Nasihatenکتب اسلامی

جبرو اختیار

سوال ۵۶:۔ کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبراکرم ﷺ نے ابنِ ملجم کو حضرتِ امیرالمومنین ؑ کا قاتل قرار دیا، ابنِ ملجم رویا اور کہا، مجھے ابھی قتل کر دیں، حضرت علیؑ بھی بار بار اسے اپنا قاتل کہتے تھے، اگر یہ روایات صحیح ہیں تو ان تاکیدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ابن ملجم خود کو کیسے نجات دے سکتا تھا اگر ابن ملجم کے لیے کوئی راہ فرار باقی نہ ہو تو یہ عدلِ الٰہی کے مناسب نہیں، اس بنا پر (ابن ملجم کے لیے) اس حادثہ سے فرار کا راستہ حتمی طور پر موجود ہے، وہ راستہ کیا ہے؟
ابن ملجم انسان ہے جو صحیح یا غلط راستے کو طے کر سکتا تھا، انسان ہمیشہ دوراہے پر ہے۔
وَہَدَیْْنَاہُ النَّجْدَیْْنِ(۱)
۱ور ہم نے انسان کو حق و باطل دونوں راستوں سے آشنا کر دیا ہے
انسان اپنے میل و ارادہ سے راہِ حق یا باطل کو چنتا ہے اور اس پر حرکت کرتا ہے، خداوندِمتعال ماضی، حال اور آئندہ سے باخبر ہے، جانتا ہے کہ فلاں شخص جب بالغ ہو گا اور دو راہے پر واقع ہو گا تو اپنے اختیار سے غلط ساتھی کو چنے گا اور غلط راستے پر چلے گا۔
خداوندِمتعال یہ علم غیب پیغمبرو امام کو عطا کرتا ہے، وہ بھی جانتے ہیں، یہ شخص اس کام کو انجام دے گا، لیکن یہ آگاہی و علم شخص سے حق انتخاب کو سلب نہیں کرتی، وہ صحیح راستہ بھی چن سکتا ہے اور صحیح راستے پر چل بھی سکتا ہے، اسی وجہ سے معصومین ؑاسے تنبیہ کرنے کے لیے بات کرتیتھے اگرچہ جانتے تھے کہ اپنے ارادہ و خواہش سے اس کام کو انجام دے گا۔
حضرت امیرالمومنینؑ کی طرف ایک واقعہ منسوب ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان ہر راستے کا انتخاب کر سکتا ہے اور اس انتخاب کا ذمہ دار بھی ہے، حضرت علی ؑ کوفہ میں خطبہ دے رہے تھے، ایک شخص حاضر ہوا اور خبر دی کہ خالد بن عرطفہ مر گیا ہے، آنحضرت ؑ نے فرمایا: وہ نہیں مرا ہے، دوبارہ تکرار کیا گیا کہ قابل اطمینان خبر رکھتے ہیں کہ وہ مر گیا ہے، تیسری مرتبہ کے بعد امام ؑنے فرمایا: وہ زندہ ہے اور بیس سال بعد یزید کے فائدہ کے لیے امام حسینؑ کے خلاف کھڑا ہو گا اور کچھ لوگ بھی اس کے پیچھے چلیں گے، پھر حضرت ؑ نے حاضرین میں سے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: فلاں شخص بھی اس کا ساتھی ہو گا، اس شخص نے عرض کی: میں اس کا ساتھ دوں گا؟ حضرت ؑ نے فرمایا : ہاں، اس کا ساتھ نہ دینا لیکن تم دو گے، اس کے بعد امام کی پیش گوئی اسی طرح واقع ہو گئی، یہ علمِ غیب کی خاصیت ہے وہ لوگ جو علم غیب رکھتے ہیں، جانتے ہیں کہ فلاں شخص اپنے عزم و ارادہ سے فلاں کام کرے گا اور نہیں بھی کر سکتا کیونکہ جب انجام دے گا توپشیمان ہو گا، جب انسان کسی کام سے پشیمان ہوتا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ اس نے اپنے اختیار سے انجام دیا ہے، خدا جانتا ہے کہ وہ درحالانکہ اس کام کو انجام نہیں دے سکتا، اپنے اختیار سے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، البتہ ارتکاب سے پہلے قصاص نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ احتمال ہے کہ آئندہ بیدار ہو جائے اور ناشائستہ اعمال کے ارتکاب سے چشم پوشی کرے گا۔

(حوالہ )
(۱) سورہ بلد آیت ۱۰

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button