مقالاتکربلا شناسی

نوحہ، حماسہ و رشادت

( سید میثم ہمدانی)
بعض افراد واقعہ کربلا کو ایک دردناک تاریخی روداد کی حیثیت سے نگاہ کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں کربلا کی سرزمین پر سن 61 ھجری میں رونما ہونے والے معرکے میں اہلبیت علیہم السلام میں سے بزرگ ہستی امام حسین علیہ السلام کو اپنے جانثاروں کے ساتھ دردناک انداز میں شہید کر دیا گیا اور آپ علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ کے خاندان کو اسیر بنا کر قیدی کاروان کی صورت میں کوفہ و شام کے بازاروں میں لے جایا گیا اور یزید جیسے ملعون بادشاہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اہلبیت کو اپنے دربار میں بلا کر اپنی فتح کا جشن منایا۔ یہ حقیقتاً ایک دردناک حقیقت ہے اور اس پر جتنا بھی غم منایا جائے کم ہے۔ اس نکتہ نظر سے اہلبیت علیہم السلام سے محبت رکھنے والوں کو اس واقعہ کی یاد میں گریہ و ماتم کرنا چاہیئے اور اس راستے میں جس انداز سے بھی وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرسکیں، یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ بعض افراد اسی واقعہ کربلا کو عرفانی اور ملکوتی انداز میں نگاہ کرتے ہیں، ان کے بقول اگرچہ یہ ایک انتہائی دردناک حقیقت ہے، لیکن یہ تقدیر الٰہی کا ایسا راز ہے کہ جس کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اہلبیت علیہم السلام خصوصاً امام حسین علیہ السلام اس ابتلائے الٰہی اور سخت آزمائش سے گزرنے کے بعد ایک ایسے عالی درجہ پر فائز ہوئے کہ جس کا تصور بھی ہماری عقول سے ماورا ہے۔ یہ نکتہ نظر قرآنی آیات اور احادیث شریف کی بھی اسی عرفانی نگاہ سے تفسیر کرتا ہے اور اس کو ولایت تکوینی کا ایسا شاہکار نمونہ سمجھتا ہے کہ جس میں جنود شیطانی اور جنود الٰہی کا مقابلہ اپنے عروج پر تھا اور شیطان اپنے تمام حیلوں کے باوجود جنود الٰہی پر کامیاب نہ ہوسکا کہ جس کی کمانڈ حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ میں تھی اور حتٰی آپ کے خیمے میں موجود ایک ایک طفل صغیر اس جنود الٰہی کا سپاہی تھا۔

اسی طرح ایک گروہ ایسا بھی موجود ہے کہ جو واقعہ کربلا کی تفسیر میں مسیحیت گونہ تفکر رکھتا ہے۔ اس گروہ کے مطابق امام حسین علیہ السلام اپنے خاندان اور جانثاروں کے ساتھ یزید کے لشکر کے مقابلے میں گئے، تاکہ اپنی شہادت کے ذریعے اپنے پاک خون کو خدا کے راستے میں بہا کر امت کے تمام گناہوں کو بخشوا دیں۔ شہادت امام حسین (ع) کا ہدف انسان کے باطن میں موجود گناہ اور تقصیر کی بخشودگی ہے۔ احادیث و روایات سے قطع نظر بعض ایسی باتیں جو صرف شہادت امام حسین علیہ السلام پر گریہ کر لینے سے اپنے تمام گناہوں کے بخشوانے پر دلالت کرتی ہیں یا یہ فکر کہ سارا سال جو کچھ بھی کریں، محرم الحرام کے مہینے میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ کر لینے سے ہمارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے اور اس کے بعد پھر پورا سال اپنی اسی زندگی کی طرف پلٹ جانا گویا اسی نکتہ نظر کی پیروی ہے۔ لیکن ان تمام تفکرات کے مقابلے میں ایک ایسی فکر بھی موجود ہے، جو قرآن و احادیث اور خود کلمات امام حسین علیہ السلام سے برگرفتہ ہے۔ اس تفسیر کے مطابق واقعہ کربلا درحقیقت ایک ایسی الٰہی ذمہ داری تھی، جس کو انجام دینا دین کی بقا کا ضامن تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای اپنی ایک تقریر میں یوں فرماتے ہیں کہ: اگر ہم امام حسین علیہ السلام کے ہدف کو بیان کرنا چاہیں تو ہمیں یوں کہنا

