دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

حبیب ابن مظاہر

(محمد عارف بارہ بنکی)
آپ کا اصل نام حبیب ابن مظاہر یا حبیب ابن مظہر ہے (١) آپ قبیلہ بنی اسد کی شریف، بزرگ اور با افتخار ترین شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ پیغمبر ۖاسلام کے صحابی تھے ۔ آپ کی ولادت بعثت پیغمبر ۖسے ایک سال قبل ہوئی .آپ کے بچپنے کا زمانہ وہ تھا جس میں پیغمبر اسلامۖ مکہ مکرمہ میں لوگوں کو توحید اور خدا پرستی کی دعوت دے رہے تھے پیغمبر اسلام ۖ کی یہی تعلیمات او ر دعوتیں اس بات کا سبب بنیں کہ آپ بچپن سے تعلیمات اسلامی اور معارف دین سے آشنا ہوگئے ۔
حبیب ابن مظاہر کی شخصیت تاریخ میں ہمیشہ ایک ایسے چمکتے ہوئے سورج کی مانند ہے جس کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوسکتی کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ پیغمبر اسلامۖ کے صحابی تھے دوسرے یہ کہ ٧٥ سال کی عمر میں آپ نے واقعۂ کربلا میں شرکت کی اور اہل حرم کا دفاع کیا . حبیب ابن مظاہر ان افراد میں سے ہیں جنہیں پانچ معصومین سے فیضیاب ہونے کا شرف حاصل ہوا آپ کی شخصیت و معنویت اس کمال پر پہنچ چکی تھی کہ غیروں کی زبان پربھی آپ کی عبادت ، شجاعت، زہد اور علم وغیرہ کا چرچا تھا ۔(٢)

حبیب ابن مظاہر محبوب پیغمبر اسلامۖ
منقول ہے کہ ایک مرتبہ پیغمبر اسلامۖ اپنے اصحاب کے ساتھ ایک جگہ سے گذر رہے تھے اچانک آپ کی نگاہ کچھ کھیلتے ہوئے بچوں پر پڑی پیغمبرۖ ان کی طرف بڑھے اور ایک بچے کے پاس جا کے بیٹھ گئے اور اس کے سر پر اپنا دست شفقت پھیرتے ہوئے اس کی پیشانی کا بوسہ لیا ۔ اصحاب نے پیغمبرۖ سے اس عمل کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا : ایک روز میں نے دیکھا کہ یہ بچہ میرے حسین کے ساتھ کھیل رہا تھا اور اس کے پیروں کے نیچے کی خاک اٹھا کر اپنے چہروں او ر آنکھوں پر مل رہا تھا ۔لہذا میں اس کو اس لئے چاہتا ہوں کہ یہ میرے حسین کو چاہتا ہے اور جبرئیل نے بھی یہ بتایا ہے کہ یہ بچہ واقعہ کربلا میں میرے حسین کے انصارو مددگار میں سے ہوگا ۔(٣)

