امام علی نقی علیہ السلاممقالات

امام محمد تقی علیہ السلام

محمد بن علی بن موسی (195220 ھ) امام محمد تقی ؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر ثانی ہے۔ آپ نے 17 سال امامت کے فرائض انجام دیئے اور 25 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ شیعہ ائمہ میں آپ سب سے کم عمر شہید امام ہیں۔بچپن میں امامت ملنے کی وجہ سے امام رضاؑ کے بعض اصحاب نے ان کی امامت میں تردید کی جس کے نتیجے میں عبدالله بن موسی کو امام کہنے لگے اور کچھ دیگر افراد نے واقفیہ کی بنیاد ڈالی لیکن اکثر اصحاب نے آپ کی امامت کو قبول کیا۔امام محمد تقیؑ کا لوگوں کے ساتھ ارتباط وکالتی سسٹم کے تحت خط و کتابت کے ذریعے رہتا۔ آپ کے زمانے میں اہل حدیث، زیدیہ، واقفیہ اور غلات جیسے فرق بہت سرگرم تھے اسی بنا پر آپ شیعوں کو ان کے باطل عقائد سے آگاہ کرتے، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے اور غالیوں پر لعن کرتے تھے۔دوسرے مکاتب فکر کے علماء و دانشوروں کے ساتھ مختلف کلامی اور فقہی موضوعات پر آپ کے علمی مناظرے ہوئے جن میں شیخین کی حیثیت، چور کے ہاتھ کاٹنے اور احکام حج کے بارے میں مناظرہ، آپ کے معروف مناظرے ہیں۔

امام محمد تقی علیہ السلام
کاظمین10.jpg
حرم کاظمین
منصب شیعوں کے نویں امام
نام محمد بن علی
کنیت ابو جعفر ثانی
القاب تقی، جواد
تاریخ ولادت 10 رجب 195 ہجری
جائے ولادت مدینہ
مدت امامت 17 سال (203 تا 220ھ)
شہادت سنہ 220 ہجری
مدفن کاظمین، عراق
رہائش مدینہ
والد ماجد امام رضا
والدہ ماجدہ سبیکہ خاتون
ازواج سمانہ مغربیہ، ام الفضل بنت مامون
اولاد علی، موسی، فاطمہ اور امامہ
عمر 25 سال

نسب، کنیت و القاب

محمد بن علی بن موسی بن جعفر شیعوں کے نویں امام ہیں جو جواد الائمہ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب 6 واسطوں سے شیعوں سے پہلے امام، امام علی بن ابی طالب تک پہچتا ہے۔ آپ کے والد امام علی رضا شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔ آپ کی والدہ کنیز تھیں جن کا نام سبیکہ نوبیہ تھا۔آپؑ کی کنیت ابو جعفر و ابو علی ہے۔ منابع حدیث میں آپؑ کو ابو جعفر ثانی کہا جاتا ہے تا کہ ابو جعفر اول امام محمد باقرؑ سے اشتباہ نہ ہو۔[1]آپؑ کے مشہور القاب، جواد و ابن الرضا ہیں، جبکہ تقی، زکی، قانع، رضی، مختار، متوکل، مرتضی اور منتجَب جیسے القاب بھی نقل ہوئے ہیں۔[2]

سوانح حیات

مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 195 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔ لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف ہے۔ زيادہ تر منابع نے آپ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں قرار دی ہے۔[3] بعض نے 15 رمضان و بعض نے 19 رمضان نقل کی ہے۔ شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں آپ کی تاریخ ولادت 10 رجب ذکر کی ہے۔

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے بعض واقفیہ کہتے تھے کہ علی بن موسی کی نسل باقی نہیں رہے گی اور ان کے بعد ان کی نسل میں سلسلہ امامت منقطع ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے جس وقت امام محمد تقی کی ولادت ہوئی امام رضا نے انہیں شیعوں کے لئے با برکت مولود قرار دیا۔ ان کی ولادت کے باجود بھی بعض واقفیہ نے امام رضا سے ان کے انتساب کا انکار کیا۔ وہ کہتے تھے کہ امام محمد تقی شکل و صورت کے اعتبار سے اپنے والد امام رضا سے شباہت نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ قیافہ شناس افراد کو بلایا گیا اور انہوں نے تائید کی کہ آپ امام کے فرزند ہیں۔ حالانکہ شریعت میں قیافہ شناسوں کا قول معتبر دلیل کے طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ لیکن چونکہ وہ لوگ ان کی بات کو مانتے تھے لہذا ان کی بات سے انہیں اطمینان حاصل ہوگیا۔

آپ کی زندگی کے بارے میں تاریخی مصادر میں چندان معلومات ذکر نہیں ہیں۔ اس کا سبب عباسی حکومت کی طرف سے سیاسی محدودیت، تقیہ اور آپ کی مختصر حیات بیان ہوا ہے۔ آپ مدینہ میں قیام پذیر تھے۔ ابن بیھق کے نقل کے مطابق، آپ نے ایک بار اپنے والد سے ملاقات کے لئے خراسان کا سفر کیا اور امامت کے بعد کئی بار آپ کو عباسی خلفاء کی طرف سے بغداد طلب کیا گیا۔

ازواج

امام جوادؑ کی شادی سنہ 215 میں مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے ہوئی۔[4] یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی اور امامؑ نے اس کے لئے حضرت زہراءؑ کا مہر ـ یعنی 500 درہم ـ قرار دے کر اس رشتے کو منظور کیا اور اس شادی سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔[5] اور آپؑ کی تمام اولادیں آپؑ کی دوسری زوجہ مکرمہ سمانہ مغربیہ سے ہوئیں۔[6]

بعض مآخذ میں منقول ہے کہ امام جوادؑ نے امام رضاؑ کے سکونتِ خراسان کے دوران ایک بار آپؑ سے ملنے کی غرض سے خراسان کا سفر کیا[7] اور اسی وقت مامون نے اپنی بیٹی کا نکاح آپؑ سے کیا۔

ابن کثیر کے قول کے مطابق امام جوادؑ کے ساتھ مامون کی بیٹی کا خطبۂ نکاح 8 سال سے بھی کم عمر میں حضرت امام رضاؑ کے دور میں پڑھا گیا تھا لیکن شادی اور رخصتی سنہ 315 ہجری میں مامون کی اجازت سے تکریت میں ہوئی۔[8] اس روایت کو مد نظر رکھا جائے تو اس رشتے کے بارے میں سنہ 202 ہجری اور سنہ 215 ہجری میں منقولہ روایتوں میں کوئی تناقض یا مغایرت نہیں ہے لیکن بغداد میں یحیی بن اکثم کے ساتھ امامؑ کے مناظرے کی روایت (جس کا خلاصہ اگلی سطور میں بیان ہوگا) کے ساتھ کچھ زیادہ ہم آہنگ نہیں ہے۔

اولاد

شیخ مفید کی روایت کے مطابق امام محمد تقی کی چار اولاد امام علی نقی، موسی مبرقع، فاطمہ و اَمامہ ہیں۔[9] البتہ بعض راویوں نے آپؑ کی بیٹیوں کی تعداد حکیمہ، خدیجہ و ام کلثوم کے نام سے تین بتائی ہے۔[10]

دلائل امامت

امام محمد تقی ؑ کی امامت کا دورانیہ حضرت امام رضا کی شہادت کے سال 203 ھ سے لے کر سنہ 220 ہجری تک محیط ہے جو کل مدت 17 سال بنتی ہے۔ آپؑ کی امامت کی دلیلیں بہت ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صحابی نے امام رضاؑ سے آپؑ کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے ہاتھ سے اپنے بیٹے [ابو جعفر (امام جوادؑ] کی طرف اشارہ کیا جو آپؑ کے سامنے کھڑے تھے۔[11]

امام رضاؑ نے ایک روایت کے ضمن میں فرمایا:۔۔۔هذا أبو جعفر قد أجلسته مجلسي و صيرته مكاني، وقال: إنا أهل بيت يتوارث أصاغرنا عن أكابرنا القذة بالقذة(ترجمہ: یہ ابو جعفر ہیں جس کو میں نے اپنی جگہ بٹھا دیا ہے اور اپنا مقام اسے واگذار کردیا ہے اور فرمایا: ہم اہل بیت ایسا خاندان ہیں جس میں چھوٹے یکسان طور پر (بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان فرق کے بغیر) بڑوں کے وارث بنتے ہیں) ۔[12] (یعنی جس طرح کہ بڑے علوم کے وارث بنتے ہیں ہمارے چھوٹے بھی ہمارے علوم کے وارث بنتے ہیں اور اس حوالے سے بڑوں اور چھوٹوں میں کوئی فرق نہیں ہے)۔

