دانشکدہسیرت اھلبیتمقالات

اہل بیتؑ کی محبت حضور ؐ کی محبت ھےاور ان کو اذیت دینا حضور ؐ کو اذیت دینا ہے

( ریاض قادری)

اھل بیت قیامت اور جنت کے وارث ہیں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں فرماتے ہیں : ’’میری بصیرت و تحقیق کہتی ہے کہ یزید بدبخت آقا علیہ السلام کی رسالت پر ہی یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ بے ایمان کافر تھا۔ اگر رسالت پر یقین رکھتا ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح سے اذیت نہ دیتا۔ جو لوگ یزید کو بچاتے پھرتے اور اس کی عزت و ناموس کا تحفظ کرتے اور اس کو خلیفہ اور امیرالمومنین بناتے ہیں۔ وہ یہ تو جان لیں کہ اس خبیث نے تمہیں کیا دینا ہے۔ دوزخ ہی دے گا جہاں خود جل رہا ہے۔ شائد دوزخ کا کوئی درجہ بھی اس بے ایمان کو قبول کرے گا یا نہیں۔ اس لئے ان کی نوکری کرو جو جنت کے مالک ہیں تاکہ کچھ مل جائے‘‘۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَلْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ.

(ترمذی، السنن، کتاب المناقب، 5 : 656، رقم، 3768)

’’حسن اور حسین علیہما لسلام دونوں (شہزادے) جنتی جوانوں کے سردار ہیں‘‘۔

آپ غور کریں اس حدیث کے راوی حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو حذیفہ، حضرت علی المرتضی، حضرت انس بن مالک، حضرت عمر فاروق، حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ یہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہیں جو اہل بیت کی سیادت کا اعلان احادیث روایت کرکے کررہے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود سے حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ اَحَبّنِيْ فَلْيُحِبَّ هَذانِ. ابن حبان، الصحيح، 15 : 426، رقم : 6970

’’جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ حسن و حسین سے محبت کرے‘‘۔

آپ نے اندازہ کیا کہ آقا علیہ السلام کو اہل بیت اطہار سے کتنی محبت ہے۔ قیامت، جنت سب ان کی ہے۔ جس طرح اہل بیت اطہار سے ایک رخ محبت کا ہے اسی طرح دوسرا رخ بغض کا ہے۔ حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ اَبْغَضَهُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِيْ. ترمذی، تهذيب الکمال، 8 : 437

’’جس نے ان دونوں (حسن و حسین علیہم السلام سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا‘‘۔

تو گویا اہل بیت سے بغض رکھنے والے غیر المغضوب علیہم میں شامل ہیں اور جس سے اللہ بغض رکھے گا وہ سیدھا دوزخ میں جائے گا۔ اب امام حسین علیہ السلام کو اذیت، اس کا عالم کیا ہے۔ حدیث میں ہے یزید بن ابوزیاد اور یحیٰ بن ابوکثیر روایت کرتے ہیں۔

خَرَجَ النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ بَيْتٍ عَائشةَ فَمَرَّ عَلَی فَاطِمَةَ فَسَمِعَ حُسَيْنًا يُبْکِيْ رضی الله عنه فَقَالَ اَلَمْ تَعْلَمِيْ اَنَّ بَکَاءَ هُ يُؤْذِيْنِيْ. طبرانی، المعجم الکبير، 3، 116، رقم : 2847

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا(کے گھر کے پاس سے) گزرے تو سیدنا امام حسین علیہ السلامکو روتے ہوئے سنا تو فرمایا : فاطمہ کیا تو نہیں جانتی کہ مجھے اس کا رونا تکلیف دیتا ہے‘‘۔

جب امام حسین علیہ السلام کا رونا آج برداشت نہیں کرسکتے تو کربلا میں آقا علیہ السلام نے ان کی تکلیف کب برداشت کی ہوگی۔ اور کیسے برداشت کی ہوگی؟ اور امام حسین علیہ السلام کے دشمنوں کے حامی یزیدی کس منہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے شفاعت کی اپیل کرینگے??

Related Articles

Back to top button