اخلاق اسلامیدانشکدہمقالات

اخلاق حسنہ

معصومین (ع) کے ارشادات کی روشنی میں

رسول خدا (ص) اور ا ئمہ معصومین علیہم اسلام اخلاق حسنہ کی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں اور یہ بے مثال "” حُسن خلق "”ان کے کردار اور گفتار سے عیاں تھا۔ ان ہی عظیم شخصیتوں کے ارشادات کی روشنی میں ہم "”حُسن خلق”” کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو سکتے ہیں۔
چنانچہ ہم یہاں اُن کے ارشادات سے چند نمونے پیش کر رہے ہیں تاکہ وہ ہماری زندگی کے لئے مشعل راہ بن جائیں :
رسول خدا (ص) نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا :
"”کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں کہ اخلاق کے لحاظ سے تم میں سے کون مجھ سے زیادہ مشابہ ہے ؟ صحابہ نے عرض کی : "”اے اللہ کے رسول (ص) ضرور بتایئے۔”” تو آپ (ص) نے فرمایا :
"”جس کا اخلاق بہت اچھا ہے””۔1
آپ (ص) ہی کا ارشاد گرامی ہے:
"”خوش نصیب ہے وہ شخص جو لوگوں سے خوش خلقی سے ملتا ہے ” ان کی مدد کرتا ہے اور اپنی برائی سے انہیں محفوظ رکھتا ہے””۔2
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"”خداوند عالم نے اپنے ایک پیغمبر کو مخاطب کرکے فرمایا :
"”خوش خلقی گناہوں کو اُسی طرح ختم کردیتی ہے جس طرح سورج برف کو پگھلا دیتا ہے””۔3
آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے:
"”بے شک بندہ اپنے حسن اخلاق سے دن کو روزہ رکھنے والے اور رات کو نماز قائم کرنے والے کا درجہ حاصل کرلیتا ہے””۔4

3)۔اخلاق معصومین (ع) کے چند نمونے:
ہمارے معصوم رہبروں (ع) نے جس طرح "”اخلاق حسنہ”” کے بارے میں نہایت ہی سبق آموز ارشادات فرمائے ہیں ” اسی طرح دوست اور دشمن کے سامنے نیک اخلاق کے بہترین علی نمونے بھی پیش کئے ہیں; ملاحظہ کیجئے:

1۔انس (پیغمبر اکرم (ص) کے خادم) سے مروی ہے کہ : میں نے رسالت مآب (ص) کی نو سال تک خدمت کی "لیکن اس طویل عرصے میں حضور (ص) نے مجھے حتی ایک بار بھی یہ نہیں فرمایا: "”تم نے ایسا کیوں کیا؟”” ۔ میرے کسی کام میں کبھی کوئی نقص نہیں نکالا، میں نے اس مدت میں آنحضرت (ص) کی خوشبو سے بڑھ کر کوئی اور خوشبو نہیں سونگھی، ایک دن ایک بادیہ نشین (دیہاتی) آیا اور آنحضرت (ص) کی عبا کو اتنی زور سے کھینچا کہ عبا کے نشان آپ (ص) کی گردن پر ظاہر ہوگئے۔ اس کا اصرار تھا کہ حضور اکرم (ص) اسے کوئی چیز عطا فرمائیں۔ رسالت مآب (ص) نے بڑی نرمی اور مہربانی سے اُسے دیکھا اور مسکراتے ہوئے فرمایا:
"”اسے کوئی چیز دے دو””۔
چنانچہ خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی:
"”انّک لَعلی خُلق: عظیم”” 5
"”بے شک آپ اخلاق (حسنہ) کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہیں””۔

2۔حضرت امام زین العابدین ۔ کے قریبی افراد میں سے ایک شخص آپ (ع) کے پاس آیا اور بُرا بھلا کہنے لگا ” لیکن آپ (ع) خاموش رہے ، جب وہ شخص چلا گیا تو امام (ع) نے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا:
"”آپ لوگوں نے سن لیا ہوگا کہ اس شخص نے مجھ سے کیا کہا ہے اب میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ چلیں اور میرا جواب بھی سن لیں””۔
امام علیہ السلام راستے میں اس آیت کی تلاوت فرماتے جارہے تھے:
"”و الکاظمین الغیظ والعافین عن الناس والله یحب المحسنین "”6
"”جو لوگ غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف اور درگذر کردیتے ہیں اوراللہ تعالی ایسے احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے””۔
ساتھیوں نے سمجھ لیا کہ امام (ع) آیت عفو کی تلاوت فرما رہے ہیں، لہذا اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے ،جب اس کے گھر پہنچے تو امام (ع) نے اس کے خادم سے فرمایا :
کہ اپنے مالک سے کہدو کہ علی ابن الحسین علیہ السلام تمہیں بلا رہے ہیں۔
جب اس شخص نے سنا کہ امام (ع) فوراً ہی اس کے پاس آئے ہیں تو اس نے دل میں کہا کہ یقیناً حضرت (ع) مجھے میرے کئے کی سزا دیں گے اور اس کا انتقام لیں گے۔ چنانچہ اس نے یہ سوچ کر خود کو مقابلہ کے لئے تیار کرلیا، لیکن جب باہر آیا تو امام (ع) نے فرمایا :
"”میرے عزیز تم نے اب سے کچھ دیر پہلے میرے متعلق کچھ باتیں کہی تھیں ” اگر یہ باتیں مجھ میں پائی جاتی ہیں تو خدا مجھے معاف کرے” اور اگر میں اُن سے پاک اور بَری ہوں تو خدا تمہیں معاف کرے””۔
اُس شخص نے جب یہ سنا تو بہت شرمندہ ہوا ” امام (ع) کی پیشانی پر بوسہ دیا اور معافی مانگنے لگا اور عرض کی :””میں نے جو کچھ کہا ” غلط کہا” بے شک آپ (ع) ایسی باتوں سے پاک ہیں”ہاں ” میرے اندر یہ باتیں موجود ہیں "”۔7

حوالہ جات:
1۔ اصول کافی (مترجم ) ج2، ص 84یا تحف العقول ص48
2۔ تُحف العقول ، ص28
3۔ تحف العقول ۔ ص 28۔ بحارالانوار ج 71، ص 383
4۔ وسائل الشیعہ ج8، ص 56۔ تحف العقول ص 48
5۔منتہی الآمال، ج ا ، ص 31۔ سورہ قلم ، آیت 4
6 ۔ سورہ آل عمران آیت 134
7۔منتہی الآمال، ج3 ، ص 5۔ مطبوعہ انتشارات جاویدان

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button