امام رضاؑ نے فرمایا:أبو جعفر وصيي وخليفتي في أهلي من بعدي(ترجمہ: ابو جعفر میرے بعد میرے اہل میں میرا وصی اور جانشین ہیں)۔۔[13]

علاوہ ازیں رسول اللہ(ص) سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 آئمۂ شیعہ کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام محمد تقی جواد علیہ السلام سمیت 12 آئمہؑ کی امامت اور ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[14] جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 (اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم) نازل ہوئی تو رسول اللہ(ص) نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛[15] امام علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛[16] ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ(ص) کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ(ص) نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔[17]

مبارک ترین مولود

امام محمد تقی ؑ امام رضاؑ کی عمر کے آخری برسوں میں پیدا ہوئے اور چونکہ آپؑ کی ولادت سے قبل امامؑ کی کوئی اولاد نہ تھی چنانچہ اہل بیتؑ کے مخالفین اپنی مخالفانہ تشہیری مہم جاری رکھتے ہوئے کہتے تھے کہ "امام رضاؑ سے کوئی نسل موجود نہیں ہے لہذا امامت کا سلسلہ منقطع ہوگا”، وہ حقیقت میں رسول اللہ(ص) کی اس حدیث کو جھٹلانے کی کوشش کررہے تھے: "میرے بعد آئمہ کی تعداد بارہ ہے”؛ کیونکہ اگر امام رضاؑ کی کوئی اولاد نہ ہوتی تو امامت کا سلسلہ عدد 8 پر منقطع ہو جاتا۔ اسی بنا پر جب امام محمد تقی ؑ کو پیدائش کے بعد امامؑ کے پاس لایا گیا تو آپؑ نے فرمایا::هذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم بركة على شيعتنا منه۔ ترجمہ: یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ برکت والا مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا ہے۔[18]

ابن اسباط اور عباد بن اسمعیل نیز ابو یحیی صنعانی کہتے ہیں: إنا لعند الرضا عليه السلام بمنى إذ جبئ بأبي جعفر عليه السلام قلنا: هذا المولود المبارك ؟ قال: نعم، هذا المولود الذي لم يولد في الاسلام أعظم بركة منه(ترجمہ: ہم امام رضاؑ کے ساتھ تھے جب ابو جعفر کو ان کے پاس لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا: کیا وہ بابرکت مولود یہی ہے؟ فرمایا: ہاں! یہی وہ مولود ہے جس سے زيادہ عظیم برکت والا اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔)۔[19]

کم سنی کا مسئلہ

امام تقیؑ آٹھ (8) سال کی کمسنی اور طفولیت کے ایام میں رتبۂ امامت پر فائز ہوئے لہذا کچھ لوگوں نے آپؑ کی امامت قبول کرنے سے انکار کیا اور خود جاکر دوسرے شخص کو اپنے لئے معین کیا۔ طفولیت میں امامت کا مسئلہ حل ہونے تک بعض لوگوں کو حیرت اور سرگردانی کا سامنا رہا یہاں تک کہ ان کے لئے یہ مسئلہ حل ہوا اور وہ لوگ آپؑ کی امامت کے معتقد ہوئے۔ یہ مسئلہ ان شبہات میں سے ایک تھا جو امام رضاؑ کی زندگی میں بھی اور امام تقیؑ کی امامت کے دور میں بھی بعض لوگوں نے اٹھایا اور دونوں اماموں نے اس کا جواب قرآن کریم کے حوالے سے دیا۔ ان میں سے ایک جواب یحیی بن زکریاؑ کی نبوت کے سلسلے میں ارشاد باری کے حوالے سے دیا گیا جہاں ارشاد ہوتا ہے: " وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّاً (ترجمہ: اور ہم نے اسے بچپن میں ہی فرمان نبوت دیا (اور عقل عطا کی)

دوسرا جواب ولادت کے پہلے چند دنوں میں حضرت عیسیؑ کے تکلم کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔[20] نیز ارشاد ربانی ہے: " قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيّاً (30) وَجَعَلَنِي مُبَارَكاً أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيّاً (31) وَبَرّاً بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّاراً شَقِيّاً (32) (ترجمہ: اس نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے (30) اور مجھے برکت والا قرار دیا ہے جہاں بھی میں ہوں اور مجھے مامور کیا ہے نماز اور زکوٰة پر، جب تک کہ میں زندہ رہوں (31) اور نیک سلوک رکھنے والا اپنی ماں کے ساتھ اور مجھے اس نے بدنصیب سرکش نہیں بنایا ہے (32))۔

سخت دور

امام رضاؑ سنہ 203 کو شہید ہوئے، اس موقع پر آپؑ کے فرزند امام تقیؑ کی عمر آٹھ سال سے زیادہ نہ تھی کہ آپ منصب امامت کے عہدے دار ہوئے۔

امام علی رضا ؑ کی شہادت کے بعد حضرت امام محمد تقی ؑ کی کم سنی کی امامت کی وجہ سے شیعہ چند گروہوں میں تقسیم ہوئے۔ کچھ امام رضا کے بھائی احمد بن موسیٰ بن جعفر کی امامت کے قائل ہوئے۔ کچھ علی بن موسی رضا کی امامت پر توقف کے قائل ہوئے۔ ان کے اختلاف کا سبب یہ تھا یہ لوگ امامت میں بلوغ کو شرط سمجھتے تھے۔ صرف کچھ لوگ امام رضاؑ کے بیٹے محمد بن علی یعنی محمد تقی علیہ السلام کی امامت کے قائل ہوئے۔[21]۔

تاہم شیعہ کم سنی کے باوجود امام تقی علیہ السلام کی امامت کے قائل ہوئے اور کم سنی کا جواب دیتے ہوئے خدا کو حضرت یحیی بن ذکریا کو علم و حکمت سے نوازنا، یوسف اور بادشاہ کی بیوی کے درمیان بچے کا فیصلہ کرنا اور حضرت سلیمان کا کسی سے علم حاصل کئے بغیر فیصلہ کرنا وغیرہ سے انہوں نے استدلال کیا ہے ۔[22]۔

امام جوادؑ بچپن میں منصب امامت پر فائز ہوئے تو بغداد اور دوسرے شہروں سے ایک جماعت نے حج کے دنوں میں امام جوادؑ کا دیدار کرنے کی غرض سے مدینے کا رخ کیا اور امام صادقؑ کے گھر میں ـ جو خالی تھا ـ وارد ہوکر بیٹھ گئے۔ اس موقع پر امامؑ کے چچا عبداللہ بن موسی بن جعفر وارد ہوئے اور حاضرین نے ان سے بعض سوالات پوچھے اور عبداللہ صحیح جواب دینے سے عاجز رہے چنانچہ سب حیران اور غمزدہ ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد امام جوادؑ تشریف لائے اور انھوں نے وہی سوالات امامؑ سے پوچھے تو آپؑ نے مکمل اور صحیح جوابات دیئے۔ حاضرین جوابات سننے کے بعد خوش ہوئے، امامؑ کو دعائیں دیں اور آپؑ کی تعریف و تمجید کی۔[23]

امامت

آپ کی امامت کا زمانہ 17 سال ۔[24] یا 20 دن کم 18 سال[25] یا 19 سال سے 25 دن کم[26] پر مشتمل ہے۔

اپنے والد کے ساتھ رہنے کی مدت 7 سال[27] یا 7 سال، 4 مہینے، 2 دن[28] یا 9 سال اور چند مہینے[29] ہے۔

خلفائے عباسی مامون (حکومت 193 تا 218 ق)، معتصم عباسی ہیں [30]، بعض نے واثق[31] کا بھی ذکر کیا ہے۔

