Ikhlaq o falsifa e ahkamکتب اسلامی

توبہ اور گنا ہوں کی مغفرت

سوال ۲ :سچی توبہ کیسے ہو تی ہے اگر کسی نے کبیرہ گنا ہ بہت زیادہ کئے ہوں توکیا توبہ کرنے سے اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے؟ اگر ایسا ہے تو اس شخص میں کہ جس نے سب ناجائز لذتیںحاصل کی ہیں اور وہ جس نے کسی گناہ کا ارتکا ب نہیں کیا،میں کیا فرق ہے ؟
توبہ کے معنی لغت میں رجوع کے ہیں اور خدا وند تعالیٰ نے سب مومنین کو تو بہ کا حکم دیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے :
َتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیْعاً أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ (۱)
اے مو منین سب اللہ کی طرف رجو ع کر و تا کہ تم فلاح پائو
قرآنِ کریم میں اللہ کی طرف رجو ع اور ہجر ت کے لئے فرار کا لفظ بھی استعما ل ہوئی ہے۔
فَفِرُّوااِلَی اللّٰہ (۲)
خدا کی طرف ہجرت(فرار) کرو ۔
قلعہ کی طرف پنا ہ اور فرار کا حکم سب کے لئے ہے حتیٰ کہ معصومین ؑ کے لئے بھی ،نہ تو یہ مشرکین و کفار کے ساتھ مخصوص ہے اور نہ ہی گنا ہ گا ر و عا د ل کے سا تھ، ہاں وہ جو زیا دہ دور ہیں انہیں اس قلعے تک پہنچنے کے لئے زیا دہ محنت کرنا ہو گی، اپنے آپ سے فرار کر کے خدا کی طرف رجوع کرنے کے کئی مراحل ہیں۔
پہلا مرحلہ: جاہل کو لاعلمی سے علم کی طرف فرار کرنا ہو گا اورالٰہی معارف و احکام کو سیکھنا ہوگا۔
دوسرا مرحلہ :جب منزلِ علم کو پالیا تو اپنی معلومات پر عمل کر کے علمِ حصولی سے علمِ حضوری کی منزل پر پہنچنا ہو گا۔
تیسرا مرحلہ: جب علمِ حضوری تک پہنچ گئے اورا ن کا علم، علم الیقین وعین الیقین ہو گیاتو انہیں مزید اوپر جا نا ہو گا اورفر ار کو جا ری رکھنا ہو گا یہا ں تک کہ عین الیقین سے حق الیقین کی منزل پر پہنچ جائے اوراپنے سیر وسلوک کو جاری رکھیں یہاںتک کہ حق کے مشاہد ہ کے علا وہ کچھ نہ دیکھیں اور خالص توحید کو پا لیں۔
پس کسی مرحلہ میںتو قف اور ٹھہراؤ جائز نہیں ہے، سبھی لوگ جس مر حلہ میں بھی ہوں انہیں توبہ کا حکم ہے اور توبہ کاسرِا و رراز یہ ہے کہ تائب ہمیشہ امید و بیم کی حالت میں ہوتا ہے نہ اسے سابقہ گناہوں کی بخشش کا یقین ہے او ر نہ ہی وہ رحمت ِالٰہی و بخشش سے مایوس ہے، یہ خوف و رجاء کی حالت سیر و سلوک اور جہا د اکبر کے لئے اہم ترین عا مل ہے۔

