مقالاتکربلا شناسی

حسینیت زندہ باد

(سید میثم ہمدانی)

سیرت عربی زبان کا لفظ ہے جو طریقہ، روش، مذہب، خلق و خو اور عادت کے معنی میں ہے۔ اصطلاحی اعتبار سے لوگوں کی عملی روش کو سیرت کہا جاتا ہے, بالفاظ دیگر اگر لوگوں کا ایک مجموعہ کسی کام کو انجام دیتا ہو یا اس کو ترک کرتا ہو تو اس کو سیرت کہا جاتا ہے۔ علم اصول فقہ میں سیرت احکام شرعی کے استنباط کا ایک راستہ ہے۔ ہم اپنی روزمرہ گفتگو میں سیرت کو بزرگ شخصیات کے ناموں کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق فلاں عمل جائز ہے یا جائز نہیں ہے، درحقیقت یہاں ہماری مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طرز زندگی ہوتا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کس انداز سے زندگی گزاری۔ آپ کی طرز زندگی میں مختلف اعمال کس طرح انجام پائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سیرت نبوی (ص) اسلام شناسی کیلئے بنیادی ترین اہمیت کی حامل ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اگر سیرت اور حدیث کا موازنہ کیا جائے تو سیرت کا مرتبہ حدیث سے بڑھ کر ہے۔ اب اس کی وجہ الفاظ ہیں کہ چونکہ حدیث الفاظ کا مجموعہ ہے اور الفاظ اپنے دامن میں محدود گنجائش رکھتے ہیں، جبکہ عمل انجام دینے سے بات واضح بھی ہو جاتی ہے اور الفاظ کے محدودیت بھی نہیں ہوتی یا کچھ اور ہے، اس کی بحث کرنا یہاں مقصود نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سیرت کا دین شناسی میں بنیادی ترین مقام ہے۔

رسول خدا (ص) کے اس دنیا سے جانے کے بعد تقریباً پہلے سو سال کتابت حدیث پر پابندی رہی، حدیث کے بیان میں تحریف اور اسرائیلیات کا باب بھی مسلم حقیقت ہے، جبکہ سیرت کو تحریف کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ آپ دیکھیں وہ احکام جن میں سیرت کا عمل دخل ہے، ان میں فرق اسلامی میں اختلافات بھی کم پائے جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں احکام اسلامی کو مجموعی طور پر بیان کیا گیا، مثلاً ارشاد ہوا نماز واجب ہے، حج واجب ہے، جہاد واجب ہے وغیرہ لیکن ان احکام کی تفصیل ہمیں سیرت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ حج کے وجوب کے حکم کے ساتھ اس کی تفصیلات قرآن مجید میں ذکر نہیں ہوئیں، رسول خدا (ص) نے اپنی امت کو حکم دیا کہ مجھے دیکھتے جاؤ اور اپنے اعمال انجام دیتے جاؤ اور یوں حج کی تمام تر تفصیلات مسلمانوں تک پہنچی۔ یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ سیرت اور تاریخ میں فرق ہے۔ تاریخ درحقیقت سیرت کی الفاظی شکل ہے کہ لیکن جو بنیادی فرق ہے، وہ یہ ہے کہ تاریخ، حدیث کی مانند الگ الگ واقعات اور جزئی احکامات میں بیان کی جاسکتی ہے، لیکن سیرت ایک طرز زندگی کا نام ہے کہ جو پوری حیات طیبہ پر شامل ہے اور اس کو جاننے کیلئے مکمل حیات طیبہ کو نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

امام حسین علیہ السلام اپنے قیام کے ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اني لَم أَخرُج أَشِراً وَ لابَطراً وَ لامُفسِداً وَ لاظالِماً و اِنَّما خَرَجتُ لِطَلَبِ الإصلاحِ فِي امّة جدّي أُرِيدُ أَن آمُر بِالمَعرُوفِ وَ أَنهي عَنِ المُنكَرِ
میں فساد اور ظلم کی غرض سے نہیں نکلا بلکہ میرا ہدف اپنے جد کی امت کی اصلاح ہے۔۔۔۔۔
اس قیام کو مستند کرتے ہوئے اور اس اصلاح کے طریقہ کار کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَ أَسيرَ بِسيرَةِ جَدّي وَ أبي علي بن ابي‏طالب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا ہدف اپنے جد (رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور اپنے والد علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرنا ہے۔
درحقیقت امام حسین علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ اب رسول خدا (ص) کو خطرہ ہے تو اس سیرت کی حفاظت اتنی اہم ذمہ داری تھی کہ آپ نے اس کی خاطر کربلا کے میدان میں اپنی اور اپنے عزیزوں کی عظیم قربانی پیش کی۔ اس ساری گفتگو کا ماحصل کیا ہے؟ ہم اس بات سے جس جانب متوجہ ہونا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے سیرت کی اہمیت اتنی عظیم ہے کہ گویا اس کے بغیر دین کا تصور ہی ممکن نہیں ہے اور دوسری بات جو امام حسین علیہ السلام کے اس فرمان سے سمجھ آرہی ہے کہ سیرت علوی پر چلنا گویا کہ سیرت نبوی پر چلنا ہے۔ آپ اپنے قیام کے ہدف کو سیرت نبوی اور سیرت علوی کا احیا ءقرار دے رہے ہیں۔ یعنی امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کا طرز زندگی ہو بہو وہی طرز زندگی ہے جو رسول خدا (ص) کا طرز زندگی ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ باقی آئمہ اطہار علیہم السلام کے ساتھ جاری و ساری ہے۔