حبیب، حضرت علی کے دور میں
وفات پیغمبر اسلامۖ کے بعد آپ حضرت علی کا دامن تھامے رہے چونکہ آپ نے بارہا پیغمبرۖ سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :” انا مدینة العلم وعلی بابھا فمن اراد المدینة فلیأت الباب”یعنی میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں لہذا جو بھی شہر علم میں آنا چاہتا ہے وہ دروازے سے آئے اسی لئے آپ نے علی کو سر چشمۂ علوم اور وارث علم پیغمبر جانتے ہوئے ان کی طرف رخ کیا اور کچھ ہی دنوں میں ان کے خاص صحابیوں ، جیسے میثم تمار، عمر و بن حمق خزاعی وغیرہ میں شمار ہونے لگے (٤)آپ اکثر علوم و فنون جیسے، فقہ ، تفسیر، حدیث، جدل وغیرہ میں اتنی مہارت رکھتے تھے کہ لوگ آپ کے علوم و فنون کی وجہ سے متحیر تھے ۔ (٥)
آپ نے جو علوم امام علی سے سیکھے ان میںسے ایک ”علم بلایا و منایا ” تھا یعنی آئندہ واقع ہونے والے حوادث کا علم رکھنا اور ان کے بارے میں پیشنگوئی کرنا ۔اس سلسلہ میں ایک واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :
میثم تمار گھوڑے پر سوار ایک ایسی جگہ سے گزر رہے تھے جہاں قبیلۂ بنی اسد کے کچھ افراد بیٹھے ہوئے تھے تبھی آپ کی نگاہ حبیب ابن مظاہر پر پڑی جو خود بھی گھوڑے پر سوا ر تھے دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوئے اور ایک لمبی و طولانی گفتگو میں محو ہوگئے ۔ آخر کلام میں حبیب ابن مظاہر نے میثم تمار سے کہا : گویا میں ایک ایسے خربوزہ فروش(٦)بوڑھے کو دیکھ رہا ہوں جو پیغمبرۖ کی محبت میں دار پر لٹکایا جائے گا ۔ جواب میں میثم تمار نے کہا : میں بھی اچھی طرح سے جانتاہوں اس حسین چہرے اور لمبے گیسوؤں والے کو جو فرزند رسول حسین ابن علی کی مدد کے لئے میدان میں جائے اور وہاں قتل کردیا جائے گا اور اس کا سر کوفہ میں لاکر گھمایا جائے گا ۔
اتنی گفتگو کرنے کے بعد دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے وہ افراد جو ان دونوں کی گفتگو سن رہے تھے آپس میں ان کی باتوں کے سلسلہ میں طرح طرح کی باتیں کرنے لگے تبھی وہاں پر رشید ہجری پہنچے اور ان سے حبیب و میثم کے بارے میں پوچھا کہ کیا تم نے انہیں دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ تو ابھی یہیں تھے اور اس اس طرح کی باتیں کررہے تھے ، رشیدنے کہا : خداوند عالم میثم پر رحمت نازل کرے کہ انہوں نے یہ جملہ فراموش کردیا کہ حبیب کا سر لانے والے کوپورے شہر میں سر کو گھمانے کی بابت سو درہم اضافی دیئے جائیںگے ۔ یہ سن کر لوگ کہنے لگے کہ یہ تو ان سے بھی بڑا جھوٹا ہے ۔
لیکن ابھی اس بات کو کہے بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ میثم تمار کو ( عمرو بن حریث) کے بالا خانہ پر لٹکا دیا گیا اور حبیب ابن مظاہر کے سر کو کوفہ میں لاکر گھمایا گیا اور وہ تمام باتیں جو اس دن دونوں کے درمیان ہوئی تھیں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے سچ ثابت ہوتے دیکھا ۔(٧)
دن گزرتے رہے یہاں تک کہ خلافت امام علی تک پہونچی آپ نے مرکز خلافت کو مدینہ سے کوفہ منتقل کردیا لہٰذا حبیب بھی کوفہ میں آکر رہنے لگے تاکہ ہمیشہ علی کے ہمرکاب رہیں ۔ حبیب ابن مظاہر نے امام علی کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت کی(٨) اس وقت حبیب کا شمار کوفہ کے بڑے بہادروں میں ہوتا تھا ، شجاعت و بہادری کے علاوہ آپ اخلاق و کردار ، تقوا و پرہیزگاری ، عبادت و سخاوت ، مسائل دینی و احکام خداوندی سے آشنائی اور اہل بیت پیغمبرۖ سے محبت کے سلسلہ میں لوگوں کے لئے ایک نمونہ تھے ۔ امام علی کی شہادت کے وقت آپکی عمر ٥٤ سال تھی ۔

شجاعت حبیب
جیساکہ بیان کیا چکا ہے کہ حبیب ابن مظاہر ایک قدرتمند اور شجاع انسان تھے اور آپکا شمار لشکر علی میں کوفہ کے بڑے شجاعوں میں ہوتا تھا (٩) روز عاشورا بھی آپ نے اپنی بھر پور طاقت کے ساتھ لشکر عمر سعد کا مقابلہ کیا اور لشکر اعداء کو وعظ و نصیحت بھی کی تاکہ ان کے سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کرسکیں ۔ مختصر یہ کہ حبیب ایک ایسے انسان تھے جو صرف خدا سے ڈرتے تھے اور انہوں نے امامت و ولایت کا دفاع کرنے کیلئے سر سے کفن باندھ لیا تھا ۔

عبادت حبیب
حبیب ابن مظاہر ایک عابد، متقی، پرہیزگار، حدود الٰہی کی رعایت کرنے والے ، حافظ کل قرآن اور عابد شب زندہ دار تھے (١٠) امام حسین کے قول کے مطابق حبیب ہر رات ایک قرآن ختم کرتے تھے (١١) آپ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنی زندگی کی آخری رات(شب عاشورا ) بھی اللہ کے حوالے کردی ۔

