مقالاتکربلا شناسی

یزید سے خطاب

(سید اسد عباس)

ایک پیاسا، ستم رسیدہ، ضعیف شخص! جس کے سب اصحاب و انصار اس کی نگاہوں کے سامنے قتل کئے گئے۔ ایک تن تنہا سردار جس کی حرمت کو پامال کیا گیا، جس کی نسبت کا پاس و لحاظ نہ رکھا گیا، جس کی لاش پر لق و دق صحرا میں گھوڑے دوڑائے گئے، جس کی مخدرات کو اسیر کیا گیا۔ جسے مارنے والا اپنی حکومت، طاقت اور برتری کے زعم میں اس قدر غرق تھا کہ اسے قتل ہونے والے کا کچھ پاس و لحاظ نہ تھا۔ دنیا نے اس ظالم کو یوں اندھا کیا کہ وہ سمجھا کہ عالم تنہائی میں پیاسا ذبح ہونے والا یہ شخص مشت خاک کے سوا اب کچھ نہیں۔ نہ صرف یہ کہ اس نے اس کہانی کو تمام سمجھا بلکہ اپنے زعم میں اس مقتول کو نشان عبرت بنانے کے لئے عرب کے باشرف ترین قبیلے کی خواتین کو اسیر کرکے شہر شہر پھرایا۔
کہاں ہے تو اے یزید!
چودہ صدیاں بیتنے کو ہیں، نہ فقط اس مظلوم کا نام زندہ ہے بلکہ اس نام پر مر مٹنے والے غولوں کی صورت میں اس سرزمین عشق کا رخ کر رہے ہیں، جسے تو نے کبھی ایک بے آب و گیاہ ویرانہ سمجھا تھا اور جس کے بارے میں تیرا تصور تھا کہ اس روئے زمین پر کھبی کوئی ذی روح نہیں آئے گا اور نہ جان پائے گا کہ اس سرزمین پر کیا حادثہ رونما ہوا۔ تیرا خیال تھا کہ شہر مدینہ سے دور اس ریگزار کے ذروں میں یہ کہانی گم ہو جائے گی۔ دنیا بھول جائے گی کہ کوئی حسین ابن علی بھی تھا، جو مظلومی کے عالم میں مارا گیا۔

اے یزید! یہ مظلوم جس کے پاکیزہ لبوں پر تو نے اپنے نجس ہاتھوں سے چھڑی پھیری، آج کروڑوں انسانوں کے دلوں کا حاکم ہے۔ ابھی تو فقط اس کا مزار ہے، اس کی قتل گاہ ہے، وہ خیام کا مقام ہے، جہاں تاریخ کے مطابق حسین نے قیام کیا، وہ نہر علقمہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عباس باوفا اس مقام پر پانی لینے گئے۔ اس کے باوجود سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں لاکھوں انسان اس مقام کی جانب سفر کرتے ہیں۔ فرض کر یہاں حسین خود موجود ہو اور آنے والوں کا استقبال کرے تو عشاق کا کیا عالم ہوگا۔
اے یزید! اے عبد دنیا کہاں گیا تیرا وہ جاہ و جلال، کہاں ہے وہ تیری گھن گرج، کہاں ہے تیرا لاو لشکر، کہاں ہیں تیرے چاہنے والے، وہ دربار شاہی کیا ہوا، کہاں گئی تیری جھوٹی تمکنت؟ آدیکھ وہ پیاسا مظلوم کیسے چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی دلوں پر حکومت کر رہا ہے۔ فقط چند برس کی حکومت کے لئے تو نے اس قدر جتن کئے، اتنا ظلم کیا، مسجد نبوی اور بیت اللہ کو بھی نہ بخشا۔ ہاں مگر وہ جسے تو مارنے نکلا تھا، اس کی حکومت کا احاطہ تیرے وہم و گمان سے بھی ماورا ہے۔ نسلیں بدلتی ہیں، حسین ابن علی کی حکومت کا پھریرا نسلوں کے بعد اگلی نسلوں میں منتقل ہوتا ہے۔ ساتھ ساتھ تیری روش سے نفرت جوان ہوتی ہے۔

