دانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

سارے عالم کی وفا حضرت عباس (ع) ميں ہے۔۔۔۔

(تحریر: سیدہ ایمن نقوی)

حضرت ابوالفضل العباس بن امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) 4 شعبان 26ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی کنیت ” ابوالفضل” ہے، آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت حزام جو کہ "ام البنین” کے نام سے مشہور ہیں۔ ام البنین یعنی "بیٹوں کی ماں”۔ اس پاک و عظیم خاتون سے امام علی بن ابیطالب (ع) کے 4 فرزند عباس، جعفر، عثمان، اور عبداللہ تھے اور یہ چاروں بھائی اپنے وقت کے امام اور بھائی، حضرت امام حسین (ع) کی نصرت کرتے ہوئے یزید بن معاویہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں دس محرم الحرام کو کربلا میں شہید ہوئے۔ روایت میں نقل ہے کہ ایک دن امیرالمومنین (ع) نے اپنے بھائی عقیل بن ابیطالب (ع) سے فرمایا، تم عرب نسل کے عالم ہو، میرے لئے ایسی خاتون کا انتخاب کرو جس سے شجاع، طاقتور اور جنگجو فرزند پیدا ہوں۔ عقیل نے انساب عرب اور عرب کی شائستہ اور لائق عورتوں کے بارے میں غور و فکر کرنے کے بعد اپنے بھائی امیرالمومنین (ع) کو مشورہ دیا کہ حزام کلبی کی بیٹی فاطمہ ام البنین کے ساتھ شادی کریں، کیونکہ ان کے باپ دادا عربوں میں نہایت شجاع اور دلیر مانے جاتے ہیں۔ امیرالمومنین (ع) نے بھی اپنے بھائی عقیل کے مشورہ پر ام البنین کے ساتھ شادی کی اور ان سے چار شجاع اور دلیر فرزند ہوئے۔ حضرت عباس (ع) بن امیرالمومنین (ع) نے اپنی عالمہ اور فہیمہ والدہ کے آغوش میں پرورش پائی اور امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) جیسے بھائیوں کے ساتھ زندگی کے ہر نشیب و فراز میں ساتھ رہے۔ جب امیرالمومنین علی بن ابیطالب (ع) کی خلافت کا آغاز ہوا تو حضرت عباس (ع) دس سال کے تھے اور اتنی کم عمری میں جنگ میں شرکت کر کے داد شجاعت پا کر اس بات کو ثابت کر دیا کہ علی کا شیر ہے۔ آپ نے اس ماہرانہ انداز میں جنگ کی کہ عرب کے بڑے بڑے نامور جنگجو انگشت بدنداں رہ گئے۔

کنیت :
1۔ "ابوالفضل” حضرت عباسؑ کی مشہور ترین کنیت ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ بنی ہاشم کے خاندان میں جس کا بھی نام عباس ہوتا تھا اسے ابوالفضل کہا جاتا تھا، اسی لئے عباسؑ کو بچپنے میں بھی ابوالفضل کہا جاتا تھا۔ بعض منابع میں نقل ہے کہ حضرت عباسؑ کے فضائل کی کثرت کی وجہ سے انہیں اس کنیت سے جانا جاتا تھا۔ اسی کنیت ہی کے ناطے آپ کو ابو فاضل اور ابو فضائل بھی کہا جاتا ہے۔
2۔ "ابوالقاسم” آپ کے ایک بیٹے کا نام قاسم تھا اور اسی وجہ سے آپ کو ابوالقاسم کہا گیا آپ کی یہ کنیت زیارت اربعین میں بھی ذکر ہوئی ہے۔ جہاں جابر انصاری آپ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں،”اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا أبَا الْقاسِمِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَبّاس بنَ عَلِيٍ”۔ (ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے قاسم کے باپ، سلام ہو آپ پر اے عباس فرزند علیؑ۔
3۔ "ابوالقِربَة” قربہ کے معنی پانی کی مشک ہے۔ بعض معتقد ہیں کہ واقعہ کربلا میں چند مرتبہ پانی لانے کی وجہ سے آپکو اس کنیت سے پکارا جاتا ہے۔
4۔ "ابوالفَرجَة” فرجہ، غم دور کرنے اور راہ حل دینے کے معنی میں ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ لفظ کنیت کی شکل میں ایک لقب ہے کیونکہ آپکا «فرجہ» نامی کوئی بیٹا نہیں تھا اور اس کنیت کی وجہ یہ ہے کہ عباسؑ ہر اس شخص کے کام کو حل کرتے ہیں جو ان سے متوسل ہوتے ہیں۔

