مقالات

حضرت آمنہ بنت وہب سلام اللہ علیہا

آمِنہ بنت وَہْب (وفات 46 قبل از ہجرت/576 ء)، رسول خدا ؐ کی والدہ، عبداللہ بن عبدالمطلب کی زوجہ اور قریش کی محترم خاتون ہیں۔ ہجرت سے 54 یا 53 سال پہلے عبداللہ سے شادی ہوئی اور ان کے بطن سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی ولادت ہوئی۔ سنہ 7 عام الفیل میں اپنے فرزند محمد ؐ کو ان کے والد کے قبر کی زیارت اور عبد اللہ کے مامووں سے ملاقات کے لئے، جن کا تعلق قبیلہ بنی نجار سے تھا، مدینہ لے گئیں۔ اس سفر سے واپسی میں مدینہ کے پاس ابواء نامی مقام پر آمنہ نے وفات پائی اور وہیں دفن ہوئیں۔علمائے شیعہ آمنہ اور اجداد پیغمبر ؐ کے ایمان کے سلسلہ میں اتفاق نظر رکھتے ہیں اور منکرین ایمان کے بارے میں تاریخی گزارشات سے استناد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، آنحضرت ؐ ابواء میں اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے۔کتاب ام النبی ؐ بنت الشاطی کی تالیف ہے جو حضرت آمنہ کی سوانح حیات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے جس کا فارسی ترجمہ آمنہ مادر پیامبر کے نام سے ہوا ہے۔

آمنہ بنت وہب
شناختی معلومات
مکمل نام آمنہ بنت وہب
میلاد/مولد 76 سال قبل از ہجرت/ 63 سال قبل از بعثت/23 سال قبل از عام الفیل، مکہ
مسکن مکہ
نسب قریشیہ
نامور اقرباء عبداللہ بن عبدالمطلب (زوجہ)، پیغمبر اکرم ؐ (فرزند)
تاریخ و مقام وفات سنہ 7 عامل الفیل، مکہ اور مدینہ کے درمیان بمقام ابواء
سبب وفات علالت
مدفن منطقۂ ابواء
دینی معلومات
اعتقادی کیفیت صاحب ایمان
کردار
پیغمبر اسلام ؐ کی والدہ

سوانح حیات

آمنہ قبیلۂ قریش سے تھیں جن کے والد وہب قریش کی ایک بڑی شاخ بنی زہرہ کے بزرگ تھے۔ ان کی والدہ برہ بنت عبد العزی نیز قرشی تھیں۔[1]رسول اکرمؐ کے والد گرامی عبداللہ سے شادی کرنے سے پہلے آمنہ کی زندگی کے بارے میں کوئی خاص معلومات موجود نہیں؛ البتہ کہا جاتا ہے کہ آپ کی ولادت مکہ میں ہوئی تھی۔[2] ہجرت سے 53 یا 54 سال پہلے انہوں نے عبداللہ بن عبدالمطلب سے شادی کی۔[3] شادی کے مراسم تین شب و روز جاری رہا جس کے دوران رسم کے مطابق عبد الله دلہن کے گھر مقیم رہے۔[4]

وفات شوہر

آمنہ سے شادی کے چند روز بعد عبداللہ آمنہ کے ہمراہ تجارتی سفر پر گئے جس سے واپسی کے دوران یثرب میں ان کی وفات ہوئی۔[5] عبداللہ نے قربانی کے واقعے کے ایک سال بعد آمنہ سے شادی کی تھی۔[6]عبدالمطلب نے نذر کی تھی کہ اگر خدا نے انہیں دس بیٹے عطا کیا تو دسویں کو خدا کی راہ میں قربان کرینگے لیکن آخر کار عبداللہ کی جگہ اونٹ کی قربانی دے کر عبدالمطب نے اپنی منت پوری کی۔[7] جبکہ بعض دیگر تاریخی روایات کے مطابق عبد اللہ کی وفات رسول خدا کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد ہوئی ہے۔[8]