پس ایک قول کی بنا پر آپؑ کا دور امامت دو عباسی خلفاء کے ہم عصر تھا۔ پہلا خلیفہ مامون (حکومت: 193 تا 218 ہجری) تھا اور امامؑ کی عمر کے 23 سال اسی کے دور میں گذرے؛ دوسرا عباسی خلیفہ معتصم تھا اور امامؑ کے عمر کے آخر دو برس اس کے دور میں گذرے۔ امامؑ کا مسکن مدینہ تھا لیکن دو خلفاء کے کہنے پر بغداد کے سفر پر گئے۔ معتصم کے دور میں آپؑ کا بغداد کا سفر آپؑ کی شہادت پر ختم ہوا۔ آپؑ ایک دفعہ مامون کی درخواست پر سنہ 214 (یا 215) ہجری میں بغداد گئے اور وہاں مختصر سا قیام کرنے اور بعض مشہور علماء اور فقہاء کے ساتھ ایک علمی مناظرے میں شرکت اور مامون کی بیٹی سے شادی کرنے کے بعد حج کے ایام میں مدینے واپس چلے گئے؛ لیکن معتصم عباسی کے دور میں جب بغداد گئے تو کچھ عرصے تک وہیں قیام کیا اور درباری علماء و فقہاء و دیگر علما کے ساتھ مختلف موضوعات پر مناظرے کئے۔

مناظرات

تاریخ و سیرت کے مآخذ کے مطابق امام محمد تقی ؑ کے درباری علما اور فقہا سے کئی علمی مناظرے ہوئے جن میں ہمیشہ آپ کو غلبہ حاصل رہا۔ مثلا:

مامون کے دربار میں مناظرہ

جب مامون نے امام محمد تقیؑ سے اپنی بیٹی ام فضل کی شادی کا فیصلہ کیا تو بنی عباس کے بزرگوں نے اس فیصلے پر اعتراض کیا جس کے جواب میں مامون نے کہا تم ان (امام جواد) کا امتحان لے لو۔ انہوں نے قبول کیا اور دربار کے سب سے بڑے عالم اور فقیہ، یحیی بن اکثم کو امام جوادؑ کے ساتھ مناظرے کے لئے انتخاب کیا۔

مناظرے کا دن آن پہنچا۔ یحیی بن اکثم نے مناظرے کا آغاز کرتے ہوئے امام سے سوال کیا: اگر کوئی مُحرِم (وه شخص جو حج کے احرام کی حالت میں ہو) کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟[32] امامؑ نے اس مسئلے کی مختلف صورتیں بیان کیں اور ابن اکثم سے کہا: تم کونسی صورت کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟ یحیی جواب نہ دے سکا۔ اس کے بعد امامؑ نے محرم کے شکار کی مختلف صورتوں کے احکام الگ الگ بیان کئے تو تمام اہل دربار اور عباسی علما نے آپؑ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون ـ جس پر اپنے انتخاب کے حوالے سے نشاط و سرور کی کیفیت طاری تھی ـ نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔[33]

خلفاء کے بارے میں مناظرہ

امام جوادؑ نے مامون عباسی کی موجودگی میں بعض فقہاء اور درباریوں کے ساتھ مناظرہ کیا اور ابوبکر اور عمر کے فضائل کے بارے میں یحیی بن اکثم کے سوالات کا جواب دیا۔ یحیی نے کہا: جبرائیل نے خدا کی طرف سے رسول اللہ(ص) سے کہا: "میں ابوبکر سے راضی ہوں؛ آپ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ مجھ سے راضی ہیں؟! امامؑ نے فرمایا: میں ابوبکر کے فضائل کا منکر نہیں ہوں لیکن جس نے یہ حدیث نقل کی ہے اسے رسول اللہ(ص) سے منقولہ دوسری حدیثوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ کہ آپ(ص) نے فرمایا: جب میری جانب سے کوئی حدیث تم تک پہنچے تو اس کا کتاب اللہ اور میری سنت کے ساتھ موازنہ کرو اور اگر خدا کی کتاب اور میری سنت کے موافق نہ ہو تو اسے رد کرو؛ اور بے شک یہ حدیث قرآن کریم سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:

"وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِسورہ ق آیت 16۔ترجمہ: اور ہم نے پیدا کیا ہے آدمی کو اور ہم جانتے ہیں جو اس کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور ہم اس سے رگ گردن سے زیادہ قریب ہیں

تو کیا خداوند متعال کو علم نہ تھا کہ کیا ابوبکر اس سے راضی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ تمہاری بات درست نہیں ہے۔[34]

بعدازاں یحیی نے اس روایت کا حوالہ دیا کہ "أنّ مثل أبي بكر و عمر في الاَرض كمثل جبرئيل و ميكائيل في السماءترجمہ: بےشک روئے زمین پر ابوبکر اور عمر کی مثال، آسمان میں جبرائیل اور میکائیل کی مانند ہے۔[35] امامؑ نے جواب دیا: اس روایت کا مضمون درست نہیں کیونکہ جبرائیل اور میکائیل ہمیشہ سے خدا کی بندگی میں مصروف رہے ہیں اور ایک لمحے کے لئے خطا اور اشتباہ کے مرتکب نہیں ہوئے جبکہ ابوبکر اور عمر قبل از اسلام برسوں تک مشرک تھے۔[36]

چور کے ہاتھ کاٹنا

امام جوادؑ کے قیام بغداد کے دوران بعض واقعات پیش آئے جو لوگوں کے درمیان امامت کی منزلت سے آگہی کا سبب بنے۔ مثال کے طور پر چور کا ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں امامؑ کے فتوے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ فقہا کے درمیان اختلاف اس بات پر رونما ہوا کہ کیا چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹنا چاہئے یا پھر کہنی سے!!! بعض فقہاء نے کلائی سے ہاتھ کاٹنے پر رائے دی اور بعض نے کہنی سے کاٹنے کے حکم کو اختیار کیا۔ عباسی خلیفہ معتصم نے اس سلسلے میں امام جوادؑ کی رائے پوچھی۔ امامؑ نے ابتدا میں معذرت کی لیکن معتصم نے اصرار کیا تو آپؑ نے فرمایا: "چور کے ہاتھ کی چار انگلیاں کاٹی جاتی ہیں۔ آپؑ نے اس فتوی کی دلیل بیان کرتے ہوئے آیت کریمہ کا حوالہ دیا جہاں ارشاد ہوا ہے:

"وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً۔[37]ترجمہ: اور یہ کہ سجدے کے مقامات اللہ کے لئے مخصوص ہیں لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو خدا نہ کہو۔

معتصم کو امامؑ کا جواب پسند آیا اور چور کی انگلیاں کاٹ دی گئیں۔[38]

دوسرے گروہوں سے مقابلہ

دوسرے ائمہؑ کی طرح امام جوادؑ کے زمانے میں مختلف قسم کے فرقے سرگرم عمل تھے اور معاشرے میں اپنے عقائد کی ترویج اور شیعیان اہل بیتؑ کو ان کے بنیادی عقائد سے دور اور منحرف کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ ان ہی فرقوں میں سے ایک فرقہ اہل حدیث کہلاتا تھا جو مُجَسِّمہ[39] تھے اور خدا کو جسم سمجھتے تھے۔ امام جوادؑ نے بنیادی اور خالص شیعہ عقائد کے تحفظ کی خاطر اپنے پیروکاروں کو ان سے رابطہ نہ رکھنے کی تلقین کی اور فرمایا: شیعہ نماز میں اس عقیدے کے حامل افراد کی اقتدا نہ کریں اورانہیں زکات نہ دیں۔[40]

مفصل مضمون: واقفیہ

واقفیہ امام جوادؑ کے دور کے فعال فرقوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس فرقے کے پیروکاروں نے امام موسی بن جعفرؑ کی امامت پر توقف کیا اور امام رضاؑ کی امامت کو تسلیم نہ کیا۔ امام جواد علیہ السلام سے واقفیہ کی امامت میں نماز جماعت بجا لانے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے شیعیان اہل بیتؑ کو ایسا کرنے سے منع کیا۔[41]

مفصل مضمون: زیدیہ

امام جوادؑ کے دور میں سرگرم دوسرے گروں میں زیدیہ نامی فرقہ تھا جو شیعیان اثنا عشری سے جدا ہوئے تھے۔ زیدیہ کی ائمہؑ سے دشمنی بہت شدید تھی اور وہ ائمۂ اہل بیتؑ پر طعن کرتے تھے جس کی وجہ سے ائمہؑ اور بطور خاص امام جوادؑ نے ان کے خلاف شدید موقف اپنایا اور آپؑ انہیں سورہ غاشیہ کی ذیل کی آیات کریمہ کا مصداق اور نواصب کے ہم معنی سمجھتے ہیں:

"وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ (2) عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ (3) تَصْلَى نَاراً حَامِيَةً (4)(ترجمہ: اس دن کچھ چہرے تذلل کا منظر پیش کرنے والے ہوں گے (2) بہت کام کیے ہوئے بڑی محنت ومشقت اٹھائے ہوئے ہیں (مگر بے سود) (3) وہ گرمی اٹھا رہے ہوں گے آگ کی (4))۔[42]

شیعیانِ اہل بیتؑ سے رابطہ

امام جوادؑ نے دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں میں وکیلوں کا جال بچھایا تھا اور ان کے توسط سے شیعیان اہل بیتؑ سے رابطے میں تھے۔ اگرچہ آپؑ اپنے محبین اور پیروکاروں کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہ تھے اور کیوں اس رابطے کو وکیلوں کے ذریعے سے برقرار رکھتے تھے؟ اس کی کئی وجوہات بیان ہوئی ہیں؛ جن میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ آنجناب حکومت وقت کے زیر نگرانی تھے اور دوسری یہ کہ آپؑ لوگوں کو غیبت امام زمانہ(عج) کے لئے تیار کررہے تھے چنانچہ یہ سلسلہ امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کے زمانے میں جاری رہا]۔

امامؑ نے بغداد، کوفہ، اہواز، بصرہ، ہمدان، قم، رے، سیستان اور بُست سمیت مختلف علاقوں میں مستقل نمائندے اور وکلاء مقرر کئے تھے۔[43]

نیز امامؑ وکلا کے علاوہ خط و کتابت کے ذریعے بھی اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں تھے (رجوع کریں: توقیع) آپؑ سے ہم تک پہنچنے والے بہت سے معارف و مباحث آپؑ کے بھیجے گئے خطوط میں درج ہیں جنہیں آپ نے اپنے شیعوں کیلئے لکھا۔[44] شیعہ شیعہ اپنے سوالات خط و کتابت کے ذریعے بھجواتے تھے اور آپؑ ان کا جواب دیتے تھے جن میں سے اکثر کا تعلق فقہی مسائل سے ہوتا تھا ۔ زیادہ تر خطوط میں بھیجنے والوں کے نام درج ہیں۔[45] بعض مراسلات میں ارسال کنندگان کے نام واضح نہیں ہیں۔[46]

موسوعۃ ‌الامام ‌الجواد،[47] میں امامؑ کے والد اور فرزند کے علاوہ 63 افراد کے نام حدیث و رجال کے مآخذ سے اکٹھے کئے گئے ہیں جن کا خط و کتابت کے ذریعے امامؑ کے ساتھ رابطہ رہتا تھا۔ البتہ امامؑ نے بعض خطوط اپنے پیروکاروں کے ایک گروہ کے نام تحریر فرمائے ہیں۔[48]

حضرت جوادؑ نے ہمدان اور بست سمیت بہت سے شہروں میں اپنے کارگزاروں کے نام متعدد مراسلات لکھے اور بعض ایرانی شیعہ بھی مدینہ جاکر آپؑ سے ملے۔ یہ ملاقاتیں ان ملاقاتوں کے علاوہ تھیں جو ایام حج میں امامؑ اور شیعیان اہل بیتؑ کے درمیان انجام پاتی تھیں۔[49]

احادیث امام جوادؑ

امام جوادؑ پچیس سال کی عمر میں جام شہادت نوش کرگئے اور پھر آپؑ کو اسی مختصر زندگی میں بھی حکمرانوں کی کڑی نگرانی اور دباؤ کا سامنا رہا لہذا آپؑ کو شیعہ احکام اور عقائد کی ترویج کے لئے مناسب مواقع نہ ملے؛ لیکن آپؑ نے دباؤ اور گھٹن کے سخت حالات میں بھی آپؑ نے شاگردوں کی تربیت، فقہ، عقائد، تفسیر، دعا اور مناجات جیسے موضوعات کے بارے میں احادیث کے بیان کا سلسلہ جاری رکھا۔ جو کچھ اس دور سے ہم تک پہنچا ہے مختلف اسلامی موضوعات میں 250 حدیثوں کا مجموعہ ہے۔[50]

امام جواد علیہ السلام سے مروی 14 حدیثیں:

