دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

قیام امام حسین ؑ …اہداف اور انداز عمل

( سید ساجد علی نقوی)

کسی بھی تحریک اور جدوجہد کے لئے عمومی طور پر تین عناصر درکار ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ تحریک کے آغاز کے وقت حالات کا منظر نامہ کیسا ہے اور کس نوعیت کے مسائل درپیش ہیں؟ دوسرا یہ کہ تحریک کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں؟ اور تیسرا یہ کہ جدوجہد کا انداز اور طریقہ کار کیا ہے؟

انہی تین عناصر کو سامنے رکھ کر اگر ہم نواسہ رسول اکرم ؐ امام عالی مقام حسین ابن علی ؑ کی جدوجہد کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جن حالات اور مسائل کی نشاندہی کی وہ بھی درست تھے‘ جن مقاصد اور اہداف کا تعین کیا وہ بھی اعلی و ارفع تھے‘ جس انداز اور طریقہ کار کو اپنایا وہ بھی انتہائی مناسب اور صحیح تھا اور جدوجہد کے آغاز کے لئے جس وقت کا انتخاب کیا وہ بھی موزوں تھا۔

حالات کی منظر کشی
امام حسین ؑ نے یذیدی حکومت کی حالات اور اس وقت اسلام اور اہل اسلام کی جو کیفیت بیان کی وہ آ پ کے اس خطبے سے ظاہر ہوتی ہے جو آپ نے منزل بیضہ پر ارشاد فرمایا۔ ’’اے لوگو! یہ (حکمران) اطاعت خدا کو ترک کرچکے ہیں اور شیطان کی پیروی کو اپنا نصب العین بناچکے ہیں (یعنی احکام شریعت الہی اور سنت رسول ؐ میں دیئے گئے زندگی گزارنے کے طور طریقوں کو بھلاکر گمراہی اور گناہ کی زندگی اختیار کرچکے ہیں) یہ ظلم و فساد کو اسلامی معاشرہ میں رواج دے رہیں ہیں (یعنی لوگوں کے ساتھ انصاف اور عدل سے کام نہیں لے رہے۔ عدل اجتماعی سے گریز کرتے ہوئے مستقل طور پر بے عدلی اور ناانصافی کو اسلامی معاشرے کا حصہ بنارہے ہیں ) خدا کے قوانین کو معطل کررہے ہیں (یعنی خدا نے انسان اور معاشرے کی بھلائی کے لئے شریعت کی شکل میں جو قوانین اور پابندیاں عائد کیں ان سے عملاً برات کرکے اپنے خود ساختہ قوانین رائج کررہے ہیں) اور مال ’’فے‘‘ کو انہوں نے اپنے لئے مختص کرلیا ہے (یعنی قومی خزانے کو لوٹ رہے ہیں‘ کرپشن اور حرام خوری کو اپنی عادت بناچکے ہیں جس سے معاشی ناہمواری‘ غربت ‘ افلاس اور جہالت کو فروغ مل رہا ہے) خدا کے حلال کو حرام اور اوامر و نواہی کو بدل چکے ہیں (یعنی یہ خود بھی اور اپنی رعایا میں بھی حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتے بلکہ حرام امور کو حلال تصور کرکے انجام دے رہیں اور خدا کے احکامات کی تابعداری کی بجائے نافرمانی کررہے ہیں اور جن کاموں سے خدا تعالی نے منع فرمایا ہے ان سے باز نہیں آرہے)۔ ان حالات میں اسلامی معاشرہ کی رہبری اور اس ظلم و فساد اور ان ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لئے میں دوسروں کی نسبت زیادہ سزاوار ہوں۔ آپ نے اسی خطبے میں مزید وضاحت سے فرمایا کہ ’’یہ ایسی حکومت ہے جس نے اسلام کو کھلونا قرار دے دیا ہے… قرآنی احکام‘ سنت اور قوانین پیغمبر اکرمؐ میں تغیر و تحریف کو اپنا شیوہ بنالیا ہے لہذا اس کے خلاف جدوجہد کرنا میرا دینی فریضہ ہے‘‘

آپ نے اہل بصرہ کے نام مکتوب میں بھی ارشاد فرمایا تھا کہ اس وقت ہم ایسے حالات سے گزر رہے ہیں کہ سنت رسول ؐ ختم ہوچکی ہے اور اس کی جگہ بدعت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں (یہاں آپ نے کھل کر اور واضح انداز میں بدعتوں کے فروغ اور سنت رسول ؐ کے خاتمے کا ذکر فرمایا جو یذیدی حکومت کی طرف سے کیا جارہا تھا) اس منظر نامے کو مزید واضح کرنے اور یذیدی افواج اور خود یذید کے عزائم کو آشکار کرنے کے لئے آپ نے روز عاشور یذیدی فوج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’تمہارے چہرے سیاہ ہوجائیں…تم کتنے بدبخت اور سرکش افراد ہو کہ جنہوں نے قرآن کو پس پشت کرلیا اور تم لوگوں نے شیطان کو دماغ میں بسالیا ہے (یعنی قرآن اور قرآنی احکام کی رو سے انسان کا قتل‘ ظلم و ناانصافی ‘ انسانی حقوق کی پامالی‘ شہری آزادیوں کی سلبی‘ غربت‘ افلاس و جہالت کا فروغ‘ کرپشن اور بدامنی کا راج‘ عدل اجتماعی کے تصور کا خاتمہ‘ استحصال اور اسی طرح کے دیگر امور حرام تھے لیکن یذید اور اس کے کارندے بلادریغ یہ حرام امور کا نہ فقط ارتکاب کررہی تھیں بلکہ انہیں حلال بنانے کی کوششیں کررہی تھیں) تم لوگ بہت بڑے جنایت کار ‘ کتاب خدا میں تحریف کرنے والے اور سنت خدا کو فراموش اور اسے ختم کرنے والے ہو‘ جو پیغمبر اکرمؐ کے فرزندوں کو مار ڈالتے ہو اور تم اوصیاء کو اذیت دینے والے اور تم ایسے پیشوائوں کے پیروکار ہو جو قرآن مجید کا تمسخر اڑاتے ہیں۔