خالص توبہ کی خصوصیات
خا لص توبہ کے آداب و شرائط میں سے یہ ہے کہ تائب درج ذیل امور کی طرف متوجہ رہے۔
۱:۔ اپنی کوتاہیوں اور تقصیروں پر سخت پشیما ن ہو۔
۲:۔ ترکِ گنا ہ کا مصمّم ارادہ کرلے۔
۳:۔ دوسروں کے ضائع کئے ہوئے حقوق کو ادا کرنے کے اقدام کرے۔
۴:۔ جو واجبات اس نے چھوڑے ہیں ان کی قضاء کرے۔
۵:۔ اپنی توبہ کی عدم قبولیت سے ڈرنے کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی رکھے کہ ہو سکتا ہے خداوند تعالیٰ کی وسیع رحمت کے صدقے میںاس کی توبہ قبول ہو جائے گی۔
۶۔ گناہ کی لذت کے بجا ئے اطا عت کی سختی ومشکلات کا اپنے آپ کو عادی بنائے۔(۳)
باوجود اس کے کہ گنا ہ گا ر توبہ کی وجہ سے خدا وندتعالیٰ کے فضل و کر م سے بخشے جاتے ہیں پھر بھی اِس کے درمیان اور جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو اُس کے درمیان فرق ہے، اس کا دل اس سفید بورڈ کی طرح ہے جس پر کچھ نہ لکھا گیا ہو لیکن جس نے گنا ہ کیا ہو ا ورپھر توبہ کرے اس کا دل اس سفید بورڈ کی طرح ہے جس پر کچھ لکھ کر اسے مٹا یاگیا ہے۔(۴)
مقصدیہ ہے کہ ہو سکتا ہے گناہ کے بعض منحوس اثرات نفس میں با قی رہ جا ئیں جس کی وجہ سے کچھ منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑے البتہ اس با ت کا زیادہ تعلق اس سے ہے کہ توبہ کیسی اور کس مرتبہ کی تھی، توبہ جتنی صدق دل سے، خالص وکامل ہو گی اتنی ہی گناہ کے ان اثرات کو ختم کرنے کا باعث ہو گی اور بعض مو ارد میں توبہ گناہ کے تمام آثار کو ختم کر دیتی ہے، اس بنا پرامام باقر ؑ فرماتے ہیں:
التائب عن ذنب کمن لاذنب لہ (۵)
گنا ہ سے توبہ کر نے والا ایسے ہی ہے جیسے ا س نے کو ئی گنا ہ نہ کیا ہو
یعنی حقیقی توبہ بھی اسی ارزش و پا کیزگی کا باعث بنتی ہے جو تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔
۲:۔ جس نے ابتد اء سے گنا ہ نہ کیا ہو اور جہا دبا لنفس کر تے ہوئے اس نے نفس کو ناجائز لذتوں سے دور رکھا ہو اس کے لئے جہا د بالنفس اورتر ک گنا ہ کا عظیم اجر و ثواب ثابت ہے جو اسے آخرت میںملے گا، اس نے رضائے خدا کی خاطر بہت سی لذتوں اور خواہشات سے چشم پوشی کی ہے اس کے بدلے خداوندتعالیٰ اسے عظیم ترین اجر و ثواب، معنوی و روحانی لذائذ اور جنتی نعمات سے نوازے گا۔
جب کہ توبہ کرنے والا اپنی توبہ کے ساتھ گنا ہ کی آگ کو تو بجھا لیتا ہے لیکن ان معنوی نعمات سے محروم رہتا ہے، ہاں اگر توبہ کے بعد بہت خلو ص کے ساتھ کو شش کرے اور قربِ حق کو حاصل کرلے تو اسی کے حساب سے اسے بھی درجات و مراتب ملیں گے۔
۳:۔ جو شخص ابتداء سے پا بند تھا اور گنا ہ سے آلود ہ نہ ہو ا وہ سیرالی اللہ کی منز لیں تیزی سے طے کرتا ہے اور بلند مر اتب کو پا لیتا ہے، وہ ہمیشہ اس شخص سے آگے ہی رہے گا جس کا کچھ وقت توبہ اور با طن کی پا کیزگی میں صرف ہوتا ہے، اس کے با وجود جس نے کبھی گنا ہ نہیں کیا اسے اپنے نفس پر تو جہ رکھنا ہوگی اورجہاد بالنفس کو جا ری رکھنا ہو گا، خصوصاً متوجہ رہنا چا ہیے کہ کہیں خو د پسندی و خودبینی کا شکا ر نہ ہوجا ئے ورنہ توبہ کرنے والے سے بھی کم تر مر تبے پر آجا ئے گا۔
روایت میں آیا ہے کہ اے دا ؤد، گنا ہ گاروں کو بشا رت دو اور صدیقین کو ڈراؤ، آپ نے عرض کیا خدایا کیسے انہیں ڈراؤں اور بشا رت دوں؟ فرمایا گناہ گاروں کو یہ بشارت دو کہ میں توبہ قبول کر لیتا ہوں اور گناہ سے درگذر کرتا ہوں اور صدیقین کوڈراؤ اس بات سے کہ خود پسندی و عجب نہ کریں اپنے اور اعمال پر نہ اترائیں ورنہ ہلا ک ہو جائیں گے۔(۶)

(حوالہ جات)
(۱) نو ر / ۳۱
(۲) ذاریا ت / ۵
(۳) مقا لات ،محمد شجا عی ، ج ۲ / ۷۵ ، ۳۱۵
(۴) تفسیر نمو نہ ،نا صر مکا رم شیرازی ، ج ۲۴ سورہ تحریم / ۸
(۵) اصول کا فی تحقیق علی اکبر غفا ری ج ۲۲ / ص ۴۳۵
(۶)اصول کافی ج۱،ص۳۱۴، کتاب ایمان و کفر ، باب عجب ، حدیث ۸، /چہل حدیث، امام خمینی، ؒ ص ۶۸

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button