دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

عظمت کردار حسینی، تاریخ کے آئینہ میں

(سید زائر امام مظفرپوری)

یوں تو ہر انسان کے وجود میں کچھ خصائل پائے جاتے ہیں جو اسکی شخصیت کے عرفان کی علامت قرار پاتے ہیں اور تاریخ بشریت میں ایسی عظیم شخصیتیں ملتی ہیں جن کی عظمت و منزلت نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے. کسی نے شجاعت میں کسی نے زہد و ورع میں کسی نے سخاوت میں آفاقی شہرت حاصل کی ہے لیکن حضرت امام حسینۖ کی ذات بابرکت اس بات سے بالکل مختلف ہے ان کی زندگی کا ہر رخ عظمت و بلندی کے اعتبار سے انفرادیت کا حامل ہے کھانے پینے کے آداب سے لیکر عبادات و معاملات تک ہر مقام اور ہر منزل پر ان کی شخصیت بے مثل و نظیر ہے اور اس میںدنیا کا کوئی دوسرا صاحب کردار شریک نہیں ہے، حضرت نے اخلاقیات کی دنیا بھی آباد کی جس کے ذریعہ انسان اپنے کردار کی بہتر تعمیر کر سکتا ہے۔
امام عالی مقام کی مبارک زندگی کے ہر کام میں للہیت نظر آتی ہے. آپ کی زندگی کا ہر لمحہ فنا فی اللہ تھا اور ساری زندگی، اطاعت و بندگی، حمایت بشریت اور رسالت محمدیۖ کی نشر و اشاعت میں گزری، ہماری محدود نگاہیں ان کی وسعت عظمت کا اندازہ نہیں کر سکتیں۔ یہاں پر ہم کسب معرفت کے لئے تاریخی آئینے میں تصاویر کردار حسینیۖ دیکھتے ہیں.
١۔ تاریخی شواہد اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ آپ دل و جان سے سماج کے مسائل میں شریک رہتے تھے اور دوسروں کی طرح خود بھی مصائب و مشکلات برداشت کرتے تھے۔ خداوند قدوس کے اوپر خالصانہ ایمان و اعتقاد کے سبب لوگوں کے غمخوار تھے، ایک روز آپ ایک جگہ سے گزر رہے تھے وہاں پر کچھ فقیر اپنی ردا کو بچھائے ہوئے بیٹھے تھے اور سوکھی روٹی کھارہے تھے ان فقراء نے آپ کو مدعو کیا آپ فورا وہاں پر بیٹھ گئے اور ان کے ساتھ سوکھی روٹی کھانے میں شریک ہوگئے اور فرمایا :(ان اللہ لا یحب المتکبرین)(١)
خداوندعالم غرورو تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس کے بعد فرمایا: میں نے تمہاری دعوت قبول کی اب تم لوگ میری دعوت قبول کرو، ان فقیروں نے حضرتۖ کی دعوت قبول کرلی اور آپ کے ساتھ گھر آئے امام نے حکم دیا کہ جو کچھ موجود ہے وہ ان کے لئے لاؤ۔ اس طرح سے حضرت نے ان کی بہت خاطر کی اور ہمیں تواضع و انکساری کا درس بھی دیا کہ جب تمہارا مولا مالک جنت ہوکر فقیروں کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ سکتا ہے تو تمہاری کیا حیثیت ہے(٢)
٢.. ابن شہر آشوب روایت نقل کرتے ہیں کہ جب اسامہ بن زیدمرض الموت میں مبتلا ہوئے اور امام حسینۖ ان کی عیادت کی غرض سے تشریف لے گئے تو اسے بہت غم و اندوہ میں پایا امامۖ نے فرمایا: اے بھائی تیرے پریشان ہونے کی وجہ کیا ہے؟ کہا: میں ساٹھ ہزار درہم کا مقروض ہوں اور اسی قرض کی وجہ سے پریشان ہوں ، امام نے فرمایا: تیرا قرض میرے ذمے ہے ۔انہوں نے کہا: میں ڈرتا ہوں کہیں مر نہ جاؤں۔ امام نے فرمایا:تمہاری موت سے پہلے قرض کو ادا کر دوںگا اور پھر حضرتۖ نے اسکی موت سے پہلے قرض کو ادا کردیا(٣)