اے یزید! کہاں ہے تیری وہ زبان، جس نے کہا تھا کہ کاش بدر و احد میں مارے جانے والے میرے بزرگ آج زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ میں نے بنی ہاشم سے کیسا بدلہ لیا۔ کائنات تیری عقل پر ماتم کرتی ہے۔ دنیا اور ہوس دنیا نے تجھے ذلیل و خوار کیا۔ آج حالت یہ ہے کہ جو بھی تیرا نام لینا چاہتا ہے، پہلے تیرے وجود سے نفرت کا اظہار کرتا ہے اور وہ ضعیف و ناتواں پیاسا جسے تیری فوج نے تن تنہا سمجھ کر قتل کیا، آج قلوب پر حکمرانی کر رہا ہے۔
اے یزید! تیرا وجود، تیری حکومت، تیرا شاہی جاہ و جلال، تیری روش، تیری حکمت آج انسانیت کے لئے کتنی بڑی عبرت ہے کہ کوئی بھی شخص تجھ جیسا اقدام کرنے سے قبل ہزار مرتبہ اس کے اثرات پر سوچتا ہے اور وہ مناظر اس کی نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں، جو تیرے 61ھ کے اقدام کے سبب صدیوں بعد دنیا کے سامنے ظاہر ہوئے اگر شاہی لوگوں کی جانوں اور ان کے نفسوں پر حکومت کا نام ہے تو اے یزید! جس تن تنہا کو تو نے ریگزار کربلا میں پیاسا ذبح کیا، وہ اس دنیا کا سب سے بڑا شاہ ہے۔ صدیاں بیت گئیں، اس شاہ کی شاہی کو زوال نہیں۔ یہ شاہ لوگوں کی جانوں، ان کے نفسوں پر حاکم ہے، لوگ اس کے دیدار کے شوق میں سانسیں اور گھڑیاں گنتے ہیں۔ اپنی عمر بھر کی متاع اس کے دیدار پر صرف کرتے ہیں اور پھر بھی یہ حسرت دلوں میں لئے پھرتے ہیں کہ کاش ایک موقع اور ملتا کہ اس شاہ خوباں کا دیدار نصیب ہوسکتا۔

اور اے یزید تو!
نہ شاہی بچا سکا، نہ دنیا اور نہ ہی عاقبت، کیسا گھاٹے کا سودا کیا تو نے اور تیرے چاہنے والوں نے اور کیسا نفع بخش ہے اس مظلوم کا اقدام، جس نے اس دنیا کے بدلے اخروی سعادتیں سمیٹیں۔ آج حدیث رسول (ص) کی روشنی میں آخرت بھی حسین ابن علی کی ہے اور دنیا میں بھی اس کی شاہی ہے۔ کاش ہر ظالم تجھ سے عبرت پکڑ سکتا اور کوئی بھی ظلم انجام دینے سے پہلے تیری عاقبت اور حکمت کا نتیجہ پڑھ سکتا، تاہم یہ دنیا واقعاً اس قدر شاطر اور دھوکہ دہ ہے کہ بڑے بڑے زیرک انسانوں کی آنکھوں پر ہوس کی پٹی باندھ دیتی ہے۔ آج بھی کچھ حکمران تیری روش پر چلتے ہوئے مظلوموں کے ساتھ وہی رویہ رکھے ہوئے ہیں، جو 61ھ میں تو نے ایک مظلوم سے روا رکھا۔ زمانہ گواہ ہے کہ ان ظالموں کا حال بھی تجھ سے مختلف نہ ہوگا۔
اے یزید! ابھی چند برس قبل سرزمین حجاز پر ایک عالم کو باغی کہہ کر اس کا سر قلم کیا گیا، اس کا جرم بھی وہی تھا، جو تو نے حسین ابن علی کے سر تھونپا، اس مظلوم کو بھی سرزمین عرب کے کسی ریگزار میں تن تنہا مار دیا گیا اور اس قبر کو مخفی رکھا گیا، تاکہ لوگ اس کے مزار پر آکر عقیدت کے پھول نہ چڑھا سکیں۔ اے یزید! آکر ان ظالموں کو اپنی طاقت و شہامت کے بارے بتا، ان کو بتا کہ تیری حکومت کا دائرہ فقط حجاز تک نہیں بلکہ پورے عالم اسلام پر پھیلا ہوا تھا۔ تیرا لاو لشکر سلطنت روم و فارس سے طاقتور تھا۔

اے یزید! اسی طرح ایک عالم کو نائجیریا میں اس کے رفقاء کے سامنے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، اس کے فرزندوں کو قتل کیا گیا، اس کے ساتھیوں پر حکومتی مشینری نے مظالم ڈھائے۔ ان ظالموں کو بھی زعم ہے کہ وہ مظلوم کی آواز کو دبا سکتے ہیں۔ اے یزید! ان کو بتا تو نے اپنے دشمنوں پر عقوبت ڈھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ تو نے اہل مدینہ سے گن گن کر بدلے لئے، تو نے بیت اللہ پر سنگ باری کروائی۔ شاید کہ تیری بات سے انہیں عبرت ہو۔ اے یزید! کچھ حاکم اپنی طاقت، قوت، اسلحہ، سرمایہ کے زعم میں ایک غریب ملک پر گذشتہ ایک سال سے حملہ آور ہیں۔ اس غریب اسلامی ملک میں ہزاروں جنازے اٹھ چکے، ان حاکموں کو بتا کہ دنیا کی شاہی کتنی مدت کی ہوتی ہے اور اس کے بعد ظالم انسان کا ٹھکانہ کونسا مقام ہے۔ اے یزید! ایک گروہ وہ بھی ہے جو خاموشی سے مظلوموں پر ہونے والے ظلم و ستم کا تماشا دیکھتا ہے، ان کو بھی بتا کہ تماشا دیکھنے والے کس زمرے میں ہوتے ہیں۔ تاریخ ان کو ظالم کا حامی کہتی ہے یا مظلوم کا پشتی بان۔ شاید کہ تیری باتیں دنیا کے لئے عبرت آمیز ہوں اور آج انسانیت پر ظلم کرنے والے اور اس ظلم پر خاموش رہنے والے عبرت پکڑ سکیں۔

Related Articles

Back to top button