ولادت رسول خدا

آمنہ نے رسول خدا کی ولادت کے بعد انہیں حلیمہ سعدیہ کے حوالے کیا۔[9] شیعہ مکتب میں مشہور قول کی بنا پر 17 ربیع الاول عام الفیل، کو آمنہ کے ہاں پیامبرؐ کی ولادت ہوئی جبکہ اہل سنت کے نزدیک آپ کی ولادت 12 ربیع الاول کو ہوئی۔[10] ابن ہشام (متوفی ۲۱۳ یا ۲۱۸ ھ) کی السیرۃ النبویہ کے مطابق چونکہ حضرت محمد یتیم تھے اور کوئی ان کی سرپرستی قبول نہیں کر رہا تھا۔ اسی وجہ سے حلیمہ نے بھی شروع میں اس سے عذر خواہی کی لیکن جب اسے کوئی اور بچہ نہیں ملا تو رسول اللہ کو قبول کیا۔[11] حلیمہ دو سال کے بعد رسول اللہ کو آمنہ کے پاس لائی اور آپ ؐ سے برکات کے آثار کے مشاہدہ کی بنا پر حضرت آمنہ سے کچھ عرصہ اور اپنے پاس رکھنے کی درخواست کی۔[12] یوں آمنہ نے عام الفیل کے چھٹے سال اور دو دن اپنے پاس رکھنے کے بعد حضور اکرمؐ کو آپ کی والدہ آمنہ کے حوالے کیا۔[13]

وفات

حضرت آمنہ عام الفیل کے ساتویں سال اپنے بیٹے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو ان کے والد کی قبر کی زیارت اور عبداللہ بن عبدالمطلب کے بنی نجار کے رشتے داروں سے ملاقات کیلئے مدینہ لے گئیں۔ مشہور قول کی بنا پر مدینہ سے واپسی کے دوران ابواء کے مقام پر حضرت آمنہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں[14] اور وہیں دفن ہوئیں۔[15] ایک قول کے مطابق مکہ میں وفات کے بعد شعب دُب (قبرستان معلاۃ) میں مدفون ہیں۔ ابن اثیر اسے زیادہ صحیح سمجھتا ہے۔[16] تیسری صدی ہجری کا مؤرخ یعقوبی نے وفات کے وقت آپ کی عمر ۳۰ برس ذکر کی ہے۔[17]

محمد بن عمر واقدی (متوفا ۲۰۷ یا ۲۰۹ ھ) کے مطابق قریش نے بدر کے اپنے مقتولوں کی خونخواہی میں مدینہ کا ارادہ کیا تو ابوا کے مقام پر پہنچ کر ان کے ایک گروہ نے آمنہ کی نبش قبر کا ارادہ کیا لیکن ابوسفیان کے دیگر بزرگوں سے مشورے کے بعد اس کام سے ہاتھ کھینچ لیا۔[18] رسول اکرم ابواء میں اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کرتے تھے۔[19] ان واقعات میں سے ایک واقعہ حدیبیہ کا ہے جس کے موقع پر اپنی والدہ کی قبر پر آپ کا حاضر ہونا اور گریہ کرنا نقل ہوا ہے۔[20]

دوسری جانب مکہ میں قبرستان حجون میں ان سے منسوب ایک قبر ہے۔[21] نیز تاریخی روایات میں مکہ کے راستے میں بھی ایک قبر کی طرف اشارہ ہے لیکن اہل سنت عالم ابن سعد اسے درست نہیں سمجھتا ہے۔[22] کہا گیا ہے کہ حکومت عثمانی کے دور میں مکہ کے راستے میں موجود اور ابواء میں موجود قبریں بقعہ پر مشتمل تھیں مگر اسے بعد میں خراب کر دیا گیا۔[23]

