں؟ کیا وہ سارے فاسد تھے؟ اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ وہ سب کے سب فاسد تھے، تو اس کا نتیجہ دین کی نابودی ہے، کیونکہ راوی فاسد ہونے کا شک اور گمان پیغمبر اکرم ؐ کی ان ساری سنتوں میں بھی سرایت کرجاتے ہیں، جو آنحضرتؐ سے ہم تک پہنچی ہیں۔ یاد رہے علماء اہلسنت کی اکثریت نہ فقط مھدویت پر عقیدہ رکھتی ہے بلکہ امام مھدی کے بارے میں اکثر نے شاہکار کتابیں لکھ ڈالی ہیں، جیسے حافظ ابو نعیم اصفہانی نے صفۃ المھدی تالیف کی ہے، کنجی شافعی صاحب کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان، ملا علی متقی صاحب "البرھان فی علامات مھدی آخر الزمان”، عباد بن یعقوب رواجنی صاحب کتاب "اخبار المھدی”، سیوطی صاحب "اکعرف الوردی فی اخبار المھدی”، ابن حجر صاحب کتاب "القول المختصر فی علامات المھدی المنتظر”، شیخ جمال الدین الدمشقی صاحب کتاب "عقد الورد فی اخبار الامام المنتظر” وغیرہ۔

امام مھدی ؑ کی حیات مبارکہ اور امامت سے متعلق کچھ اہم سوالات اور ان کے جوابات:
1ـ جو غائب ہو وہ کیسے امام بن سکتا ہے؟ امام کو معین کرنے کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ امامت و رہبری کی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سرانجام دے۔ یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے کہ امام، امت کے درمیان موجود ہو اور لوگ اسے مشاہدہ کریں۔ بنا برایں جو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو وہ امام کیسے بن سکتا ہے؟
جواب: مختلف صورتوں میں اس اعتراض کا جواب دیا جاسکتا ہے جیسے:
1۔ غیبت کے زمانے میں وجود امام کے فوائد کا ہمیں علم نہ ہونا اس کے مفید نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ دینی اور علمی مسائل کی تحلیل میں نادانی اور جہالت کے بڑے مصادیق میں سے ایک یہ ہے کہ انسان عدم العلم کو علم بالعدم کا قائم مقام قرار دےـ یعنی کسی چیز کے نہ جاننے کو اس شئی کا نہ ہونا سمجھے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان عالم تکوین اور تشریع میں موجود بہت سارے اہم امور کو سمجھنے پر قادر نہیں۔ نیز قوانین الٰہی کی بہت ساری مصلحت و حکمت کو انسان نہیں سمجھتا، لیکن فعل الٰہی عبث و لغو سے منزہ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ صحیح طور پر جو قوانین و احکام الٰہی ہم تک پہنچے ہیں، ہم انکے سامنے سرتسلیم خم کریں۔

2۔ غیبت کا لازمہ یہ نہیں کہ غائب انسان مطلق طور پر تصرف نہیں کرسکتا ہے جس کی قرآنی مثال یہ ہے ایک ایسا شخص جو اولیاء الٰہی میں سے تھا، حضرت موسٰی کا ہمسفر ہوا اور اللہ کے بڑے نبی نے بعض مسائل کی فہم کے لئے اس کی پناہ لی جسے قرآن مجید نے یوں حکایت کی ہے: "فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا آتَيْناهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنا وَ عَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْماً قالَ لَهُ مُوسى‏ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلى‏ أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْداً” تو اس جگہ ہمارے بندوں میں سے ایک ایسے بندے کو پایا، جسے ہم نے ہم اپنی طرف سے رحمت عطا کی تھی اور اپنے علم خاص میں سے ایک خاص علم کی تعلیم دی تھی۔ موسی نے اس بندے سے کہا کہ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے اس علم میں کچھ تعلیم کریں جو رہنمائی کا علم آپ کو عطا ہوا ہے”ـ پس کونسی چیز مانع ہے کہ امام غائب بھی ہر شب وروز اسی قسم کے تصرفات انجام دیں ؟ اس مطلب کا مؤید وہ روایات ہیں جو بتاتی ہیں کہ امام مھدی ؑ حج کے ایام میں حاضر ہوتے ہیں، حج کرتے ہیں، لوگوں کی ہمراہی کرتے ہیں اور مجالس میں حاضر ہوجاتے ہیں ۔