زہد حبیب
آپ کی زندگی بالکل پاک و صاف تھی اور آپ حلا ل و حرام کی رعایت کرنے والے تھے آپ کی دنیا سے بے رغبتی اور زہد کا عالم یہ تھا کہ آپکی خدمت میں کافی مال و دولت پیش کیا گیا تاکہ جنگ کربلا میں شریک نہ ہوں مگر آپ نے اسے قبول نہیں کیا اور فرمایا : میرے پاس رسول اسلامۖ سے کہنے کے لئے کوئی ایسا عذر نہیں ہے جس کی بنیاد پر میں زندہ رہوں اور فرزند رسول قتل کردیا جائے ۔(١٢)
پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حبیب ان افراد میں سے تھے جن کے سلسلہ میں امام علی نے فرمایا: ”ارادتھم الدنیا فلم یریدوھا”(١٣) یعنی دنیا نے ان کی طرف اپنا رخ کیا مگر انہوں نے اس کو پیٹھ دکھا دی یعنی اس سے منھ پھیر لیا اور بے توجہی اور بے رغبتی کے ساتھ اس کے کنارے سے گزر گئے ۔

آغاز قیام حسینی میں حبیب کی شخصیت
شہادت امام حسن کے بعد شیعوں نے امام حسین کو خط لکھے جن میں معاویہ کے خلاف قیام کرنے کا مطالبہ کیا اور اس سلسلہ میں سب سے پہلا خط، سلیمان بن مریم خزاعی (١٤) کے گھر میں لکھا گیا اور یہ دعوت نامہ چار بزرگ شخصیتوں(سلیمان بن صرد خزاعی ، مسیب بن نجبہ ، رفاعہ بن شداد، حبیب ابن مظاہر ) کے دستخط کے ساتھ مکہ بھیج دیا گیا تاریخ میں ملتاہے کہ حبیب ابن مظاہر ابتدا سے ہی واقعۂ کربلا کے لئے مسلم بن عوسجہ کے ساتھ ( جو مسلم بن عقیل کی خفیہ طور پر بیعت لے رہے تھے) اپنے آپ کو آمادہ کرنا شروع کردیا اور اس سلسلہ میں کسی بھی طرح کی کوئی کوتاہی نہیں کی ۔(١٥)

مسلم بن عقیل کے قیام میں حبیب کا کردار
وہ دعوتنامے جن میں کوفیوں نے نصرت کا وعدہ کیا تھا جب امام حسین تک پہونچے توآپ نے مجبور ہوکر وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لئے مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ بناکر کوفہ بھیجا ۔ مسلم نے امام کا خط اور ان کا پیغام لوگوں تک پہونچایا اور ان کے رد عمل کا انتظارکرنے لگے ۔
سب سے پہلے عابس شاکری ( جو خود شیعہ تھا)جلسہ کے درمیان کھڑا ہوکر ایک خطبہ دینے کے بعد مسلم بن عقیل سے کہتا ہے: خداوند عالم کی حمدو ثنا کے بعد، میں لوگوں کے سلسلہ میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ مجھے ان کے دلوں کا حال معلوم نہیں ہے لیکن میں خدا کی قسم کھاکر آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب بھی آپ مجھے بلائیں گے میں آپ کی آواز پر لبیک کہوں گا اور آپ کے دشمنوں سے جنگ کروں گا اور اس وقت تک جنگ کرتا رہوں گا جب تک میں خدا کی بارگاہ میں نہ پہونچ جائوں چونکہ میری نظر صرف اور صرف خدا پر ہے ۔
تقریر ختم ہونے کے بعد حبیب ابن مظاہر کھڑے ہوئے اور عابس شاکری کو مخاطب کرکے فرمایا : تم نے میرے دل کی بات کہہ دی ، تم پر خد اکی رحمت ہو جو کچھ بھی تمہارے دل میں تھا تم نے اسے بیان کردیا مگر بہت اختصار سے …پھر فرمایا : ”خدا کی قسم میں بھی اسی عقیدہ اور نظریہ پر قائم ہوں” ۔(١٦)
ان دنوں مسلم کا قیام مختار ثقفی کے گھر میں تھا اور لوگ مسلسل وہاں آکر مسلم کے ہاتھوںامام کی نصرت کیلئے بیعت کررہے تھے ۔ حبیب اور مسلم بن عوسجہ دو ایسے افراد تھے جنہوں نے مخفیانہ اور حکومتی جاسوسوں سے پوشیدہ ہوکر مسلم بن عقیل کے لئے لوگوں سے بیعت لی اور خود کو اسی کام کے لئے وقف کردیا ۔
جب ابن زیاد کوفہ کا حاکم بن کر آیا تو بیعت کا کام اور سخت ہوگیا لیکن حبیب اپنے کام میں مصروف رہے مگر جب حالات بدلنے لگے اور لوگ مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑنے لگے تو حبیب اور مسلم بن عوسجہ نے اپنے گھر والوں کو روپوش کردیا تاکہ ابن زیاد کے ظلم سے بچ سکیں (١٧)کیونکہ ابن زیاد ان تمام افراد کو جو اس تحریک میں شامل تھے گرفتار کرکے قید خانہ میں ڈال دیتا تھا یا انہیں پھانسی پر لٹکا دیتا تھا ۔(١٨)