عنوان حدیث
دوستوں کا دیدار مُلاقاةُ الإخوانِ نَشْرَةٌ، وَ تَلْقيحٌ لِلْعَقْلِ وَ إنْ كانَ نَزْرا قَليلا۔[51]۔[52]ترجمہ:دوستوں اور بھائیوں کی ملاقات دل کی طراوت اور نورانیت کا باعث اور عقل و درایت کے اضافے کا سبب بنتی ہے خواہ وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو.
امام عصر (عج) کی غیبت يَخْفى عَلَى النّاسِ وِلادَتُهُ، وَ يَغيبُ عَنْهُمْ شَخْصُهُ، وَ تَحْرُمُ عَلَيْهِمْ تَسْمِيَتُهُ، وَ هُوَ سَمّيُ رَسُول اللّهِ صلى الله عليه و آله وَ كَنّيُّهِ ترجمہ:امام عصر(عج) کی ولادت آپ(عج) کے زمانے کے لوگوں سے مخفی ہوگی اور آنجناب(عج) کی شخصیت لوگوں سے خفیہ ہوگی اور حرام ہے کہ کوئی آپ (عج) کا نام زبان پر لائے اور آپ رسول اللہ(ص) کے ہمنام اور ہم کنیت ہیں.۔[53]
مائل (اور فین) ہونے کا نتیجہ مَنْ أصْغى إلى ناطِقٍ فَقَدْ عَبَدَهُ، فَإنْ كانَ النّاطِقُ عَنِ اللّهِ فَقَدْ عَبَدَاللّهَ، وَ إنْ كانَ النّاطِقُ يَنْطِقُ عَنْ لِسانِ إبليس فَقَدْ عَبَدَ إبليسَ۔[54]ترجمہ:اگر کوئی شخص کسی مقرر کی طرف مائل ہو اور اس کا پرستار ہو وہ اس کا بندہ ہے پس اگر وہ مقرر خدا کے لئے اور خدا کے معارف اور احکام کے بارے میں بولتا ہو تو اس شخص (پرستار) نے اللہ کی بندگی کی ہے اور اگر مقرر شیطان کی زبان سے اور ہوٰی و ہوس اور مادیات کی بات کرے تو وہ (پرستار) ابلیس کا بندہ ہے.
رشتہ مت ٹھکراؤ مَنْ خَطَبَ إلَيْكُمْ فَرَضيتُمْ دينَهُ وَ أمانَتَهُ فَزَوِّجُوهُ، إلّا تَفْعَلُوهُ تَكْنُ فِتْنَةٌ فِى الأرْضِ وَ فَسادٌ كَبيرْ۔[55] ترجمہ: جس نے تم سے [بیٹی یا بہن کا] رشتہ مانگا اور تمہیں اس کا دین پسند آیا تو وہ رشتہ قبول کرو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارا یہ عمل روئے زمان پر عظیم برائی کا سبب بنے گا.
علیؑ کا علم عَلَّمَ رَسُولُ اللّهِ صلّى اللّه عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ عَلّيا عَلَيْهِ السَّلامُ ألْفَ كَلِمَةٍ، كُلُّ كَلِمَةٍ يَفْتَحُ ألْفُ كَلِمَةٍ ترجمہ:رسول اللہ(ص) نے امیرالمؤمنینؑ کو ایک ہزار کلمات سکھائے؛ ہر کلمے سے ہزار ابوابِ علم کھلتے ہیں۔[56]
رکوع کامل کا فائدہ مَنْ أتَمَّ رُكُوعَهُ لَمْ تُدْخِلْهُ وَحْشَةُ الْقَبْرِ ترجمہ:جو شخص اپنی نماز کا رکوع مکمل اور صحیح طور پر انجام دے وہ قبر میں وحشت سے دوچار نہ ہوگا۔[57]
امر و نہی کی مدد الأمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْىُ عَنِ الْمُنْكَرِ خَلْقانِ مِنْ خَلْقِ اللّهِ عَزَّ وَ جَلَّ، فَمْن نَصَرَهُما أعَزَّهُ اللّهُ، وَمَنْ خَذَلَهُما خَذَلَهُ اللّهُ عَزَّ وَ جَلَّترجمہ:امر بالمعروف اور نہى عن المنكر خدائے عزّوجلّ کی دو مخلوقات ہیں پس جو ان دو کی مدد کرتا ہے خداوند متعال انہیں عزت و عظمت عطا کرتا ہے اور جو انہیں بے یار و مددگار چھوڑتا ہے خداوند متعال ان کو [دنیا اور آخرت میں] بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔[58]
خدا کا بہترین انتخاب إنَّ اللّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَخْتارُ مِنْ مالِ الْمُؤْمِنِ وَ مِنْ وُلْدِهِ أنْفَسَهُ لِيَأجُرَهُ عَلى ذلِكَ ترجمہ:بے شک خداوند متعال مؤمن کے مال و اولاد میں سے بہترین مال اور فرزند منتخب کرکے لے لیتا ہے تا کہ انہیں اس کے بدلے اجر عظیم عطا فرمائے۔[59]
قلیل عار اور طویل سزا قالَ رجل للإمام علیہ السلام: أوصِنى بَوَصِيَّةٍ جامِعَةٍ مُخْتَصَرَةٍ؟ فَقالَ عليه السلام: صُنْ نَفْسَكَ عَنْ عارِ الْعاجِلَةِ وَ نار الْآجِلَةِترجمہ :ایک شخص نے امام جوادؑ کی خدمت میں عرض کیا: مجھے نصیحت و موعظہ فرمائیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے آپ کو [اور اپنے ظاہری اور باطنی اعضاء و جوارح کو] قلیل المدت عار و ننگ اور شرم و ذلت اور طویل المدت عذاب دوزخ سے محفوظ رکھو۔۔[60] (مفہوم یہ کہ دنیا کے گناہ اور ان کی لذت قلیل المدت اور ان کی سزا طویل المدت ہے جس سے بچ کے رہنا چاہئے)۔
تین چیزیں باعث محبت ثَلاثُ خِصالٍ تَجْتَلِبُ بِهِنَّ الْمَحَبَّةُ: الإنْصافُ فِى الْمُعاشَرَةِ، وَ الْمُواساةُ فِى الشِّدِّةِ، وَ الإنْطِواعُ وَ الرُّجُوعُ إلى قَلْبٍ سَليمٍترجمہ: تین خصلتیں محبت کو کھینچ لیتی ہیں (اور لوگ ان خصلتوں کے مالک افراد سے محبت کرتے ہیں): لوگوں کے ساتھ معاشرت میں انصاف کی راہ پر گامزن رہنا، ان کے مسائل و مشکلات میں ان سے ہمدردی کرنا اور قلب سلیم کی جانب رجوع کرکے معنویات اور نیک اعمال کی طرف توجہ دینا۔[61]
ابرار کی خصلتیں ثَلاثٌ مِنْ عَمَلِ الأبْرارِ: إقامَةُالْفَرائِض، وَاجْتِنابُ الْمَحارِم، واحْتِراسٌ مِنَ الْغَفْلَةِ فِى الدّينترجمہ:تین چیزیں نیک لوگوں کے اعمال میں سے ہیں: واجبات الہی کی ادائیگی، گناہ ترک کرنا اور گناہوں سے دوری کرنا اور دین میں غفلت سے اجتناب کے حوالے سے ہوشیار رہنا۔[62]
دو پہاڑوں کے درمیان جنت إنَّ بَيْنَ جَبَلَىْ طُوسٍ قَبْضَةٌ قُبِضَتْ مِنَ الْجَنَّةِ، مَنْ دَخَلَها كانَ آمِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ مِنَ النّارترجمہ: بے شک شہر طوس [مشہد مقدس] کے دو پہاڑوں کے درمیان ایک ٹکڑا ہے جو جنت سے لیا گیا ہے جو بھی زمین کے اس ٹکڑے میں داخل ہوگا [اور معرفت کے ساتھ وہاں مدفون امام کی زیارت کرے گا] قیامت کے روز جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا۔[63]
قبور مؤمنین کی زیارت مَنْ زارَ قَبْرَ أخيهِ الْمُؤْمِنِ فَجَلَسَ عِنْدَ قَبْرِهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْقَبْرِ وَقَرَءَ: ((إنّاأنْزَلْناهُ فى لَيْلَةِالْقَدْرِ)) سَبْعَ مَرّاتٍ، أمِنَ مِنَ الْفَزَعَ الأكْبَرِ ترجمہ: جو شخص اپنے مؤمن بھائی کی قبر کی زیارت کرے اور قبلہ رو ہو کر بیٹھ جائے اور اپنا ہاتھ قبر پر رکھے اور سات مرتبہ سورہ قدر (انا انزلنہ…) کی تلاوت کرے وہ قیامت کے عظیم خوف و ہراس اور سختیوں سے محفوظ رہے گا۔[64]
رضوان الہی کے اسباب ثَلاثٌ يَبْلُغْنَ بِالْعَبْدِ رِضْوانَ اللّهِ: كَثْرَةُ الإسْتِغْفارِ، وَ خَفْضِ الْجْانِبِ، وَ كَثْرَةِ الصَّدَقَةَترجمہ: تین چیزیں بندے کو رضوان الہی اور اللہ کی رضا کی منزل پر پہنچاتی ہیں: 1۔ گناہوں اور خطاؤں سے زیادہ اسغفار کرنا 2۔ تواضع اور منکسرالمزاجی، 3۔ بہت صدقہ دینا 3۔ بہت زیادہ کار خیر کرنا۔[65]

فضائل و مناقب

آپ کی کرامات بہت ہیں اور لوگوں کے سوالات اور کم سنی میں امامت کے حوالے سے شبہات کے جوابات بھی کم نہیں ہیں۔ ہم یہاں کچھ نمونے پیش کرتے ہیں:

استجابت دعا

داؤد بن قاسم کہتے ہیں: "ایک دن میں امام جوادؑ کے ہمراہ ایک باغ میں پہنچا اور میں نے عرض کیا: "میں آپ پر فدا ہوجاؤں! میں مٹی اور گارا کھانے کا بہت شوقین ہوں؛ آپ دعا فرمائیں (تاکہ میں اس عادت سے چھٹکارا پاؤں)۔ آنجناب نے نے جواب نہیں دیا اور چند روز بعد بغیر کسی تمہید کے فرمایا: "اے ابا ہاشم! خداوند متعال نے مٹی کھانے کی عادت تم سے دور کردی”۔ ابو ہاشم کہتے ہیں: اس دن کے بعد میرے نزدیک مٹی کھانے سے زیادہ منفور چیز کوئی نہ تھی”۔[66]

درخت پر پھل آ جانا

بغداد سے مدینہ واپسی کے وقت بڑی تعداد میں لوگ امام جوادؑ کو وداع کرنے کے لئے شہر سے باہر تک آئے۔ نماز مغرب کے وقت ایک مقام پر پہنچے جہاں ایک پرانی مسجد تھی۔ امامؑ نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوئے۔ مسجد کے صحن میں سدر (بیری) کا ایک درخت تھا جس نے اس وقت تک پھل نہیں دیا تھا۔ امامؑ نے پانی منگوایا اور درخت کے پاس بیٹھ کر وضو کیا اور نماز جماعت ادا کی اور نماز کے بعد سجدہ شکر بجالائے اور بعدازاں بغدادیوں سے وداع کرکے مدینہ روانہ ہوئے۔ اس رات کے دوسرے روز اس درخت نے خوب پھل دیا؛ لوگ بہت حیرت زدہ ہوئے۔ مرحوم شیخ مفید کہتے ہیں: "میں نے برسوں بعد اس درخت کو دیکھا اور اس کا پھل کھایا۔[67]

شہادت

عباسی خلیفہ معتصم نے امام جوادؑ کو مدینے سے بغداد بلوایا۔ امامؑ 28 محرم الحرام سنہ 220 ہجری کو بغداد پہنچے اور اسی سال ذی قعدہ کے مہینے اسی شہر میں وفات پاگئے۔[68] بعض مآخذ میں ہے کہ آپ پانچ یا چھ ذی الحج کو وفات پاگئے[69] اور بعض مآخذ میں کہا گیا ہے کہ آپؑ ذوالقعدہ کی آخری تاریخ کو شہادت پاگئے۔[70]