القاب:
حضرت ابوالفضل العباسؑ کے لئے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں ان میں سے بعض پرانے ہیں اور بعض جدید ہیں جنہیں لوگوں نے آپ کی صفات اور فضیلتوں کی بنیاد پر آپ سے منسوب کیا ہے۔ آپ کے بعض القاب مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ "قمر بنی‏ ہاشم” حضرت عباسؑ نہایت نورانی چہرہ کے مالک تھے، جو آپ کے کمال و جمال کی نشانیوں میں شمار ہوتا تھا، تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ کے حسن و جمال کا یہ عالم تھا کہ جس راستے سے آپ گزرتے تھے لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کے آپ کے چہرہ اقدس کی زیارت کیا کرتے تھے، اسی بنا پر آپ کو قمر بن ہاشم کا لقب دیا گیا تھا۔
2۔ "باب الحوائج” حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ایک باب الحوائج ہے اور آپ کا یہ لقب آشنا ترین اور مشہور ترین القاب میں سے ہے۔ بہت سارے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ کہ اگر حضرت عباس سے متوسل ہو جائیں تو ان کی حاجت پوری ہوتی ہے۔
3۔ "سقّا” یہ لقب مورخین اور نسب شناسوں کے درمیان مشہور ہے، آپ نے کربلا میں تین مرتبہ اہل حرم اور امام حسینؑ کے خیموں تک پانی پہنچایا۔
4۔ "الشہید” کیونکہ کربلائے معلٰی میں آپ شہادت کے اعلٰی مقام پہ فائز ہوئے۔ شہادت ابوالفضلؑ کی ان نمایاں خصوصیات میں سے ہے، جو آپ کی حیات مبارکہ کے افق پر چمک رہیں ہیں اور آپ کے اس لقب کی بنیاد آپ کی شہادت ہی ہے۔
5۔ "حامل اللواء یعنی پرچمدار اور علمدار” معرکہ کربلا میں آپ لشکر حسینی کے پرچمدار اور سپہ سالار تھے۔ حضرت عباس کے مشہور القاب میں علمدار (حامل اللواء) شامل ہے؛ حضرت عباسؑ روز عاشور اہم ترین اور قابل قدر ترین پرچم کے حامل تھے، جو سیدالشہداء امام حسینؑ کا پرچم تھا۔
6۔ "طیار” یہ لقب عالم قدس اور بہشت جاویدان کی فضاؤں میں حضرت ابوالفضل العباسؑ کی شان و مرتبت کو نمایاں کرتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: "عباس کے ہاتھ حسینؑ کی حمایت میں قلم ہونگے اور پروردگار متعال اس کو دو شہہ پر عطا فرمائے گا اور وہ اپنے چچا جعفر طیار کی مانند جنت میں پرواز کرے گا۔
7۔ "عبد صالح” یہ وہ لقب ہے جس کی طرف امام صادقؑ نے بھی آپ کے زیارتنامے میں اشارہ فرمایا ہے۔ "اَلسَّلامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للهِ وَلِرَسُولِهِ وَلاَِميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِمْ وَسَلَّمَ”۔ (ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے خدا کے نیک بندے، جو اس کے رسول، امیرالمؤمنین اور حسن و حسین علیہم السلام کے اطاعت گزار و فرمانبردار ہیں۔۔۔”۔
8۔ "کبش الکتیبہ” وہ لقب ہے جو سپہ سالاری کے زمرے میں اعلٰی ترین رتبے کے حامل سپہ سالار کو دیا جاتا ہے، جس کی بنیاد حُسنِ تدبیر اور شجاعت و دلاوری نیز ماتحت افواج کو محفوظ رکھنے جیسے اوصاف ہوتے ہیں۔
9۔ "سپہ سالار” آپ روز عاشور بھائی کے لشکر کے اعلٰی ترین سپہ سالار تھے اور سپاہ حسینؑ کے عسکری قائد تھے؛ چنانچہ آپ کو یہ لقب عطا ہوا ہے۔