پڑے گا کہ آپ کا ہدف ایک عظیم واجب کو انجام دینا تھا کہ جس کو آپ علیہ السلام سے پہلے کسی نے انجام نہیں دیا تھا، یہ ایسا واجب تھا کہ جو اسلام کی بنیاد کی بقا، اسکے اقدار اور اجرا کی بقا کا ضامن تھا۔ یہ واجب امام حسین علیہ السلام کے زمانے تک انجام پذیر نہ ہوا تھا، یہ امام حسین علیہ السلام کی ذمہ داری تھی کہ اس واجب کو ادا کریں، تاکہ پوری تاریخ بشریت کیلئے بطور درس باقی رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیوں امام حسین علیہ السلام ہی اس کام کو انجام دیں؟ اس کام کے انجام کی ذمہ داری پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشینوں میں سے کسی ایک کی ذمہ داری تھی، اس شرط کے ساتھ کہ جب بھی اس واجب کے انجام دینے کا زمانہ آن پہنچے اور اس کی شرائط فراہم ہوں، یہ واجب انجام دیا جائے۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں اسلام کے اندر ایسا انحراف وجود میں آیا کہ اس کے مقابلے کیلئے امام حسین علیہ السلام کا قیام ضروری ہوگیا۔

یزید کی شکل میں ایسا حکمران (دین کے نام پر) سامنے آیا کہ جو حتٰی اسلام کے ظاہری احکام کا بھی خیال نہ رکھتا تھا، (آشکارا) شراب پیتا تھا، محرمات کو انجام دیتا تھا، قرآن کے مخالف بات کرتا تھا، سب کے سامنے قرآن کے مخالف اشعار پڑھتا تھا اور دین کو مردود سمجھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایسا شخص ان تمام برائیوں کے ساتھ اپنے آپ کو مسلمانوں پر حاکم اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خلیفہ ہونے کا دعوے دار تھا، معاویہ کے بعد ایسے خلیفہ کا مسلمانوں پر حاکم ہونا، آیا اس سے بڑھ کر کسی انحراف کا تصور کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب یہاں یہ فرق نہیں ہے کہ امام حسن علیہ السلام کا زمانہ ہو یا امام حسین علیہ السلام کا، امام حسین علیہ السلام یا امام سجاد علیہ السلام کا فرق نہیں ہے۔ امام حسین علیہ السلام اس واجب کے زمانے میں قرار پائے ہیں، یہاں امام حسین علیہ السلام کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس انحراف کے مقابلے میں قیام کریں۔ اگر یہ ذمہ داری امام حسن علیہ السلام کے زمانے میں واجب ہوتی اور آپ کے زمانے میں وہ شرائط مہیا ہوتیں جو امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں تھیں تو امام حسن علیہ السلام قیام کرتے۔ اس نگاہ کے مطابق اسلام کے جامع نظام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشینوں کے درمیان فرق نہیں ہے، اگر فرق ہے تو وہ زمانے کی شرائط کا فرق ہے۔