شہادت سے کچھ دیر قبل افواج یذید کے مقابل کھڑے ہوکر آپ نے ایک بار پھر حالات کی منظر کشی ان الفاظ میں فرمائی۔’’جو مصیبت ہم پر آئی ہے وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ دنیا بدل گئی اور اجنبی بن گئی اس کی خوبی نے پیٹھ پھیرلی اور جلدی سے کھسک گئی‘ تم دیکھ نہیں رہے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے منع نہیں کیا جارہا؟ (یعنی اسلام کے زندگی بخش قوانین کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور اس باطل کردار کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں)

اہداف و مقاصد
اگرچہ درج بالا منظر نامے سے ہی آپ ؑ کی جدوجہد کے مقاصد و اہداف واضح ہوجاتے ہیں لیکن سید الشہداء ؑ کی زبانی ان کی جدوجہد کے اہداف و مقاصد اس وقت مزید واضح ہوجاتے ہیں جب آپ نے اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کو ایک وصیت نامے میں ارشاد فرمایا ’’میرے اس قیام‘ میری جدوجہد کا اصل مقصد اور اس میری اس تحریک اور میرے اس اقدام کا ہدف صرف امت کی اصلاح‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے یعنی یہ کہ میں تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ دوں اور قرآن اور اسلام کے فراموش شدہ حیات آفرین احکام کو دوبارہ اس معاشرے میں رواج دوں۔ ظلم و ستم اور اسلامی قوانین میں تبدیلی کو روکوں۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ ’’اے … تو جانتا ہے کہ جو طرز عمل ہم نے اختیار کیا اس کا مقصد اقتدار کی رسہ کشی اور مادی مفادات کا حصول نہیں تھا بلکہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہم دین کے نقوش زندہ کریں اور کھلم کھلا اصلاح کا عمل انجام دیں تاکہ مظلوم و محکوم عوام امن و سکون سے زندگی گزارسکیں اور اسلام کے متروک اور معطل قوانین و حدود کا نفاذ ہوسکے (تاکہ اچھا معاشرہ وجود میں آسکے)

جدوجہد کا انداز
مقاصد و اہداف کے تعین اور ان کی جان کاری کے بعد ہم آخر میں آپ کی جدوجہد کے انداز کا مختصر جائزہ بھی آپ ہی کے ارشادات اور خطبات سے لیتے ہیں ۔ آپ نے اہل بصرہ کو ایک معروف مکتوب میں فرمایا۔

’’ہمارا خاندان‘ اولیا‘ پیغمبر اکرمؐ کے وارثوں اور امت کے شائستہ ترین افراد کا خاندان تھا اور امت رسول ؐ کے درمیان ممتاز ترین خاندان میں شمار ہوتا تھا لیکن ایک گروہ نے ہم پر سبقت لیتے ہوئے یہ حق ہم سے لے لیا اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم گروہ پر بھاری رہیں گے۔ شائستگی کی بنیاد پر امت کو ہر قسم کے نفاق اور پریشانی و پراگندگی سے بچانے اور بیرونی دشمن کو تسلط سے باز رکھنے کی خاطر رضا و رغبت سے خاموشی اختیار کی اور مسلمانوں کے آرام و سکون کو اپنے حق پر مقدم سمجھا۔ میں تمہیں کتاب خدا اور سنت رسول ؐ کی طرف دعوت دیتا ہوں اس لئے کہ اس وقت ہم ایسے حالات سے گزر رہے ہیں کہ سنت رسول ؐ ختم ہوچکی ہے اور اس کی جگہ بدعت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اگر تم نے میری اس دعوت پر لبیک کہی تو میں خوش بختی اور شہادت کی طرف رہنمائی کروں گا‘‘

ایک دوسرے خط میں آپ نے واضح اشارہ فرمایا۔
’’اب ایک نیا مرحلہ آن پہنچا ہے ۔ اسلام میں تحریف ہوجانے کا خطرہ ہی نہیں بلکہ اسلام کے نابود ہونے کا خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ پیغمبر اکرم ؐ کے قانون کو ختم کیا جارہا ہے اور اس کی جگہ بدعتیں زندہ کی جارہی ہیں ان حالات میں ظلم و فساد کے خلاف جدوجہد ضروری ہے۔ یعنی اگر اس جدوجہد میں امت کے پاک ترین افراد کا خون بھی بہہ جائے تو فقط یہ کہ دشمن اس سے نفع نہیں اٹھاسکے گا بلکہ اس کے بہترین نتائج ظاہر ہوں گے اور اسلام پھلے پھولے گا‘‘۔

اور پھر آخر میں یذیدی افواج کو مخاطب کرکے اپنی جدوجہد کے انداز سے آگاہ فرمایا اور کہا کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے منع نہیں کیا جارہا ۔ اب مومن کو چاہیے کہ ا…تعالی سے ملاقات کی رغبت کرے اور میں تو موت کو اپنے لئے سعادت اور ظالموں کے ساتھ جینے کو بوجھ سمجھتا ہوں۔

Related Articles

Back to top button