ابتدائی زندگی:
حضرت علی علیہ السلام نے ان کی تربیت و پرورش کی تھی۔ حضرت علی علیہ السلام سے ہی انہوں نے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا علم فقہ حاصل کئے۔ بہت ہی کم عمری میں وہ "ثانی حیدر” کہلانے لگے۔ حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، شمشیر بازی اور مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصوصاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبرگیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو” باب الحوائج” کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے، اپنے امام کے سامنے کبھی سر اٹھا کے بات نہیں کی، ہمیشہ انہیں مولا و آقا کہہ کے پکارا، کبھی بھائی کہہ کر مخاطب نہیں کیا، بجز وقت شہادت وہ بھی امام حسین علیہ السلام کی خواہش پر کہ جب آپ نے کہا، "عباس تم نے ساری زندگی مجھے مولا کہہ کے بلایا میری ہمیشہ خواہش رہی کہ تم مجھے بھائی کہہ کے پکارو” اس وقت ابوالفضل العباس نے کہا ” یا اخی”۔ آپ نے سخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ کچھ اس طرح وابستہ ہوگیا ہے کہ جہاں وفا کا ذکر ہو تو فورا اذہان حضرت عباس علیہ السلام کی جانب منتقل ہو جاتے ہیں، اور اسی لئے ان کا ایک لقب "شہنشاہِ وفا” ہے۔
ضو وہ شیشے میں کہاں جو الماس ميں ہے
سارے عالم کی وفا حضرت عباس ميں ہے