روز عاشوراور حبیب ابن مظاہر
صبح عاشور نماز کے بعد حسین بن علی جنگ کی آمادگی میں مصروف ہوگئے، اپنے لشکر کی بائیں سمت کا کمانڈر حبیب ابن مظاہر کو اور داہنی سمت کا کمانڈر زہیر کو بنایا امام کی فوج گرچہ ظاہرا ً تعداد میں کم تھی مگر یہ افراد وہ تھے جو عزم و حوصلہ کے مالک تھے خاص طور سے حبیب ابن مظاہر لشکر کے کسی بھی حصہ سے جب کوئی شخص حبیب کو مدد کے لئے پکارتا تھا تو حبیب فوراً اس کی مدد کو پہونچتے اور دشمنوں سے جنگ کرکے اسے بچاتے تھے۔(١٩)
ایک مرتبہ سالم ( غلام زید ) اور یسار (غلام عبید اللہ ) میدان میں آئے او ر لوگوں کو مقابلہ کی دعوت دی اور کہا : حبیب ، زہیر یا بریر میں سے کون ہے جو ہم سے مقابلہ کے لئے آئے ۔ یہ سنتے ہی حبیب و بریر کھڑے ہوگئے مگر امام نے انہیں روکا اور عبد اللہ بن عمر کو ان کے مقابلہ کیلئے بھیجا او ر انہوں نے جاکر لمحوں میں ان کا کام تمام کردیا ۔(٢٠)
جنگ شروع ہوگئی اور لوگ ایک ایک کرکے شہید ہونے لگے یہاں تک کہ جب مسلم بن عوسجہ زخمی ہوکر زمین کربلا پر تشریف لائے تو حبیب و حسین ان کے سرہانے پہنچے حبیب نے مسلم سے پوچھا : کوئی وصیت ہو تو فرمائو اگر زندہ رہا تو ضرور پوری کروں گا ۔ مسلم نے کہا : وصیت یہ ہے کہ جب تک زندگی رہے حسین کا ساتھ نہ چھوڑنا ، حبیب نے کہا: خدا کی قسم میں ایسا ہی کروں گا ۔(٢١)
جب ظہر کے وقت امام نے نماز پڑھنے کی مہلت مانگی تو ( حصین بن تمیم ) کہتاہے کہ حسین تمہاری نماز تو قبول ہی نہیں ہے ۔ یہ سننا تھا کہ حبیب نے غضبناک لہجہ میں کہا : اے گدھے ! تو یہ سوچ رہا ہے کہ تیری نماز مقبول ہے اور فرزند رسول کی نماز قبول نہیں ہے ۔ اس کے بعد دونوں نے ایک دوسرے پر حملہ کیا حبیب نے گھوڑے پر ایسا وارکیا کہ گھوڑا زمین پر گر پڑا اور اپنے سوار کو روند ڈالا یہ منظر دیکھتے ہی حصین کے احباب دوڑے اور اسے حبیب کے حملہ سے بچا لیا ۔ تب حبیب نے ان سے خطاب کرکے کہا : اے نام و نسب کے اعتبار سے بدترین لوگو! خدا کی قسم اگرہماری تعداد تمہارے برابر ہوتی تو تم سب کے سب میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جاتے ۔(٢٢)