آپؑ کی شہادت کے اسباب کے حوالے سے، مروی ہے کہ بغداد کے قاضی ابن ابی داؤد نے معتصم عباسی کے ہاں چغل خوری کی اور اس سخن چینی کا اصل سبب یہ تھا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں امامؑ کی رائے پر عمل ہوا تھا اور یہ بات ابن ابی داؤد اور دیگر درباری فقہاء کی شرمندگی کا باعث ہوئی تھی۔ بہر حال ابن ابی داؤد نے بادشاہ کو شیشی میں اتار دیا تو اس نے قتل امامؑ کا ارادہ کیا جبکہ آپؑ کی عمر 25 سال سے زیادہ نہ تھی۔ معتصم نے اپنی اس نیت کو اپنے ایک وزیر کے توسط سے عملی جامہ پہنایا جس نے امامؑ کو زہر دے کر شہید کردیا۔[71] البتہ بعض دوسروں کی رائے ہے کہ امامؑ کو ام الفضل بنت مامون نے زہر دیا تھا۔[72]

شیخ مفید (متوفی 413 ہجری) کہتے ہیں: "اگرچہ بعض لوگوں کی رائے کے مطابق امامؑ کو زہر کھلا کر شہید کئے گئے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ ثابت نہیں ہے چنانچہ میں اس سلسلے میں گواہی نہیں دے سکتا”[73]۔ تاہم مسعودی (متوفی 346ہجری) کا کہنا ہے کہ: "معتصم عباسی اور ام الفضل کا بھائی جعفر بن مامون مسلسل امامؑ کو زہر دینے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ چونکہ ام الفضل کی کوئی اولاد نہ تھی اور امام ہادیؑ امام جوادؑ کی دوسری زوجہ سے تھے۔ جعفر نے اپنی بہن کو اکسایا کہ آپؑ کو زہر دے کر قتل کرے۔ چنانچہ اس نے زہر انگور کے ذریعے امامؑ کو کھلا دیا۔ مسعودی کے بقول ام الفضل امام کو زہر دینے کے بعد پشیمان ہوئی اور رورہی تھی۔ اسی حال میں امامؑ نے اس کو بد دعا دی اور آپؑ کی شہادت کے بعد ام الفضل بہت شدید مرض میں مبتلا ہوئی۔[74]

اصحاب

آپؑ کے زیادہ تر اصحاب آپ والد امام رضاؑ اور فرزند امام ہادیؑ کے بھی شاگرد تھے جو مختلف فقہی اور اعتقادی موضوعات میں کتابوں کے مصنفین و مؤلفین تھے اور اپنے معاشرے میں با اثر سمجھے جاتے تھے۔ امام جوادؑ کے اصحاب اور رواۃ کی تعداد تقریبا 120 ہے جنہوں نے تقریبا 250 حدیثیں آنجناب سے نقل کی ہیں۔ ان روایات کا تعلق فقہی، تفسیری اور اعتقادی موضوعات سے ہے۔ امام جوادؑ سے منقولہ روایات کی قلت کا سبب یہ تھا کہ آپؑ ہمیشہ نظربندی کی سی حالت میں رہے اور پھر جب آپؑ نے جام شہادت نوش کیا آپ کی عمر کم تھی اور آپ بلکل جوانسال تھے۔ آپؑ کے اصحاب اور راویوں میں علی بن مہزیار، احمد بن ابی نصر بزنطی، زکریا بن آدم، محمد ین اسمعیل بن بزیع، حسن بن سعید اہوازی اور احمد بن محمد برقی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ امام جوادؑ کے راوی صرف شیعہ ہی نہ تھے اہل سنت سمیت دوسرے فرقوں کے افراد نے بھی آپؑ سے روایات کی ہے۔[75]

عبدالعظیم حسنی

مفصل مضمون: عبدالعظیم حسنی

عبدالعظیم حسنی، امام جوادؑ کے اصحاب میں سے ہیں جنہوں نے آپؑ سے کئی روایات بھی نقل کی ہیں۔ عبدالعظیم نے رے میں سکونت اختیار کی اور اہل بیتؑ کی احادیث کی ترویج کا اہتمام کیا۔ ان کی کوششوں اور تبلیغ کے نتیجے میں علاقے میں شیعیان اہل بیتؑ کی آبادی میں اضافہ ہوا۔

مروی ہے کہ سید عبدالعظیم کو عباسی خلفاء کی طرف سے مسلط کردہ گھٹن کی فضا اور علویوں پر شدید دباؤ کی وجہ سے، آبائی وطن مدینہ منورہ چھوڑ کر رے ہجرت کرنا پڑی۔ یہ صورت حال تمام علویوں کو درپیش تھی جس کی وجہ سے ان کی بڑی تعداد نے خانہ و کاشانہ چھوڑ کر کسی شہر و دیار میں ہجرت کرکے پناہ لی۔ عبدالعظیم حسنی رے میں آ گئے اور یہیں وفات پاگئے اور اس شہر میں ان کا مزار زیارتگاہ عام و خاص ہے اور شیعہ اور اہل سنت سمیت مختلف اسلامی مکاتب کے پیروکار ان کے مزار پر زیارت کی نیت سے حاضر ہوتے ہیں۔[76]

ابراہیم بن ہاشم قمی

مفصل مضمون: ابراہیم بن ہاشم قمی

ابراہیم بن ہاشم امام جوادؑ کے اصحاب میں سے تھے اور علمائے رجال نے انہیں جلیل القدر، ثقہ اور اکابرین اہل حدیث میں سے ایک، جیسے عناوین سے یاد کیا ہے۔ ابراہیم کوفہ کے رہنے والے تھے جہاں سے انھوں نے ہجرت کرکے قم میں سکونت اختیار کی اور اس شہر میں احادیث و اخبار اہل بیتؑ کی ترویج و تعلیم کا اہتمام کیا۔ "النوادر” اور "قضاوت ہائے امیر المؤمنین” (امیرالمؤمنین علیہ السلام) ابراہیم بن ہاشم کی تالیفات میں شامل ہیں۔ وہ امام رضاؑ کے صحابی یونس بن عبدالرحمن کے شاگردوں میں سے ہیں۔ انھوں نے باب مناقب اور باب زکات میں امام جوادؑ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔[77]

زکریا بن آدم

زکریا بن آدم بن عبداللہ بن سعد اشعری قمی اکابرین شیعہ اور امام رضاؑ اور امام جوادؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ روایت ہے کہ ایک دفعہ امام رضاؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو امامؑ نے آغاز شب سے صبح تک ان کے ساتھ رازداری میں تبادلہ خیال کیا۔ نیز منقول ہے کہ امام رضاؑ سے ان کا تعلق اتنا قریب اور ان کا معنوی رتبہ اتنا بلند تھا کہ ایک بار انھوں نے ایام حج کے دوران مدینہ سے مکہ تک امامؑ کے ساتھ ایک ہی کجاوے میں سفر کیا۔ایک دن زکریا بن آدم نے امام رضاؑ سے عرض کیا: "میں ہجرت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میرے اقارب میں بےخرد و نادان لوگوں کی تعداد بڑھ گئی ہے؛ تو امامؑ نے فرمایا: "ایسا نہ کرو، کیونکہ تمہاری برکت سے تمہارے خاندان سے بلائیں ٹل جاتی ہیں جس طرح کہ میرے والد امام کاظمؑ کی برکت سے اہالیان بغداد سے بلائيں ٹل گئیں۔ کشی نے عبداللہ بن لصلت القمی سے نقل کیا ہے کہ "وہ امام جوادؑ کی شہادت سے کچھ عرصہ قبل آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بعد میں، میں نے امام جوادؑ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خداوند متعال صفوان بن یحیی، محمد بن سنان اور زکریا بن آدم کو میری جانب سے جزائے خیر دے؛ وہ میرے سچے اصحاب میں سے ہیں”۔ ایک دن علی بن مسیب ہمدانی نے امام رضاؑ سے عرض کیا: "میرا فاصلہ آپ سے، بہت زیادہ ہے اور میں ہر وقت آپ کی خدمت میں شرف حضور نہیں پا سکتا میں اپنے دینی مسائل کس سے پوچھوں؟”، تو امامؑ نے فرمایا: "زکریا بن آدم سے پوچھو کیونکہ وہ دین اور دنیا کے امور میں امین ہیں”۔ زکریا علماء رجال کے نزدیک موثق اور نقل حدیث میں قابل اعتماد شخصیت ہیں۔ زکریا بن آدم نے امام جواد علیہ السلام سے 40 حدیثیں نقل کی ہیں۔ زکریا بن آدم قم میں وفات پاگئے اور ان کا مزار مقبرہ شیخان میں زیارتگاہ مؤمنین ہے جو حرم فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے مقبرہ سے تھوڑے سے فاصلے پر واقع ہے۔[78]