علم و بصیرت ابوالفضل العباس:
جب کبھی بھی حضرت کا نام آتا ہے، فوری طور پر علی بن ابیطالب کی طرح ان کی شجاعت کا ذکر آتا ہے، اکثر لوگ ان کو انکی شجاعت اور کربلا میں ان کے شجاعانہ کردار اور وفا کی وجہ سے جانتے ہیں، لیکن حضرت عباس کا تعلق اہلبیت (ع) کے گھرانے سے ہیں، آپ نے اس باپ کے دامن آغوش میں تربیت پائی جو "باب العلم” ہے، جو لوگوں سے فرماتے نظر آتے تھے،”سلونی ان قبل تفقدونی” مجھ سے سوال کر لو اس پہلے کہ میں تم لوگوں کے بیچ میں نہ رہوں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کی اپنی اولاد ان کے فیض سے محروم رہی ہو، اور اس ماں کا پاکیزہ شیر پیا ہے کہ جب اسراء کربلا رہا ہو کے مدینہ پہنچے اور بی بی ام البنین کو امام حسین (ع) کی شہادت کی خبر ملی تو آپ کی اپنے وقت کے امام کی نسبت سے معرفت کا یہ عالم تھا کہ سب سے پہلا جو سوال کیا وہ یہ تھا کہ "جب حسین (ع) شہید ہوا تو عباس کہاں تھا” حضرت عباس اہل عِلم و فضل و بصیرت تھے، اور خاندان عصمت و طہارت کے اسرار و رموز سے کاملا باخبر تھے۔ جناب عباس ایسے دانشمند تھے کہ جنہوں نے کسی دنیاوی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا تھا، کیوںکہ آپ نے فیض الٰہی کے سرچشمہ سے علم حاصل کیا تھا۔ آپ نے اپنے پدر بزرگوار حضرت امیرالمومنین اور اپنے بھائیوں سے اسرار الٰہی حاصل کئے تھے اور ان بزرگواروں کے پرفیض دامن سے استفادہ کیا تھا۔ آیت اللہ بیرجندی لکھتے ہیں، "حضرت ابو الفضل العباس اہل بیت علیہم السلام کے اکابر، افاضل، فقہاء اور علماء میں سے تھے، بلکہ ایسے عالم تھے کہ جنہوں نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا تھا۔1۔ مرحوم مقرم لکھتے ہیں، "جہاں امیرالمومنین اپنے بعض اصحاب کو اس طرح تعلیم و تربیت دیتے تھے کہ عالم وجود کے اسرار و رموز منجملہ علم منایا وبلایا (یعنی گذشتہ کے حالات اور موت کا علم) رکھتے تھے، (جیسے حبیب بن مظاہر، میثم تمار اور رُشَید حجری وغیرہ) کیا یہ بات معقول ہے کہ امیر المومنین اپنے اصحاب کو اس طرح کے علم سے سرفراز فرمائیں اور اپنے نور چشم اور پارۂ جگر کو اپنے علوم سے محروم رکھیں؟ جبکہ آپ کی صلاحیت و استعداد ان افراد سے کہیں زیادہ تھی، کیا ہمارے مولا و آقا حضرت ابوالفضل العباس کے پاس ان علوم کے حاصل کرنے کی صلاحیت و استعداد نہیں تھی؟ خدا کی قسم ایسا نہیں ہے، حضرت امیرالمومنین اپنے ان تمام شیعوں کو جو علوم و معارف حاصل کرنے کی صلاحیت و استعداد رکھتے تھے اپنے علوم سے سرفراز کرتے تھے چہ جائیکہ آپ کے نور چشم وپارۂ جگر۔ المختصر یہ کہ حضرت عباس اپنی بہن زینب کبرٰی علیہا السلام کی طرح ہیں، جیسا کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے بیان کے مطابق کہ آپ نے فرمایا، ہماری پھوپھی زینب عالمہ غیر متعلمہ ہیں (یعنی کسی سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا) اسی طرح جناب عباس کے بارے میں فرمایا ہے کہ آپ عالم غیر متعلم ہیں۔”

سردار کربلا، وفا کا پیکر، علی کا شیر، قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس طیب و طاہر نفس اور پاک و پاکیزہ طینت کے مالک تھے، اور اس عظیم اخلاص کی بنیاد پر کہ جس کے آپ حامل تھے اس حدیث شریف کے مکمل مصداق ہیں کہ ”مٰا اَخلَصَ عَبد لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَربَعِینَ صَباحاً اِلاّٰ جَرَت یَنابیعُ الحِکمَةِ مِن قَلبِہِ عَلیٰ لِسٰانِہِ۔ 2۔ "جو شخص اپنے اعمال کو خدا کے لئے چالیس دن انجام دے اس کے قلب سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری ہوں گے ۔” جس شخص کے متعلق ملتا ہے کہ جس نے اپنی عمر کے تمام اعمال و مراحل کو خداوند عالم کی مرضی و خوشی کیمطابق گزارہ ہو اور تمام اخلاقی رذائل سے منزہ و مبرا ہونے کیساتھ تمام فضائل سے آراستہ ہو، کیا اس کے سوا تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس کی ذات اقدس الٰہی کے علوم و معارف کے انوار سے متجلی نہ ہو اور اس کا علم ،علم لدنی نہ ہو؟ معصوم کا کلام ہے کہ فرماتے ہیں، ”اِنَّ العَبّاسَ بنَ علیٍّ زُقَّ العِلمَ زُقّاً” ؛3۔ "بے شک عباس بن علی کو بچپن ہی میں اس طرح علم سے سیراب کیا گیا کہ جیسے پرندہ اپنے بچے کو دانہ کھلاتا ہے۔” مرحوم مقرم اس کے بعد مزید لکھتے ہیں، "امام کی تشبیہ نہایت بدیع استعارہ ہے اس لئے کہ ”زق” پرندے کا اپنے بچے کو دانہ بھرانے کے معانی میں ہے کہ جس وقت وہ خود تنہا دانہ کھانے پر قادر نہیں ہے۔ حضرت امام علی علہ السلام کے کلام میں اس استعارہ کے استعمال سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سقائے سکینہ، زینب کی چادر کا ضامن بچپن ہی سے یہاں تک کہ آغوش مادر سے علوم و معارف کے حاصل کرنے کی صلاحیت و استعداد کے حامل تھے 4۔ حضرت ابو الفضل العباس بھی اس طیب و طاہر خاندان سے دور نہیں سمجھے جاتے تھے کہ جن کے افراد بچپن میں دریائے علم تھے، یہ وہ مطلب ہے کہ جس کی گواہی ان کے دشمنوں نے بھی دی ہے”۔