اگر امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے کی شرائط موجود ہوتیں تو امام حسین علیہ السلام بھی امام علی نقی علیہ السلام کی مانند زندگی گذارتے اور اگر امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے میں امام حسین علیہ السلام کے زمانے کی شرائط پائی جاتیں تو یقیناً آپ کربلا جیسے قیام اور اسی جیسی نہضت کو انجام دیتے۔ پس اس نظریئے کے مطابق ہم آئمہ علیہم السلام کو ایسے القاب نہیں دے سکتے کہ جو ایک خاص تفکر کے حامل ہوں۔ ہمارے معاشرے میں امام حسن علیہ السلام کو صلح کا شہزادہ اور امام حسین علیہ السلام کو جنگ کا شہزادہ کا کہا جاتا ہے، گویا یہ آئمہ کی طبیعت اور مزاج کا تقاضا تھا، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسی تفکر کے تحت اس بات کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ اسلام کا تقاضا کیا ہے، اسلامی نظام کی محوریت الٰہی ذمہ داری کا انجام ہے۔ شہید مطہری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اپنے زمانے کے یزید کی پہچان زیادہ ضروری ہے۔ سب سے آسان کام یہ ہے کہ انسان اس بات کا دعویٰ کرے کہ "یا لیتنی کنت معک” اے کاش ہم بھی کربلا میں ہوتے۔ لیکن مشکل کام اپنے زمانے میں کربلا کی پہچان ہے۔ جو کام مشکل ہے، وہ یہ ہے کہ آج کے زمانے میں ہم پیروان یزید کی پہچان کریں اور ان کے مقابلے میں پیروان حسین علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہوں۔

ہمارے درمیان آج بھی کربلا مظلوم ہے۔ اگرچہ کوفہ کے لوگوں کے دل امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے، لیکن ان کی تلواریں آپ کے خلاف تھیں۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے دور کی کربلا میں موجود تھے۔ اپنے زمانے کی کربلا میں حسینی کردار ادا کرنا بہت سخت ہے، چونکہ حاضر کربلا میں یزیدی طاقتیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ ذرا غور کریں، ہم اپنے دور کی کربلا میں یزید ابن معاویہ کے لشکر کے مقابلے میں ہیں یا کسی عمر سعد کی چالوں کا نشانہ ہیں۔؟ آیا ہم اپنے دور کے ابن زیاد کے رعب و وحشت میں حسین ابن فاطمہ (ع) کے ساتھ کھڑے ہونے کی ہمت رکھتے ہیں۔؟ ہمارے زمانے میں یہ ذمہ داری مدافعین حرم انجام دے رہے ہیں۔ اگر سن 61 ھجری میں دین خطرے میں تھا تو آج شعائر دین خطرے میں ہیں۔ آج کا یزید حضرت زینب سلام اللہ علیھا، حضرت سکینہ، امام علی، امام حسین، امام موسٰی کاظم، امام محمد تقی، امام علی نقی، امام حسن عسکری علیہم السلام کے مزارات اور مقامات مقدسہ کو نابود کرکے ان شعائر اسلام کی نابودی کے ذریعے حسینی فکر کو نقصان پہنچانے اور حسینی ملت کے جذبہ حریت اور آزادگی کو نشانہ بنانے کے درپے ہے۔؟ آج کے دور کا حسینی خیمہ ولایت فقیہ کے پرچم کے زیر سایہ آج کے دور کی یزیدی قوتوں کے تعاقب میں ہے اور یہ فلسفہ قیام حسینی ہم سے سوال کرتا ہے کہ آیا ہم یزید کے گماشتہ عبیداللہ ابن زیاد کی اس سازش کا شکار تو نہیں کہ جس نے چودہ سو سال پہلے والے ابن زیاد کی سنت میں ہمارے ماحول کو کوفہ کے اس ماحول میں تبدیل کر دیا ہے کہ جس میں کوئی کوفی اس بات کا حتٰی خیال بھی نہ کرسکے کہ میں حسین (ع) کے لشکر کا ساتھ دوں۔؟ اگر یہ بات صحیح ہے تو آج ہماری قیام حسین (ع) کی یاد میں برپا کی ہوئی مجالس و محافل، کیوں موجودہ کربلا کا پتہ نہیں دیتیں۔؟ کیوں ہماری محافل و مجالس دور حاضر کی مقاومت کا پیغام اور دور حاضر کے یزید کے تعاقب کا درس نہیں دیتیں۔؟ یہ فلسفہ قیام حسینی ہم سے سوال کرتا ہے کہ آیا اگر ہم بھی چودہ سوسال پہلے ہوتے تو آج کی شرائط کے مدنظر کیا ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ: اے کاش ہم بھی ہوتے میدان کربلا میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Articles

Back to top button