اہل سنت مشاہیر کے اقوال

مامون اور معتصم کے زمانے میں امام جواد علیہ السلام کے مکالمات و مناظرات علما کو درپیش پیچیدہ فقہی مسائل کے حل میں مددگار و معاون ثابت ہوتے تھے اور شیعہ اور سنی علما کے اعجاب اور تحسین کا سبب بنتے تھے۔ چنانچہ اگر وہ ایک طرف سے شیعیان اہل بیت کے امام تھے تو دوسری طرف سے اہل سنت کے علماء نے بھی ان کی علمی عظمت کی تصدیق کی ہے اور آپؑ کی علمی شخصیت کو ممتاز شمار کیا ہے۔ نمونے کے طور پر یہاں چند مشاہیر اہل سنت کے اقوال پیش کئے گئے ہیں:

  • سبط ابن جوزی: "امام جواد علم، تقوی، زہد و بخشش اور جود و سخا میں اپنے والد کی راہ پر گامزن تھے”۔[79]
  • ابن حجر ہیتمی: "مامون نے انہیں اپنے داماد کے طور پر منتخب کیا کیونکہ وہ کم سنی کے باوجود علم وآگہی اور حلم و بردباری کے لحاظ سے اپنے زمانے کے تمام علماء اور دانشوروں پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے”۔[80]
  • فتال نیشابوری: "مامون ان کا شیدائی ہوا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ کمسنی کے باوجود علم و حکمت، ادب اور عقلی کمال کے لحاظ سے اس قدر بلند مقام پر پہنچے ہیں کہ زمانے کا کوئی بھی عالم اور دانشور اس رتبے پر نہیں پہنچ سکا ہے”۔[81]
  • جاحظ عثمان معتزلی: جاحظ کی وجہ شہرت خاندان علیؑ ساتھ اس کی مخالفت کی وجہ سے تھی لیکن اس کے باوجود اس نے امام جوادؑ کو دس ممتاز طالبیوں کے زمرے میں قرار دیا ہے اور لکھا ہے: "وہ سب عالم و زاہد، عابد و شجاع اور کریم و سخی اور پاک و پاکیزہ ہیں”۔[82]

متعلقہ مضامین

مزید مطالعہ

تحفۃ المتقين ، سيد أولاد حيدر بلگرامی

حوالہ جات

  1. اوپر جائیں کلینی، اصول کافی، ج1، ص315و492۔ مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص1۔
  2. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص379۔ مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص 12-13۔
  3. اوپر جائیں سعد بن ‌عبدالله ‌اشعری‌، كتاب ‌المقالات ‌و الفرق‌، ص 99۔ طبری، دلائل ‌الامامۃ‌، ص 383۔
  4. اوپر جائیں طبری کا خیال ہے کہ یہ شادی سنہ 202 ہجری میں ہوئی ہے۔ رجوع کریں: الطبری، محمد بن جریر، التاریخ، ج7، بیروت: مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، بی تا، ص 149.(سافٹ ویئر مکتبۃ اہل البیت، دوسرا نسخہ)۔
  5. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، وہی ماخذ، ج4، ص 380۔
  6. اوپر جائیں قمی، منتہی الامال، ج2، ص235۔
  7. اوپر جائیں ابن فندق، تاریخ بیہق، ص46۔
  8. اوپر جائیں ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج10، ص295۔
  9. اوپر جائیں مفید، الارشاد، ج2، ص284۔
  10. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج 4،ص 380۔
  11. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص265۔
  12. اوپر جائیں کلینی، الكافي ج1 ص256 و 257۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص276۔ مجلسي، بحار الانوار ج50 ص21۔
  13. اوپر جائیں صدوق، تصحیح، حسين الاعلمي، منشورات الاعلمي، بيروت، ج1، ص366۔
  14. اوپر جائیں مفید، الاختصاص، ص211۔ صافی، شیخ لطف اللہ، منتخب الاثر باب ہشتم ص97۔ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181۔ عاملی، اثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، ج2، ص285۔
  15. اوپر جائیں بحار الأنوار ج23 ص290۔ اثبات الہداۃ ج3،‌ ص123۔المناقب ابن شہر آشوب، ج1، ص283۔
  16. اوپر جائیں مجلسی، بحار الأنوار ج36 ص337۔ علی بن محمد خزاز قمى، کفایۃ الأثر في النص على الأئمة الإثنی عشر، ص157۔
  17. اوپر جائیں سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، ج2، ص387 – 392، باب 76۔
  18. اوپر جائیں کلینی، الکافی، ج1 ص321۔
  19. اوپر جائیں مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص20و23و35۔ شیخ مفید، الارشاد ص 279۔ کلینی رازی، الكافي ج1 ص321۔
  20. اوپر جائیں کلینی، اصول کافی، ج1، ص382۔
  21. اوپر جائیں نوبختی، فرق الشیعہ85۔
  22. اوپر جائیں نوبختی، فرق الشیعہ 90۔
  23. اوپر جائیں طبری، دلائل الامامۃ، 388 تا 390. مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص98 تا 100۔
  24. اوپر جائیں ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب،3/487۔شیخ مفید،الارشاد2/273۔
  25. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب،3/487
  26. اوپر جائیں اربلی،کشف الغمہ3/157
  27. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 3/487۔ شیخ مفید، الارشاد2/273۔
  28. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب،3/487
  29. اوپر جائیں اربلی، کشف الغمہ 3/139
  30. اوپر جائیں شیخ مفید،الارشاد2/273۔ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب،3/487
  31. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 3/487۔اربلی، کشف الغمہ 3/134
  32. اوپر جائیں تفصیل کے لئے رجوع کریں: | یحیی بن اکثم سے امام جواد (علیہ السلام) کا مناظرہ۔
  33. اوپر جائیں طبرسی، احتجاج، ص443و444۔ مسعودی، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہ السلام، صص 189-191۔
  34. اوپر جائیں طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
  35. اوپر جائیں سيوطی، الدر المنثور ج4 ص107۔ كنز العمال ج11 ص569 ح32695۔ ابو نعیم اصفہاني، حليۃ الاَولياء، ج4 ص304 اصبہانی یا اصفہانی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غیر مانوس اور غريب ہے اور اس کا واحد راوی رباح ہے جس نے اسے ابن عجلان سے نقل کیا ہے۔
  36. اوپر جائیں طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔ مناظرے کی تفصیل کے لئے رجوع کریں:| امام محمد تقی (علیہ السلام) اور جعلی احادیث کا مقابلہ۔
  37. اوپر جائیں سوره جن، آیت 18۔
  38. اوپر جائیں عیاشی، کتاب التفسیر، ج1،صص 319و320۔ مجلسی، بحار الانوار،ج50، ص5و6۔
  39. اوپر جائیں | آپ خود مکمل کریں؛ تجسیم و تشبیہ، ایک روداد۔
  40. اوپر جائیں شیخ صدوق، التوحید، ص101۔
  41. اوپر جائیں شیخ طوسی، من لایحضره الفقیہ، ج1، ص379: "أيجوز – جعلت فداك الصلاة خلف من وقف على أبيك وجدك عليهما السلام؟ فأجاب لا تصل وراءه”۔
  42. اوپر جائیں طوسی، اختیارمعرفۃ الرجال، ص229۔
  43. اوپر جائیں جاسم، حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ص79۔
  44. اوپر جائیں ر.ک: جعفریان‌، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص‌489۔
  45. اوپر جائیں رجوع کریں: كلینی‌، ج‌3، ص‌399، ج‌4، ص‌275، 524، ج‌5، ص‌347۔ كشّی‌، الرجال، ص610- 611۔
  46. اوپر جائیں موسوعہ الامام‌ الجواد، ج‌2، ص‌515 ـ 521۔
  47. اوپر جائیں ج‌2، ص‌416ـ 508۔
  48. اوپر جائیں نمونے کے طور پر رجوع کریں: كلینی‌، الکافی، ج‌3، ص331، 398، ج‌5، ص394‌، ج‌7، ص163‌۔ كشّی‌، رجال، ص‌606، 611۔
  49. اوپر جائیں جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، صص492و 493۔
  50. اوپر جائیں عطاردی، مسند الامام الجواد، ص249۔
  51. اوپر جائیں شيخ مفيد، الامالى ص328، ح13۔
  52. اوپر جائیں محدث نوری، مستدرك الوسائل ج8، ص324، ح9562۔
  53. اوپر جائیں وسائل الشّيعہ ج16، ص242، ح21466۔
  54. اوپر جائیں محدث نوری، مستدرك الوسائل، ج17، ص308، ح5۔
  55. اوپر جائیں طوسی، تہذيب الاحكام، ج7، ص396، ح9۔
  56. اوپر جائیں صدوق، الخصال، ج2، ص650، ح46۔
  57. اوپر جائیں کلینی، الكافى ج3، ص321، ح7۔
  58. اوپر جائیں صدوق، خصال، ص42، ح32۔
  59. اوپر جائیں کلینی، الکافی، ج3، ص218، ح3۔
  60. اوپر جائیں شوشتری، احقاق الحقّ ج12، ص439، س11۔
  61. اوپر جائیں اربلی، كشف الغمّه، ج2، ص349، س 13۔
  62. اوپر جائیں اربلی، كشف الغمّة، ج2، ص349، س3۔
  63. اوپر جائیں صدوق، عيون اخبارالرّضا، ج2، ص256، ح6۔
  64. اوپر جائیں طوسی، اختيارمعرفۃ الرّجال، ص564، ح1066۔
  65. اوپر جائیں اربلی، كشف الغمّة، ج2، ص349، س7۔
  66. اوپر جائیں شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص586۔
  67. اوپر جائیں ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص390۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص278۔ فتال نیشابوری، ص241و242۔
  68. اوپر جائیں مفید، الارشاد، قم: سعید بن جبیر، 1428ق.، ص481۔
  69. اوپر جائیں ابن‌ابی‌الثلج‌، ص‌13۔
  70. اوپر جائیں سعد بن‌ عبدالله‌ اشعری‌؛ ص99۔ فضل‌ بن‌ حسن‌ طبرسی‌، 1417، ج‌2، ص‌106۔
  71. اوپر جائیں عیاشی، تفسیر، ج1، ص320۔
  72. اوپر جائیں عاملی، زندگانی سیاسی امام جواد، ص153۔
  73. اوپر جائیں شیخ مفید ،الارشاد 2/311۔
  74. اوپر جائیں المسعودی، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص192۔
  75. اوپر جائیں المسعودی، اثبات الوصیۃ، صص 314و 315و 262و 283و 319و 271۔
  76. اوپر جائیں عطاردی،مسند الامام الجواد، ص298 تا 308. ۔
  77. اوپر جائیں عطاردی، مسند الامام الجواد، ص 252و 253۔
  78. اوپر جائیں حسن‌ بن محمد بن حسن قمی، تاریخ قم، ص195۔ عاملی، محسن امین، اعیان الشیعہ، ج7 ص62۔ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج7 ص271۔ شوشترى، محمد تقى، قاموس الرجال، ج4 ص456۔ کشی، رجال کشی ص502 و ص595۔ ایمانی یامچی، زندگانی امام جواد۔
  79. اوپر جائیں سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، ص359۔
  80. اوپر جائیں .ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقہ، ص206۔
  81. اوپر جائیں فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص237۔
  82. اوپر جائیں عاملی، مرتضی، زندگانی سیاسی امام جواد، ص106. ۔