ایک تعجب خیز واقعہ کہ جس کو تمام موثقین تاریخ نے نقل کیا ہے وہ یہ ہے کہ کربلا کے ایک عالم کو اپنے علم پر غرور اور تکبر پیدا ہوا، یہاں تک کہ ایک وقت اپنے دوستوں کے درمیان تھے، حضرت ابو الفضل العباس اور ان کے الٰہی علوم و معارف کے بارے میں کہ جنکی وجہ سے آپ کو تمام شہداء پر امتیاز حاصل تھا، بحث و گفتگو ہوئی، اس وقت اس مغرور عالم نے اپنی گرانقدر خصوصیات منجملہ علوم، نماز شب، مستحبی اعمال اور زہد و تقوٰی کی بناء پر اظہار کیا کہ وہ (نعوذ باللہ) جناب عباس (ع) سے برتر ہے، اور کہا کہ اگر جناب عباس کو اس طرح کے فضائل کی وجہ سے برتری حاصل ہے تو میں بھی ان فضائل کا حامل ہوں اور روز عاشورہ کی شہادت کی برابری علم و فقہ (کہ جن کے متعلق وہ مدعی تھا وہ ان کا حامل ہے اور حضرت ابو الفضل العباس ان کے حامل نہیں ہیں) کے ساتھ نہیں کی جاسکتی ہے۔ اس بزم میں موجودہ افراد کو اس کی جسارت سے بڑا تعجب ہوا، اور وہ مرد اپنے اس تکبر و غرور پر نہ ہی شرمندہ تھا اور نہ ہی اسے کوئی خوف لاحق تھا۔ دوسرے دن مجمع میں موجودہ افراد اس مرد کے متعلق باخبر ہونا چاہتے تھے کیا وہ اپنی گمراہی پر باقی ہے یا خدا کی ہدایت اس کے شامل حال ہوگئی ہے۔ پس اس کے گھر کی طرف روانہ ہوئے، وہاں پہنچ کر دق الباب کیا، ان لوگوں سے کہا گیا کہ وہ جناب عباس کے حرم مطہر میں گئے ہوئے ہیں، لوگ حرم مطہر کی جانب چلے وہاں پہنچ کر مشاہدہ کیا کہ اس مرد نے اپنی گردن میں رسّی باندھی ہے اور رسّی کا دوسرا سرا ضریح مطہر سے متصل کئے ہوئے ہے اور گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے عمل پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کررہا ہے۔ جب لوگوں نے اس موضوع سے متعلق اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ جب میں کل کی شب سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں علماء کے مجمع میں بیٹھا ہوا ہوں، اچانک ایک مرد داخل ہوا اور آواز دی کہ حضرت ابوالفضل العباس تشریف لارہے ہیں آپ کا نام سنتے ہی لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوگئے، یہاں تک کہ جناب عباس نور کے ہالوں میں جو آپ کے چہرۂ مبارک سے ساطع ہورہا تھا بزم میں داخل ہوئے اس حال میں کہ تمام لوگ آپ کی عظمت اور شان و شوکت کے مقابلہ میں خاضع و خاشع تھے، جناب عباس آکر صدر مجلس میں بیٹھے اور میں اس وقت اپنی گذشتہ جسارت کی وجہ سے بڑی شدت کی ساتھ خوف و اضطراب میں مبتلا تھا۔