شہادت
آپ شہادت کے اتنے عاشق تھے کہ آپ کا دل ہمیشہ شہادت کے لئے بے چین رہتا تھا لہٰذا جیسے ہی آپ کو امام کا خط ملا مصمم ارادے کے ساتھ امام کی نصرت کے لئے نکل پڑے رات کو سفر کرتے تھے اور دن میں آرام تاکہ ابن زیاد کے سپاہی ان کو مقصد تک پہونچنے سے روک نہ سکیں آخرکار آپ سات محرم کو کربلا پہنچے اور پہنچتے ہی اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ۔(٢٣)
جیسے ہی آپ کی نگاہ دشمنوں کی کثرت اور دوستوں کی قلت پر پڑی تو آپ نے امام سے فرمایا : نزدیک میں ہی بنی اسد نامی ایک قبیلہ رہتا ہے اگر آپ اجازت دیں تو ان سے آپ کی مدد کی درخواست کروں ہوسکتا ہے کہ خدا ان کی ہدایت کرے ۔
امام کی اجازت پاتے ہی آپ وہاں پہونچ گئے اور ان کی وعظ و نصیحت کرنا شروع کردی(٢٤) حبیب نے کہا : اے بنی اسد ! میں تمہارے لئے ایک تحفہ لایا ہوں اور ایسا تحفہ جو ایک قوم کے رہبر کو لانا چاہئے وہ یہ کہ حسین بن علی فرزند رسول خدا ۖ تمہارے جوار میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ مومنین کی ایک جماعت بھی ہے ، دشمنوں نے ان کا محاصرہ کرلیا ہے اور ان کو قتل کرنا چاہتے ہیں میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں تاکہ تمہیں ان کے دفاع اور حرمت پیغمبرۖ کی حفاظت کے لئے دعوت دے سکوں ۔
خدا کی قسم اگر ان کی مدد کروگے تو خداوند عالم دنیا و آخرت کی تمام سعادتیں عطا کرے گا ہم نے اس شرف کو تم سے مخصوص کیا ہے کیونکہ تم ہماری قوم میں سے ہو اور ہمارے قریبی لوگوں میں شمار ہوتے ہو ۔ ان میں سے ایک شخص جس کا نام ( عبد اللہ بن بشیر ) تھا کھڑا ہوکر کہتا ہے : اے حبیب! خداوند عالم تمہاری محنتوں کا اجر دے تم ہمارے لئے ایک بہت بڑا افتخار لائے ہو لہٰذا میں سب سے پہلے تمہاری دعوت پر لبیک کہتا ہوں ۔ یہ سنکر دوسرے افراد بھی کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی حمایت کا اعلان کیا ۔
ستر یا نوے افراد تھے جنہوں نے کربلا جانے کا ارادہ کیا لیکن افسوس کہ انہیں کے درمیان کچھ افراد حکومت کے جاسوس تھے اور انہوںنے یہ اطلاع ابن زیاد کو دے دی لہٰذا عمر سعد نے فوراً بے رحم اور غصہ ور افراد جیسے ازرق نامی شخص کو پانچ سو گھڑ سواروں کے ساتھ ان کی طرف بھیجا ۔ یہ لشکر اسی رات وہاں پہنچ گیا اور ان کو جانے سے روکا، آخر کار دونوں میں جنگ چھڑ گئی اور حبیب کی آواز اس جنگ میں دب کررہ گئی ۔
جب بنی اسد نے دیکھا کہ ہم اتنے کم بچے ہیں جو یزید کی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے رات کی تاریکی میں اپنے گھر واپس چلے گئے۔ حبیب امام کے پاس پلٹے اور پورا ماجرا بیان کیا تو امام نے فرمایا : ” وما تشاؤن الا ان یشاء اللہ ولا حول ولا قوة الا باللہ” (٢٥) یعنی جو خدا چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور خدا کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ شب عاشور آگئی آپ ساری رات معبود کی بارگاہ میں دعا و مناجات کرتے رہے اور ایک ایک لمحہ شمار کرتے رہے تاکہ جلد سے جلد مولا و اصحاب کے ساتھ شربت شہادت نوش فرماسکیں ۔
آخر کار انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور وہ مجاہد ،بوڑھا ہونے کے باوجود ، جوانی کے جذبات کے ساتھ ننگی تلوار لیکر دشمنوں میں درآتا ہے اور ان کو تہہ تیغ کرتے ہوئے یہ رجز پڑھتا جاتا ہے : میں حبیب ابن مظاہر ہوں جب جنگ کی آگ بھڑک گئی تو میں اکیلا میدان جنگ میں آیا ہوں گرچہ تم لوگ طاقت و قوت کے اعتبار سے کثرت میں ہو مگر میں تم سے زیادہ قوی اور وفادارہوں ۔
تقریباً ٦٢لوگوں کو واصل جہنم کیا مگر اچانک ( بدیل بن مریم عفقانی ) نے آپ پر حملہ کیا اور آپ کی پیشانی پر ایک تلوار ماری اس کے بعد نیزے سے آپ پر حملہ کرنا شروع کردیا ۔ جب حبیب گھوڑے سے زمین پر آئے آپ کی ڈاڑھی خون سے رنگین ہوچکی تھی اس کے بعد بدیل نے آپ کے سر کو تن سے جدا کیا ۔
آپ کی شہادت امام اور ان کے ساتھیوں کے لئے بہت شاق تھی حبیب کی شہادت نے امام پر ایسا اثر ڈالا کہ آپ نے فرمایا :” احتسب نفسی وحماة اصحابی” (٢٦)یعنی میں اپنا اور اپنے ساتھیوں کا اجر خدا سے چاہتا ہوں ۔ اے حبیب تم ایک با فضیلت انسان تھے جو ہر رات ایک قرآن ختم کرتے تھے (٢٧)آخر کار حبیب ابن مظاہر اسدی امام حسین کے وفادار صحابی ٧٥سال کی عمر میں دسویں محرم ٦١ھ کو زمین کربلا پر شہید ہوگئے ۔