٣.. صاحب کشف الغمہ ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ انس کا بیان ہے میں ایک دن حضرت امام حسین کی خدمت میں تھا اسی دوران حضرت کی کنیز آئی اور ایک پھول حضرت کی خدمت میں پیش کیا امام نے فرمایا میں نے تجھے خدا کے لئے آزاد کردیا انس کابیان میں نے عرض کیا:وہ آپ کے لئے ایک پھول لائی اور آپ اسے آزاد کررہے ہیں؟ امام نے اپنی اس حکمت عملی کی وضاحت کی اور فرمایا:خداوند عالم کا ارشاد ہے: جب تمہیں کوئی تحفہ دے تو تم اس سے بہتر تحفہ دو اور میرے لئے بہترین تحفہ یہی تھا کہ اسکو آزاد کروں(٤)
٤۔ تاریخ کا بیان ہے کہ عبد الرحمان بن سلمیٰ نے امام حسین کے ایک بیٹے کو سورئہ حمد کی کی تعلیم دی جب اس بچے نے امام کی خدمت میں اس سورہ کی تلاوت کی توآپ نے فرمایا: اس معلم کو ایک ہزار دینار اور ایک ہزار زیبا لباس عطا کئے جائیں اور اس کا دامن ہیرے سے بھردیا جائے لوگوں نے سوال کیا اسکی اجرت اسقدر نہ تھی امام نے فرمایا: اس تعلیم کے مقابلہ میں اس عطا و بخشش کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے(٥)
اس روایت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی آدمی کو دینی تعلیم دینا یا کسی شخص کو دیندار بنادینے کی کوئی قیمت نہیں دے سکتا ہے شاید اسی مطلب کی طرف خداوند کریم نے قرآن پاک میں اشارہ فرمایاہے:” اگر کسی نے ایک انسان کے ضمیر کو بیدار کرکے اسے حیات دیدی تو گویا اس نے پوری انسانیت کو زندہ کردیا اور اس کی اجرت اتنی زیادہ ہے کہ خداوند منان کے علاوہ کوئی اسے نہیں دے سکتا ”۔
٥۔ امام حسین اپنے رفتار و کردار کے اعتبار سے پیغمبراسلامۖسے مشابہ تھے مہمانوں کے ساتھ اکرام و احترام ،غریبوں کی فریادرسی، نیازمندوں کی حاجت روائی آپ کا شیوہ تھا . ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک اعرابی مدینے میں آیا اور اس نے لوگوں سے پوچھا کہ اس شہر طیبہ میں کون سب سے زیادہ محترم اور سخی انسان ہے ؟لوگوں نے امام حسین کا نام لیا اور اسے امام کی خدمت میں پہونچا دیا۔ جب وہ حضرت کی خدمت میں آیا دیکھا کہ امام نماز پڑھ رہے ہیںوہ بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کھڑا ہو گیا اور امام کے مقام عالی کو پہچاننے کے بعد ان کی مدحت میں کچھ اشعار کہے ا ور نماز تمام ہونے کے بعد اپنے ناساز حالات کو بیان کیا امام حسین نے قنبر سے مخاطب ہوکر فرمایا کیا حجاز کے اموال سے کچھ باقی بچا ہے؟ قنبرنے عرض کیا ہاں میرے مولا چار ہزار درہم بچا ہوا ہے. امام نے قنبر سے فرمایا اسے لیکر آو ،اور اس شخص کو دیدو کہ یہ سب سے زیادہ مستحق ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ امام حسین نے اپنے ایک لباس کو اتارا اور وہ چار ہزار درہم اس میں رکھا اور امام نے اس وجہ سے کہ اسے زیادہ ندامت نہ ہو۔ دروازہ کے پیچھے سے اسے دیا جب حضرت نے اسے عطا کیا تو اس نے پھر کچھ اشعار مدحت میں پڑھے اور ان چارہزاردرہم کو لینے کے بعد گریہ کرنے لگا۔ امام نے فرمایا شاید تم اس لئے گریہ کررہے ہو کہ اس کی مقدار تمہارے لئے کم ہے؟ اس شخص نے کہا نہیں مگر میرا گریہ اس سبب سے ہے کہ کیسے آپ کا چہرہ خاک میںجائے گا اور افسوس ہے ایسا سخی انسان ایک دن زیر خاک چلا جائے گا۔(٦)