جناب عباس نے اہل بزم کے ایک ایک فرد سے گفتگو کرنا شروع کردی یہاں تک کہ میری باری آئی، فرمایا تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس حال میں کہ میرے ہوش و حواس اڑے ہوئے تھے میں چاہتا تھا کہ خود کو اس ہلاکت سے نجات دوں اور اپنے گمان کے مطابق حق کو ثابت کروں، جو دلیلیں اور باتیں تم لوگوں سے کہی تھیں حضرت کے سامنے پیش کی۔ جناب عباس نے فرمایا، میں نے اپنے پدر بزرگوار حضرت امیرالمومنین اور اپنے دونوں بھائیوں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے پاس علم حاصل کیا ہے، ان جلیل القدراور الہی اساتی دسے علم حاصل کرکے اپنے دین میں یقین کی منزل تک پہنچا ہوں جبکہ تم اپنے دین میں اور اپنے امام کی نسبت شک کرتے ہو ، کیا ایسا نہیں ہے ؟ میں ان کے کلام سے انکار نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے بعد فرمایا لیکن وہ استاد کہ جس کے پاس تم نے تعلیم حاصل کی ہے وہ تم سے زیادہ بدبخت ہے، تمہارے پاس ایسے اصول و قواعد ہیں جو احکام کی نسبت جاہل افراد کے لئے قرار دئیے گئے ہیں تا کہ حقائق تک پہنچنے کے لئے انہیں استعمال کیا جائے، جبکہ میں ان اصول و قواعد کا محتاج نہیں ہوں اس لئے کہ میں نے دین کے واقعی و حقیقی احکام کو وحی الٰہی کے سرچشمہ سے حاصل کیا ہے۔ اس کے بعد حضرت فرماتے ہیں، مجھ میں گرانقدر صفات پائی جاتی ہیں، آپ نے انہیں بیان کرنا شروع کیا، کرم ، صبر، ایثار اور جہاد وغیرہ کہ اگر تم سب کے درمیان ان میں سے کچھ صفات تقسیم کی جائیں تو تمہارے پاس انہیں قبول کرنے کی قدرت و توانائی نہیں ہوگی، جبکہ تم میں حسد، خود پسندی اور ریا وغیرہ جیسی رذیلہ صفات پائی جاتی ہیں، اس کے بعد اپنے دست مبارک سے میرے منہ پر مارا اور میں اپنی گذشتہ خطاؤں کی وجہ سے خوف و ندامت کی حالت میں اٹھا اور حضرت سے توسل اورتوبہ کرکے آپ کی باتوں کو قبول اور آپ کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ 5 و 6۔

اولاد و نسل:
عباس بن علی (ع) کی اولاد اِس وقت دُنیا کے کافی ممالک میں پائی جاتی ہے۔ آپ علوی سید ہیں۔ اِس لئے آپ کی اولاد دُنیا میں سادات علوی کے نام مشہور و معروف ہے۔ سادات علوی کی آگے سے مختلف شاخیں ہیں۔ اِسی لئے آپ کی اولاد عرب و عراق میں "سادات علوی” مصر میں "سادات بنی ہارون” اردن میں "سادات بنو شہید” یمن میں "سادات بنی مطاع” ایران میں "سادات علوی ابوالفضلی” اور برصغیر پاک و ہند میں "سادات علوی المعروف اعوان قطب شاہی کے عنوان سے مشہور و معروف ہے۔
حوالہ جات:
1۔ کبریت احمر ٤٠٦۔
2۔ عیون الاخبار، ٦٨٢ب ٣١، ح ٣٢١۔
3۔ اسرار الشہادة، ص ٣٢٤۔
4۔ العباس، مرحوم مقرم ١٦٩، خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔
5 و 6۔ خصال صدوق ، ج١ ، ص٦٧ ، باب ” درخواست جز در سہ مورد روا نیست ”۔

Related Articles

Back to top button