اب یہاں پر یہ کہا جانا بالکل درست ہے کہ امام حسین (ع) کی سیرت یعنی حسینیت وہی سیرت امام حسن علیہ السلام یعنی حسینیت ہے اور آپ کی سیرت وہی سیرت امام علی علیہ السلام یعنی علویت ہے اور آپ کی سیرت وہی سیرت رسول خدا (ص) یعنی محمدیت ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ شاید ہم اس آخرالزمان میں ہیں کہ جہاں بدیہیات کے بارے میں بھی توضیحات دینا ضروری ہو جاتی ہیں۔ بعض پیچیدہ کھوپڑیوں کے پیش کئے گئے شبہات ہمارے بنیادی ترین عقائد کو سادہ لوح عوام کے لئے مشکوک بنا دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے ایسے افراد کے بارے میں شک و شبہات کا ایجاد ہونا ایک طبیعی امر ہے کہ یا تو یہ لوگ غافل ہیں، جو باتیں یہ کرتے ہیں یا پھر اس بات پر مامور ہیں اور ایک شیطانی سازش کا شکار ہیں کہ جس کے ذریعے معاشرے میں ایسے شبہات پیدا کر دیئے جائیں کہ عوام اپنے بنیادی ترین عقائد اور مفاہیم دینی کے بارے میں مشکوک ہو جائے۔ اس کی ایک مثال یہ بات ہے کہ حسینیت زندہ باد کا نعرہ نہ لگایا جائے، کیونکہ اس سے سیاست کی بو آتی ہے! یعنی اس کے بعد اگلا قدم یہ ہے کہ اگر حسینیت زندہ باد کہ جو اساس دین ہے اور اس سیرت کا نام ہے کہ جس پر سارا دین قائم ہے، اس سے سیاست کی بو آتی ہے تو پھر دین سے بدرجہ اولی سیاست کی بو آتی ہے، اس کو بھی ترک کر دینا چاہیئے۔؟

آیا حسینیت سے سیاست کی بو آتی ہے؟ نہیں حسینیت سے سیاست کی خوشبو آتی ہےعصر حاضر کی یزیدیت کے خلاف سیاست، اپنے دور کے سامراج کے خلاف سیاست، باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی سیاست اور یہی تو وجہ ہے کہ زیارت جامعہ کبیرہ میں آئمہ علیہم السلام کی ان الفاظ کے ساتھ تعریف کی جا رہی ہے:
السَّلامُ عَلَیکمْ یا اَهْلَ بَیتِ النُّبُوَّةِ
سلام ہو آپ پر اے خاندان نبوت
وَاَوْلِیاَّءَ النِّعَمِ وَعَناصِرَ الاَْبْرارِ وَدَعاَّئِمَ الاَْخْیارِ وَساسَةَ الْعِبادِ
اور نعمتوں کو اپنے اختیار میں رکھنے والوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور لوگوں کے پیشوا
کہتے ہیں کہ اس سے سیاست کی بو آتی ہے، کیونکہ یہ SHO کو یزید بنانے کیلئے استعمال ہوتا ہے اور اس نعرے کے دوسرے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے! اگر یہ بات صحیح ہو تو سب سے پہلے تو آپ کے عقیدے کے مطابق منبر حسینی پر پابندی لگ جانی چاہیئے، چونکہ اس کے ذریعے بھی تو یہی ہونا ممکن ہے، ثانیاً پھر آپ کا ان داعشی خوارج کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جو نعرہ تکبیر لگا کر بے گناہ عوام کو خودکش دہماکوں کے ذریعے مارنے کے بعد یا ان کی گردن کاٹنے کے بعد اپنے حق و حقیقت پر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔۔۔۔ یعنی پھر تو نعرہ تکبیر کو بھی ممنوع کرنا پڑے گا۔۔۔ ہاں حسینیت زندہ باد ہے، چونکہ اس سے الٰہی دینی سیاست کی خوشبو آتی ہے بلکہ یہ سیاست کا مکمل ضابطہ عمل ہے کہ جس پر چل کر یزیدیت زمان کو رسوا کیا جا سکتا ہے اور جس کی ابتدا سیرت نبوی اور جس کا عروج ان شاء اللہ مہدویت پر ہے۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button