مآخذ

  • ابن‌ ابی‌ الثلج‌، تاریخ‌ الائمہ، در مجموعہ نفیسہ ‌فی ‌تاریخ‌ الائمہ، چاپ‌ محمود مرعشی‌، قم‌: کتابخانہ ‌آیت الله ‌مرعشی‌ نجفی‌، 1406ق.
  • مسعودی، ابوالحسن علی بن الحسین بن علی، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہ السلام، قم: منشورات الرضی، 1404ق.
  • بیهقی، ابوالحسن علی بن زید، تاریخ بیہق، تہران، کتاب فروشی فروغی، تصحیح و تعلیق احمد بهمنیار، با مقدمہ محمد بن عبدالوهاب قزوینی.
  • جاسم، حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ترجمہ محمد تقی آیت اللہی، تہران، مؤسسہ انتشارات امیر کبیر، 1386ش.
  • خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، بیروت، دار الکتب العلمیہ.
  • دمشقی، اسماعیل بن کثیر، البدایہ و النہایہ، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ط 1413/1993 و طبع 1408ق./1988ء
  • سبط بن جوزی، تذکرة الخواص، تہران، ناصر خسرو مروی، مکتبہ نینوی الحدیثہ.
  • سعد بن‌ عبدالله‌ اشعری‌، كتاب ‌المقالات ‌و الفرق‌، چاپ ‌محمد جواد مشكور، تہران‌1341ش‌.
  • ابن شہر آشوب، ابی جعفر محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، بیروت، دار الاضواء.
  • شیخ طوسی، ابی جعفر محمد بن الحسن، اختیار معرفۃ الرجال، تصحیح و تعلیق حسن مصطفوی، مشہد، دانشگاه مشہد، 1348ش.
  • شیخ طوسی، ابی جعفر محمد بن الحسن، تهذیب الکلام، محقق سید حسن الحرسان، بیروت، دار الاضواء، الطبعہ الثالثہ، 1406 ه/ 1985ء
  • شیخ صدوق، ابن بابویہ، التوحید، مصحح هاشم حسینی الطهرانی، ، قم، انتشارات النشر الاسلامی.
  • شیخ صدوق، ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا، مترجم علی اکبر غفاری، نشر صدوق، تہران، اول، 1373ش.
  • صدوق، محمد بن علي بن الحسين بابويہ قمي، متوفي 381 ہجری، صححہ و قدم لہ و علق عليہ، حسين الاعلمي، منشورات موسسہ الاعلمي للمطبوعات بيروت – لبنان 1404 ه‍ – 1984ء
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ترجمہ ہاشم رسولی محلاتی، انتشارات علمیہ اسلامیہ، دوم.
  • دلائل‌الامامہ، منسوب ‌بہ ‌محمد بن‌ جریر طبری‌ آملی‌، قم‌: مؤسسہ ‌البعثہ، 1413ق.
  • طبرسی، الاحتجاج، مصحح ابراہیم البہادری و محمد ہادی بہ، قم، انتشارات اسوه، الطبعہ الاولی، 1413ق.
  • عاملی، جعفر مرتضی، زندگانی سیاسی امام جواد ؑ.
  • عطاردی، عزیز الله، مسند الامام الجواد، قم، الموتمر العالمی للامام الرضا، 1410ق.
  • عیاشی، ابی نصر محمد بن مسعود، التفسیر العیاشی، تہران، المکتبہ العلمیہ الاسلامیہ، تصحیح ہاشم رسولی محلاتی.
  • طبرسی، ابی منصور احمد بن علی بن ابی طالب، احتجاج، مشہد، دانشگاه مشہد، 1348ش.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات.
  • طبرسی‌، فضل‌ بن‌ حسن‌، اعلام‌ الوری ‌باعلام‌الہدی‌، قم‌، 1417ق.
  • شیخ طوسی، مصباح ‌المتہجد، بیروت، 1411 /1991.
  • علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، دار احیا التراث، العربی، بیروت، الثالثہ، 1403ق /1983.
  • موسوعہ ‌الامام‌ الجواد علیہ السلام‌، قم‌: مؤسسہ ولی‌العصر علیہ السلام ‌للدراسات‌الاسلامیہ، 1419ق.
  • نوبختی، حسن بن موسی نوبختی، فرق الشیعہ، بیروت.
  • شيخ محمد تقى شوشترى، قاموس الرجال، مؤسسہ نشر اسلامی، در سال 1410 هـ.ق.
  • زندگانی امام جواد؛ مؤلف: حسین ایمانی یامچی؛ مؤسسہ تحقیقات و نشر معارف اہل البیتؑ.
  • حسن‌ بن محمد بن حسن قمی، تاریخ قم، تالیف چوتھی صدی ہجری۔
  • محسن امین العاملی، اعیان الشیعہ.
  • شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال معروف برجال کشی (تلخیص از رجال کشی ،تالیف ابو عمر کشی)۔
  • خوئی، معجم رجال الحدیث۔

Related Articles

Back to top button