حوالہ جات
١۔ الرجال ، تقی الدین الحسن بن علی بن دائو د حلی ۔
٢۔ مجالس المومنین ، قاضی نور اللہ ، ص ٣٠٨۔ اعیان الشیعہ ، السید محسن الامین ، جلد ٤،ص ٥٥٤۔
٣۔ بحار الانوار ، علامہ مجلسی ، جلد ١٠ ۔منتخب التواریخ ، حاج محمد ہاشم خراسانی ،ص ٢٧٨۔
٤۔ المجالس السنیہ فی مناقب وھائب العترة النبویة ، السید محسن الامین ، جلد ١۔
٥۔امالی منتخبہ ،ص ٤٩۔
٦۔ اعیان الشیعہ ، سید محسن امین ۔
٧۔ انصار الحسین ، محمد مہدی شمس الدین ۔
٨۔بحار الانوار ، علامہ مجلسی ۔
٩۔تاریخ طبری ، محمد بن جریر طبری ۔
١٠۔ ابصار العین فی انصار الحسین ، محمد بن طاہر سماوی ،ص ٥٦۔
١١۔ اعیان الشیعہ ، السید محسن الامین ، جلد ٤ ،ص ٥٥٤۔
١٢۔ ترجمہ نفس المھموم ، شیخ عباس قمی ،ص ٣٤٣۔
١٣۔ رجال کشی ۔
١٤۔ ارشاد ، شیخ مفید ، جلد ٢،ص ٣٤۔٣٥۔
١٥۔اعیان الشیعہ ، السید محسن الامین ، جلد ٤،ص ٥٤۔
١٦۔ تاریخ طبری ، جلد ٧، ص ٢٢٧۔
١٧۔ ابصار العین فی انصار الحسین ، ص ٥٧۔
١٨۔ مجموعہ آشنائی با اسوہ ھای مسلم بن عقیل ۔
١٩۔ اسرار الشھادة ،فاضل دیوبندی ۔
٢٠۔ تاریخ طبری ،جلد ٧،ص ٢٦
٢١۔ اعیان الشیعہ ، جلد ٤،ص ٥٥٥۔
٢٢۔ تاریخ طبری ۔
٢٣۔ اعیان الشیعہ ، جلد ٤،ص ٥٥٤۔
٢٤۔ابصار العین فی انصار الحسین ، محمد بن طاہر سماوی ، ص ٥٧۔
٢٥۔حیاة الامام الحسین ، باقر شریف القرشی ، ج ٣، ص ١٤٢۔
٢٦۔مجالس السنیہ ، السید محسن الامین ، ج ١ ۔تاریخ طبری ، جلد ٧،ص ٢٤٩۔
٢٧۔ منتھیٰ الامال ،شیخ عباس قمی ، ص ٤٣٠۔ ترجمہ نفس المھموم ،شیخ عباس قمی ، ص ٣٤٣۔

Related Articles

Back to top button