ایمان

معاصر تاریخ دان محمد ابراہیم آیتی (۱۳۴۳ شمسی) کے بقول آمنہ، ابو طالب، عبداللہ بن عبدالمطلب نیز حضرت محمد کے حضرت آدمؑ تک کے اجداد کے صاحب ایمان پر ہونے پر شیعہ علما کا اجماع ہے۔[24] اسی طرح الکافی میں مذکور روایت کے مطابق اجداد پیامبر، انکے والد والدہ اور جس نے انکی کفالت کی یعنی ابو طالب پر آتش جہنم حرام ہے۔[25]

اہل سنت کے عقیدے کے مطابق پیغمبر کے والدین اور اجداد مشرک تھے۔ نویں صدی ہجری کے مفسر جلال‌الدین سیوطی سورہ توبہ کی آیت ۱۱۳ مَا کانَ لِلنَّبِی وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِکينَ وَلَوْ کانُواْ أُوْلِی قُرْبَی مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ [نوٹ 1] اور ۱۱۴ کی آیت وَمَا کانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاہِيمَ لِأَبِيہِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَۃٍ وَعَدَہَا إِياہُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَہُ أَنَّہُ عَدُوٌّ لِلّہِ تَبَرَّأَ مِنْہُ إِنَّ إِبْرَاہِيمَ لأوَّاہٌ حَلِيمٌ [نوٹ 2] کے شان نزول میں مروی دو احادیث سے استناد کرتے ہوئے رسول خدا کی والدہ کے مشرک ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔[26]

علامہ امینی امام علی ؑ سے منقول شان نزول کی بنا پر ان آیات کے شان نزول کو ان اصحاب سے متعلق سمجھتے ہیں جو اپنے مشرک والدین کیلئے استغفار کرتے تھے اور یہ آیت ابو طالب یا آمنہ سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتی ہے۔[27] اسی طرح علامہ امینی نے کہا ہے کہ بعض مفسرین جیسے طبری[28] نے ان آیات میں استغفار کی تفسیر مردہ پر نماز میت پڑھنے سے کی ہے۔[29] نیز علامہ امینی نے ان روایات کے جعلی و ساختگی اور راویوں کے موثق نہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔[30]

شیخ عباس قمی سورہ توبہ کی آیت نمبر ۸۴ وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ ﴿٨٤﴾ [نوٹ 3] سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا نے رسول کو مشرکوں اور کافروں کی نماز پڑھنے اور ان کے سرہانے کھڑے ہونے سے منع کیا ہے اور دوسری جانب رسول اللہ اپنے چچا اور والدہ کی قبر کی زیارت کیلئے جاتے تھے لہذا آپ کے چچا اور والدہ کی نسبت شرک کا موضوع منتفی ہے۔[31]

مونوگرافی

کتاب "ام النبیؐ” عربی زبان میں حضرت آمنہ کی حالات زندگی پر لکھی گئی کتاب ہے جس کے مؤلفہ مصر کی رہنے والی عائشہ بنت‌ الشاطی (متولد ۱۳۳۱ ھ/۱۹۱۳ ء) ہے۔[32] مذکورہ کتاب تراجم سیّدات بیت النبوۃ کے مجموعے کا حصہ ہے اسے بنت‌ الشاطی نے خاندان پیامبر کی خواتین کے متعلق تالیف کیا ہے۔[33] سید محمد تقی سجادی نے اس کتاب کو آمنہ مادر پیامبر ؐ کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے جو سال ۱۳۵۹ شمسی میں طبع ہوئی ہے۔[34]