3۔ غیبت کے زمانے میں یہ بات تو مسلم ہے کہ امام زمانہ تک عام لوگوں کی رسائی ممکن نہیں لیکن یہ بات مسلم نہیں کہ خواص بھی امام مھدی تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے، بلکہ روایات اس کے برخلاف دلالت کرتی ہیں پس وہ اللہ کے صالح افراد امام زمانہ کی ملاقات سے شرفیاب ہوکر ان سے استفادہ کرسکتے ہیں، جن کے توسط سے امت بھی ان سے مستفید ہو سکتی ہےـ چنانچہ کتابوں میں امام زمانہ کے حضور مشرف ہونے والے اولیاء الٰہی کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔
4۔ دینی اور ظاہری امور میں تصرف کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ امام مھدی ؑخود حضوری شکل میں اقدام کریں، بلکہ امام یہ کام کرسکتے ہیں کہ اپنی طرف سے کسی کو متولی بناکر امور میں تصرف کروائیں۔ چنانچہ امام مہدی (ارواحنالہ الفدا) نے اپنے غیبت کے زمانے میں ایسا ہی کیاـ آپ ؑنے اپنی غیبت صغرا (260۔ 329 ہجری) کے زمانے میں چار نفر کو اپنا وکیل بنایا، جنہوں نے لوگوں کے حوائج کی رسیدگی کی اور ان کے ذریعے لوگوں کا ارتباط امام زمانہ سے برقرار رہاـ اسی طرح غیبت کبرٰی کے زمانے میں بھی آپ ؑ نے قضاوت، حدود اور امور سیاست کے اجراء کے لئے احکام الٰہی سے آگاہ عالم، عادل، فقھاء و علماء کو منصوب فرمایا اور ان کو لوگوں پر حجت قرار دیاـ چنانچہ آپ ؑ کی توقیع شریف میں اس طرح بیان ہوا ہے، "و أمّا الحوادث‏ الواقعة فارجعوا فيها إلى رواة أحاديثنا؛ فإنّهم حجّتى عليكم و أنا حجّة اللّه عليهم۔” امام مہدی ؑ نے اپنے بعض نائبوں کے نام بھیجی ہوئے اپنی آخری توقیع میں ان کی طرف اشارہ فرمایا ہے، میری غیبت کے زمانے میں مجھ سے استفادہ کرنے کا طریقہ سورج سے استفادہ کرنے کی مانند ہے، جب وہ بادل کے پیچھے غائب ہوجاتا ہے اور بادل کی وجہ سے لوگ سورج کو مشاہدہ نہیں کر پاتے۔