٦۔ ابن شہر آشوب ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام حسین نے فرمایا: نماز کے بعد سب سے بہترین اعمال مومن کے دل میں نشاط و سرور ایجاد کرنا ہے ایسے اسباب سے کہ جس میں شمولیت گناہ نہ ہو۔ بیشک میں نے ایک دن ایک غلام کو دیکھا جو کتے کے ساتھ کھانا کھارہا تھا میں نے اس سے اسکا سبب پوچھا اس نے جواب دیا: اے فرزند رسول خدا! میں غمگین ہوں اور چاہتا ہوں کہ اسے خوش رکھوں شاید اسکی خوشی میرے سرور کا سبب بن جائے۔ چونکہ میرا مالک یہودی ہے اور میں اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہوں امام نے جیسے ہی اس غلام سے یہ بات سنی، یہودی کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: میں تجھے ٢٠٠ دینار دیتا ہوں تاکہ تو اپنے غلام کو مجھے بیچ دے یہودی نے کہا: میں نے غلام کو آپ کے قدموں پرنثار کردیا اسلئے کہ آپ چل کر میرے گھرتشریف لائے اور اس باغ کو بھی اسے بخشش دیا اور اموال کو واپس پلٹاتا ہوں امام نے فرمایا میں نے مال و دولت تجھ کو بخش دیا یہودی نے کہا: میں نے اسے قبول کیا اور غلام کو عطا کردیا۔ امام نے فرمایا: میں نے غلام کو آزاد کردیا اور مال و دولت اسے بخشش دیا۔ یہودی نے کہا: میں بھی مسلمان ہو گیا اور یہ گھر اپنی بیوی کو بخش دیا۔(٧)
بیشک اہلبیت اطہار سخاوت کے ایسے عظیم منارے پر فائز ہیں جہاں ان کی دریادلی کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی اور حتی جو افراد ان کے دامن سے متمسک ہو جاتے ہیں ان کے قدموں سے بھی سخاوت کے ایسے چشمے پھوٹتے ہیں کہ دنیا والے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ المختصر امام حسین کے فلک مآب کردار کو نہ کوئی اپنے الفاظ میں بیان کرسکتا ہے اور نہ اس عروج کردار تک پہونچ سکتا ہے کیونکہ ان کی عظمت و منزلت کایہ عالم ہے کہ آپ دشمنوں کے ساتھ ایسے وقت میں حسن سلوک سے پیش آتے ہیں کہ جس وقت کوئی انسان دوستوں کے ساتھ بھی اچھابرتاؤ نہیں کرسکتا اور پھر وہ دشمن بھی ان کے عظمت کردار سے متاثر ہوکر قدم بوسی پر مجبور ہو جاتا ہے اور دنیا والوں کے سامنے اس عظمت کا اعلان کرنے لگتا ہے اور اس حقیقت پر تاریخ شاہد ہے اور بہت سارے تاریخی ثبوت مرقوم ہیں جن میں سے یہاںایک حساس واقعہ ذکر کیا جارہا ہے کہ جب امام حسینۖ مکہ سے چل کر مقام ذوحسم پر پہونچے اور وہاں پر قیام کرنا ہی چاہتے تھے کہ حر ایک ہزار کا لشکر لیکر سد راہ حق بننے کے لئے آگیا اور حتی لجام فرس حسینی پر ہاتھ رکھکر شان امامت میں گستاخی کامرتکب ہوا دوسری طرف امام کے سامنے شدت پیاس سے دشمن کے ہانپتے ہوئے گھوڑے اور سوار آکر کھڑے ہو گئے چونکہ حسینرحمةللعالمین کے نواسے اور سخی ابن سخی تھے لہٰذا حر کی گستاخی کا جواب اپنے اخلاق کریمانہ سے دیا اور اپنے جوانوں کو حکم دیا کہ سارے لشکر والوں کو اور ان کے جانواروں کو بھی پوری طرح سیراب کردو۔ حسین ابن علیۖ کے اس عظیم کردار کا اثر حر کے دل پر نقش ہو گیا اور یہ اسی حسن سلوک کا نتیجہ تھا جو شب عاشور حر کو مضطرب کر رہا تھا اور صبح عاشور حر امام حسین کے حسن کردار سے متاثر ہونے کی وجہ سے حق سے متسمک ہو گیا اور کسی شاعر نے بھی اس دلسوز اثر کی وجہ سے جناب حرکا دفاع ان الفاظ میں کیا ہے:
حر نے شہ مظلوم کا رستہ نہیں روکا
بھٹکا ہوا راہی تھا پتہ پوچھ رہا تھا

حوالہ جات
١۔سورۂ نحل ٢٢۔
٢۔ تفسیر عیاشی ج ٢ ص ٢٥٧۔
٣۔مناقب شہر آشوب ج ٤ ص ٧٢۔
٤۔کشف الغمہ ج ٢ ص ٢٤٠۔
٥۔مناقب شہر آشوب ج ٤ ص٧٣۔
٦۔بحار الانوار ج ٤٤ ص ١٩١۔
٧۔مناقب ابن شہر آشوب ج ٤ ص ٨٣۔

Related Articles

Back to top button