حوالہ جات

  1.  مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۵-۶.
  2.  بنت الشاطی، آمنہ مادر پیامبر، ۱۳۷۹ش، ص۷۴.
  3.  ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱۳۷۵ق، ج۱، ص۱۵۶.
  4.  نویری، نہایۃ الارب، دارالکتب و الوثایق القومیہ، ج۱۶، ص۵۷.
  5.  زرقانی، شرح المواہب اللدنیۃ، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۰۷-۲۰۶.
  6.  یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۹.
  7.  ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱۳۷۵ق، ج۱، ص۱۵۱-۱۵۵.
  8.  دیکھیں: آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۱.
  9.  ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱۳۷۵ق، ج۱، ص۱۶۲-۱۶۳.
  10.  نگاہ کنید بہ: آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۳.
  11.  ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱۳۷۵ق، ج۱، ص۱۶۲-۱۶۳.
  12.  ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱۳۷۵ق، ج۱، ص۱۶۴-۱۶۳
  13.  ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۹.
  14.  دیکھیں: ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۰.
  15.  مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ ق، ج۱، ص۱۳.
  16.  ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۲.
  17.  یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۰.
  18.  واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۰۶.
  19.  محدث قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۱۷۱.
  20.  ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۹۴.
  21.  کردی، التاریخ التقویم، ج۱، ص۷۴: بنقل از جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۹۲.
  22.  ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۹۴.
  23.  کردی، التاریخ التقویم، ج۱، ص۷۴: بنقل از جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۱۳۸۲ش، ص۳۹۲.
  24.  آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۲.
  25.  کلینی، الکافی، ۱۳۸۸ق، ج۱، ص۴۴۶.
  26.  سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۳، ص۲۸۳ و ۲۸۴.
  27.  امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۸، ص۲۷.
  28.  دیکھیں: طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۱، ص۳۳.
  29.  امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۸، ص۲۷.
  30.  امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۸، ص۱۸-۱۹.
  31.  محدث قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۱۷۱.
  32.  سجادی، آمنہ مادر پیامبر، ۱۳۷۹ش، مقدمہ چاپ سوم
  33.  تراجم سيدات بيت النبوۃ – تراجم سیدات بیت النبوۃ
  34.  سجادی، آمنہ مادر پیامبر، ۱۳۷۹ش، مقدمہ چاپ سوم

مآخذ

  • قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی)۔
  • آیتی، محمدابراہیم، تاریخ پیغمبر اسلام، تجدید نظر و اضافات از: ابوالقاسم گرجی، انتشارات دانشگاہ تہران، تہران، 1378 ہ‍ ش
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، دار صار، بیروت.
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد بجاوی، دارالجیل، بیروت.
  • ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل، السيرۃ النبويۃ لابن کثیر، مصطفی عبدالواحد، دارالمعرفۃ، بیروت لبنان ۔ 1396 ہ‍ / 1987 ع‍
  • ابن ہشام، أبو محمد عبد الملك، السیرۃ النبویۃ، محقق: ابراہیم ابیاری، مصطفی سقاء، عبدالحفیظ شبلی، دارالمعرفۃ، بیروت.
  • الآلوسي، السید محمود البغدادی، روح المعاني فی تفسير القرآن العظیم و…، المحقق: شکری الآلوسی، دار إحیاء التراث العربی، بیروت لبنان
  • الأمینی، عبد الحسین، الغدیر، ترجمہ اکبر ثبوت، چاپ پنجم، بنیاد بعثت، تہران، 1391 .
  • الرازی، محمد فخرالدین بن ضیاء الدین عمر (544-604 ہ‍)، تفسیر مفاتیح الغیب (المعروف بـ التفسیر الکبیر)، دارالفکر بیروت 1401 ہ‍ / 1981 ع‍
  • الراوندي، قطب الدین ابوالحسین سعید بن عبد اللہ بن حسین بن ہبۃ اللہ الکاشانی (متوفای 573 ہ‍)، الخرائج والجرائح، تحقيق: مؤسسۃ الامام المہدي عليہ السلام قم المقدسۃ 1408 ہ‍
  • السہيلي، عبد الرحمن بن عبد اللہ الخثعمي، الروض الأنف في تفسير السيرۃ النبويۃ لابن ہشام، المحقق: مجدي بن منصور، دار الكتب العلميۃ، بیروت ـ لبنان 1967 ہ‍
  • القسطلاني، أحمد بن محمد (851 – 923 ہ‍)، المواہب اللدنيۃ بالمنح المحمديۃ، المحقق : مأمون بن محي الدين الجنان، بیروت: دار الكتب العلميۃ، الطبعۃ : الأولى ، 1416 ہ‍ / 1996 ع‍.
  • السیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، قم.
  • الصالحي الشامي، محمد بن يوسف، سبل الہدى والرشاد في سيرۃ خير العباد، ت عادل احمد عبد الموجود ـ علي محمد معوض، دار الكتب العلميۃ بيروت – لبنان الطبعۃ الأولى 1414 ہ‍ / 1993 ع‍
  • الطبرسي، الفضل بن الحسن، مجمع البيان في تفسير القران، تحقیق: السيد محسن الامين العاملي، منشورات مؤسسۃ الاعلمي للمطبوعات بيروت – لبنان 1415 ہ‍‍ / 1995 ع‍
  • الطبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن (تفسیر طبری)، دارالمعرفۃ، بیروت.
  • بنت الشاطئ، عائشۃ عبدالرحمن، آمنہ مادر پیغمبر ؐ، ترجمہ: سید محمدتقی سجادی، چاپ سوم، موسسہ انتشارات نبوی، تہران، 1379 ہ‍ ش
  • النيسابوري، نظام الدين القمي، تفسير غرائب القرآن ورغائب الفرقان، بيروت محقق: شیخ زكریا بيروت، دار الكتب العلميۃ
  • نویری، احمد بن عبدالوہاب، نہایۃ الارب فی فنون الادب، دارالکتب و الوثایق القومیہ، قاہرہ.