2۔ امام مہدی ؑ کیوں غائب ہیں؟امت کے درمیان امام کا حاضر اور ظاہر رہنا ایسے فوائد کا حامل ہے جو اس کی غیبت کے زمانے میں حاصل نہیں ہو جاتے، پس امام مھدی ؑ پردہ غیبت میں کیوں ہیں؟ جس کی وجہ سے لوگ آپ کے وجود سے استفادہ کرنے سے محروم ہوگئے، وہ کونسی مصلحت تھی جس کی وجہ سے آپ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہے ہیں؟
جواب: اس سوال کا دو طرح سے جواب دیا جا سکتا ہے، ایک جواب نقضی اور دوسرا حلی۔
نقضی جواب: وہی نکتہ ہے جو پہلے سوال کے جواب میں بیان ہوچکا یعنی عقل کی ناتوانی کی وجہ سے اگر کوئی امام مھدی ؑ کی غیبت کے اسباب کو درک نہ کر سکے تو یہ روایات متضافر سے انکار کرنے کا سبب نہیں بننا چاہیئےـ سزاوار یہ ہے کہ ہم ان متواتر روایات کو رد کرنے کے بجائے اپنے قصور فہم کا اعتراف کریں۔
حلی جواب: غیبت سے مربوط روایات میں غور کرنے والوں کے لئے غیبت کے اسباب آشکار ہو جاتے ہیں، کیونکہ امام مھدی ؑ ان بارہ اماموں میں سے آخری امام ہیں جن کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) نے بشارت دی تھی اور اسلام کی عزت کو ان کے ساتھ مشروط کیا تھا۔ واضح سی بات تھی کہ اسلامی نام نہاد حکمران ان کے مقام کو تحمل نہیں کرسکتے تھے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے آئمہ ھدی کی عظمت و شوکت اور منزلت کی تاب نہ لاتے ہوئے انہیں زندانوں میں قید کیا، تلوار سے انہیں شہید کرکے ان کے پاکیزہ خون سے اپنے نجس ہاتھوں کو رنگین کیا اور انہیں زہر دے کر شہید کیاـ اگر امام مھدی ؑظاہر رہتے تو یقینا اس نور کو بھی خاموش کرنے کے لئے دشمن قتل کا اقدام کرتے اسی جہت سے مصلحت کا تقاضا یہ تھا ہے کہ آپ ؑ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہیں۔ امام زمانہ لوگوں کو دیکھ لیتے ہیں اور لوگ بھی انہیں دیکھ تو لیتے ہیں مگر انہیں نہیں پہچانتے، جب تک مشیت الٰہی سے وہ ظہور نہ کریں ۔ آپ کا ظہور اس وقت ہوگا جب اسے قبول کرنے، اس کی اطاعت کے زیر سایہ روشن ہونے کے لئے عالم میں خاص استعداد پیدا ہوگی، تاکہ اللہ تعالی کا وہ وعدہ پورا ہوجائے جو ساری امتوں سے دے رکھا ہے یعنی زمین کے وارث مستضعفان ہوں گے۔ بعض روایات میں بھی اس نکتے کی جانب اشارہ ہوا ہے۔ زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر ؑ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے، "قائم کے لئے قیام کرنے سے پہلے ایک غیبت ہے، میں نے پوچھا کیوں؟ فرمایا خوف کی وجہ سے”ـ زرارہ کہتے ہیں، امام باقر ؑ کے خوف سے مراد قتل ہونے کا خوف ہونا ہےـ دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے، "اپنی جان کی قسم ذبح ہونے سے ڈرتے ہیں”۔

3۔ امام مہدی ؑ اور طول عمر، امام مہدی ؑ کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات میں سے ایک غیبت کے زمانے میں آپ ؑ کی عمر کی طولانی سے متعلق ہے۔ امام مھدی 255 ھ کو متولد ہوئے ہیں، بنابرایں ولادت سے لیکر آج تک آپ کی عمر شریف 1150 سال سے زیادہ بنتی ہے تو کیا علمی اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ کوئی انسان اتنی طولانی عمر کا حامل ہو ؟
اس سؤال کا بھی دو طرح سےجواب دیا جا سکتا ہےـ جواب نقضی اور جواب حلی۔
نقضی جواب: نقضی جواب یہ ہے کہ قرآن نے واضح طور بیان کیا ہے کہ حضرت نوح نے ایک ہزار سال عمر پائی ہے، "فَلَبِثَ‏ فِيهِمْ‏ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً” کتاب توریت میں بھی بہت سارے افراد معمّرین کا ذکر آیا ہےـ سفر تکوین میں ان کے حالات کا ذکر آیا ہے۔ مسلمانوں نے بھی معمرین کے بارے میں کتابیں تالیف کی ہیں، جیسے کتاب معمرین مؤلف ابو حاتم سجستانی، شیخ صدوق نے اپنی کتاب کمال الدین میں طولانی عمر پانے والے افراد کی کچھ تعداد کا نام ذکر کیا ہے۔ علاّمہ کراجکی نے امام زمانہ کی طولانی عمر کی صحت پر مستقل رسالہ تحریر کیا ہے۔ اسی طرح علاّمہ مجلسیؒ نے بحارالانوار میں اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔

حلی جواب: امام کی طولانی عمر پر سؤال اٹھانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سؤال کرنے والا قدرت الٰہی کی وسعت سے نابلد ہے، "وما قدروالله حقّ قدره” انہوں نے اللہ کو درست نہیں پہچانا ہے، جب حیات، غیبت اور ان جیسے دوسرے امور الطاف الٰھی اور عنایت خدا کا عطیہ ہیں تو کیا حرج ہے، خدا امام زمانہ کو اپنی مرضی کے مطابق طولانی عمر دیئے رکھے اور انہیں گوارا رزق دے کر مریضی کے اسباب ان سے دور رکھے؟ اس کے علاوہ آج کے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تجربہ کرکے علم طب کے ماہر ڈاکٹروں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر بشر سلامتی کے قواعد و ضوابط کا بھرپور خیال رکھا جائے، تو انسان میں طولانی عمر کا امکان موجود رہتا ہےـ چھوٹی عمر میں موت واقع ہو جانا خود اس کی عمر میں طولانی کا اقتضاء ختم ہو جانے کی وجہ نہیں ہے بلکہ موت کے موانع کا مفقود نہ ہونا ہےـ بالفاظ دیگر انسان کی عمر طولانی ہونے کے لئے کے بنیادی طور پر دو شرط کا موجود ہونا لازم اور ضروری ہے! مقتضی موجود ہو اور مانع موجود نہ ہوـ کم عمری میں جو مرتا ہے تو اس کی علت دوسری شرط کا موجود نہ ہونا ہے۔ امکان طولانی عمر کے بارے میں ڈاکٹروں نے بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیںـ اس مطلب کی جانب قرآن مجید کی یہ آیہ مبارکہ واضح طور پر نشاندہی کر رہی ہے، "فلولا انّہ کان من المسبّحین للبث فی بطنہ الی یوم یبعثون” یعنی اگر حضرت یونس تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک مچھلی کے شکم میں ہی رہ جاتے۔ اس آیہ سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ سمندر کی تہہ میں مچھلی کے پیٹ کے اندر جب روز قیامت تک زندہ رہ سکتے ہیں ـ تو کائنات میں خشکی پر طبیعی فضا میں اللہ تعالی کی حفاظت میں زندہ رہنا ناممکن کیوں ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حوالہ جات:
۔ مسند احمد: 1/99،3/ 17و70 ۔صحیح مسلم : 1/95، باب نزول عیسی۔
۔ صحیح بخاری: 4؟ 168 ، باب نزول عیسی ابن مریم۔
۔ بین یدی الساعۃ، دکتر عبد الباقی ،ص 123۔125۔
۔ کہف/65۔66
۔ کمال الدین، شیخ صدوق، ص 485، باب 45، حدیث 4
۔ کمال الدین، 281، باب حدیث 8،9،10
۔ عنکبوت /14
۔ تورات سفر تکوین، اصحاح پنجم۔
۔ کمال الدین /555
۔ البرہان علی صحۃ طول العمر الامام صاحب الزمان ضمیمہ جلد دوم کنز الفوائد ص، 114۔115
۔ بحارالانوار، 51/225- 293
۔ انعام /91
۔ مجلۃ المقتظف ، تیسرا شمارہ سنہ 59
۔ صافات، 143۔144
۔ کہف/65۔66
۔ عنکبوت /14

Related Articles

Back to top button