أبو نعيم الأصبہاني، احمد بن عبد اللہ بن احمد بن اسحق بن مہران المہرانی، دلائل النبوۃ، المحقق: محمد رواس قلعہ جي و عبد البر عباس، دار النفائس، بیروت، 1406 ہ‍ / 1986 ع‍

  • الصدوق (المتوفی 381 ہ‍)، الامالي: قم، البعثہ، 1417 ہ‍
  • المقريزي (المتوفی 845 ہ‍)، امتاع الاسماع، تحقیق: محمد عبدالحميد، بيروت، دار الكتب العلميہ، 1420 ہ‍
  • ابن سعد (المتوفی 230 ہ‍)، الطبقات الكبري، تحقیق: محمد عبدالقادر، بيروت، دار الكتب العلميہ، 1418 ہ‍
  • ابن عساكر (المتوفی 571 ہ‍)، تاريخ مدينۃ دمشق،، تحقیق: علي شيري، بيروت، دار الفكر، 1415 ہ‍
  • ابن شہر آشوب (المتوفی 588 ہ‍)، مناقب آل‌ ابي‌طالب، تحقیق: گروہي از اساتيد، نجف، المكتبۃ الحيدريہ، 1376 ہ‍
  • المجلسي (المتوفی 1110 ہ‍)، بحار الانوار: بيروت، دار احياء التراث العربي، 1403 ہ‍
  • البكَری، احمد بن عبداللہ، الأنوار ومفتاح السرور والافكَار فی ذكَر الرسول، انتشارات: شریف رضی قم.
  • البكري، عبداللہ (المتوفی 526 ہ‍)، الانوار في مولد النبي محمد صلي اللہ عليہ و آلہ، تحقیق: فضال، رضي، قم، 1411 ہ‍
  • البيہقي (المتوفی 458 ہ‍)، دلائل النبوۃ، تحقیق: عبدالمعطي، بيروت، دار الكتب العلميۃ، 1405 ہ‍
  • الطبري (المتوفی 310 ہ‍)، تاريخ طبري (تاريخ الامم و الملوك)، تحقیق: گروہي از علما، بيروت، اعلمي، 1403 ہ‍

Related Articles

Back to top button